بدھ، 26 فروری، 2014

اللہ اور عیسائی

سب سے پہلےتواس بات کی معذرت کہ مسیحی کو عیسائی لکھ رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ عرفِ عام میں مسیحیوں کو عیسائی ہی کہا جاتا ہے جو کہ درست لفظ نہیں۔ مسیحی، اپنے آپ کو "مسیحی" کہلواتے ہیں، عیسائی بس معاشرتی طور پر قبول کرتے ہیں، مگر دل سے نہیں۔

دوسرا یہ کہ یہ کہانی سچی ہے، مگر کچھ تو اپنے دوست کے کہنے پر اور دوسرا تھوڑا بہت روحانیت کو پڑھنے جاننے کے حوالے سے بھی، اس کہانی کے کرداروں کے نام تبدیل کر دیے ہیں۔

اپنے مسلمان دوستوں سے بھی یہ کہنا ہے کہ اللہ، اسکی بنائی ہوئی کائنات، مذاہب، لوگ اور  نازل کی ہوئی کتب و اصول صرف آپ کی ہی ملکیت نہیں۔ وہ رب العالمین ہے، رب المسلمین نہیں۔ اسکے بنائے ہوئے اصول اٹل ہیں اور وہ اصول اس نے اپنے پیغمبروں کے لیے بھی تبدیل نہ کیے،  اور نہ ہی کرے گا۔ آپ سارے نہیں، مگر کچھ ہیں جو اللہ، اسلام، اسکی کائنات کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی سمجھتے ہیں اور اپنے آپکو اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے عہدوں پر خود ہی سے بٹھا بھی دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے مگر ہمت اگر ہے تو یارو، ذرا جا کر پوچھیے نا ان سے جو کہلواتے تو مسلم ہیں، مگر کاٹتے گلے ہیں،  بسوں کو بموں سے اڑاتے ہیں، تشدد کو ابھارتے ہیں، تبرہ کرتے ہیں، نور و بشر کے جھگڑوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر اپنی باری اگر آئے تو برقعے میں بھی بھاگ نکلتے ہیں۔ مگر آپ سب سے معذرت کہ "اللہ اور عیسائی" کا موضوع یہ نہیں، مگر تمہید کی نیت سے کہنا ضروری سمجھا۔ امید کہ آپ گستاخی معاف فرمائیں گے اگر آپ بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک نہیں ہیں تو!

داستان شروع ہوتی ہے۔

 انتساب:  ڈی وی سی، میرے دوست،  میں یہ آپکے، آپکے خاندان اور آپکے دوستوں کےلیےتحریر کررہاہوں۔ اللہ آپ پر اور آپکے مخلص چاہنے والوں پر اپنی رحمت ہمیشہ قائم رکھے (آمین)۔

سائمن کی کہانی، انکی ہی زبانی سنئیے:

قریبا پندرہ سال پہلے میں چیک ریپبلک کے دارلحکومت، پراگ، میں امریکن ایمبیسی میں کونسلر آفیسر تھا۔ جمعے کی شام تھی اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ ویک اینڈ کے لوازمات کے ساتھ اپنے کولیگز کے ساتھ پارٹی موڈ میں تھا۔ میں شادی شدہ تھا، مگر بے تحاشا کوشش اور علاج کے باوجود بے اولاد تھا۔ شام آٹھ بجے مجھے ائرپورٹ کے لائزن آفس سے کال آئی کہ ایک امریکی شہری ایک جعلی پاسپورٹ پر پکڑی گئی ہے اور لہذا "آپکو لازمی آنا ہے کیونکہ یہ آپکی ہی ذمہ داری ہے۔"  دل میں گالیاں نکالتا اور طوعا کرہا میں اس بہترین پارٹی سے اٹھا اور پراگ انٹرنیشنل ائرپورٹ جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک عجب منظر یہ دیکھا کہ قریبا ستر سال کی عمر کی ایک بوڑھی امریکی نن شاید "دنیا کے بھدے ترین اور نکمے ترین نقلی پاسپورٹ" پر اپنی تصویر سکاچ ٹیپ سے چپکائے ائرپورٹ حکام کی تحویل میں بیٹھی تھی۔ اسکو، اسکے پاسپورٹ کو دیکھ کر میرا موڈ شدید خراب ہو گیا، مگر میں اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور تھا، لہذا، اس "بڈھی کھوسٹ" کی مدد کرنا پڑی۔ میں اس خاتون کے جیسے ہی سامنے پہنچا، تو اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ تم مانو یا نہ مانو، مجھے لارڈ جیسس اور خدا نے تم سے ہی ملنے کےلیے یورپ بھیجا ہے۔

"مبشر، میں خدا اور کسی بھی مذہب پر یقین نہ رکھتا تھا۔ لہذا میں  نے بہت روکھے پن سے اس سے بات کی اور کہا کہ اپنا خدا اور لارڈ جیسس اپنے پاس رکھو اور مجھے بتاؤ کہ ادھر کرنے کیا آئی ہو؟"

اس بوڑھی نن نے بتایا کہ وہ چیک ریپبلک کےہنگری  (ایک اور چھوٹا یورپئین ملک) کے بارڈر والے علاقے کے ایک  دور دراز کے قصبہ میں کسی کام سے آئی ہے اور "یہ کام مجھے لارڈ جیسس اور خدا نے ہی کرنے کےلیے ادھر بھیجا ہے،" بوڑھی نن، کہ جسکا نام "سسٹر ڈینیس" تھا، نے کہا۔

میں نے ایک طنز سے بھرپورنظر اس پر ڈالی۔ اپنے سفارتخانے کے مینڈیٹ کے مطابق اسکی مدد کی اور اسے قانون کے مطابق گارنٹیز کے تحت ائرپورٹ سے رہا کروا کر اسے تاکید کی کہ ایک ہفتے میں سفارتخانہ آکر مجھ سے اپنا پاسپورٹ وصول کر لے۔ بوڑھی نن نے ایک نگاہِ غلط مجھ پر ڈالی، مسکرائی اور کہا کہ ٹھیک ہے۔

"مبشر، میرے دوست، میں اور میری بیوی، جوزفین، اولاد کے شدید خواہشمند تھے۔ جدید طب کے تمام طریقے استعمال کر چکے تھے، مگر جوزفین ظاہری طور پر بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتی تھی۔ ہم دونوں نے طویل مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اب یہ کوشش ترک کر دینی ہے اور اسکی بجائے  ایک بچہ گود لے لینا ہے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنی مدتِ ملازمت میں ہی چیک ریپبلک سے ایک بچہ گود لے لیا جائے اور پھر اسکو ساتھ امریکہ لے جایا جائے۔ میری مدتِ ملازمت میں ابھی کچھ ماہ باقی تھے اور میں نے بچہ ایڈاپٹ کرنے کی مقامی اتھارٹی کو اپنی بیوی کی اجازت سے درخواست بھی دے رکھی تھی اور اس محکمہ سے ہم بچہ ایڈاپٹ کرنے کی پرمِشن کا انتظار کر رہے تھے۔"

اگلے ایک ہفتے میں سسٹر ڈینیس نہ آئی اور مجھے اس پر اور بھی شدید غصہ آیا۔ اگلے ویک اینڈ پر میں نے اور جوزفین نے چیک ریپبلک کی سرحد پر ایک نہایت ہی چھوٹے سے گاؤں میں دو چار دن چھٹیاں گزارنے کا فیصلہ کیا اور قریبا رات میں سفر کرتے ہوئے علی الصبح وہاں جا پہنچے۔ نہایت ہی خوبصورت گاؤں تھا۔ ہرطرف پھول ہی پھول۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں، پھولوں سے بھری۔ گلیاں، پھولوں سے بھری۔ گھر، انکے دالان، گلی میں کھلنے والی کھڑکیاں، بازار، دکانیں، ریستوران، سب کے سب، پھولوں سے بھرے۔ نہایت خاموش، نہایت پرسکون اور چھوٹا سا گاؤں تھا وہ۔ میں اور میری بیوی وہاں تین روز گزار کر واپس پراگ آن پہنچے اور زندگی میں مصروف ہو گئے۔ میرے باس نے تین چار مرتبہ مجھ سے سسٹر ڈینیس کا پوچھا تو میں نے آگے سے ایک بدتمیزانہ جواب دے کر گفتگو ختم کر ڈالی مگر میرا دماغ کھول جاتا تھا جب میں اس "بڈھی کھوسٹ، اسکے بھدے نقلی پاسپورٹ اور اسکی احمقانہ باتوں کہ لارڈ جیسس اور خدا کے اسے میرے پاس بھیجنے" کا سوچتا تھا۔

چھٹی گزارنے سے واپسی کے چوتھے دن بچہ ایڈاپٹ کرنے کی اتھارٹی سے ہمیں ایک خط اور اسی دن ایک کال موصول ہوئی کہ اس اتھارٹی نے ہمارے لیے ایک بچی تلاش کی ہے کہ جسکے والدین اس دنیا میں نہیں اور اگر ہم چاہیں تو وہ بچی ایڈاپٹ کر سکتے ہیں مگر اس جگہ پر آنا جانا اسی اتھارٹی کی گاڑی میں ہوگا کیونکہ یہ بھی انکے قانون کا حصہ تھا۔ میں نے اپنے دفتر اطلا ع دی تو کچھ لیت ولعل کے بعد اجازت مل گئی اور یوں ایک دن کے بعد ہی میں اور جوزفین اس اتھارٹی کی ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں میں اس طرف چل نکلے جہاں سے ہمیں وہ بچی ایڈاپٹ کرنا تھی۔ ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد قریبا صبح سات بجے ہم اس جگہ پہنچےاور چونک گئے: یہ وہی گاؤں تھا جہاں میں اور میری بیوی قریبا ایک ہفتہ قبل چھٹیاں لیکر آئےتھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرااٹھے۔ ایڈاپشن اتھارٹی ہمیں وہاں اپنے لوکل نمائندے کے دفتر میں لے گئی جو اس وقت چرچ گیا ہوا تھا عبادت کےلیے۔ تقریبا دو گھنٹے انتظار کے بعد وہ صاحب آئے اور انکے پیچھے ایک خاتون کے بازؤں میں وہ پیاری سی بچی تھی جو کہ ہمیں ایڈاپٹ کرنا تھی۔

"مبشر، جس خاتون کے بازؤں میں وہ بچی تھی، وہ سسٹر ڈینیس تھی!"

