جمعہ، 29 نومبر، 2013

پاکستانی جوان، نہ بن نادان، جاہل کو پہچان

عمرو بن ہشام کے نام سے بہت سے لوگ واقف نہیں ہونگے، مگر اسکے لقب سے ضرور شناسائی رکھتے ہوں گے۔ عمرو (بالوزن عمر) سرزمین حجاز کا ایک معزز، حیران کردینےوالی حد تک سخی، بہت کم عمری میں بہت عقلمندی دکھانے والے ایک شخص کا نام تھا۔ اسکی فہم و فراست کی وجہ سے لوگ اسے "ابو الحکم" کے نام سے جانتے تھے، یعنی "حکمت کا باپ!"

محض تیس سال کی عمر سے قبل ہی وہ مکہ کی اس شوریٰ کاممبر تھا کہ جسکی اہلیتی عمر کی ابتدا چالیس برس کی عمر سے ہوتی تھی، مگر اپنے سماجی مرتبے، ذہانت، سخاوت، دلیری، خاندان اور ذاتی خصوصیات کی وجہ سے تمام لوگ اسکی دل سے عزت کرتے تھے اور بہت سے مشکل اوقات میں اس سے رہنمائی اور مشورہ چاہتے تھے۔ عمر بن ہشام، دوسرے خلیفہء راشد، حضرت عمرفاروقؑ کا ماموں تھا، اور اسکی سماجی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ حضرت علیؑ نے جنت کی ملکہ حضرت بی بی فاطمہؑ کے ساتھ نکاح میں ہونے کے باوجود، عمر بن ہشام کی بیٹی سےشادی کی خواہش کی تھی اور اسکے ہاں عرب کی سماجی روایات کے تحت رشتہ بھی بھجوایا تھا۔ آقا محمدؐ نے ایک باپ کی حیثیت سے امام علیؑ کو یہ مشورہ دیا کہ بی بی فاطمۃالزھراؑپر دوسری بیوی نہ لائی جائے اور عمر بن ہشام کی بیٹی کا رشتہ ترک کر دیا جائے۔ حضرت علیؑ نے خاتونِ جنتؑ کو فوقیت دی اور یوں ابوطالبؑ کے خاندان کی لڑی بی بی فاطمہؑ سے چلی اور اہلِ بیت کہلائی۔

عمر بن ہشام کا والد، ہشام بن المغیرہ بھی حجاز کا ایک نہایت متمول اور نمایاں شخص تھا اور اس نے اپنے تمام بیٹوں میں سے عمر کی تربیت بہترین انداز میں کی۔ عمر کے پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں اور تمام اپنی اپنی جگہ چھوٹی بڑی حیثیت میں اپنے سماج میں کوئی نہ کوئی مقام رکھتے تھے۔ مگر عمر، عمر تھا!

اسکی اپنے سماج میں عزت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ اپنے قبیلہ میں اپنے ہمعصروں کے ساتھ سخاوت، خیرات کرنے اور روزانہ کی بنیاد پر لنگر جاری کرنے کا مقابلہ کیا کرتا تھا۔ عمر بن ہشام کی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ آقامحمدؐ کو اسلام کی ترویج، ترقی اور حفاظت کےلیے اللہ سے دعا کرنا پڑی کہ  اے اللہ، یا تو عمر بن خطاب کا دل پھیردے اسلام کی طرف یا پھر عمر بن ہشام کا۔

عظمت کا قرعہ عمر بن خطاب کے نام نکل آیا اور وہ عمرِفاروق ؑکے نام سے جانے  گئے اور عمر بن ہشام، ابو جہل کے نام سے بدنام ہوا، تا قیامت۔

دوستو، عمر بن ہشام، یہاں سے آگے اسے ابوجہل ہی لکھوں گا، اپنے معاشرے کا ایک نہایت اہم سردار، رہنما اور نمایاں شخص تھا۔ آقاؐ نے اسے ابوجہل کن وجوہات کی بنا پر کہا، کبھی سوچا ہے آپ نے؟ وہ کیا پرسینلیٹی ٹریٹس تھے کہ جن کی بنیاد پر عمر بن ہشام، ابو جہل قرار پایا، حالانکہ رحمتہ اللعالمینؐ نے اللہ سے "دونوں عمروں" میں سے کسی ایک کو مانگا تھا اپنے اور اسلام کے لیے اور وہ دعا مانگتے وقت آقاؐ کے ذہن میں عمر بن ہشام کی تمام خصوصیات موجود تھیں کہ جن کی بنیاد پر امامؐ النبیاءؑ نے اپنے دل کی خواہش میں اسے بھی شامل کیا؟ کبھی سوچا کہ کن عادات اور برائیوں نے اسے عمر سے ابو جہل بنا دیا؟ کچھ تو تھا نا کہ وہ تاریخِ اسلامی میں تاقیامت ابوجہل کے نام سے ہی جانا جائے گا۔

