ہفتہ، 19 جولائی، 2014

پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ

سوشل میڈیا پر آنے کےلیے آپکے پاس سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو یقینا جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے لیے ایک خواب ہوتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والے لوئرمڈل سے شروع ہوتے ہیں، اور کچھ نہ کچھ فارمل تعلیم رکھتے ہیں اور مناسب خاندانی تربیت کے حامل بھی ہوتے ہونگے۔ معاشرتی اور سماجی تربیت کی بات نہ کرونگا یہاں کہ اسکے جو حالات ہیں، وہ ہم سب ہی جانتے ہیں۔ میرا مناسب سا مشاہدہ ہے اور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے ہی معاشی اور معاشرتی انڈیکیٹرز رکھنے والے دیگر ممالک میں معاشرے کے اس طبقے نے اپنی قوموں کی حالت بدل ڈالی ایک سے دو دہائیوں میں اور جب سنجیدگی سے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس معاشی اور قومی ترقی میں اس طبقے کے اپنے اپنے کام سے متعلقہ "فوکس" نے یہ معجزات ممکن بنائے۔

یہاں پر دو "بز ورڈز" ہیں: لوئرسےمڈل کلاس اور فوکس۔

میرا تجربہ اور مشاہدہ پاکستانی لوئر تا مڈل کلاس کا صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں۔ کوئی تمغے والی بات تو نہیں، مگر میں مختلف پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں پاکستان کے تقریبا 93 اضلاع میں جا چکا ہوں۔ وہاں سے صرف گزرا ہی نہیں، بلکہ وہاں رکنے اوررہنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ اس میں فاٹا سے لے کر بلوچستان کے علاقہ تفتان و تربت اور سندھ کے اندرونی علاقے، گھوٹکی، عمر کوٹ، کندھ کوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے اس تقریبا 17 سالہ مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی مڈل کلاس میں کلاسیکی مڈل کلاس والی عادات کم و بیش کُلی طور پر ناپید ہیں، نہ صرف ناپید ہیں، بلکہ پاکستانی مڈل کلاس،  معیاری مڈل کلاس عادات کے مخالف رویہ کی حامل ہے۔ ممکن ہے آپ میری  بات سے اختلاف کریں، آپکا حق ہے، مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ معیاری مڈل کلاس عادات کہ جنکی بدولت معاشروں، ذہنوں، لوگوں اور نظریات میں تحریک رہتی ہے، ہمارے ہاں ایک تسلسل سے غائب ہی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ کوئی غلط نہ سمجھے، مگر آرگیومنٹ کی خاطر کہنا یہ ہے کہ ان معیاری عادات کے مسلسل غائب ہونے سے جو معاشرتی خلا پیدا ہورہا ہے، قریبا پچھلے پچیس سالوں سے، وہ خلا انواع واقسام کی مذہبی، فرقوی اور نسل پرست جماعتیں پُر کر رہی ہیں، اور کافی کامیابی سے، در حقیقت۔ یہ خطرے کی وہ علامت ہے جو کبھی کبھار مجھے پاکستان، پاکستانی معاشرے اور اسکے لوگوں کے ایک صحتمندانہ مستقبل سے مایوس بھی کرتی ہے، مگر زندگی تو رجائیت میں ہی جی جاتی ہے، دوستو، تو کچھ دیر بعد، دوبارہ سے سنبھل جاتا ہوں۔

پاکستان میں موجود اکثریتی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنی اپنی طرز کے نظریات بیچ رہی ہیں اور آپ بھلے نہ مانیں، آپکو ان سب میں ایک چیز مشترک ملتی ہے: تشدد یا ایک ملفوف انداز میں تشدد کی حمایت۔ اب اوپر بیان کیے گئے سماجی خلا، کہ جو معیاری مڈل کلاس عادات کی غیر موجودگی معاشرے میں پیدا کرتی ہے، کو اگر مذہبی، فرقوی اور قوم پرست جماعتیں اپنے اپنے نظریات سے پُر کریں گی تو آپکو اسکے نتیجہ میں معاشرے میں وہی رجحانات کی بہتات ملے گی اور لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر انہی نظریات کو سماجی قوانین گرداننا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ سماجی روایات بن جاتی ہیں۔ یہاں پر مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتیں جو وفاق کی سطح پر کام کررہی ہیں،  چونکہ وہ بھی معاشرے کی اسی بنوتری سے اپنے سپورٹرز وصول کرتی ہیں،ا ور اس پراسس میں اپنے ہمدردوں کی کوئی تربیت نہیں کرتیں، لہذا ان میں بھی آپکو اسی قسم کے تشدد کی لہریں نظر آتی ہیں، چاہیں وہ شہباز شریف صاحب  کے خاندان کی ایک خاتون کا بیکری والے پر تشدد ہو، شیریں مزاری صاحبہ کی زبان دانی، پیپلز پارٹی والوں کا جاگیردارانہ کنٹرول، ایم کیو ایم کا شہری تشدد، جماعت اسلامی کا اپنا متشدد نظریہ، قوم پرستوں کا تشدد کی بلاواسطہ حمایت کرنا وغیرہ، شامل ہے۔