میں نے جیسے ہی سسٹر کو اوراس نے مجھے دیکھا تو میں ہکا بکا اور وہ نہایت ہی معصومیت اور پیار سے مسکرا اٹھی، کہنے لگی: "دیکھا سائمن، میں نے کہا تھا نا کہ لارڈ جیسس اور خدا نے ہی مجھے تمھارے لیے یہاں بھیجا ہے کہ تمھاری میری ملاقات ہو سکے۔"

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا،مگر خیر میں نے کہا کہ یہ ایک رینڈم واقعہ ہو سکتا ہے۔ میں نے سسٹر ڈینیس کو گلے سے لگایا، اسکا شکریہ ادا کیا اور اسکے بازؤں سے بچی لیکر واپس پراگ کی طرف روانہ ہونے کی ٹھانی۔ روانگی سے ایک منٹ پہلے سسٹر ڈینیس میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ پراگ میں اس کا جاننے والا ایک پرانا دوست ہے اور "یہ ایک قدیم بائبل کا نسخہ ہے، میرے دوست کی فرمائش پر کیا تم یہ نسخہ اسے دے سکتے ہو؟" میں بھلا کیوں انکار کرتا، حامی بھری، بائبل لی اور اس پر پھر طنز کیا کہ "سسٹر، اپنا امریکن پاسپورٹ تو لے جاؤ!" وہ مسکرائی اور کہا، کہ جب لارڈ جیسس اور خدا کو منظور ہوگا میرا اس ملک سے جانا، جاتے ہوئے میں لے جاؤنگی۔

پراگ میں سسٹر ڈینیس  کا دوست اتفاق سے میرے گھر سے صرف دو گلیاں پیچھے رہتا تھا۔ میں اور میری بیوی اپنی ایڈاپٹڈ بیٹی کو بازؤں میں لیکر اسکے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب امریکہ سے فارغ التحصیل ڈاکٹر ہیں اور تولیدی امراض کے ماہر ہیں اور حال ہی میں اپنی کوئی نہایت ایڈوانس ڈگری لے کر واپس آئے ہیں۔ باتوں باتوں میں ہم نے انہیں بتایا کہ ہم بائیولاجیکل والدین بھی بننا چاہتےہیں، مگر شاید ہماری قسمت میں ہی نہیں۔ ڈاکٹر نے کچھ مزید بات چیت کی اور بتایا کہ ابھی ایک دو نئے پروسیجر دریافت ہوئے ہیں اور اگر میں اور جوزفین وہ ٹرائی کرنا چاہیں تو شاید "خدا مہربانی کرے گا۔"

"مبشر بھائی، مجھے اس فقرہ سے ہی چڑ تھی کہ "خدا مہربانی کرےگا،" مگر میں نے سسٹر ڈینیس کے اس نہایت ہی معقول ڈاکٹر دوست کی بات مانی اور اپنا علاج شروع کروا دیا۔"

ان-ویٹرو، نہایت ہی مشکل اور تکلیف دہ عمل تھا، مگر کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ  میری بیوی جوزفین حاملہ ہو گئی۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ ہزاروں، لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ میں یہ کام ممکن نہ ہو سکا اور یہاں، چیک ریپبلک میں تقریبا مفت ہی ہم والدین بننے کے پراسس میں تھے۔ بہت/بہت/بہت مشکلات رہیں، حتیٰ کہ بچے کی پیدائش کے وقت تک بھی ایک پیچیدگی ایسی آن پڑی کہ ڈاکٹر نے کہا کہ یاتو بچہ یا ماں بچے گی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور میں ڈاکٹر سے صرف یہی کہ سکا کہ "ڈاکٹر، پلیز ڈُو یؤر بیسٹ ٹُو ڈُو دی بیسٹ!"

میرا بیٹا جیکب اور میری بیوی جوزفین دونوں بچ گئے اور میں دوسری مرتبہ، مگر پہلی مرتبہ بائیولاجیکل، باپ بن گیا۔

کچھ عرصہ بعد پراگ میں میری مدت ملازمت ختم ہوئی اور ہم امریکہ ہوم-لیو پر چلے گئے اور اس دوران سسٹر ڈینیس اپنا پاسپورٹ لینے میرے پاس نہ آئی!

 میری رہائش شکاگو میں ہے اور وہیں پر میری بیوی جوزفین کے والدین بھی رہائش پذیر تھے مگر وہ ہماری آمد سے چند ہفتے قبل اپنے بیٹے کے پاس ، آسٹن (ٹیکساس) میں شفٹ ہو گئے تھے ۔ نہایت ہی آوازاری میں، میں نے اپنی بیوی کی بات مانی، اپنی بیٹی اور بیٹے کو ساتھ لیا اور آسٹن کی طرف روانہ ہو لیے۔ وہاں اپنے سالے کے گھر میں، میں نہایت بے آرام تھا کہ وہ گھر کچھ چھوٹا تھا مگر بیگم، بیگم ہوتی ہے، بات سننا اور ماننا پڑتی ہے۔ وہاں رہتے ہوئے بیچ میں ایک اتوار مجھے میری ساس نے زبردستی اٹھادیا کہ چرچ چلو۔ میں اتوار کو دیر تک سونے کا عادی ہوں اور میں نے ساس کو ٹکا سا جواب دے دیا۔ مگر کچھ دیر بعد جوزفین آئی اور اب کی بار مجھے چرچ جانے کے لیے اٹھنا ہی پڑا۔

"ذرا تصور کرو مبشر کہ میں جوکہ دہریہ تھا، وہ چرچ جا رہا تھا۔"

میں قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا رہا اور جوزفین کو دل میں کوستا بھی رہا۔ اسی چڑچڑے موڈ میں، میں ان سب کے ہمراہ چرچ جا پہنچا اور جا کر باقی لوگوں کے ساتھ بگڑے ہوئے موڈ میں بیٹھ گیا۔ میں نے اپنا سر اور نظریں نیچے کی ہوئی تھیں تاکہ دوسرے میرے چہرے پر بیزاری نہ دیکھ سکیں کہ میں نے ایک مانوس آواز سنی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو میرے سامنے روسٹر کے پیچھے سسٹر ڈینیس کھڑی تھی، مجھے دیکھ رہی تھی، اور نہایت ہی پیار بھرے چہرے سے مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ مجھے لگا کہ شاید میں کوئی فلم دیکھ رہا ہوں ، مگر وہ حقیقت ہی تھا۔

جیسے ہی عبادت ختم ہوئی، سسٹر ڈینیس میرے پاس آئی، مجھے گلے سے لگایا، میرا ماتھا چوما اور  صرف ایک لفظ کہا: 

"سائمن، کب؟"

میں انکی آواز میں چھپا سوال سمجھ گیا۔ میں نے جواب دیا: "سسٹر، ابھی اور اسی وقت۔"

اور پھر میں عیسائی ہو گیا۔ میں مان گیا کہ خدا ہے۔ میں مان گیا کہ اسی نے تمام الہامی مذاہب بنائے۔ میں مان گیا کہ اس سے کٹ کر جینا   نری حماقت ہے، اور کچھ نہیں۔ میں جان گیا کہ مجھے اپنی زندگی کو ایک مطلب کے تحت بسر کرنا ہے اور یہ مطلب مجھے میرا مذہب دے گا۔

میں نے اپنے والدین سے بات کی، جو خود بھی دہریے تھے۔ وہ میری اس بات پر کچھ خفا ہوئے مگر کہا کہ تمھاری مرضی ہے سائمن تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے بپتسما لیا اور پھر اس دن سے لیکر آج کے دن تک اور آنے والے سارے دنوں تک اپنے آپکو لارڈ جیسس اور خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے دائرے میں رکھنے پر ڈٹ گیا۔

"اور ہاں مبشر، میں تو بتانا ہی بھول گیا کہ  سسٹر ڈینیس آسٹن میں تعینات نہ تھیں۔ وہ پراگ سے نیویارک آئیں اور وہاں سے انکو انکے چرچ نے آسٹن بھیجا تھا اور وہ ہمارے آس پاس ہی وہاں پہنچی تھیں۔ انہیں وہاں دیکھ کر مجھے معلوم ہو گیا کہ  انکو پراگ   مجھ سے ہی ملنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مجھے اپنے آسٹن میں قیام کے دوران اس چرچ کے ایک ممبر نے بتایا تھا کہ سسٹر ڈینیس نے ایک شخص کہ جس نے انہیں پراگ ائرپورٹ سے وصول کیا تھا کے لیے بہت/بہت/بہت/بہت دعا کرنے کو کہا تھا۔ اور کہا تھا کہ وہ جو مجھے پراگ ائرپورٹ لینے آیا تھا، وہ میرے لیے میرا بچہ ہی تھا۔ میں نے جب یہ سنا تو میری آنکھیں آنسؤوں سے بھر گئیں۔ میں رونا شروع ہو گیا۔ میرا گلا رندھ گیا اور میں چرچ کے اس ممبر کو یہ بھی نہ بتا سکا کہ میں ہی سسٹر ڈینیس کا وہ "بچہ" ہوں کہ جس نے ان سے کتنی بدتمیزی کی تھی!"

