ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

پاکستان مردہ باد



جی، شکریہ کہ جانتا ہوں کہ آ پ میں سے ایک مناسب اکثریت نے اس بلاگ کا ٹائٹل دیکھتے ہی اسکی ترکیب اور اجزا کے بارے میں ایک اندازہ لگا یا ہوگا۔ چند ایک نے میرے الٹے سیدھے بلاگ کی محبت میں اسے کھولا ہوگا، چند ایک نے رواداری میں کہ مبشر اکرم نے اسے شئیر کیا ہے تو اسکے لنک پر کلک کر ہی دو۔ اپنے ایک ٹویٹری یار، نام نہیں لکھوں گا، نے آج سویرے سویرے ہی اپنے اس حسنِ سلوک کی دھونی دے دی کہ جسے میں "عمومی و میعاری پاکستانی رویہ" کہتا ہوں کہ جو کسی شخص اور اسکے نظریات کی شرح کو جانے بغیر ذات پر بات کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اس میں کوئی صحتمندانہ رویہ یا گفتگو کی لگن نہں ہوتی، بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ "میں چونکہ اگلے بندے کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا، لہذا اسکے خلاف جہاد فی الفیس بک یا جہاد فی الٹویٹر لازم ٹھہرا،" یہ اس لیے بیان کیا کہ شاید ایک اکثریت اس بلاگ کو اسی نیت سے کلک کرے گی تاکہ مبشر اکرم کی شان میں ویسی ہی قصیدہ گوئی کی جائے جو ایک عظیم انقلابی رہنما پچھلے دو ماہ سے میاں نواز شریف کی شان میں تقریبا ہر روز فرماتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ دونوں کی اناؤں کا قد ہی اتنا ہے کہ دونوں کو شاید فرق ہی کوئی نہیں پڑرہا، ملک و قوم کی خیر ہے!

میرے پڑھنے والوں نے تنقید بھی کی مجھ پر، بعض نے عقلِ کل کے شوق میں مبتلا جھوٹا دانشور کہا، بعض نے اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے ماں بہن کی گالیاں نکالیں، بعض نے سیاسی غلامی کے طعنے مارتے ہوئے اپنے عظیم رہنماؤں کی سیاسی غلامی میں اپنی وفاداری ثابت کی، بعض نے میرے دینی فہم پر اعتراض کیا اور ایک اکثریت نے جب رائے زنی کی تو مجھے جانے، اور پڑھے بغیر صرف ایک ہی تحریر کی بنیاد پر میری جانب اپنے تاثرات کے ایٹم بم چلا ڈالے، یہ سمجھے بغیر کہ حسن کلام بھی آقامحمدﷺ کی سنت ہے، مگر کیا کیجیے، عقیدہ شاید صفر ڈگری پر منجمد، عقیدت سو ڈگری پر ابلتی ہوئی ذہنیت کے عظیم پاکستانی نوجوان ایک ایسی، معذرت، عجب حقیقت بنتے جارہے ہیں جو اپنی ذات کے گرداب اور ذہنیت کے کنویں میں چھپاکے مار کر سماجی و دماغی لہریں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور نئے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ان لہروں سے بجلی پیدا کرکے پوری دنیا کو برآمد کریں۔ مفت مشورہ ہے۔

