سب سے پہلےتواس بات کی معذرت کہ مسیحی کو عیسائی لکھ رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ
عرفِ عام میں مسیحیوں کو عیسائی ہی کہا جاتا ہے جو کہ درست لفظ نہیں۔ مسیحی، اپنے
آپ کو "مسیحی" کہلواتے ہیں، عیسائی بس معاشرتی طور پر قبول کرتے ہیں،
مگر دل سے نہیں۔
دوسرا یہ کہ یہ کہانی سچی ہے، مگر کچھ تو اپنے دوست کے کہنے پر اور دوسرا
تھوڑا بہت روحانیت کو پڑھنے جاننے کے حوالے سے بھی، اس کہانی کے کرداروں کے نام
تبدیل کر دیے ہیں۔
اپنے مسلمان دوستوں سے بھی یہ کہنا ہے کہ اللہ، اسکی بنائی ہوئی کائنات،
مذاہب، لوگ اور نازل کی ہوئی کتب و اصول
صرف آپ کی ہی ملکیت نہیں۔ وہ رب العالمین ہے، رب المسلمین نہیں۔ اسکے بنائے ہوئے
اصول اٹل ہیں اور وہ اصول اس نے اپنے پیغمبروں کے لیے بھی تبدیل نہ کیے، اور نہ ہی کرے گا۔ آپ سارے نہیں، مگر کچھ ہیں
جو اللہ، اسلام، اسکی کائنات کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی سمجھتے ہیں اور اپنے
آپکو اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے عہدوں پر خود ہی سے بٹھا بھی دیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے مگر ہمت اگر ہے تو یارو، ذرا جا کر پوچھیے نا ان سے جو کہلواتے تو
مسلم ہیں، مگر کاٹتے گلے ہیں، بسوں کو
بموں سے اڑاتے ہیں، تشدد کو ابھارتے ہیں، تبرہ کرتے ہیں، نور و بشر کے جھگڑوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر اپنی باری اگر آئے تو برقعے میں بھی
بھاگ نکلتے ہیں۔ مگر آپ سب سے معذرت کہ "اللہ اور عیسائی" کا موضوع یہ
نہیں، مگر تمہید کی نیت سے کہنا ضروری سمجھا۔ امید کہ آپ گستاخی معاف فرمائیں گے
اگر آپ بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک نہیں ہیں تو!
داستان شروع ہوتی ہے۔
انتساب: ڈی وی سی، میرے دوست، میں یہ آپکے، آپکے خاندان اور آپکے دوستوں کےلیےتحریر
کررہاہوں۔ اللہ آپ پر اور آپکے مخلص چاہنے والوں پر اپنی رحمت ہمیشہ قائم رکھے
(آمین)۔
سائمن کی کہانی، انکی ہی زبانی سنئیے:
قریبا پندرہ سال پہلے میں چیک ریپبلک کے دارلحکومت، پراگ، میں امریکن ایمبیسی
میں کونسلر آفیسر تھا۔ جمعے کی شام تھی اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ ویک اینڈ کے
لوازمات کے ساتھ اپنے کولیگز کے ساتھ پارٹی موڈ میں تھا۔ میں شادی شدہ تھا، مگر بے
تحاشا کوشش اور علاج کے باوجود بے اولاد تھا۔ شام آٹھ بجے مجھے ائرپورٹ کے لائزن
آفس سے کال آئی کہ ایک امریکی شہری ایک جعلی پاسپورٹ پر پکڑی گئی ہے اور لہذا
"آپکو لازمی آنا ہے کیونکہ یہ آپکی ہی ذمہ داری ہے۔" دل میں گالیاں نکالتا اور طوعا کرہا میں اس
بہترین پارٹی سے اٹھا اور پراگ انٹرنیشنل ائرپورٹ جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر میں نے
ایک عجب منظر یہ دیکھا کہ قریبا ستر سال کی عمر کی ایک بوڑھی امریکی نن شاید