میں پہلے بھی سائمن تھا۔ اب بھی ہوں۔ مگر اب میں ایک عیسائی سائمن ہوں۔ لارڈ جیسس اور خدا کی رحمت اور مرضی میں خوش۔ تھینک گاڈ!


آپ سب دوستوں کے لیے دعا کہ آپ خدا کو جس روپ میں بھی مانتے ہیں، وہ آپ پر ہمیشہ اپنی رحمت کا سایا ہی رکھے۔ سلامت رہیں اور سطحی تعصبات سے اوپر اٹھ کر جینے کی کوشش کریں۔ 

اتوار، 23 فروری، 2014

میرے پاس ٹائم نہیں ( بسلسلہ "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کہانی نمبر2)

یہ مضمون میں اپنے "اصلی اور ٹویٹری جگرز" سید علی حمید، محسن حجازی، واسع عظیم ،  استاد جافر پھیسلابادئیے  اور دیگر یاروں کے نام کرتا ہوں۔

جون 2009:

بٹ صاحب، ان سے ملیں، یہ احمد سلیم ہیں، میرے ایک سینئر صحافی دوست نے اسلام آباد کلب کی ایک فارمل گیدرنگ میں ایک صاحب کا تعارف کروایا۔ کیا حال ہیں، احمد صاحب؟ میں نے پوچھا۔ ٹھیک اور بس آپ سے ملنے کی خواہش تھی کہ ممتاز بھائی نے آپکے بارے میں بہت بتا رکھا تھا،احمد صاحب نے کہا اور ممتاز بھائی نے اس بات پر ایک "خواہمخواہ کا معاشرتی" قہقہہ لگایا اور پھر آس پاس کی باتیں شروع ہو گئیں۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ احمد صاحب ایک بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے کے کنٹری ڈائریکٹر تھے اور انکو اپنے ادارے کی بابت کئی ایک پروسیجرل مسائل کا سامنا تھا۔ اسی محفل میں ممتاز صاحب نےمجھے کہا کہ "ملکوال کے شہزادے، احمد کی مدد کر دو، بےچارہ بہت دور کے ایک ملک سے ادھر آیا ہے، اچھا انسان ہے، کل کو ہمارے تمھارے کام بھی آئے گا۔" ممتاز صاحب میرے لیے قابل احترام شخصیت تھے اور انکی بات مانتے ہوئے میں نے اور احمد صاحب نے اپنے وزیٹنگ کارڈز ایکسچینج کیے اور پھر اگلے تین ہفتوں میں، میں نے انکی بھرپور مدد کی تاکہ انکے ادارے کے کئی پروسیجرل معاملات حل ہو سکیں۔ ہم دونوں اچھے دوست بن گئے اور ہمارا ملنا جلنا شروع ہو گیا۔

پھر میں نےایک اعلیٰ ادارے کے نوکری چھوڑ دی اور فیصلہ کیا کہ اب خود سے کچھ کرنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے خود پر مکمل بھروسہ تھا اور مغربی طرز پر میں بھی کوئی بہت بڑی جوہری تبدیلی لےکر آؤں گا، مگر بہرحال ایک کوشش کرنے کا مزاج تھا اور سوچا کہ اسکو ذرا چیک تو کر لیا جائے۔

خواہمخواہی تبلیغ-1:

ہم جیسے معاشروں میں، ماہانہ آمدنی کے جال میں پھنسے لو مڈل کلاس لوگ ساری عمر اپنی زندگی اور عمر کا خراج ہی دیتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے خواب بنتے ہیں، مگر پھر بجلی، گیس، پانی، فون کے بل ساری کی ساری "مثبت گیس" نکال باہر کرتےہیں۔ پاکستانی لومڈل کلاس، میرے اپنے تجربے کے مطابق، نہایت/نہایت/نہایت کنفیوزڈ رویے کی حامل ہے اور میں چونکہ خود اسی طبقہ سے ہوں، میں بہت سی مثالیں اپنی زندگی، خاندان، یاروں دوستوں اور اپنی طرز کی معاشرت رکھنے والوں کی زندگیوں سے دے سکتاہوں۔ موضوع کی طرف آتے ہیں ابھی، مگرایک مثال یہ دیکھ لیجیے کہ آپ کسی بھی لومڈل کلاس سے اسکا حال پوچھیں تو تین چار گھسے پٹے ہوئے جواب آئیں گے:

1۔ خدا کا شکر ہے جی، گزر رہی ہے۔
2۔ شکر الحمداللہ، اللہ کا بڑا کرم ہے، سب ٹھیک ہے۔
3۔ جو دن گزر جائے اچھا ہے۔ بس اللہ کا کرم ہے۔

مگر چند سیکنڈز کے بعد ہی شاید اسی سانس میں میرے طبقہ کے لوگ مہنگائی، برے حالات، معاشی مجبوریوں، خاندانی تقاضوں وغیرہ کا ذکر کرتے ملیں گے اس بات کو "مکمل سہولت" کے ساتھ بھولتے ہوئے کہ مبلغ سات سیکنڈ پہلے انہوں نے "اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔" کوئی تو بتائے کہ شکر کے ساتھ شکوہ محض منافقت ہے، ارادی یا غیرارادی، ہے صرف منافقت ہی۔ زندگی کے باقی پہلوؤں پر بھی کچھ ایسی ہی کج روی ہے اور شاید چند ہی آپکو اپنی اپنی زندگیوں کا شعوری ادراک (خاور واہلہ سے معذرت کے ساتھ) رکھ کر جیتے ہوئے ملیں گے!

لومڈل کلاس، در حقیقت، "ڈنگ ٹپاؤُ" کلاس ہے، اور کچھ نہیں۔ معاشی طور پر بھلے اس سے نکلنا مشکل تر ہو، مگر آپ سب کوشش کریں کہ اس  کے ساتھ جڑی مخصوص ذہنیت کو تین نہیں، تیس طلاقیں دیں، فائدہ ہوگا۔

داستان کی طرف واپس آتے ہیں۔

جون 2012:

زندگی بہت مشکل سے گزر رہی تھی۔ بے تحاشا ایفرٹ کر رہا تھا اور دل ہی جانتا ہے کہ زندگی کے معاملات کیسے مینیج کیئے اور کیسے چلائے۔ لیز کی گاڑی کی قسط لینے کے لیے بینک والوں نے دھمکیاں دیں تو انکو اپنے اندر کے دیہاتی پنجابی کو جگا کر "مطمئن" کیا۔ جیب میں کل پانچ سو روپے، اور گاڑی کا پٹرول ختم، خود ہی جانتا ہوں کہ اگلے دن کے کھانے کے پیسے نہ تھے، مگر اس میں سے بھی گزرا۔ "مخلص یار دوست"  تقریبا  ننانوے اعشاریہ نو فیصد فصلی بٹیرے اور چوری کھانے والے رانجھے ثابت ہوئے، انکی بےرخی بھی برداشت کی، اور نجانے کیا کچھ۔

ایسے ہی حالات میں احمد سلیم صاحب سے ایک ملاقات کےلئے کافی جان ماری مگر وہ وقت نہ دیتے۔ اپنا کاروبار تھا (اور ہے) لہذا، ہمت و کوشش جاری رکھی کہ ایک انٹرنیٹ-بیسڈ پراڈکٹ کےلیے ان سے بات کی جائے۔ ایک دن انکے دفتر سے بلاوا آ ہی گیا اور میں ٹھیک وقت پر ان سے ملنے جا پہنچا۔ انکے ایف-8 کے دفتر کے باہر گیٹ پر کھڑے ہوئے میں نے انکو باہر سے انکے دفتر میں دیکھا، وہ بڑے سکون سے چائے پی رہے تھے اور کسی سے گپ شپ لگا رہے تھے۔ انکو دیکھنے کا زاویہ کچھ ایسا تھا کہ انکی سائیڈ میری طرف تھی اور مجھ پر انکی نظر نہ پڑ سکی۔ باہر موجود گارڈ نے انہیں اطلاع دی کہ "کوئی مبشر صاحب ملنے آئے ہیں،" تو انہوں نے گارڈ سے کہا کہ انہیں کہہ دو "صاحب دفتر میں نہیں۔" اور میں جناب کو دیکھ رہا تھا عین اس وقت۔

میں نے جب نرمی سے اصرار کیا تو گارڈ نے دوبارہ فون کیا، کہ مجبوری میری تھی، اور اس مرتبہ جواب بہت اعلیٰ پائے کا تھا جو مجھے نیلی وردی پہنے گارڈ نے من و عن گوش گزار کر ڈالا:

صاحب آکھدے پئے نیں کہ میرے کول ٹیم کوئی نئیں (صاحب کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ٹائم نہیں)!

