ہفتہ، 29 نومبر، 2014

ماں - حصہ اول (بہاول بیگم)



مولانا طارق جمیل مجھے متاثر نہیں کرتے۔ انکا بیانیہ کچھ فکشنل محسوس ہوتاہے۔ ایک زاویہ ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ جس نظام کے وہ اتنے بڑے داعی ہیں، اس نظام نے اگر اپنا بہترین سیمپل جنید جمشید کی صورت میں پیدا کیا ہے تو محترمین، کچھ سوالات تو بنتے ہیں۔ مگر اس بلاگ کا موضوع یہ نہیں۔ 

قبلہ مولانا کا ذکر خیر اس لیے آیا کہ آج ایک دوست نے فیس بک پر صاحب کا ایک بیان شئیر کیا جس میں بابا محمدﷺ کی اپنی والدہ سے محبت کا ذکر تھا۔ آقاﷺ چھ سال کے تھے جب ایک سفر کے دوران آپکی والدہءماجدہ حضرت بی بی آمنہؑ کا ارتحال ہوا اور آپ انکی قبر سے لپٹ کر دیوانہ وار روتے رہے۔ پھر تقریبا ستاون برس کے بعد (جی، ستاون برس بعد) جب بابا محمدؐ، تریسٹھ برس کی عمر میں حج کےلیے تشریف لے جارہے تھے تو اسی مقام سے گزرے، اور قریبا پچاس ساٹھ ہزار لوگوں کے مجمع نے بابامحمدؐ کو اسی انداز سے اپنی والدہ کی قبرمبارک پر بچوں کی طرح گرے، اپنے بازؤں میں قبر کو سمیٹے، ہچکیوں سے روتے ہوئے دیکھااور سنا۔ میں نے یہ بھی کہیں سنا تھاکہ بابامحمدﷺ کو صحابہؑ نے بازؤں سے پکڑ کر قریبا وہاں سے اٹھایا کہ آقاؐ وہاں سے اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔

یہ ہوتی ہے ماں، اور انکے لیے ماں کا مقام کہ جو اس ہستی کی قدر کرتے ہیں۔ اور انکےلیے بھی جو جو ماں کو اپنے وجود و ذہن سے نہیں نکال پاتے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ میرے آپکے اور ہم سب کے وجود کا ایک ایک مسام، خون کا ایک ایک قطرہ، زندگی کا ایک ایک سانس، گزری اور گزرنے والی تمام گھڑیاں، ساعتیں، لمحے اسی ماں کا قرض لیے ہوتی ہیں کہ جس نے نوماہ اپنے خون سے میری آپکی آبیاری کی، جنم دیا، خیال رکھا کہ جب ہم بے بس، مجبور اور لاچار تھے۔ میں زندگی کے سفر میں سے کئی مرتبہ ایسے مقام سے گزرا ہوں جہاں والدہ کے ساتھ اونچ نیچ کر بیٹھا، انسان تھا، اچھی بات کہ سیکھ لیا اور اب ایک عرصہ بیتا، انکے سامنے اونچی آواز کا تصور بھی نہیں، نہ ہوگا کہ جب تک میں زندہ ہوں۔ میری زندگی، صاحبو، میری ماں کا مجھ پر قرض ہے۔ جس سے قرض لیا جاتا ہے، اسکی مہربانی تسلیم کی جاتی ہے۔ قصہ مختصر۔

مائیں اپنے بچوں کے حوالے سے سب ایک سی ہوتی ہیں۔ لہذا میرے ایک بلوچ دوست کی والدہ، بہاول بیگم (یہ اصل نام ہے) بھی میری ماں ہے۔ روایات میں گندھی، سراپا محبت، خود پر دکھ لے کر اپنے خاندان اور اولاد کو سکھ دینے والی، اپنے بچوں کی راہ تکنے اور انکے لیے دعا کرنے والی، خاندان کو اپنی ذات کے مرکز میں سمیٹ کر رکھنے والی، مصائب و آلام کو خود کی ذات پر لیے کر اپنے خاندان اور بچوں کو اپنے پروں کی نرمی اور گرمی تلے بچا لینے والی، اپنی کوکھ سے جنے ہوؤں کے لیے ڈٹ جانے والی، لڑ جانے والی، بھڑ جانے والی یہ سوچے اور جانے بغیر کہ سامنے کون کھڑا ہے، کتنا بڑا ہے، کتنا طاقتور ہے اور کیا ہے۔ بہاول بیگم روایتی بلوچ معاشرے کی وہ ماں کہ جس نے تین نسلوں کے غم دیکھے، اپنے بڑوں کا، اپنے خاوند کا اور اپنے بچوں کا۔ اتنے مصائب کہ جب آرام کرنے کی عمر آئی تو اللہ نے اس نیک روح کو زمین پر رہنے کے قابل ہی نہ جانا اور اپنے پاس بلا لیا۔ وفا اور صبر کی پیکر ایسی کہ اپنے سر کے تاج کے اٹھ جانے سے کچھ ہی ساعتوں میں دنیا کو خیرباد کہہ ڈالا۔ اتنے مصائب و آلام کہ جن سے میں واقف ہوں، واللہ، کسی پہاڑ پر ٹوٹتے تو شاید وہ بھی نہ سہہ پاتا۔