"دنیا کے بھدے ترین اور نکمے ترین نقلی پاسپورٹ" پر اپنی تصویر سکاچ ٹیپ
سے چپکائے ائرپورٹ حکام کی تحویل میں بیٹھی تھی۔ اسکو، اسکے پاسپورٹ کو دیکھ کر
میرا موڈ شدید خراب ہو گیا، مگر میں اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور تھا، لہذا، اس
"بڈھی کھوسٹ" کی مدد کرنا پڑی۔ میں اس خاتون کے جیسے ہی سامنے پہنچا، تو
اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ تم مانو یا نہ مانو، مجھے لارڈ جیسس اور خدا نے تم سے
ہی ملنے کےلیے یورپ بھیجا ہے۔
"مبشر، میں خدا اور کسی بھی مذہب پر یقین نہ رکھتا تھا۔ لہذا میں نے بہت روکھے پن سے اس سے بات کی اور کہا کہ
اپنا خدا اور لارڈ جیسس اپنے پاس رکھو اور مجھے بتاؤ کہ ادھر کرنے کیا آئی
ہو؟"
اس بوڑھی نن نے بتایا کہ وہ چیک ریپبلک کےہنگری (ایک اور چھوٹا یورپئین ملک) کے بارڈر والے
علاقے کے ایک دور دراز کے قصبہ میں کسی
کام سے آئی ہے اور "یہ کام مجھے لارڈ جیسس اور خدا نے ہی کرنے کےلیے ادھر
بھیجا ہے،" بوڑھی نن، کہ جسکا نام "سسٹر ڈینیس" تھا، نے کہا۔
میں نے ایک طنز سے بھرپورنظر اس پر ڈالی۔ اپنے سفارتخانے کے مینڈیٹ کے مطابق
اسکی مدد کی اور اسے قانون کے مطابق گارنٹیز کے تحت ائرپورٹ سے رہا کروا کر اسے
تاکید کی کہ ایک ہفتے میں سفارتخانہ آکر مجھ سے اپنا پاسپورٹ وصول کر لے۔ بوڑھی نن
نے ایک نگاہِ غلط مجھ پر ڈالی، مسکرائی اور کہا کہ ٹھیک ہے۔
"مبشر، میرے دوست، میں اور میری بیوی، جوزفین، اولاد کے شدید خواہشمند
تھے۔ جدید طب کے تمام طریقے استعمال کر چکے تھے، مگر جوزفین ظاہری طور پر بچہ پیدا
کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتی تھی۔ ہم دونوں نے طویل مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ
اب یہ کوشش ترک کر دینی ہے اور اسکی بجائے
ایک بچہ گود لے لینا ہے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنی مدتِ ملازمت میں ہی
چیک ریپبلک سے ایک بچہ گود لے لیا جائے اور پھر اسکو ساتھ امریکہ لے جایا جائے۔
میری مدتِ ملازمت میں ابھی کچھ ماہ باقی تھے اور میں نے بچہ ایڈاپٹ کرنے کی مقامی
اتھارٹی کو اپنی بیوی کی اجازت سے درخواست بھی دے رکھی تھی اور اس محکمہ سے ہم بچہ
ایڈاپٹ کرنے کی پرمِشن کا انتظار کر رہے تھے۔"
اگلے ایک ہفتے میں سسٹر ڈینیس نہ آئی اور مجھے اس پر اور بھی شدید غصہ آیا۔
اگلے ویک اینڈ پر میں نے اور جوزفین نے چیک ریپبلک کی سرحد پر ایک نہایت ہی چھوٹے
سے گاؤں میں دو چار دن چھٹیاں گزارنے کا فیصلہ کیا اور قریبا رات میں سفر کرتے
ہوئے علی الصبح وہاں جا پہنچے۔ نہایت ہی خوبصورت گاؤں تھا۔ ہرطرف پھول ہی پھول۔
چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں، پھولوں سے بھری۔ گلیاں، پھولوں سے بھری۔ گھر، انکے دالان،