توہین کے شدید احساس سے میری آنکھیں بھر آئیں اور گلے میں آنسو، تھوک، بے بسی اور نفرت پھنس گئے جو تھوڑی دیر بعد غصے میں تبدیل ہوئے اور میں نے اپنے فون سے انکا (بھی) نمبر ڈیلیٹ کر ڈالا۔

زندگی چلتی رہی، انکی بھی اور میری بھی۔ وہ اب پاکستان میں نہیں، اور میرا انکے ساتھ اس دن کے بعد ٹاکرا بھی نہ ہوا، مگر زندگی میری اب ویسی نہیں جیسا کہ جون 2012 میں تھی۔ میں نے کچھ محنت کی، کچھ وقت ضائع کیا، کچھ دوستیاں بنیں، کچھ دوستیاں ٹوٹیں، کچھ سبق سیکھے، کچھ سبق سکھائے، غرضکہ زندگی کو اسی کی "سٹرائیڈ" میں لیا اور اب  تقریبا پونے دو سال کے بعد، زندگی پاکستان کے معاشی اور معاشرتی انڈیکیٹرز کے اعتبار سے ایک مضبوط مڈل کلاس کے آس پاس منڈلا رہی ہے اور میں یہاں بھی نہیں رک رہا کہ زندگی کا سفر ہمیشہ آگے کی ہی جانب اور بہتر یہ کہ انسان کی ترقی کے انڈیکیٹرز بھی آگے کی ہی طرف ہوں۔

خواہمخواہی تبلیغ-2:

 چھوٹے چھوٹے مگر ہونے والے کام کرنے کی عادت ڈال لی، اپنے آپکو ہر قسم کےسیاسی، مذہبی، سماجی، نسلی اورمعاشرتی تعصبات وغیرہ سے اوپر اٹھا لیا۔ کبھی کبھی ناکام ہوجاتاہوں، مگر شاید اسی فیصد سے زیادہ میرا پرسینلٹی-میک اب ایک غیرمقلد کا ہے۔ اپنی زندگی جیتا ہوں اور اپنے اور دوسروں کےلیے، کہ جن کی دل سے قدر ہے اور جن کے خلوص کا معلوم ہے، کوشش کرتا ہوں کہ کسی بھی طرح، کوئی  ارتقائی بہتری کر سکوں کہ انقلابی تبدیلی نرا ڈھکوسلا ہوتی ہے اور اپنے تمام دوستوں کو ایک وقت میں ایک قدم چلنے کی ہی درخواست کرتا ہوں۔

کہنا صرف یہ ہے کہ ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: محنت۔

مزید ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: مزید محنت۔

شدید ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: شدید محنت۔

زندگی میں شارٹ کٹس نہیں ہوتے۔ شدید ترین دباؤ میں اپنے اعصاب قابو میں رکھنے ہوتےہیں۔ دل میں ایک ارادہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنی معاشی وذاتی مجبوریوں کو یہ اجازت دینی ہی نہیں کہ وہ آپکو زندگی گزارنا ڈکٹیٹ کریں۔ زیادہ تر لوگ اپنی زندگیوں میں اپنی زندگی کی مجبوریوں سے ڈکٹیشن لے کر جی رہے ہوتےہیں اور انہیں انکا معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وہ زندگی جی نہیں، محض گزار رہے ہوتے ہیں، بالکل کسی ڈھور ڈنگر کی طرح۔

زندگی گزارنے کےلیے یارو ہمت کرنا پڑتی ہے۔ زیادہ نشیب اور کم فراز دیکھنے کے فلسفے کو سمجھنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں زندگی کے سمندر میں چھلانگ لگانا پڑتی ہے اور پھر اسکی لہروں میں ممتاز بھائی، احمد سلیم اور ان جیسے درجنوں لوگوں سے "میرے کول ٹیم کوئی نئیں" سننا پڑتا ہے۔ یہ سب چلتا ہے، مگر اپنی دلیری اور ہمت کو اپنی،  اپنے پیاروں اور مخلصوں کےلیے ہردم ڈھال بنا کر رکھنا پڑتا ہے۔ اور یقین کریں کہ یہ مشکل کام نہیں، ہاں ایک شعوری ادراک کے ساتھ اپنے آپکو مستقل مزاج بنا کر رکھنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ بہتر کہ آپ یہ چیلنج جیتیں، ہاریں نہیں۔

آخر میں کہیں پڑھا تھا کہ سمندر کے کنارے ایک پاؤں سمندر میں ڈال کر اسکی گہرائی اور خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہو سکتا، اسکے لیے اس میں چھلانگ مارنا پڑتی ہے۔

کھرا سچ (مگر مجھے مبشر لقمان نہ سمجھیں، پلیز):

علی حمید تو میرے ساتھ، بلکہ مجھ سے پہلے ہی چھلانگ مار چکا۔  "موسن ہرزہ سرا" اور "واسع پٹواری" بھی چھلانگ مار چکے، مگر شاید ابھی "میرے کول ٹیم نئیں" کےفیز کے آس پاس ہیں۔

استاد جافر (نحش)، آپ بھی چھال مار دیں، پلیز۔زندگی آپکو مایوس نہ کرے گی، کم از کم جو ابھی ہے، اس سے کم نہ ہوگی۔

 چھال ماریں گا نحشا، تدے ای تے ترنا آوے گا، تینوں کسی حبشی دی قسم ای!

زندگی کے سمندر میں آپ سب کا تہہ دل سے منتظر،


مبشر اکرم 

جمعرات، 20 فروری، 2014

فوجی آپریشن، طالبانی شریعت اور معاشرتی چیاؤں چیاؤں

ارادہ تو لکھنے کا تھا کہ پاکستانی کس طرح اپنے اوپر مسلط کردہ خودساختہ سازشی نظریات اور تیزابی نفرت کو رد کرکے امریکیوں  اور امریکہ سے سیکھ سکتے ہیں مگر کل شام دوستوں کے ساتھ ایک محفل میں چند ایک روائتی باتوں نے توجہ اس طرف دلا دی۔ ابھی پاکستانیوں کی تقریبا تمام محافل میں آپکو لوگ کتابوں، موسیقی، موسم، راگ، سیاحت، نئے خیالات وغیرہ پر بات کرتے نہ ملیں گے۔ بات اگر ہو رہی ہوتی ہے تو سیاست، فوج، طالبان اور حالیہ آنےوالے انقلاب کے بارے میں۔  انقلاب؟ عقلمند را اشارہ کافی است!

کل کی محفل میں ایک صاحب بڑھ چڑھ کر فوج پر تبرے بھیج رہے تھے۔ کام کے وہ اکاؤنٹیٹ ہیں اور پچھلے نو سالوں سے وہ اپنے سی-اے کے درمیان میں کہیں اٹکے ہوے ہیں اور اگلے نو سال تک انکا ارادہ تو یہی لگتا ہے کہ سی-اے ان سے ہونا نہیں، کیونکہ ملک کے بڑے بڑے مسائل جو حل کرنے ہوتے ہیں۔ انکی چار پانچ منٹ کی زبردست تقریر کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ یار فہیم (یہ انکا اصلی نام نہیں)، ذرا یہ تو بتا کہ اگر کھاریاں سے ایک ٹینک کوئٹہ بھیجنا ہوتو اسکا پروسیجر اور پراسس کیا ہے اور یہ کہ پاکستانی فوج کی کتنی کورز اور کمانڈز ہیں؟ موصوف نے پلکیں جھپکیں اور کہا کہ میں کوئی فوجی سپیشلسٹ ہوں؟ میں نے جواب دیا کہ محترم، آپ پچھلے کتنے ہی منٹوں سے فوج، ایجنسیوں، سیاست وغیرہ پر بحث کر رہے ہیں، تو میں نے سوچا کہ شاید آپکے پاس بہت علم ہے، مگر اب معلوم ہوا ہے کہ آپکے پاس علم نہیں،صرف  رائے ہے اور وہ بھی اپنے جذبات پر مبنی سنی سنائی باتوں پر۔ کچھ اور بھی گفتگو ہوئی، مگر بنیادی جزو یہی تھا۔

دوستو، ذرا اپنے دل کو ٹٹولیے اور اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ پاکستانی فوج، سیاست، ریاست، ریاستی اداروں اور دیگر قومی امور پر آپکی گفتگو میں "علم اور رائےزنی" کا تناسب کیا ہے؟ آپ سے اپنے دل کو ٹٹولنے کو اس لیے کہا کہ انسان اپنے تئیں شاید خدا سے تو جھوٹ بول سکتا ہو، مگر اپنی ذات سے جھوٹ بولنا ناممکن ہوتا ہے، لہذا، دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچیں کہ آپ کی ایسے موضوعات پر گفتگو میں علم اور رائے کا تناسب کیا ہے؟ اور کیا وہ تناسب صحتمندانہ ہے، جذباتی ہے، علمی ہے یا جاہلانہ ہے؟ یاد یہ بھی رکھیں کہ، میرے سمیت، ہم سب میں کہیں نہ کہیں ایک جاہل چھپا بیٹھا ہوتا ہے اور دوسرے بھلے اسکو نہ جانیں، ہم اچھی طرح سے جانتے ہوتے ہیں۔

فوجی آپریشن کے معاملہ پر میں بھی کوئی ایکسپرٹ نہیں، یہ سچ ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ کچھ ڈائنامک سے واقفیت ہے۔ آجکل سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر آرمی پر ہر قسم کی طنزآرائی ہو رہی ہے اور ایک سیاسی شور برپا ہے کہ جس میں ریاست، سیاست اور معاشرت طالبان کی جاہلیت کی بابت کوئی یکسو فیصلہ یا حکمتِ عملی بنانے سے قطعا قاصر نظر آ رہے ہیں۔ وہ بھی کہ جو اصل میں اپنے سی-اے کے نویں سال میں ہیں، آرمی، اسکے آپریشنز اور اسکے آس پاس کی سیاست کے بزرجمہر بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کے سانحے کے بعد کوئی کلاسیکی انداز کا آرمی آپریشن نہیں ہوا ۔ ابھی تک۔ 1973-74 میں ہونے والا بلوچستانی آپریشن بھی ایک بھرپور سکیل کا آپریشن نہ تھا (جانتا ہوں کہ کئی دوست اختلاف کریں گے) کہ ایک بہت بڑے علاقہ میں آرمی نے کارروائی نہ کی، بلکہ چند محدود علاقوں میں آپریشن کیا گیا۔ آپ سب کے اپنے اپنے اذہان ہیں اور اس رائے سے اختلاف بھی آپکا بالکل حق ہے، مگر میری نظر میں ایک بھرپور آرمی ایکشن کہ جس میں ریاست فوجی تشدد استعمال کرنے کا مکمل حق اپنے فوجی بازو کو دے دیتی ہے ابھی تک اپنی پوری طاقت سے 1971 کے بعد پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہوا۔