زندگی کا ساتھی پاکستان کے ساتھ وفاداری کے حلف میں وردی پہن کر پاکستان کی خدمت کرتا رہا، ریاست نے شک میں اٹھا لیا، تشدد کیا، اتنا کہ جسم برداشت نہ کرسکا، گھٹنے جواب دے گئے، دو بیٹے اپنی خاندانی نسبت کی وجہ سے اٹھا لیے گئے اور پھر ایک ہی دن ایک کی لاش حب اور دوسرے کی کوئٹہ سے ملی، دونوں بیٹے سرکاری سکول میں ملازم تھے اور سیاست و تشدد سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ 

خاندانی نسبت ڈاکٹر نذر سے جا ملتی تھی، اور ہے، کہ جس کا خراج بہاول بیگم نےاپنے شوہر کی معذوری، بچوں کی شہادت اور دل پر کبھی نہ مٹنے والے غموں کی صورت میں ادا کیا۔ تیسرا بچہ، جو میرا دوست، میرا بھائی ہے، خود ہی اپنے آپ سے دور کر دیا کہ "جا بیٹا، پیدا کیے ہوئے دو تو مجھ سے چھن گئے، آخری کو خود سے چھینے جانے دینے کی ہمت اب مجھ میں نہیں۔" میرے اس یار نے مزاحمت کی، مگر ماں کے سامنے کچھ نہ چلی اور جب یہ سارا سلسلہ چل رہا تھا، تو بہاول بیگم بیمار تھیں، اور بیماری بھی ایسی کہ شاید جس کا علاج مشکل ہوتا، مگر اسکا اپنے تیسرے بیٹے کو نہ بتایا۔ اسے پاکستان سے باہر تعلیم کی غرض سے بھیج دیا اور اسی اثناء میں خود چھپتے چھپاتے بلوچستان سے کراچی آگئیں، اپنے شوہر کو لے کر کہ بڑا شہر ہے، اس میں چھپ جائیں گی۔ شہر نے کیا چھپانا تھا، کچھ ہی عرصہ میں زندگی کے ساتھی کا بلاوا آیا، اور ساتھ میں ہی بہاول بیگم کا بھی۔

میرا بلوچ یار، یتیم و یسیر تو ہوا سو ہوا، غریب الوطن بھی ٹھہرا ان گناہوں کی پاداش میں کہ جو اس نے کبھی کئے ہی نہ تھے۔ ماں کی قبر کی مٹی نجانے کون برابر کرتا ہوگا، نجانے کون جاکر ماں کی روح کے لیے فاتحہ پڑھتا ہوگا، نجانے کون تہواروں اور بڑے دنوں میں وہاں جا کر بہاول بیگم کو یاد کرتا ہوگا۔ 

روایت میں گندھی اولادوں کو انکی مائیں کبھی نہیں بھولتیں، میرے بلوچ یار کی زندگی کا ایک ایک سانس ماں اور اب انکی قبر کی یاد میں گزرتا ہے مگر غریب الوطنی کہ چاہنے کے باوجود زندگی دینے والی کے پاس اسکی فوتیدگی میں نہیں جا سکتا۔ جس نے مٹی کی ڈھیری سے جیتا جاگتا انسان بنایا، اسکی مٹی کی ڈھیری اسکی راہ تکتی ہوگی، مگر بے بسی کہ ماں کی قبر پر آنسؤں  کی شبنم بکھیرنے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں جو ماں کی قبر سے لپٹ کر رو سکے اور کوئی نہیں ایسا کہ جو جا کہ کہہ سکے کہ : ماں تُو چلی تو گئی ہے، مگر گئی کہیں نہیں!۔

قبر بھی راہ تکتی ہوگی۔ مگر ماں کی قبر ہے نا، گلہ نہ شکوہ نہ شکایت، اب بھی دعا ہی کرتی ہوگی۔ اب بھی کہتی ہوگی کہ: جلدی گھر آ جایا کر، مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ جایا کر، اپنا خیال رکھا کر، اور ماں کی بات مانا کر۔

میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو اسے اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھتا ہو۔ میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو نمازِعصر تا مغرب مصلیٰ پر بیٹھ کر اسکی سلامتی کی دعائیں کرتا ہو۔ میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو اسکا ماتھا چومتا ہو۔

جن کے پاس ہیں، وہ قدر کریں۔ وہ اس قرض کا احسان مانیں جو انکی ماں نے انکو انکی زندگی کی صورت میں دیا ہے۔ اس احسان کو نہ ماننے والے اگر دلائل دینے کی کوشش کریں، تو صرف ایک لمحہ میرے بلوچ یار کی جگہ پر اپنے آپ کر رکھ کر سوچ لیں۔

ممتا تیری چھاؤں جیسی
یاد سرہانے سوتا ہوں
کھٹکا ہو تو ڈرتا ہوں
ماں، میں چھوٹا بچہ ہوں

میری بلوچ ماں، بہاول بیگم کے لیے سب سے دعا کی درخواست ہے۔


پیر، 24 نومبر، 2014

مائیں - ابتدائیہ

میں اپنی اور اپنے چند دوستوں کی ماؤں پر چند بلاگ تحریر کروں گا۔ اور یہ بلاگ میری طرف سے اپنے ان دوستوں کو تحفہ ہیں۔ اللہ سے کیا گلہ کرنا کہ ہماری معاشرت میں اللہ سےاسکے مجھ سے عام و گناہگار بندے کی گفتگو کو سمجھا اور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، اور مختلف فتاویٰ تیار ملتے ہیں، مگر اپنے رب سے ایک عاجزانہ گلہ تو کر ہی سکتا ہوں کہ مولا، ماں دیتا ہے، تو پھر واپس کیوں لے لیتا ہے؟ رحیم ہے تو کس طرح اپنے بندوں کے سروں سے مائیں اٹھا لیتا ہے؟ 

میری والدہ کا نام نسیم اختر ہے، وہ حیات ہیں، ملکوال میں رہتی ہیں، میرے لیے  ہر وقت دعا کرتی ہیں اور میں جو کہ اب اتنا ناخلف بھی نہیں رہا، انکی دعاؤں کی چھتری عموما محسوس کرتا ہوں تو کسی بھی حال میں ہوں، مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتاہوں۔ شاید جب انکی گود میں تھا تب بھی ایسا ہی کرتا ہوں گا۔ کہتے ہیں کہ بچپن کی ڈلی عادتیں انسان کے ساتھ ساری عمر کسی نہ کسی روپ میں رہتی ہیں، کیا معلوم انکی گود میں جب بھی کبھی ڈرلگتا ہو تو انکی آواز سن کر مسکرا اور آنکھیں بند کرکے، انکے ساتھ چمٹ جاتا تھا۔ معلوم تو نہیں، مگر ایک احساس یہی ہے۔ بس سوچ کر خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ وہ آج میرے پاس ہیں، کل نہیں ہونگی، کہ مالک کائنات کا یہی اصول ہے۔ کہاں سے تلاش کرتا پھروں گا میں کہ جس کی ممتا بھری آواز سن کر مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتا تھا؟

میرا یار جعفر کہتا ہے کہ مائیں پاگل ہوتی ہیں انکے لیے کہ جن کو نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیتی ہیں۔ پیٹ میں ہو یا گود میں، اولاد کے دکھ اٹھاتی ہیں، دکھ زیادہ اور سکھ کم۔ عموما بے لوث رہتی ہیں، اور جب کبھی بہت مجبور ہوجاتی ہیں تو بیٹھ کر بے بسی سے آنسو بہا لیتی ہیں اورانکےلیے کہ جن کو جنا ہوتا ہے، سوتے جاگتے، ہر حال میں دعا کی حالت میں ہی ہوتی ہیں۔ جعفر ٹھیک ہی تو کہتا ہے، اتنا ایثار و قربانی اور مسلسل دعائیہ کیفیت، کسی پاگل پر ہی چوبیس گھنٹے طاری رہ سکتی ہے۔ مجھ سے خرد و عقل کے داعی نے تو آج تک شاید کسی کے لیے چوبیس سیکنڈ بھی مسلسل دعا نہ کی ہو۔

ماں اور اولاد کا رشتہ یارو، احساس کا رشتہ ہوتا ہے۔ شعوری الفاظ کافی ہو ہی نہیں سکتے کہ اس رشتے کو شعور کے تحت الفاظ کا لباس اوڑھانا ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ اس رشتے کو احساس کے ذریعہ چھو نہیں سکتے تو آپ جان ہی نہیں سکتے کہ یہ رشتہ ہے کیا۔ احساس کی بات ہی تو ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کی بیماری کے دوران اسے سٹیم-سیلز بھیجتا ہے، اسے اپنے حصے کی خوراک روانہ کرتا ہے، پیٹ میں ہی اپنی ماں کی بھوک کو محسوس کرکے اپنے حصے کی خوراک گھٹا دیتا ہے، اسکی خوشی میں خوش اور اسکے غم میں غمگین ہوتا ہے۔ یہ دعوے نہیں، سائنسی تحقیقات ہیں، اور اگر اسکو احساس کے ہاتھ سے اگر چھوا نہ جا سکے تو اسکو محسوس کرنا ممکن ہی نہیں۔