لیکچر دینا مقصود کبھی ہوتا ہی نہیں کہ مجھے جو حقیقت میں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میں اپنی ذات کے اختیار سے باہر اور کسی بھی قسم کے بڑبولے کام کو دور سے سلام کرتا ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی یہی کہتا رہتا ہوں کہ ہونے والے، مگر چھوٹے چھوٹے کام کیا کیجیے، کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ایک دن جُڑ کر بہت بڑی کامیابی نظر آتی ہیں اور سوچ کا یہ سلیقہ، میرے دوستو، مجھے اس تنقیدی شعور، جسے انگریزی میں کریٹیکل تھنکنگ، نے دیا جسکی بنیاد میرے دو سینئرز نے رکھی: وجیہ الاسلام عباسی اور شکیل چوہدری صاحبان۔ وگرنہ آج سے کوئی سترہ سال قبل، خادم بھی سو ڈگری پر اُبلتا اور کھولتا، امت مسلمہ اور نشاة ثانیہ کا ایک عظیم کھوجی و مجاہد تھا۔ ہر وقت کے ردعمل میں مبتلا، عباسی صاحب اور شکیل صاحب نے مجھے اپنے ذہن، فکر و سوچ کی لگامیں تھامنا سکھایا۔ ابھی بھی پھسلتا ہوں، مگر کم کم، بہت ہی کم۔ اور جب بھی پھسلتا ہوں اب، سیکھتا ہوں۔ اپنے بارے میں بتائیے اور سوچئے گا؟

تنقیدی شعور، میرے یارو، تصویر کے اگر تمام نہیں تو اکثریتی رخ دیکھنے کی صلاحیت سے ہی ممکن ہوتا ہے اور یہ رخ آپ کو صرف اس وقت ہی سکھا سکتے ہیں کہ جب اس میں سے آپکی سوچ اور آپکی شخصیت کے زاویوں کو ایک شدید چبھن کا احساس ملتا ہو۔ ہم میں سے زیادہ تر اس چبھن کے احساس کے ہاتھوں اپنی ذات کے خول میں مزید گہرائی تک دھنس جاتے ہیں کہ وہی ایک محفوظ رستہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی ذات کو پیاری سوچ کی حفاظت کرتا ہے، مگر اس سے آپ ایک انسان کے طور پر جسمانی طور پر تو بڑھتے ہیں، مگر اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک شخص کے طور پر نہیں بڑھ سکتے۔ جب بھی آپ کی ذات پر کسی بھی معاملہ کی ہمہ جہتی سے شدید چبھن ہوتی ہو، تو صاحبو، وہی تو وقت ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی شخصیت و ذہن میں موجود زنگ کو کھرچنے کے قابل اور قریب تر ہوتے ہیں۔ ہمت کرکے آپ جب اپنی اس سوچ کے زنگ کو کھرچتے ہیں جو ریاست، معاشرہ اور آپکی ذات آپ پر لگا دیتا ہے، تو جناب، اسکے نیچے سے سوائے چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کے کچھ اور برآمد نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کچھ عرصہ کے بعد ایک نئی سوچ کی چبھن کا شکار ہو تو اس وقت بھی نہیں گھبرانا بلکہ اس عمل کو چلاتے ہی چلے جانا ہے، وگرنہ آپ بحیثیت ایک وجود تو بڑھ رہے ہوتے ہیں، بحیثیت ایک ذہن و شخصیت نہیں۔ اور بہتر یہی کہ ذات کے ساتھ دوسرا معاملہ رہے وگرنہ دماغ کا مسل صرف عضو ہی بن کر رہے گا، خیالات و نظریات کے معاملہ میں آپکی ذات اور وجود کا انجن نہ بن پائے گا۔

اسی لیے تو ایک فقرہ ایجاد کیا کہ: "آخری حقیقت میں تشدد، غربت، جہالت اور ترقی، انسان کا اپنا ہی انتخاب ہوتا ہے!" خیال کیجیے کہ آپکے انتخابات کیا ہیں زندگی میں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے محترمی وجاہت مسعود اور ڈاکٹر مبارک حیدر صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک علی نے بہت عمدہ تحاریر پیش کی ہیں، مگر "بیلی پور کے کارل مارکس،" "لالہ موسیٰ کے بِل گیٹس،" "لاہور کے حکیم لقمان،" "رحیم یار خان کے خلیفہ،" "دلربا مقبول جان لیوا" اور "دنیا کے بے۔نذیر پلاٹوی" وغیرہ جیسوں کے شوقین، اپنی رائے سازی روز کی بنیاد پر کی گئی قلم کی مزدوری پر کرنے والے، اوپر بیان کیے گئے تین مصنفین کی کتب و کالمز کو "بورنگ" ہی پائیں گے، مگر کوشش تو کیجیے کہ اس سے آپکی "آخری حقیقت" آپکی "روزانوی حقیقت" سے کہیں بہتر برآمد ہوگی، میں چیلنج کرتا ہوں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے سب سے زیادہ ضروری تین الفاظ سے دوستی اور انکی دل و جان سے قبولیت ہے۔ وہ تین الفاظ ہیں: لیکن، مگر، اگر۔ کیسے؟ چند ایک فقرات آپکی سوچ کو مہمیز لگانے کے لیے اور پھر اجازت:

۱۔ پاکستان امت مسلمہ کا عظیم ملک ہے لیکن اس ملک میں کوئی دو کروڑ بچے سکول نہیں جاسکتے۔
۲۔ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہوگا، مگر اس کے ساتھ جنگوں میں شہید و ہلاک ہونے والے لوگوں سے زیادہ لوگ پاکستان کے اندرونی تشدد میں مارے گئے۔
۳۔ تمام مسلم ممالک عظیم اقوام ہیں، مگر ان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین پچاس یونیورسٹیز میں شامل نہیں۔
۴۔ عمران خان بہترین انسان ہونگے، لیکن انکی سیاست میں تضادات بھی ہیں۔
۵۔ جماعتِ اسلامی اپنے آپکو پاکستان کی فکری اساس کی محافظ گردانتی ہے، مگر پاکستان کی اندرونی سیاسی و معاشرتی آزادیوں کے معاملہ میں اسکا کردار ایک جائزہ چاہتا ہے۔
۶۔ بھٹو ایک عظیم رہنما ہونگے، مگر وہ اپنی ذات کی انانیت کے بھی بڑے وکٹم تھے۔
۷۔ نواز شریف کی حکومت اچھے کام کررہی ہوگی، لیکن بہت سے معاملات میں یہ بنیادی ریاستی تبدیلیاں ممکن نہ بنا سکی ہے ابھی تک۔
۸۔ زرداری صاحب زیرک سیاستدان ہیں، مگر سودے بازی کی ہی سیاست کی۔
۹۔ حمزہ شہباز و مریم نواز میں قابلیت ہوگی شاید، لیکن وہ اگر حکمران گھروں کے چشم و چراغ نہ ہوتے تو انکا سیاسی کردار کیا اس اونچائی کا ممکن تھا؟
۱۰۔ پاکستان اور بھی بہتر طریقہ سے چلایا جا سکتا ہے، اگر اس میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا کردیں۔
۱۱۔ پاکستان آج ایک کہیں بہتر ریاست اور معاشرہ ہوتا، اگر پاکستانی ریاستی ادارے جمہوریت، گورننس اور شہری حقوق کے سیاسی خیالات پر عمل کرنے والے ہوتے۔
۱۲۔ کرسٹینا لیمب لکھتی ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کا ڈرائنگ روم عالیشان تھا، لیکن اس میں بُک شیلف نہ تھی۔

مثالیں اور بھی ہیں، مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔

اور سب سے اہم تنقیدی و شعوری مہمیز آپکی نظر کہ:

اس بلاگ کا عنوان تو "پاکستان مردہ باد" ہے، لیکن اس میں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں۔

اور محترمین پھر دیکھ لیجیے کہ بلاگ کے عنوان پر اگر آپ نے ایک رائے قائم کرلی ہوتی تو شاید یہ فقرہ پڑھ ہی نہ رہے ہوتے۔ پھر بھی کسی عظیم مجاہد کی عظیم مجاہدانہ سوچ سے بچنے کےلیے اپنے بلاگ کے ٹائٹل کے "گناہ" کو دھوتے ہوئے اختتام ایک نعرے پر ہی کرونگا: پاکستان زندہ باد!