پاکستانی، بالخصوص شہری، اور اس میں سے بھی بالخصوص/بالخصوص پنجابی، شہری طبقات نے اپنی اپنی طرز کی عدم برداشت پال رکھی ہےاور بہت ساری مڈل کلاس عادات پر اس عدم برداشت کے کڑے پہرے بھی ہیں۔

دنیا کے جن ممالک نے بھی معاشی اور معاشرتی ترقی کی، اس میں مڈل کلاس ہی صفِ اول میں رہی۔ یہ کلاس معاشروں کا "چینج انجن" ہوتی ہے اور ایک بڑی تبدیلی ممکن بناتی ہے۔ بل گیٹس، سٹیو جابز، گورڈن مُور، رابرٹ نوئس، لکشمی مٹل، جمسیٹھ جی ٹاٹا اور ایک بہت لمبی فہرست لوگوں کی آپکو ملتی ہے جو بھلے آج تو ارب/کھرب پتی ہوں، مگر انکی شروعات لو/مڈل کلاس تھیں۔ بل گیٹس اور سٹیو جابز نے تمام دنیا کے کام کرنے کی عادات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا، وہ مڈل کلاس تھے، اور فوکسڈ تھے۔

مڈل کلاس کے عمومی معیارات میں سے کچھ یہ ہیں: مڈل کلاس معاشرے میں رواداری کو بنا کر رکھتی ہے، برداشت کو سنوارتی ہے، فنون کو مدد فراہم کرتی ہے، اپنی جدوجہد میں اپنے سے نیچے والوں کے لیے معاشی، معاشرتی و سماجی مواقع پیدا کرتی ہے، اپنے سے بالا طبقات کے ساتھ جڑ کر رہتی ہے اور ان سے مختلف حیثیتوں میں اپنے معاشرے، لوگوں اور ملک کےلیے بہتری کے کام کرواتی ہے۔  مڈل کلاس جانتی ہے کہ معاشرتی نظم،  صرف اور صرف باہمی احترام اور برداشت پر قائم ہوتا ہے، اس لیے یہ اسکی حفاظت اور ترویج کرتی ہے۔ یہ کلاس کتب بینی کرتی ہے، سینما جاتی ہے، موسیقی سنتی ہے، اپنے بچوں کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے انکی ترقی کی راہیں بذریعہ تعلیم متعین کرتی ہے، معاشرے میں ایلیٹ اور غرباء کے تعلق کو قائم رکھوا کر ایک توازن اور آرڈر مقرر رکھتی ہے۔ یہ کلاس سیاحت کرتی ہے، اپنے گھروں پر خرچ کرتی ہے، شدید معاشی جدوجہد کرتی ہے کہ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں معاشی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ مڈل کلاس اپنے معاشرے کے روایتی تصورات کی امین ہوتی ہے، دوستیاں پالتی ہے، تعلقات نبھاتی ہے، معاشرتی نظم کی سب سے بڑی بینیفشری ہوتی ہے،  عموما اپنے سے بہتر کلاس اپنی اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔ یہ کلاس اپنی جدوجہد میں ایجادات کرتی ہے، نئے نئے، چھوٹے بڑے، کام کرتی ہے، نئے نئے آئیڈیاز اور تصورات کے ساتھ مارکیٹ میں آتی ہے، ناکام ہوتی ہے تو پھر سے کوشش کرتی ہے، کوشش کرتی ہے تو کامیابی کےلیے جان مارتی ہے، شہروں میں آکر قبائلی سوچ سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہے، اسی کلاس میں اپنے سے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھاتی ہے اور اسی سلسلہ میں  نئے خاندان، نئے نظریات اور نئی نسلیں تشکیل پاتی ہیں۔ یہ کلاس عموما مضطرب ہوتی ہے، کچھ کرکے دکھانا چاہتی ہے، سیاسی اور معاشرتی تبدیلی کی علمبردار ہوکر ریاست، ملک اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانا چاہتی ہے، ذمہ داری لیتی ہے اور پھر اس ذمہ داری  کی انجام دہی میں کئی مزید مواقع تلاش اور پیدا کرتی ہے۔