ٹالسٹائی نے اپنے عظیم ناول "وار اینڈ پیس" کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ دنیا میں تمام خوش لوگ ایک ہی طرح سے خوش ہوتے ہیں جبکہ افسردہ لوگ اپنی اپنی طرح و طرز پر ہی ناخوش ہوتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان خوشی اور افسردگی کی تقسیم سے قطع نظر، ماں ان تمام خوش یا افسردہ لوگوں میں شاید ایک ہی  طرح سے خوش اور افسردہ ہوتی ہے کہ جب اسکی اولاد خوش یا افسردہ ہو۔ 

اولاد اپنی ماں کی قدر جان ہی نہیں سکتی، اور یہ میرا حتمی خیال ہے، اور اگر کسی کو اختلاف ہوتو ان سے پوچھ لے کہ جن کے سروں پر یہ سایہ اب موجود نہیں۔ پاس موجود ہوتی ہے تو اولاد کے لیے عموما گھر کے ایک فرد سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھ پا سک رہی ہوتی، بیمار ہوتو دوسرے سے تیسرے دن اولاد کو اپنے کاموں سے فرست ملنا مشکل ہو جاتی ہے، سر سے چلی جائے تو میں نے بڑے بڑے مضبوط انسانوں کو اپنی ماؤں کی قبر پر لیٹے، مٹی میں لپٹے روتے دیکھا ہے۔ شاید تب ہی احساس ہوتا ہے کہ جس نے جنم دیا تھا، آج اسکی چھتر چھاؤں سر پر باقی نہیں رہی۔ کوئی نہیں رہا باقی جو راتوں جاگ کر دعا کرتا ہوں، عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد، مغرب تک مصلیٰ پر بیٹھ کر مسلسل دعائیں کرتا ہو، رات جاگتا ہوکہ اولاد گھر آئے تو اسکا کھانا گرم اسکو ملے، بیمار ہوتو اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھے، سرھانے بیٹھ کر پڑھ پڑھ کر پھونکیں مارے، اپنی سادگی میں علاج کی تمام کوشش کرے کہ کسی طرح اس کے پیٹ کا جنا ٹھیک ہو جائے۔ اور اولاد؟ لکھ چکا کہ دوسرے سے تیسرا دن، اور فرست ملنا مشکل!۔

انسانوں کو جوڑنے والی باتیں، انکو آپس میں توڑنے والی باتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ صرف یہ کہ اپنے اپنے انتخاب کی بات ہوتی ہے۔ ماں کی مشترکہ قدر اس لیے کہ ماں ہم تمام کے لیے صرف ماں ہی تھی، ہے، اور رہے گی۔ میرا آپ سے جھگڑا ہوتا ہو تو بھلے ہو، آپکی ماں کے سامنے میں بھی جھک کرمؤدب ہی کھڑا ہونگا۔ مجھ سے آپ اگر نہ جڑ سکیں تو نہ جڑیں، ماؤں کی مشترکہ اقدار کے حوالے سے، جو وہ اپنے بچوں کے لیے محسوس کرتی ہیں، میرے دوستو، میں بھی ویسا ہی ہوں، جیسا کہ آپ ہیں۔

جڑنا ہے یا ٹوٹنا ہے، آپکی مرضی ہے، مگر ماں جوڑنے والی ہے، توڑنے والے ہم اور آپ ہیں۔

بڑی بڑی باتیں تو میں نجانے کب سے لکھ اور کر رہا ہوں، اب ماؤں پر ہی کچھ کہ انکی موجودگی میں اور انکے جانے کے بعد انکی یاد اپنے اور آپ سب کے لیے موجود رہے۔

یہاں بات ختم کرونگا اور اس جمعہ، یعنی 28 نومبر بلوچ ماں کا دکھ تحریر کروں گا۔ اس سے اگلے جمعہ کو ایک سندھی ماں کی مجبوری، پھر ایک پشتون ماں کی بےبسی، اور پھر ایک پنجابی ماں کی افسردگی۔ آخر میں، میں اپنی ماں کے بارے میں لکھوں گا۔ یہ سارے خاکے حقائق پر مبنی ہونگے، سچ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

 اس جمعہ کو۔۔۔انشاءاللہ۔