سوات آپریشن کے بعد، جب سویلین اور عدالتی اہلکاران نے گرفتار شدہ دھشتگردوں کے ساتھ  قانون کے مطابق سلوک میں دیر کی تو، چند ایک لِیک ہونے والے واقعات کو چھوڑ کر، فوج نے محدود پیمانے پرکلاسیکی فوجی آپریشن کیا اور اس پر یار لوگوں نے بھی کافی ژالہ و سنگ باری کی اس بات کو سمجھے اور جانے بغیر کہ ایسے معاملات کوئی خلاء میں واقع نہیں ہوتے اور سویلین اور عدالتی اہلکاران کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ فوجی آپریشن حل نہیں پیدا کرتا، بلکہ ایک حل کےلیے ریاست کے حق میں زمین ہموار کرتا ہے اور ایک خاص مرحلے کے بعد سویلین قیادت، اجتماعی سیاسی شعور اور سویلین ادارے آگے بڑھ کر اس صورتحال کی باگ دوڑ سنبھال لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوا اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ زارداری صاحب نے پانچ سال فاٹا کادورہ  نہ کیا، کے پی کے وزیراعلیٰ ہوتی صاحب پشاور اپنے گھر سے ہی سوات کے پراجیکٹس کا افتتاح کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

آپ بھلے جو مرضی کہیں، مگر فوج نے کچھ سپیس بہرحال فراہم کیا ہے سویلین قیادت کوکہ معاملہ سازی کرکے پاکستان کا سیاسی اور معاشرتی کلچر بہتری کی طرف لے کر جایا جائے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ دنیا بھر میں سیاستدان ڈنڈے یا طاقت نہیں بلکہ اپنے فہم، وژن، سیاست، گورننس اور ان سے پھوٹنے والی جمہوری روایات کی بنیاد پر ہی فوج کو طاقت کے مراکز سے دور رکھتے ہیں اور پاکستانی فوج کے سیاسی گناہ بے شک بہت زیاد ہ ہیں، مگر پاکستانی سیاست ابھی اس طرف چلنا شروع ہوچکی ہے اور اسکو آہستہ آہستہ ہی چلنا ہے کہ فوج کو صرف اس کام تک ہی محدود رکھا جاسکے کہ جسکے لیے اس کا وجود موجود ہوتا ہے۔ اس میں ابھی وقت ہے، بہت وقت اور یہ قطعی طور پر ایک انقلابی طرز پر نہ ہوگا، بلکہ اسکا رستہ ارتقائی تھا، ہے اور رہے گا، لہذا اسکو شعوری طور پر جان کر رکھیے۔


آخر میں کہنا یہ ہے کہ فوجی آپریشن ایک قومی یکسوئی سے ہوتے ہیں۔ سیاست و قوم اگر ذہنی طور پر منقسم ہوتو کوئی آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سوات کا معاملہ آپکے سامنے ہے اور وہ جدید فوجی تاریخ میں ایک مشکل ترین اربن وارفئیر بیسڈ آپریشن تھا۔ فوج نے سیاسی و سویلین قیادت کے لیےوہ زمین فراہم کر ڈالی کہ جس میں انہیں آگے بڑھ کر معاملات کی باگ سنبھالنا تھی، مگر یہ کام ابھی تک مناسب طریقہ سے نہیں ہوسکا، مگر مثبت طریقے سے بہرحال آگے بڑھ رہا ہے، بھلے سست روی سے ہی سہی۔

ایف سی کے 23 گلے کٹنے کے باوجود، بحیثیت ایک پاکستانی، میں مذاکرات کےلیے ایک آخری/آخری/آخری موقع کے حق میں ہوں کیونکہ جانتا ہوں کہ منقسم دماغ کےساتھ قوم کا ایک طبقہ، ایک کلاسیکی فوجی آپریشن پر، چیاؤں چیاؤں کرے گی اور پھر فہیم صاحب جیسے اعلیٰ پائے کے مفکر ہونگے، پاکستانی میڈیا کے نوشیرواں ہونگے اور سوشل میڈیا کے چیتے۔ اس لیے فوجی آپریشن، جو کہ میرے خیال میں اب شایدطالبان کی طرف سے جلد کے نتیجے نہ ملنے پرہوگا، ایک یکسوئی کے ساتھ ہی ہوتو بہتر۔ آپ بھی ریاست کا ساتھ دیں، کہ جیسی بھی ہے ایک منظم ادارے کے طور پر موجود ہے۔ مجھ سمیت آپ صبح، دوپہر اور شام حکومت، سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کا ٹھٹھہ اڑا سکتےہیں، ذرا یہی کام ملا فضل اللہ مدظلہُ سرکار، قبلہ و کعبہ سید منور حسن، حضرتِ گرامی شاہد اللہ شاہد وغیرہ کے ساتھ تو کرکے دیکھیں، پھر "سواد نہ آئے تے پیسے واپس!"

اور اگر آپ نے ریاست کا، ریاستی اداروں کا، موجودہ صورتحال پر اپنی سیاست کو درست ثابت کرنے کا، اپنے رہنماؤں کے فرموداتِ عالی کے نعرے مارنے کا ہی کام سرانجام دینا ہے تو یاد رکھیں، یہ خلجان ایک دن آپکے دروازے پر جاہلان کے نمائندے کی حیثیت سے دستک دے گا۔ پھر نہ آپ محفوظ ہونگے، نہ آپکی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، عزت، زندگی اور معاشرہ۔ پوچھنا ہوتو ان سے پوچھیے کہ جنہیں خطوط کے ساتھ گولیاں ملتی ہیں اور جنہوں نے سوات میں جاہلان کی "جاہلانہ شریعت" کا مزہ چکھا ہو۔


میں اس معاملے میں مکمل کلئیر ہوں کہ جیسی بھی ہے، میں پاکستانی ریاست اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے ساتھ ہوں۔ آپ بھی فیصلہ کرلیجیے یا پھر فہیم صاحب کی طرح اپنا سی-اے چھوڑ کر فوجی ایکسپرٹ ہی بننا ہے؟

جمعہ، 14 فروری، 2014

ویلینٹائنوی جمعہ یا جمعوی ویلینٹائن؟

تمام کے لیے تو نہیں کہتا، مگر پاکستانیوں کی ایک بہت/بہت بڑی اکثریت کو بڑی بڑی باتوں، بڑے بڑے کاموں، ٹائٹینک سائز کے گلوبل اور خلائی مسائل  پر جلنے، کڑھنے، رائے زنی کرنے اور اپنے تئیں انہی معاملات میں انقلاب لانے کا "روزانوی شوق" رکھتی ہے۔ ہر روز صبح اٹھ کر، مجھ سے اعلیٰ پائے کے جاہل پاکستانی، علاقائی اور دنیا کی سطح کے پیچیدہ، مشکل اور تقریبا حل نہ ہونے والے مسائل پر اپنی ایک سٹرگل شروع کر دیتےہیں اور اسکے مظاہرے آپ سرکاری دفاتر کے چپٹراسیوں سے لے کر پاکستانی شہروں کی اعلیٰ آبادیوں کے فیشن ایبل ڈرائنگ رومز میں وافر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ بڑے بڑے کاموں اور بڑی بڑی باتوں میں الجھے میرے یہ تمام جاہل دوست اپنی بساط میں ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے مسئلے مسائل کی طرف توجہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ آپ سارے ہی پاکستان میں موجود گندگی پر کڑھتے ہونگے مگرکتنے ایسے ہیں کہ جنہوں نے راہ چلتے کوئی آوارہ شاپنگ بیگ، جوس کا ڈبہ، یا ریڈ بُل کا ٹِن اٹھا کر کسی قریبی ڈسٹ بن میں ڈالا ہوگا؟ کتنے؟

شاید کم، بہت کم کہ یہ "کام تو دیکھیں جی حکومت کا ہے، جو کہ کرپٹ ہے، اور امریکہ کی غلام ہے، کیونکہ امریکہ اور مغرب افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اسے پاکستان کی ضرورت ہے جو کہ اسلام کے لیے بنا تھا، مگر یہاں پھر مارشل لاء لگ گیا اور فوج (اور پنجاب ، آہم، آہم) نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا، لہذا یہاں اسلام نہ آ سکا کیونکہ ہم اچھے مسلمان نہیں اور قران میں ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران، لہذا ہمارے مسائل کی وجہ اللہ اور اسکے رسولؐ کے دین سے دوری ہے، وغیرہ وغیرہ۔"

اور اس سارے کے سارے کام میں آوارہ شاپنگ بیگ، جوس کا ڈبہ اور ریڈ بُل کا ٹِن، وہیں کا وہیں۔