گلی میں کھلنے والی کھڑکیاں، بازار، دکانیں، ریستوران، سب کے سب، پھولوں سے بھرے۔
نہایت خاموش، نہایت پرسکون اور چھوٹا سا گاؤں تھا وہ۔ میں اور میری بیوی وہاں تین
روز گزار کر واپس پراگ آن پہنچے اور زندگی میں مصروف ہو گئے۔ میرے باس نے تین چار
مرتبہ مجھ سے سسٹر ڈینیس کا پوچھا تو میں نے آگے سے ایک بدتمیزانہ جواب دے کر
گفتگو ختم کر ڈالی مگر میرا دماغ کھول جاتا تھا جب میں اس "بڈھی کھوسٹ، اسکے
بھدے نقلی پاسپورٹ اور اسکی احمقانہ باتوں کہ لارڈ جیسس اور خدا کے اسے میرے پاس
بھیجنے" کا سوچتا تھا۔
چھٹی گزارنے سے واپسی کے چوتھے دن بچہ ایڈاپٹ کرنے کی اتھارٹی سے ہمیں ایک خط
اور اسی دن ایک کال موصول ہوئی کہ اس اتھارٹی نے ہمارے لیے ایک بچی تلاش کی ہے کہ
جسکے والدین اس دنیا میں نہیں اور اگر ہم چاہیں تو وہ بچی ایڈاپٹ کر سکتے ہیں مگر
اس جگہ پر آنا جانا اسی اتھارٹی کی گاڑی میں ہوگا کیونکہ یہ بھی انکے قانون کا حصہ
تھا۔ میں نے اپنے دفتر اطلا ع دی تو کچھ لیت ولعل کے بعد اجازت مل گئی اور یوں ایک
دن کے بعد ہی میں اور جوزفین اس اتھارٹی کی ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں میں اس طرف چل نکلے
جہاں سے ہمیں وہ بچی ایڈاپٹ کرنا تھی۔ ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد
قریبا صبح سات بجے ہم اس جگہ پہنچےاور چونک گئے: یہ وہی گاؤں تھا جہاں میں اور
میری بیوی قریبا ایک ہفتہ قبل چھٹیاں لیکر آئےتھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف
دیکھا اور مسکرااٹھے۔ ایڈاپشن اتھارٹی ہمیں وہاں اپنے لوکل نمائندے کے دفتر میں لے
گئی جو اس وقت چرچ گیا ہوا تھا عبادت کےلیے۔ تقریبا دو گھنٹے انتظار کے بعد وہ
صاحب آئے اور انکے پیچھے ایک خاتون کے بازؤں میں وہ پیاری سی بچی تھی جو کہ ہمیں
ایڈاپٹ کرنا تھی۔
"مبشر، جس خاتون کے بازؤں میں وہ بچی تھی، وہ سسٹر ڈینیس تھی!"
میں نے جیسے ہی سسٹر کو اوراس نے مجھے دیکھا تو میں ہکا بکا اور وہ نہایت ہی
معصومیت اور پیار سے مسکرا اٹھی، کہنے لگی: "دیکھا سائمن، میں نے کہا تھا نا
کہ لارڈ جیسس اور خدا نے ہی مجھے تمھارے لیے یہاں بھیجا ہے کہ تمھاری میری ملاقات
ہو سکے۔"
میری سمجھ میں کچھ نہ آیا،مگر خیر میں نے کہا کہ یہ ایک رینڈم واقعہ ہو سکتا
ہے۔ میں نے سسٹر ڈینیس کو گلے سے لگایا، اسکا شکریہ ادا کیا اور اسکے بازؤں سے بچی
لیکر واپس پراگ کی طرف روانہ ہونے کی ٹھانی۔ روانگی سے ایک منٹ پہلے سسٹر ڈینیس
میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ پراگ میں اس کا جاننے والا ایک پرانا دوست ہے اور
"یہ ایک قدیم بائبل کا نسخہ ہے، میرے دوست کی فرمائش پر کیا تم یہ نسخہ اسے
دے سکتے ہو؟" میں بھلا کیوں انکار کرتا، حامی بھری، بائبل لی اور اس پر پھر
طنز کیا کہ "سسٹر، اپنا امریکن پاسپورٹ تو لے جاؤ!" وہ مسکرائی اور کہا،