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

بیٹیاں - گزشتہ سے پیوستہ

ایک منظر جو ذہن میں کبھی کبھار آ جاتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔

سال1999 کی گرمیاں تھیں اور میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ  مری  کی جانب رواں دواں تھا، اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے جہاں مری ہائی وے سے ملتی ہے، اس سے ذرا آگے سڑک کنارے ایک چھوٹا سا  جمگھٹا تھا جس نے سڑک تھوڑی سی بلاک کی ہوئی تھی  مگر ٹریفک ایک سمت سے ہو کر آہستہ آہستہ جا ہی رہی تھی۔ وہاں کوئی معمولی سا حادثہ ہوا تھا۔ ہماری گاڑیاں بھی جب پاس سے گزریں تو دیکھا کہ دو مرد ایک تیسرے مرد کی پٹائی کر رہے ہیں اور سائیڈ پر ایک چھوٹی سے بچی، کہ جسکی عمر شاید چھ یا سات سال ہو گی کھڑی رو رہی ہے۔ جیسا کہ اسلام آباد کا عمومی مزاج ہے کہ لوگ ایسے واقعات کو دیکھتے ہیں اور عام طور پر آگے بڑھ جاتے ہیں، یہی ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی آگے بڑھنے کی ٹھانی  مگر سچ یہ کہ اس بچی کو دیکھ کر رک گیا۔ گاڑی سے اُتر کر اس تماشے کی جانب بڑھا اور کوشش کی کہ یہ معاملہ سمجھوں اور اگر ہوسکے تو ختم ہی کروں (اب بھی، مگر کہیں کم کم ایسا ہی کرتا ہوں)۔ معلوم ہوا کہ جسکی پٹائی ہو رہی ہے اس نے اپنی بائیک سے ایک سوزوکی مہران کو پیچھے سے ہلکا سا ہِٹ کیا تھا۔ اسکے بعد بات تھوڑی بگڑ گئی اور سوزوکی مہران میں بیٹھے "ایلیٹ کلاس" کے لوگوں نے عامی کی پھینٹی شروع کردی۔ میں نے جب مداخلت کی تو وہ بچی میری جانب بے اختیار دوڑی ، ہاتھ باندھے اور روتے ہوئے کہا کہ میرے ابو کو یہ مار رہے ہیں، میرے ابو کو بچا ؤ۔ زبان تھوڑی توتلی تھی، سہمی ہوئی تھی، رو رہی تھی، بے بس تھی، مگر اپنے باپ کی بیٹی تھی اور اسکے ساتھ یہ سب ہوتے ہوئے دیکھ کر اپنی بےبسی میں ہی تڑپ رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا، اور میں نے اپنے ہمراہ کزنز کی مدد سے یہ معاملہ ختم کروایا۔ سوزوکی مہران کے ہائی کلاس لوگوں نے طعنہ مارا کہ نقصان تم پورا کردو۔ میں نے حامی بھری اور یوں کوئی 1،700 روپوں پر یہ بات ختم ہوئی۔ جب یہ معاملہ ختم ہورہا تھا، اور پٹائی کروانے والا کچھ الگ ہورہا تھا، تو اسکی بیٹی اسکی ٹانگ سے لپٹی ہوئی رو رہی تھی اور "ابو، ابو، ابو" کہے جا رہی تھی۔ بائیک والے صاحب نے شکریہ ادا کیا، اپنا فون نمبر دیا، میرا لیا اور کہا کہ یہ پیسے مجھے پہنچ جائیں گے، میں نے اصرار نہ کیا، مگر ہم دونوں دوست بن گئے۔ اب وہ بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے اور راولپنڈی میڈیکل کالج میں شاید اپنے پانچویں یا چوتھے سال میں ہے۔ نام میں یہاں نہیں لکھوں گا، مگر اپنے ان دوست کو میں نے جب کبھی اپنے بیٹے کا گِلہ کرتے پایا تو مسکرا دیتا ہوں۔