کچھ ایسی ہی بات میں ویلینٹائن کے موقع پر ہر سال دیکھتا اور سنتا ہوں۔ اپنے اسلامی یار دوست اس دن کو "حیا ڈے" کے طور پر منانے کی سعی کر تے ہیں، اور کچھ کم-اچھے مسلمان ویلینٹائن ڈے کی طرف رجحان رکھتےہیں، اور کچھ ہیں مجھ جیسے "نہ ایدھر دے، نہ اودھر دے" کہ جو اس  اس سارے "گھڑمس گراؤنڈ" سے باہر کرسیوں پر بیٹھے آرام سے بھنے چھولے کھارہے ہوتے ہیں، اور مسکرا رہے ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی کڑھن بھی آ جاتی ہے، مگر کبھی کبھی۔

خاص طور پر اپنے اسلامی دوستوں کی نذر فرید ذکریا کا ایک آرگیومنٹ کرنا ہے کہ جس میں موصوف نے ایک بہت مزیدار، مگر کنٹروورشل، نظریہ پیش کیا تھا کہ کمیونزم کے بعد، دنیا کی معیشت میں "مارکیٹ ہی گاڈ ہے،" یاد رہے کہ "گاڈ"   کا  "جی"  سمال تھا۔ فتووں کے ڈر سے مجھے یہاں لکھنا پڑھا کہ کہیں میرے ایمان و نکاح کو خطرہ ہونے کی فکر میرے اسلامی یاروں کو نہ ہو جاوے۔

اور ویلنٹائن ڈے ہو، عیدِ میلاد النبیؐ ہو، محرم ہو، یا بڑی بڑی ناموسِ صحابہ کانفرنسز ہوں، میرے یارو، انکے پیچھے موجود ہے صرف ایک چیز: مارکیٹ اکانومی۔

آج جمعوی ویلینٹائن یا ویلینٹائنوی جمعہ کے دن نہ تو اسلام کو کوئی خطرہ ہے، نہ معاشرے کو، نہ لوگوں کو اور نہ ہی ان لوگوں کے دین و ایمان کو جو اس دن کو جمعہ  نہیں، بلکہ ویلینٹائن سمجھ کر منا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح عیدمیلاد النبیؐ، محرم یا ناموس صحابہؑ کانفرنسز نہ منانے والوں کے ایمان و دین کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ویلینٹائن ہو، مذہب کے نام پر کوئی تہوار، یا پھر  کوئی انٹرنیشنل ڈے، انکا مذہب کے ساتھ کیا تعلق، اور انکا مجھ رندِ خراب کے دین و ایمان کی صحت کے ساتھ کیا واسطہ، جبکہ در حقیقت ان سب کے پیچھے مارکیٹ اکانومی کی فورسز اپنا اپنا کام کر رہی ہوتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ویلینٹائن کے دن پر ملٹی نیشنل چاکلیٹ کمپینیز خوب پیسہ کماتی ہیں، جبکہ  دیگر مذہبی تہواروں پر "نیشنل مذہبی فیکٹریاں" اپنی اپنی جیبیں بھرتی ہیں۔ چند دن قبل ایک شیعہ دوست نے بتایا کہ محرم کی "برکت" سے پاکستان میں قریبا سات ارب روپے کی گردش ہوتی ہے، کہ یہ "نواسہء رسولؐ کی قربانی کی فضیلت ہے۔" میں نے جوابی سوال داغا کہ یار یہ سات ارب روپے میں سے تیرے پاس کتنے آتے ہیں، اور یہ تو بتا کہ جاتے کدھر ہیں؟ جواب کوئی نہ تھا، مگر آپ یہ تو سوچیں کہ یہ سات ارب روپے کسی نہ کسی کے پاس تو جاتے ہی ہونگے کہ نہیں؟

کچھ یہی حال عید میلاد النبیؐ کا بھی ہے۔ ان بارہ دنوں میں کم وبیش بارہ سے تیرہ ارب روپے پاکستانی مارکیٹس میں آتے ہیں، گردش کرتے ہیں اور واپس کسی کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ کیا آپ سوچیں گے کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جو ان بارہ اور دس دنوں میں پاکستانی عوام کو "اسلامی مارکیٹنگ" کرکے کوئی بیس/اکیس ارب روپے کا "ایمانوی انجیکشن" لگا ڈالتے ہیں؟  اور اسکو لِنک کر ڈالتے ہیں "برکاتِ ناناؐ و نواسہؑ" کے ساتھ۔ واہ بھئی واہ!

یقین کریں کہ اس سوال پر غور کرنے سے آپکا ایمان، دین اور شادی شدہ لوگوں کا نکاح بالکل خطرہ میں نہ ہوگا۔

ویلینٹائن ڈے پر پاکستانی مارکیٹ، میرے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے دوست کے مطابق، مارکیٹ ایکٹیویٹی نو /دس فروری سے شروع ہوتی ہے اور تقریبا چھ دنوں میں ڈیڑھ سے ڈھائی ارب کے درمیان کی گردش ہوتی ہے۔

تو یارو، چاہے وہ ویلنٹائن ڈے پر لال رنگ کا "گیسی پُکانا" ہو، کیک ہو، چاکلیٹ ہو یا    ہو پھولوں کا گلدستہ۔۔۔ یا ہو عید میلاد النبی پر سبز رنگ کا جھنڈہ، بیجز، سٹکرز۔۔۔ یا ہو محرم پر شبیہاتِ معصومانؑ، کالے جھنڈے، نذر نیاز۔۔۔ یا ہوں ناموسِ صحابہؑ کانفرنسز پر سی ڈیز،  کتب، دیگیں، بیجز یا سٹکرز۔۔۔ یہ سب کے سب مارکیٹ اکانومی کے نظارے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

مگر ہاں، ویلینٹائن ڈے پر "گیسی پُکانا" آتا ہے کل تیس روپے کا، جبکہ عیدِ میلاد کا ایک  چھوٹے سائز کا سبز جھنڈا اس سال کوئی اسی روپے کا تھا۔

لہذا جس نے حیا ڈے منانا ہے، منائے، جس نے ویلنٹائن ڈے منانا ہے، منائے، جس نے جمعہ پڑھنا ہے، پڑھے، جس نے شام کو کینڈل لِٹ ڈنر کرنا ہے، کرے۔

 بس اپنے اپنے مدار میں ہی رہیے اور دوسروں پر مرضی مت ٹھونسئیے کہ مرضی ٹھونسنے سے ہی اگر اسلام یا  مغربی تہذیب نے چھانا ہوتا تو اس وقت کم از کم پنجاب یونیورسٹی تو پوری دنیا میں اسلام کی ایک اعلیٰ مثال پیش کر رہی ہوتی۔ کیا حالات ہیں وہاں پر، اسکی بابت آپ محترم عمران خان انقلابی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں، ویسے دو ایک تجربات تو مجھے بھی ہیں۔

تو ہاں جی، پھر کریں گفتگو شروع کہ "دیکھیں جی، پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اور اسلام میں تمام مسائل کا حال ہے، ہمارے سارے مسائل دین سے دوری کی وجہ سے ہیں، کیونکہ حکمران امریکی غلام ہیں۔۔۔۔۔"


یا وہ رستے میں پڑھا آوارہ شاپنگ بیگ اٹھایا جاوے؟ 

جمعہ، 7 فروری، 2014

بے غیرت پنجابی کی گزارش


میں گورنمنٹ ریلوے مڈل سکول، ملکوال، میں چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا اور ہمارے ٹیچر دوست محمد صاحب تھے۔ بڑے نستعلیق آدمی تھے اور لباس کے حوالے سے بہت نفاست تھی ان میں۔ شاید اسی نفاست کا شاخسانہ تھا کہ انہوں نے کلاس میں ایک کام یہ شروع کروایا کہ ہر روز دو مختلف طلباء کو ایک ساتھ اگلے دن سکول ٹائم سے پہلے آکر سکول کےوسیع کچے صحن میں کلاس کی جگہ صاف کرنے کی روٹین میں آنے کا حکم دے ڈالا۔ میں پاکستان کے 90 فیصد طلباء کی طرح، الحمداللہ "ٹاٹئین" ہوں، لہذا یاتو پٹ سن کی بوری، یا پھر جو ذرا تونگر تھے، وہ اپنی مرضی سے ٹاٹ کا ایک ٹکڑا کٹوا کر اپنے بچوں کے حوالے کردیتے تھے کہ زمین پر بچھا کر بیٹھ جائیں انکے بچے۔ خیر میرے ساتھ میرے گروپ میں، ایک دوسرا بچہ جسکا نام "ٹیپو سلطان" تھا، کی ڈیوٹی لگ گئی۔ اگلے دن میں کوئی سات، سوا سات، بجے پہنچ گیا سکول، اور ٹیپو صاحب کوئی آٹھ بجنے سے دس منٹ پہلے پہنچےاور میں نے اس پر جب چڑھائی کی تو آگے سے چند ایک فقرات کے تبادلے کے بعد، کہ جن کا یہاں درج کرنا غیر پارلیمانی ہو گا، میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنا "میں کسی کا پنجابی نوکر، یا، بےغیرت نہیں کہ دوسروں کی جگہ صاف کرتا پھروں۔" اس دن میں نے پہلی مرتبہ  شعوری طور پر جانا کہ ٹیپو سلطان کا پورا نام، ٹیپو سلطان خان تھا اور وہ اپنے خاندان کی تیسری نسل تھا جوملکوال میں سیٹلڈ تھے اور انکے دادا کو انگریزوں نے فوج میں خدمات کے عوض زمینیں الاٹ کی تھی ملکوال کے ذرعی علاقہ میں، پنجابی رہن سہن میں مجھے معلوم تھا  کہ وہ پٹھان النسل ہے، مگر یہ کبھی بھی میرے لیے کوئی پرابلم نہ رہا، مگر میرے ہم عمر کلاس فیلو، ٹیپو سلطان کےلیے یہ بڑا اہم تھا کہ وہ پٹھان ہے اور بےغیرت پنجابی نہیں-