کہ جب لارڈ جیسس اور خدا کو منظور ہوگا میرا اس ملک سے جانا، جاتے ہوئے میں لے
جاؤنگی۔
پراگ میں سسٹر ڈینیس کا دوست اتفاق سے
میرے گھر سے صرف دو گلیاں پیچھے رہتا تھا۔ میں اور میری بیوی اپنی ایڈاپٹڈ بیٹی کو
بازؤں میں لیکر اسکے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب امریکہ سے فارغ التحصیل
ڈاکٹر ہیں اور تولیدی امراض کے ماہر ہیں اور حال ہی میں اپنی کوئی نہایت ایڈوانس
ڈگری لے کر واپس آئے ہیں۔ باتوں باتوں میں ہم نے انہیں بتایا کہ ہم بائیولاجیکل
والدین بھی بننا چاہتےہیں، مگر شاید ہماری قسمت میں ہی نہیں۔ ڈاکٹر نے کچھ مزید
بات چیت کی اور بتایا کہ ابھی ایک دو نئے پروسیجر دریافت ہوئے ہیں اور اگر میں اور
جوزفین وہ ٹرائی کرنا چاہیں تو شاید "خدا مہربانی کرے گا۔"
"مبشر بھائی، مجھے اس فقرہ سے ہی چڑ تھی کہ "خدا مہربانی
کرےگا،" مگر میں نے سسٹر ڈینیس کے اس نہایت ہی معقول ڈاکٹر دوست کی بات مانی
اور اپنا علاج شروع کروا دیا۔"
ان-ویٹرو، نہایت ہی مشکل اور تکلیف دہ عمل تھا، مگر کرنی کچھ ایسی ہوئی
کہ میری بیوی جوزفین حاملہ ہو گئی۔ میری
سمجھ میں نہ آیا کہ ہزاروں، لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ میں یہ کام
ممکن نہ ہو سکا اور یہاں، چیک ریپبلک میں تقریبا مفت ہی ہم والدین بننے کے پراسس
میں تھے۔ بہت/بہت/بہت مشکلات رہیں، حتیٰ کہ بچے کی پیدائش کے وقت تک بھی ایک
پیچیدگی ایسی آن پڑی کہ ڈاکٹر نے کہا کہ یاتو بچہ یا ماں بچے گی۔ مجھے کچھ سمجھ
نہیں آ رہا تھا اور میں ڈاکٹر سے صرف یہی کہ سکا کہ "ڈاکٹر، پلیز ڈُو یؤر
بیسٹ ٹُو ڈُو دی بیسٹ!"
میرا بیٹا جیکب اور میری بیوی جوزفین دونوں بچ گئے اور میں دوسری مرتبہ، مگر
پہلی مرتبہ بائیولاجیکل، باپ بن گیا۔
کچھ عرصہ بعد پراگ میں میری مدت ملازمت ختم ہوئی اور ہم امریکہ ہوم-لیو پر چلے
گئے اور اس دوران سسٹر ڈینیس اپنا پاسپورٹ لینے میرے پاس نہ آئی!
میری رہائش شکاگو میں ہے اور وہیں پر
میری بیوی جوزفین کے والدین بھی رہائش پذیر تھے مگر وہ ہماری آمد سے چند ہفتے قبل
اپنے بیٹے کے پاس ، آسٹن (ٹیکساس) میں شفٹ ہو گئے تھے ۔ نہایت ہی آوازاری میں، میں
نے اپنی بیوی کی بات مانی، اپنی بیٹی اور بیٹے کو ساتھ لیا اور آسٹن کی طرف روانہ
ہو لیے۔ وہاں اپنے سالے کے گھر میں، میں نہایت بے آرام تھا کہ وہ گھر کچھ چھوٹا
تھا مگر بیگم، بیگم ہوتی ہے، بات سننا اور ماننا پڑتی ہے۔ وہاں رہتے ہوئے بیچ میں
ایک اتوار مجھے میری ساس نے زبردستی اٹھادیا کہ چرچ چلو۔ میں اتوار کو دیر تک سونے
کا عادی ہوں اور میں نے ساس کو ٹکا سا جواب دے دیا۔ مگر کچھ دیر بعد جوزفین آئی
اور اب کی بار مجھے چرچ جانے کے لیے اٹھنا ہی پڑا۔
"ذرا تصور کرو مبشر کہ میں جوکہ دہریہ تھا، وہ چرچ جا رہا تھا۔"
میں قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا رہا اور جوزفین کو دل میں کوستا بھی رہا۔ اسی