  یہی کلاس، صاحبو، معاشرے، ملک، ریاستیں، اور تاریخ بدلتی ہے۔ 

اب اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ اوپر کے ایک مختصر پیراگراف میں سے کتنی عادات آپکو پاکستانی مڈل کلاس میں ملتی ہیں؟

اکثریتی: سرکاری نوکری کے متوالے، کام سے بھاگنے والے، کام لے کر ذمہ داری سے پورا نہ کرنے والے، تقدیر کے جبر کو اپنی ذات اور ذہن کے مطابق دل سے تسلیم کرنے والے، گفتگو کے فن سے قریبا نابلد، تحریر سے دور، کتب بینی کی حالت یہ کہ بیس کروڑ لوگوں کی آبادی میں کتاب کے ایڈیشن پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتے، ہزاروں شہر/قصبوں میں سینماؤں کی تعداد دو درجن سے کم، کھیلنے کے میدان ناپیداور اس پر مکمل خاموشی،  نوجوانوں کےلیے مواقع ناپید، اس پر مکمل خاموشی، ستر ہزار پاکستانی قتل کردئیے گئے، اس پر مذہبی، سیاسی، سماجی تاویلیں، موسیقی حرام، فلم حرام، کو ایجوکیشن حرام، خواتین کا معاشرے میں آگے بڑھنے کےلیے کوشش کرنا قریبا قریبا مکروہ، زبانی، ذہنی اور جہاں ممکن ہو جسمانی تشدد کی لائن پر موجود اندھی سیاسی اور مذہبی تقلید اور اس تشدد کے مظاہرے کےلیے ایک خاموش خواہش اور مرضی بھی اور اس تشدد کے اظہار کو طاقت جاننا بھی۔ذات پات، قبائلیت، دماغی تعصبات، اندھی تقلید، سوال پر فوری ردعمل، جارحانہ اشارے، سیاسی، معاشرتی مذہبی شدت پسندی عام۔ اپنے محدود تجربہ میں مجھے دنیا کے کسی دوسرے معاشرے میں 70ہزار شہریوں کے قتل ہو جانے کی توجیحات دینے والے شاید نہیں ملیں گے، یہاں وافر ملتے ہیں، سیاسی بھی، مذہبی بھی، اور سماجی بھی۔

"تمغے" اور بھی ہیں، مگر چھوڑئیے کہ اتنا ہی کافی اگر سوچ کو کوئی مہمیز ملتی ہے تو، اور اگر اس سے بھی نہیں ملتی، تو مزید تمغے بھی بےاثر ہونگے۔

دلی معذرت کہ بات لمبی ہوگئی، مگر پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ پڑھنا تھا کہ مجھے اپنے بچپن کا پاکستان بھی بہت اچھی طرح یاد ہے۔ پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ پڑھنا تھا کہ اس کلاس کو اپنے معاشرتی، سماجی اور تہذیبی نقصان کا معلوم ہی نہیں ہو چُک رہا۔

اگر اس مضمون نے آپکو کچھ/کچھ/کچھ بھی سوچنے پر مجبور کیا ہوتو محنت وصول ہوئی، اور اگر جواب میں آپکے پاس دشنام، تنقید اور ردعمل ہی ہے تو میں اپنی ذات میں بہت کلئیر ہوں کہ میں نےایک لمبا عرصہ جان مار کے معاشرتی مڈل کلاس کے آس پاس رسائی حاصل کی ہے اور ویسا ہی معیاری رویہ بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔ جان چکا ہوں کہ مڈل کلاس، یا اس سے بہتر، زندگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر اسکے لیے جان مارنی اورمخصوص رویے اپنانا پڑتے ہیں۔ میں اپنے اس حق کا ہر جگہ، ہر فورم پر دفاع کرتا ہوں، اور کروں گا۔ آپ سب سے بھی گزارش ہے کہ کچھ  آزاد ذہن کے ساتھ، دوستو، اپنی ذات پر خود سے ڈالے کڑے پہرے ہٹا کر تو دیکھو، زندگی آسان بنے گی، آپکی بھی اور دوسروں کی بھی۔

ابھی تک اگر آپ معیاری مڈل کلاس رویوں کے حامل نہیں رہے، آج سے کوشش تو کرکے دیکھیے۔ بھلا ہوگا، میں پورے یقین سے کہتا ہوں۔