پھر 1994 میں، میں اپنی شدید غربت سی جان چھڑانے کےلیے ایم بی اے کی کوشش کر رہا تھا اور میرا ایک اور کلاس فیلو، فضلِ ربی خان، سوات کا پٹھان تھا۔ ہم اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس-تھری سے واک کرتے میلوڈی مارکیٹ میں عموما سموسہ پلیٹ کھانے جاتے تھے۔ میں، فضل اور شکیل، ہم تین کا گروپ تھا۔ ہمارے کلاس ٹیسٹ تھے ایک دن اور شکیل جو کہ کمپیوٹر میں بہت اچھا تھا (اسکا نام میں نے "تایا ونڈو" رکھا ہوا تھا)، نے امتحان کے دوران فضل ربی کو نقل دینے سے انکار کیا، اور اسکے بعد جب ہم اکٹھے واک کرتے ہوئے میلوڈی مارکیٹ جارہے تھے تو فضل نے، شکیل کو بےغیرت کہہ ڈالا کہ تم "دال خور پنجابی" ہوتے ہی بےغیرت ہو جو دوستوں کی مدد نہیں کرتے۔ اس دن مجھے معلوم پڑا کہ  پنجابی بے غیرت کے ساتھ"دال خور" بھی ہوتے ہیں۔

اسی سال میں، اسی فضلِ ربی کے ساتھ ایک دن  اور مکالمہ ہو رہا تھا، اور ہم اسی طرح جی سکس-تھری سے میلوڈی کی طرف جا رہے تھے کہ جب اسلام آباد کالج فار بوائز کے سامنے موصوف نے نامعلوم کس بات پر یہ کہا کہ تم پنجابی ہوتے ہی بےغیرت ہو کیونکہ تم بسوں میں "عورت کے لیے جگہ نہیں چھوڑتا۔" مجھے اس بات کی شروعات تو یاد نہیں، مگر میں نے آگے سے ٹھٹھہ کیا کہ بسوں میں عورت کے لیے جگہ دینے یا نہ دینے کا غیرت سے کیا تعلق ہے؟ "بس ہے، تم ہوتے ہی بےغیرت،" آگے سے جواب آیا۔ اس سے یاری تھی، برداشت کر لیا، چپ رہا مگر یہ بات یاد رہی۔ اب بھی ہنس دیتا ہوں کہ یہ کیا بات تھی۔

پھر 2001 کے جنوری میں خیابانِ سرسید راولپنڈی سے مارگلہ ٹاؤن، اسلام آباد شفٹ ہونے کےلیے ایک پراپرٹی ڈیلر، ندیم جو کہ ہندکو بولنے والا "پشوری" تھا، کے ذریعے ایک مکان کی بات ہو رہی تھی کرائے کےلیے، تو مالک مکان ایک پشتون تھا۔ دونوں نے پشتو میں ایک لمبی بات کی اور میں بات میں تین/چار جگہ پر "دہ پنجابئے" سنا اور بعد میں، میں نے اسے پوچھا تو کچھ ٹالنے کے بعد ندیم نے بتایا کہ وہ موصوف آفریدی صاحب تھے اور انکے ہاں پشتومیں "پنجابئے" ایک گالی ہے۔ ان آفریدی صاحب نے مجھے پنجابی ہونے کی بدولت مکان نہ دیا، اسلام آباد میں، مگر جن "پشتون بھائ" کو انہوں نے مکان کرائے پر دیا، انہوں نے انکی ایک دن خوب پٹائی کی اور انکا مکان خالی کرنے سے انکار کیا۔ میں اسی گلی نمبر 24 کے ایک دوسرے مکان میں کرائے دار تھا۔ اخلا ق و عظمت کا ڈھول نہیں مارنا ادھر، مگر ان آفریدی صاحب کی جان بچانے میں، میرا بھی ہاتھ تھا، وگرنہ انکے پشتون بھائی نے شاید انکی کافی عزت کرنا تھی۔

دوستو، دنیا میں ہر جگہ پر پائے جانے والے مردانہ معاشرے میں مرد کے متشدد رویوں کو ایک قبائلی معاشرت میں غیرت کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ میں یہ رویہ اپنے محدود مطالعے میں انڈیا، بنگلہ دیشں، افغانستان، پاکستان، نیپال ، اور جزیرہ نما عرب کے معاشروں میں موجود دیکھا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ انہی سوشل ڈیولپمنٹ کے انڈیکیٹرز کے آس پاس کے دوسرے ممالک میں بھی یہی رویہ ہوگا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ میں اس میں غیرت نہیں بلکہ مرد کی ایک معاشرتی سٹرگل ہی دیکھ پایا کہ جس میں وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اسکی جسمانی برتری، بذریعہ تشدد، معاشرےکے کمزور طبقات، اور عورتوں پر قائم رہے۔ اپنے پیشہ وارانہ امور  کے نمٹانے میں کئی مرتبہ نکھٹو مردوں کو کماؤ بیویوں اور بیٹیوں پر تشدد کرتے پایا اور بعض خواتین کی چند حوالوں سے مدد بھی کی۔

یہ غیرت کیا ہے، اس پر شاید کسی اور دن بات ہو گی کہ فی الحال موضوع بے غیرت پنجابی ہے۔

میں کشمیری النسل پنجابی ہوں اور پاکستان میں بسنے والی باقی تمام اقوام کی طرح مجھے بھی اپنی شناخت عزیز ہے اور اس سے پیار ہے۔ پٹھان، اور بالخصوص بلوچ و سندھی لوگ (اور اب سرائیکی بھی)، اپنی سیاست اور معاشرت میں ایک خاص رویہ رکھتے ہیں پنجاب اور پنجابیوں کی جانب اور مجھے اس بات پر کوئی معذرت نہیں کرنی کہ انکا یہ رویہ اسی "علمیت" پر مبنی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ پنجاب اور پنجابیوں کو انکے بارے میں کم علم ہونے کا طعنہ مارتے ہیں۔ باقی اقوام کا پنجاب اور پنجابیوں کو گالیوں سے نوازنا بھی دراصل انکی اپنی "علمیت" کی ہی نشانی ہے کہ جنہوں نے پنجاب کے دو اضلاع نہ دیکھےہوں، لوگوں میں گھلے ملے نہ ہوں، اپنے جیسے ہی مجبوریاں پنجاب کے عامیوں میں نہ دیکھی ہوں، اپنی ہی زندگی جیسی سختیاں پنجاب کے مزدوروں، دیہاڑی داروں، غریبوں میں نہ دیکھی ہوں، وہ بھی پنجاب کو گالی دینے کے سپیشلسٹ بنے پھرتے ہیں۔

آپ بےغیرتی کی بات کرتےہیں، پنجابی کی؟ آپ ذرا بتائیں کہ کیا آپ ایا کاٹھیا، رائے احمد خان کھرل، راجہ پورس، راجہ داسو گکھڑ، ملک خان محمد، رائے کرم چند بسائی، گرپار سنگھ ڈھلوں، منجیت سنگھ، گروپال سنگھ چوہان، دلا بھٹی،  راجہ گروبندا، رشید گورمانی،  بھگت سنگھ،  اکبر فرزند بھٹی، رام کرپا سدھو کے ناموں سے واقف ہیں؟ اور بھی ہیں، مگر کیا آپ نے یہ نام سنے ہیں؟ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پچھلے پانچ چھ سوسالوں کے دوران مختلف  غاصب حکمرانوں، کہ جن میں مغل اور انگریز بھی شامل تھے، کے خلاف شورشیں برپا کر رکھیں؟

کیا آپ جانتےہیں کہ ملکوال کے بالکل قریب بھیرہ نامی قصبہ شمال سے آنے والے افغانیوں کے خلاف مزاحمت کرتے کرتے سات مرتبہ تباہ ہوا، اور ابھی آٹھویں مرتبہ آباد ہے۔ اس علاقے میں ابھی مذاق میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ اب بھیرہ آٹھویں مرتبہ اللہ کے ہاتھوں ہی تباہ ہو گا۔ تباہ وہی شہر ہوتے ہیں کہ جن کے باسی مزاحمت کریں، لڑائی کریں، یونانی لشکریوں کے ساتھ مل کر حالیہ جلال پور شریف کے مقام پر راجہ پورس کے ہاتھوں مرنے والے غیرتمند نہیں، جاہل جنگجو تھے جو خزانے اور عورتوں کی لالچ میں کبھی سکندر مقدونوی کے ساتھ آئے تو کبھی محمود غزنوی کے ساتھ۔ کبھی نام سکندر مقدونوی کے ساتھ دینے کا دیا اور کبھی سومناتھ میں اسلام لے کر جانے کا اور راستے میں ہموار زمین پر جہاں کہیں بھی مزاحمت کا موقع ملا، پورس، داسو گکھڑ سے لیکر رشید گورمانی نے کی۔