اس مضمون میں آگے وہ چند گنی چنی عادات اور شخصی  بدعات  درج ہیں کہ جنہوں نے عمر بن ہشام کو ابو جہل بناڈالا اور یہ صرف آپ سب کی نذر اس نیت سے کی جارہی ہیں کہ آپ بھی اپنے ارد گرد اسی قسم کی عادات کے حامل اشخاص کو جان اور پہچان لیں۔ چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں، عام انسان ہوں، تاجر ہوں،لیڈر ہوں یا ورکرز، اگر میرے آقاؐ نے ان وجوہات کی بنا پر عمر بن ہشام کو ابو جہل قرار دیا، تو یارو، اس "معیار" کی صحت میں کوئی/کوئی/کوئی/کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ ملاحظہ کیجیے اور ذہن میں رکھیں کہ یہ "خصوصیات " اسکی اپنے اس وقت کے مخالف عقیدے، اسلام، کے اعلان اور اشاعت کے بعد ہی اس میں نمایاں ہوئیں کیونکہ اس نے حضرت محمدؐ کے ساتھ مقابلے کی ٹھان لی تھی:

1۔  حد سے بڑھا حسد: بنو تمیم کے ایک نمایاں شخص، اوس بن ہجر نے ایک مرتبہ ایک سماجی اکٹھ میں عبد المطلب ؑ کے خاندان کی تعریف کی تو ابوجہل نے اسکو شدید الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ وہ اس سے متاثر نہ ہو بلکہ اسکا (ابوجہل) کا شان و مرتبہ دیکھے۔ دوسرے الفاظ میں ابوجہل "اپنی پِچ" پر کسی دوسرے کا کھیلنا پسند نہیں کرتا تھا۔

2۔ اپنے سماجی و معاشی مفادات کی حد سے زیادہ پیروی: ابوجہل کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ اسلام اسکے اور اسکے خاندان کی نمایاں حیثیت کو یا تو شدید چیلنج کرے گا یا ختم کردے گا۔ لہذا اس نے آقاؐ کے اسلام کے خلاف ہمیشہ اپنے رسوماتی دین کی حمایت اور برتری بیان کی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ کام پاکستان میں موجود اکثریتی فرقہ پرست لوگ نہیں کرتے؟

3۔ حسب، نسب اور حیثیت کا غرور: ابو جہل نے ہمیشہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرنے والے لباس زیب تن کئیے اور عموما آقاؐ کی سادہ پوشاک اور سادگی کا مذاق اڑایا۔ اسکے جُبے، دستار، پوشاک اور زیورات پورے حجاز میں مشہور تھے۔ اپنے آس پاس دیکھئے، میرے دوستو، کہ اپنی سماجی، مذہبی اور سیاسی پوزیشن پر مغرور کون کون ہے اور کس طرح سے طرز طرز کی پوشاکیں پہن کر اپنے آپکو ممتاز کیا جاتا ہے۔ غور کیجیے۔

4۔ سخاوت بے انتہا، مگر ریاکاری بھی بے پایاں: ابو جہل ہمیشہ بنو عبد مناف کے ساتھ سخاوت کا مقابلہ کیا کرتا تھا، مگر اسکے ساتھ ساتھ خودنمائی میں بھی بہت آگے تھا۔ وہ اپنی سخاوت کی ہمیشہ تشہیر چاہتا تھا اور اسکی منادی بھی کرواتا تھا۔ کیا آپکو اردو اخبارات میں سلائی مشینیں بانٹنے، آٹے کی تھیلیاں دیتے  اور تصویریں کھنچواتے"معزز سماجی و سیاسی اور خانقاہی رہنما" یاد آئے یا نہیں؟

5۔ زعم وخبط عظمت:  ابو جہل خود لوگوں کو دعوت دے کر اپنے پاس بلاتا، بہترین تواضع کرتا اور پھر ان سے پوچھتا کہ کیا ایسی دعوت حجاز میں کوئی اور دے سکتا ہے اور یہ بھی کہتا کہ اس دعوت کا چرچا عام کرو کہ مجھ سے بہتر مہمان نواز، راوئت پرست اور اعلیٰ النسل عرب کوئی نہیں ہو سکتا۔