چڑچڑے موڈ میں، میں ان سب کے ہمراہ چرچ جا پہنچا اور جا کر باقی لوگوں کے ساتھ
بگڑے ہوئے موڈ میں بیٹھ گیا۔ میں نے اپنا سر اور نظریں نیچے کی ہوئی تھیں تاکہ
دوسرے میرے چہرے پر بیزاری نہ دیکھ سکیں کہ میں نے ایک مانوس آواز سنی۔ سر اٹھا کر
دیکھا تو میرے سامنے روسٹر کے پیچھے سسٹر ڈینیس کھڑی تھی، مجھے دیکھ رہی تھی، اور
نہایت ہی پیار بھرے چہرے سے مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین
نہ آیا۔ مجھے لگا کہ شاید میں کوئی فلم دیکھ رہا ہوں ، مگر وہ حقیقت ہی تھا۔
جیسے ہی عبادت ختم ہوئی، سسٹر ڈینیس میرے پاس آئی، مجھے گلے سے لگایا، میرا
ماتھا چوما اور صرف ایک لفظ کہا:
"سائمن، کب؟"
"سائمن، کب؟"
میں انکی آواز میں چھپا سوال سمجھ گیا۔ میں نے جواب دیا: "سسٹر، ابھی اور
اسی وقت۔"
اور پھر میں عیسائی ہو گیا۔ میں مان گیا کہ خدا ہے۔ میں مان گیا کہ اسی نے
تمام الہامی مذاہب بنائے۔ میں مان گیا کہ اس سے کٹ کر جینا نری حماقت ہے، اور کچھ نہیں۔ میں جان گیا کہ
مجھے اپنی زندگی کو ایک مطلب کے تحت بسر کرنا ہے اور یہ مطلب مجھے میرا مذہب دے
گا۔
میں نے اپنے والدین سے بات کی، جو خود بھی دہریے تھے۔ وہ میری اس بات پر کچھ
خفا ہوئے مگر کہا کہ تمھاری مرضی ہے سائمن تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے بپتسما
لیا اور پھر اس دن سے لیکر آج کے دن تک اور آنے والے سارے دنوں تک اپنے آپکو لارڈ
جیسس اور خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے دائرے میں رکھنے پر ڈٹ گیا۔
"اور ہاں مبشر، میں تو بتانا ہی بھول گیا کہ سسٹر ڈینیس آسٹن میں تعینات نہ تھیں۔ وہ پراگ
سے نیویارک آئیں اور وہاں سے انکو انکے چرچ نے آسٹن بھیجا تھا اور وہ ہمارے آس پاس
ہی وہاں پہنچی تھیں۔ انہیں وہاں دیکھ کر مجھے معلوم ہو گیا کہ انکو پراگ مجھ سے ہی ملنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مجھے
اپنے آسٹن میں قیام کے دوران اس چرچ کے ایک ممبر نے بتایا تھا کہ سسٹر ڈینیس نے
ایک شخص کہ جس نے انہیں پراگ ائرپورٹ سے وصول کیا تھا کے لیے بہت/بہت/بہت/بہت دعا
کرنے کو کہا تھا۔ اور کہا تھا کہ وہ جو مجھے پراگ ائرپورٹ لینے آیا تھا، وہ میرے
لیے میرا بچہ ہی تھا۔ میں نے جب یہ سنا تو میری آنکھیں آنسؤوں سے بھر گئیں۔ میں
رونا شروع ہو گیا۔ میرا گلا رندھ گیا اور میں چرچ کے اس ممبر کو یہ بھی نہ بتا سکا
کہ میں ہی سسٹر ڈینیس کا وہ "بچہ" ہوں کہ جس نے ان سے کتنی بدتمیزی کی
تھی!"
میں پہلے بھی سائمن تھا۔ اب بھی ہوں۔ مگر اب میں ایک عیسائی سائمن ہوں۔ لارڈ
جیسس اور خدا کی رحمت اور مرضی میں خوش۔ تھینک گاڈ!
آپ سب دوستوں کے لیے دعا کہ آپ خدا کو جس روپ میں بھی مانتے
ہیں، وہ آپ پر ہمیشہ اپنی رحمت کا سایا ہی رکھے۔ سلامت رہیں اور سطحی تعصبات سے
اوپر اٹھ کر جینے کی کوشش کریں۔