کوئی برا نہ مانے مگر کلکتہ سے کوئٹہ تک ٹیلیگراف کی تار پہنچانے اور اسکی حفاظت کی ذمہ داری بگٹی اور مری قبائل کے سرداروں نے آٹھ، نو سو روپے کے عوض قبول کیے رکھی اور اس طرف پنجاب میں انگریز سندھ کے تالپور حکمرانوں کی مدد سے سندھ اپ-سٹریم جاسوسی کر رہے تھے، سکھ حکومت کی۔ پنجاب، جوکہ کلکتہ سے سابقہ صوبہ سرحد کے راستہ میں تھا، انگریز کے ہاتھ آنے والا سب سے آخری انتظامی یونٹ تھا جو 1849 کی چیلیانوالہ جنگ کے بعد انکے ہاتھ آیا۔ ملکوال کے قریب چیلیانوالہ میں آج بھی وہ یادگار موجود ہے جو کہ انگریزوں نے، بلاشبہ، اپنے آنر کو بہترین انداز میں دکھاتے ہوئے سکھوں اور لڑنے والے مسلمانوں کی یاد میں تعمیر کی اور انکو شاندار الفاظ میں یاد کیا۔ یہ غلامی اپنے اپنے وقت کی اشرافیہ نے ہر جگہ کی مگر بےغیرتی کا تاج باقی یار پنجاب کے سرپر ہی سجاتے ہیں۔

 چار سو بیس توپوں کا سلیوٹ قبول کریں!۔

 اور بھی بہت کچھ ہے، مگر اسی پر اکتفا کرونگا اور آپ سب سے گزارش کہ  حوالہ جات کے لیے سلیگ ہیریسن کی "بلوچ نیشنلزم: ان افغانستانز شیڈو" کا مطالعہ کریں۔ پیٹر ہاپکرک کی بہت/بہت اعلیٰ کتاب "دی گریٹ گیم" میں بھی یہ واقعات درج ہیں، جبکہ ایلس البینیا "دی ایمپائرز آف انڈس" کا مطالعہ بھی کافی علم فراہم کرے گا۔

میرے یار صلاح الدین کھوسو نے پنجاب کو اپنے پیار میں "بے حس" کہہ ڈالا۔ میں نے شکر کیا کہ کام اب بےغیرت سے چلو کچھ کم تو ہوا، مگر بےحس بھی نہیں پنجاب کہ ناموں کی لسٹ طویل ہے جنہوں نے نہ صرف پنجاب، بلکہ پورے پاکستان میں "حساسیت کی حِس" جگائے رکھی۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو، حمید اختر، ظہیرکاشمیری، انور سجاد، مرزا اطہر بیگ،  میاں افتخارالدین، طارق علی، طاہرہ مظہر، اےحمید، ظہیر بیدری، حبیب جالب، لسٹ اور بھی لمبی ہے، سارے کے سارے پنجابی ہی تھی۔ پاکستان کا سیاسی و انتظامی بولو رام کرنے والے سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان، بھٹو، ضیا، مشرف، کوئی بھی پنجابی نہ تھا۔ ضیاءالحق پشاور سے تھا۔  حمید گل، اخترعبدالرحمن، بریگیڈئیر یوسف کہ جن پر پشتونوں کا خون ہے، کوئی بھی پنجابی نہ تھا۔ بلوچستان پر تینوں آپریشن غیر پنجابی حکمرانوں نے کیے۔ باقی تمام صوبوں میں رہنے والےبڑے بڑے "قوم پرست سیاستدانوں" کی بڑی بڑی انوسٹمنٹس پنجاب میں ہیں، چاہے  وہ مزاری ہوں، مگسی ہوں، رئیسانی ہوں، یا  شیرپاؤ ہوں ۔

بات اور بھی لمبی کرنے کا دل تو چاہ رہا ہے، مگر پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ مگر جانے سے پہلے کہنا یہ ہے کہ کھوسو، میرے یار، تُو جسے بے حسی کہتا ہے، وہ پنجابی کی تھکن ہے۔ دیکھ نا، میں بھی تو تھکتا ہی جا رہا ہوں۔ تُو دیکھنے اور سمجھنے والا بلوچ ہے،میرے بھائی، میں اکتالیس سال کی عمر میں تھک گیا ہوں، گالیاں سن سن کر، نفرتیں سمیٹ سمیٹ کر، خاموش رہ رہ کر، اپنی عامیت کے لبادے میں حیران آنکھوں میں سوال اٹھائے پھِر پھِر کر۔ میں قسم سے تھک گیا ہوں،اور تو گلہ کرتا ہے کہ پنجاب بے حس ہے، کیوں نہ ہو کہ میں تو اکتالیس سال میں تھک گیا، پنجاب تو سکندری مقدونوی کے وقت سے لڑ تارہا ہے، تباہ ہو تارہا ہے، اپنی جانوں، جانوروں، عزتوں اور عورتوں کا خراج دیتا رہا ہے اور جس کو تُو بے حسی یا دوسرے جاہل بے غیرتی کہتے ہیں، وہ میرے نزدیک زندگی کی رو میں رہ کر زندگی کے ساتھ آگے بڑھ جانے کا نام ہے۔ وہ اس بات کو قبول کرنے کا نام ہے کہ ہر وقت تنی کمان کی طبیعت کا کیا فائدہ بلکہ مزاحمت وہاں جہاں پر ممکن ہو سکے۔ وگرنہ غیرت کے نام پر "ترقی و آسانی" تو افغانستان اور فاٹا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تجھ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا دیکھنے کے بعد، میرے بلوچ بھائی، تو ان علاقوں میں غیرت کے نام پر کبھی آباد ہونا چاہے گا، کیا کبھی بھی؟


اور تُو مجھے بھائی جان، کہ زندگی نے کبھی موقع دیا تو تیرے سگوں سے آگے ہو کر پہنچوں گا، مگر مجھے اور نہ تھکا تُو۔ پنجابی کی محبت دیکھنی ہے تو ملکوال آ، اور اپنی آنکھوں سے پشین، کوئٹہ، ژوب  اور چاغی سے آنے والے بلوچوں کی دکانیں دیکھ اور یہ بھی دیکھ کہ انکی وہاں موجودگی آس پاس کے لوگوں کے لیے دلچسپی اور محبت کا باعث ہے، وہ لوگ اب آپس میں رشتے کررہےہیں، بیٹیاں اور بیٹے  دے اور لے رہے ہیں اور ان میں سے کبھی بھی کسی کو لائن میں کھڑا کر کے کبھی گولیوں سے نہ مارا جائے گا، میری زندگی میں اور میرے میرے مرنے کے بعد بھی۔ بے شک لکھ کے کہیں رکھ لے۔

پنجابی سارے دودھ کے دھلے نہیں، مگر سارے کیچڑ بھی نہیں۔ ایک ہی زناٹے میں بےغیرت اور بےحس کہہ ڈالنا اندر تک چیر ڈالتا ہے، اور تھوڑا مزید تھکا دیتا ہے، اور کچھ نہیں۔ مگر شاید تھکاوٹ کے ایک شدید احساس کے بعد بے حسی ہی ہے، جو کہ مجھ سے کروڑوں عام پنجابیوں میں تو ابھی نہیں، وگرنہ یہ سوا دوہزار لفظوں کا بلاگ نہ لکھ رہا ہوتا اپنی محبت  میں دوسری قوموں کی، بلکہ جوابی گالیاں نکال رہا ہوتا۔ اور پنجابی کو ذرا سا بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ گالیاں جیسی پنجابی میں، شاید ہی کسی دوسری زبان میں ہوں، مگر سچ بھی یہی کہ پنجابی، عام پنجابی، نہ تو بےغیرت ہے، نہ بےحس اور نہ ہی بےعقل کے بےغیرتی کے طعنوں پر جوابی مغلظات بولتا پھرے۔ عام طور پر وہ سر اٹھا کر اوپر دیکھتا ہے، مسکراتا ہے، سر نیچے پھینک کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے، ہاں مگر اب وہ کبھی کبھی "وڑو کھلو کے" کہنا شروع ہو گیا ہے۔

ا ور اگر مردانہ متشدد رویوں کا نام ہی غیرت ہےتو اپنے پڑھنے والوں کے لیے خبر یہ ہے کہ پنجاب میں ہی اس جاہلانہ روش کے تحت تشدد سب سے زیادہ ہے تو کیا میں دو چار کتابیں پڑھنے اور دو چار عقلمندوں کی محفل میں بیٹھنے کے بعد، اسی کو ہی غیرت جانوں؟ یہ کام مجھ سے، ایک مرتبہ پھر، کروڑوں پنجابیوں سے نہ پہلے ہوا، نہ اب ہوگا۔

میں اکتالیس سال کا ہوچکا۔ عمر کا ساٹھ فیصد گزار چکا، باقی بھی گزر جائے گا۔ عمر کے اس حصہ میں کوشش کہ اپنے حصہ کا شجر لگا ڈالوں کہ ہم سب کو مختلف ہونے کے باوجود اب ایک قوم کی طرح آگے بڑھنا ہے، اور اگر اب بھی وہی ڈھاک کے تین پات، "دہ پنجابئے" کی گالی، بےغیرتی کے طعنے، تو آپکی مرضی ہے، میری اور مجھ سے کروڑوں پنجابیوں کی جانب سے اب  پھر "وڑو کھلو کے!" – مگر ایک دلی دکھ کے ساتھ۔

پسِ نوشت: ٹیپو سلطان خان، اس وقت فیصل آباد میں ایک پنجابی کی ٹیکسٹائل مل میں جی ایم ہیں، جبکہ فضلِ ربی 2002کی آخری اطلاعات تک  لاہور کی ایک کیمیکل فیکٹری میں مینیجر تھا۔ میری تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ابھی تک تو  فیصل آباد اور لاہور پنجاب میں ہی ہیں۔  ندیم پشوری سے ابھی بھی جگری دوستی ہے، اور وہ آفریدی صاحب اب اپنے مکان کو پشتون کرائےداروں کو نہیں دیتے۔