میں 2002 میں شدید معاشی دباؤ میں تھا۔ شہر اسلام آباد میں رہائش اور پاس کسی قسم کی کوئی سواری نہ تھی۔ کچھ پیسے جوڑ کر سوزوکی سنٹر، مری روڈ رالپنڈی سے ایک ایس-ڈی فلیش 110 سی سی بائیک قسطوں پر لیا۔ گھر میں اطلاع نہ دی ہوئی تھی، اس لیے جب بغیر بتائے گھر پہنچا تو سب سے زیادہ خوشی میری بڑی بیٹی کو ہوئی۔ خوشی میں ہنستے ہوئے وہ چھلانگیں مارتی رہی۔ اس وقت اسکی عمر کوئی دو سال تھی۔ یہ منظر میرے ذہن میں محفوظ ہے اور کبھی کبھی یاد کرکے مسکرا اٹھتا ہوں۔ اگلی صبح جب میں اپنی جاب پر جانے کے لے تیار ہوکر باہر نکلا تو وہ پیلے رنگ کپڑا ہاتھ میں پکڑے میری بائیک صاف کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو وہ اپنی توتلی زبان میں "ابو بائیک، ابو بائیک" بولی اور پھر مجھے اگنور کرکے بائیک کی صفائی میں مشغول ہو گئی۔ میں نے منع کیا تو اس نے مونہہ بنایا، میں کھڑا ہوگیا تو پھر سے صفائی شروع کر دی۔ اسی آنکھ مچولی میں کوئی پانچ منٹ گزر گئے اور جب اس نے اپنی تسلی کر لی تو خود ہی ایک طرف کھڑی ہو گئی، اور میں آفس کی جانب ہو لیا۔

مقبوضہ کشمیر سے میرے ایک کشمیری دوست تھے، ابھی امریکہ جا بسے ہیں۔ انکے ہاں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوئی۔ شدید گھن آئی انہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کو کوئی چار ماہ ہاتھ نہ لگایا اور اس سارے عرصہ میں اپنی بیوی کو بھی طعنے تشنے دیتے رہے۔بیٹی کی پیدائش پر اتنے شرمندہ ہوئے کہ کسی کو بھی اطلاع نہ دی اور ایک خوشگوار حادثے کے طفیل، معلوم پڑا تو انہیں مبارکباد دینے گیا تو انہوں نے ایک شانِ بے نیازی سے میری مبارکباد پر خیر مبارک بھی نہ کہا اور اوپر سے اپنی اولاد کی برائیاں شروع ہو گئے۔ نام نہیں لکھوں گا کہ مشہور آدمی تھے، مگر انکی "بیٹی-بیزاری" کا یہ سلسلہ کوئی تین سال چلا۔ دوسری اولاد بیٹا ہوا تو انکے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ انکے امریکہ سدھارنے سے کوئی تین ماہ قبل ان سے آخری ملاقات ہوئی تو بیٹی کی ان سے محبت دیدنی تھی، مگر موصوف بہت ہی کم مہربان تھے بچی کی جانب۔ اس دن فیصلہ کیا کہ ان سے دوبارہ نہیں ملنا۔ اس لیے نہیں کہ میں کوئی بڑا مہان انسان ہوں، بلکہ اس لیے کہ مجھ سے یہ جاہلانہ طرز عمل تب بھی، اور اب بھی، برداشت نہیں ہوتا۔

واقعات اور بھی ہیں، لکھتا ہی رہونگا آئندہ بھی مگر یہاں یہ تین واقعات صرف اس لیے تحریر کیے کہ بیٹے بھی خدا کی دین ہوتے ہیں، مگر شاید بیٹیوں کا دل اپنے باپوں کی جانب بہت نرم ہوتا ہے۔ نجانے کیسے باپ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی جانب مہربان نہیں ہوتے۔