6۔ فرقہ بنانے کا الزام: ابو جہل نے آقاؐ پر ایک نیا فرقہ بنانے کا الزام لگایا اور اپنے آپ کو ، نعوز باللہ، دین حق پر خود ہی سے مبعوث کر ڈالا اپنے تئیں۔ فرقہ واریت کی بحث اور الزام میں، وہ عموما تشدد پر بھی اتر آتا تھا اور اس سلسلہ میں اس نے اپنی آپ کو حق اورسچ ثابت کرنے کی جھنجھلاہٹ میں حضرت ابو بکر صدیقؑ کی صاحبزادی، حضرت اسماء پر اتنا تشدد کیا کہ انکے دانت توڑ ڈالے۔ اور پھر اس پر نازاں بھی ہوا۔ آپ اپنے آس پاس دیکھیں تو آپکو زاہدانِ خشک کی ایک کثیر تعداد، تمام فرقوں میں موجود نظر آئے گی جو مخالف فرقہ کو غلط جانتے ہیں اور ان پر تشدد کو جائز بھی گردانتے ہیں۔

7- اختلاف کرنے والوں پر تشدد:  چاہے کہ لوگوں نے شرک چھوڑ کر اسلام قبول کیا، یا اسکی حرکات پر اسے ٹوکا اور اختلاف کیا، ابوجہل نے جواب میں تشدد کا سہارا ہی لیا۔ اسکی سماجی حیثیت ایسی تھی کہ اس پر جوابی وار کرنا بہت مشکل کام تھا۔

8۔ قریبی ساتھیوں سے دغا بازی: ابو جہل کا بھائی، حضرت سلامہ بن ہشامؑ شروع شروع کے مسلمانوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے بھی اپنے سگے بھائی کی بدسلوکی برداشت کی۔ ابوجہل کا جواز یہ تھا کہ تم نے الگ رستہ چنا، لہذا اب میری جو مرضی آئے میں تمھارے ساتھ کروں گا۔

9۔ تفرقہ بڑھانے والا: ابوجہل ہی ان لوگوں میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے آقاؐ کے ساری قبیلے کا سوشل بائیکاٹ کیا اور ہر اس شخص کو مارا پیٹا، اور کچھ کو تو ہلاک کر ڈالا، کہ جنہوں نے اختلاف کرتے ہوئے بنوہاشمؑ کے ان درماندہ لوگوں کی مدد کی ٹھانی۔

10۔ لوگوں کو تشدد پر ابھارنے والا: ابو جہل نے آقاؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ کئی بار بنایا اور اسی نے آپکے کندھوں پر اونٹ کی غلیظ آنتیں بھی پھینکیں جب آپؐ حالت سجدہ میں تھے۔ بدر کے مقام پر لڑائی کے لیے بھی اسی نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اکثایا اور ساتھ ہوکر لشکر کی کمانڈ بھی کی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھا کہ جنہوں نے ہجرتِ مدینہ کے دوران آقاؐ کے پیچھے گھڑ سوار بھیجے اور انہیں حکم دیا کہ جہاں محمدؐ نظر آئیں، معاذاللہ، انہیں شہید کر دیا جائے۔

کچھ اور بھی ہے، مگر مضمون کی طوالت کے باعث یہاں رک رہا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ اپنے لئے کیا منتخب کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے مذہب کے نام پر فساد میں ملوث لوگوں کو اگر آپ قریب سے دیکھیں، تو دوستو کہنے دیجیے، کہ بھلے وہ کسی بھی فرقہ سے ہوں، ان میں وہ بد عادات جو میں نے اوپر بیان کیں ہیں، آپکو بکثرت ملیں گی۔ زعم عبد، خشکئی تقویٰ، گروہ بندی میں سے اپنی طاقت تلاش کرنا، اپنے فالوورز کو تشدد پر ابھارنا، اختلاف کرنے والے کو کافر، گستاخ اور بدعتی قرار دینا، باقاعدہ منصوبہ سازی سے دوسرے کو ذہنی، جسمانی اور ذاتی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا وغیرہ، یہ سب آپکو تمام فرقوں کے نمایاں رہنماؤں میں نظر آئیں گی۔ وہ پوشاکیں بھی عام عوام سے الگ پہنتے ہیں، اپنی اپنی مرضی کی توجیہات تلاش کرلاتے ہیں قران و احادیث میں سے اور پھر انہی کے اندر سے اپنے آپکو حق پر ثابت بھی کرتے ہیں۔

یہ مضمون قریبا تین ہفتہ کی ریسرچ کے بعد تحریر کررہاہوں پوری نیت کے ساتھ کہ جذباتیت کے مستقل خلجان میں مبتلا پاکستانی نوجوان کو کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ مذہب، سیاست اور معاشرت کے نام پر وہ جن کو فالو کر رہا ہے کیا وہ رستہء محمدیؐ پر ہیں یا جانشینانِ ابو جہل ہیں۔

میں تو ایک نتیجہ پر پہنچ چکا بہت/بہت عرصہ قبل، اب شاید آپکی باری ہے۔


اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپکو اندھی عقیدت کے سراب و عذاب سے بچائے کہ میرے نزدیک یہ طریقِ آقامحمدؐ نہیں ، رویہء ابوجہل ہے۔