صاحبو، میں بہت  کوشش کرتا ہوں کہ مذہب کبھی میرا پوائنٹ آف ریفرنس نہ بنے، کہ جب بھی میں سماجی، معاشی و سیاسی معاملات پر بات کر رہا ہوں تو۔ مگر بہرحال اسی معاشرے کا حصہ ہوں اور لوگوں کے رویوں کو دیکھ کر بسا اوقات بات کرنا پڑ جاتی ہے۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور آپکو یہ بات پچھلے بلاگ، "بیٹیاں" میں بھی کہہ چکا کہ کرنے کی باتوں میں تو ہم صبح دوپہر شام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت حقوق دیے ہیں، اسلام نے تو حقوق دے دئیے ہیں، آپ کب دیجیے گا؟  انہی لوگوں کی اکثریت جو یہ منترا پڑھتی رہتی ہے، اگلے ہی سانس میں عورتوں کو مرد کا نصف بتا رہے ہوتے ہیں، تہذیب اور علم کے ساتھ مکالمہ کی کوشش کریں تو آپکے ایمان پر فتاویٰ اور گالم گلوچ پر فورا ہی اتر آئیں گے۔ اتنا بھی نہیں سننا چاہتے کہ اگر اسلام نے، کہ جسکی خواہمخواہ کی ٹھیکیداری آپ نے اٹھا رکھی ہے، خواتین کو  مردوں سے بھی زیادہ حقوق دیے ہیں تو محترمین، وہی حقوق من و عن آگے ٹرانسفر کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ مگر نہیں جناب، یہاں مسلم معاشروں کے اکثریتی مردوں کے سماجی اور صنفی کنٹرول کی بات آ جاتی ہے کہ جو اِن مردوں نے اپنی جسمانی طاقت اور متشدد روایات کے بنیاد پر اسلام کے ساتھ مکس کر کے خود ہی سے اپنے لیے حاصل کرلیے ہیں۔ لہذا ہر وہ بات جو سماجی و صنفی مفادات پر ضرب لگائے گی، وہ اسکے دفاع کا کوئی حوالہ مذہب کی تشریحات سے نکال کر آپکے مونہہ پر دے ماریں گےاور اسکے بعدآپ معاشرے اور انٹرنیٹ پر اپنی جان بچاتے پھریں گے۔

کچھ تحقیق کہ ہے تو معلوم پڑا کہ  قبائلی معاشروں میں کہ جہاں کھیتی باڑی ہزاروں سال تک روزگار اور سماجی حیثیت کا واحد ذریعہ رہا، مردوں کی جسمانی ہئیت اور طاقت کی بنا پر انکی "سوشل پوزیشنگ" کو مضبوطی بخشی اور انہوں نے پھر آنے والے تقریبا تمام مذاہب کی تشریحات کا سہارا لے کر عورتوں کی ملکیت کا دعویٰ مضبوط کیے رکھا۔ میں آپکو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ مذاہب  کی عبارات پر جانے کی بجائے ان مذاہب پر عمل کروانے والے اپنی اپنی طرز کے ملاؤں کے ابتدائی رویے دیکھیے تو معلوم پڑے گا کہ کس طرح سے تمام مذاہب کے ان پروہتوں نے خواتین کو معاشرے و سماج میں دوسرے یا شاید دسویں درجے کا شہری بنا کر محدود کر دیا۔ وہ معاشرے کہ جنہوں نے انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ معاشرتی  علوم کو بھی اپنے ساتھ ارتقائی سفر میں ساتھ رکھا، وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور کچھ صومالیہ  کہلائے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں اور اس پر زیادہ بات اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتا کہ جنت کا کوئی شیدائی اس خادم کے سر نہ چڑھ جائے۔

دوسروں کی کیا بات کرنی، اپنے ہی معاشرے میں دیکھ لیجیے۔ قتل میں کروں تو پشتون کلچر میں سوارا کے نام پر میری بہن یا بیٹی قیمت ادا کرے گی۔ مخالف کی فصل کو آگ میں لگاؤں تو پنجابی ثقافت میں ونی  یا ادلہ بدلہ کے نام پر قیمت میری بہن یا بیٹی ادا کرے گی۔ ساتھ والے کھیت کے پانی کی چوری میں کروں تو  اسکی قیمت سندھ کے کلچر میں میری بیٹی یا بہن ادا کرے گی۔ بلوچوں کا ریکارڈ اس معاملے میں نسبتا بہتر ہے، مگر وہاں بھی قبائلی جھگڑوں میں آپس کی بے جوڑ شادیاں ملیں گی۔ اسی طرح آپکو "غیرت" (کہ جسکی معاشرتی تشریح میں آج تک نہیں سمجھ پایا ماسوائے اس تشدد کے جو مرد کے غصہ کے ساتھ جُڑا ہوا ملتا ہے) کے نام پر قتل ہونے والوں میں 99٪ خواتین ہی ملیں گی، بھلے پاکستان کاکوئی سا بھی سب-کلچر ہو۔نصیر آباد میں پانچ عورتیں زندہ دفن ہوں تو ثقافت۔ کوہستان میں شادی کی ویڈیو پر تین عورتیں قتل ہوں تو غیرت۔ ڈیرہ غازی خان میں چار سال کی بچی کی شادی انچاس سالہ شخص سے ہوتو  سماجی/قبائلی روایت۔ کندھ کوٹ میں ایک مرد کارا اور تین عورتین کاری ہوں تو غیرت کا معاملہ کہ جس میں وہ ایک مرد بچ گیا جرمانہ دے کر، تین ماردی گئیں۔غیرت کے نشانے پر ہمیشہ بیٹیاں ہی کیوں؟

بیٹے پیدا کرنے کے پریشر میں کئی مرتبہ آس پاس سے سنا کہ جب آقامحمدؐ کے ہاں انکے صاحبزادے، حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش ہوئی تو فرشتوں اور کائنات نے خوشیاں منائیں۔ لہذا بیٹا پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ میں نے کوشش کی ہے مگر قرآن میں اسکا ریفرنس نہ مل سکا مگر یہ بات کرنے والے اگلی ہی سانس میں کہہ ڈالتے ہیں کہ بی بی حلیمہ سعدیہؑ اور بی بی فاطمۃ الزہراؑ کےلیے ہی صرف آقاؐ  اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے اور انکے لیے اپنی چادر بھی بچھاتے تھے۔ اپنی زندگی اس معاشرے میں گزر گئی، کچھ گزرتی جار ہی ہے، میں نے کم ہی ایسا دیکھا کہ بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دی جاتی ہو، بلکہ اسکے اُلٹ ہوتا ہے، مگر باتیں  اور انکے حوالہ جات  آقامحمدؐ کی زندگی اور سنت سے، کرتوت اور عمل سارے قبائلی اور جاہلانہ۔

آخر میں، یارو، ایک بات کہنی یہی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کا کروموسوم  جناب حضرت مرد صاحب  کی جانب سے آتا ہے۔ خدا نے پیدائش کا ایک انسانی عمل متعین کر رکھا ہے اور اس عمل میں ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا فیصلہ  جناب حضرت مرد صاحب کے دیے ہوئے کروموسوم ہی کرتے ہیں۔ اگر بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے اور آپ دل گرفتہ ہیں تو جناب پاکستان کے روایتی حضرت مرد صاحب سے یہ کہنا ہے کہ تم وہ قبائلی مرد ہی نہیں ہو کہ جس کے ساتھ تم اپنے رویے کی  متشدد  برتری جوڑتے ہو۔تم بھلے اپنے آپ کو ایک بیٹے کا حقدار جانتے رہو اور ایک بیٹے کی تلاش میں بیٹیاں پیدا کرتے رہو، تم عمومی پاکستانی جناب حضرت مرد صاحب بھلے ہوگے، مرد  بالکل نہیں ہو، بہرحال۔

بڑے ہو جاؤ!


کبھی ہو گے بھی ویسے؟