منگل، 28 جنوری، 2014

بلوچ نوجوان کیا کرے؟


میں یہ مضمون "بلوچ نوجوان کیا کرے" اپنے بھائی صلاح الدین کھوسو کے نام کرتا ہوں۔ کھوسو میرا یار ہے، لڑائی مارکٹائی رہتی ہے ہماری مگر ہم نے اپنا تعلق اس سے اوپر رکھ چھوڑا، ہمیشہ کےلیے۔ اس نے اور اسکے گھر والوں نے ریاست کا احمقانہ جبر برداشت کیا ہے اور اسی پراسس میں اسکے والدین اگلے جہان سدھار گئے، مگر دلیر اور بڑے دل کا آدمی ،کھوسو، زندگی سے لڑتا لڑتا آگے بڑھ رہا ہے اور یہی، میرے نزدیک  اسکی سب سے بڑی دلیری ہے۔ بس کبھی کبھی "مرچیلا" ہو جاتا ہے۔ اس سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس کاوش کا انتساب اسی سے ہی بنتا تھا۔


تیرے لیے میرے یار، کھوسو، تیرے لیے۔

کہنا یہ ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست نے شدید حماقتیں کی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ریاستی حماقتوں کا سلسلہ ابھی کچھ کم پڑا ہے، جانتاہوں کہ بلوچ دوست اس سے اتفاق نہ کریں گے، مگر یارو، جو ہے، وہ ہے!

کہنا یہ بھی ہے کہ بلوچ قوم نے، بالخصوص نوجوانوں نے، بھی کم از کم 2010 کے بعد سے ان ریاستی حماقتوں کا جواب ، ایسا لگتا ہے کہ، جوابی حماقتوں سے دینے کا فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔بلوچ قوم کی بات تو کرنا شاید درست نہ ہو کہ یہ کہنا بھی مکمل غلط ہوگا کہ سارے کے سارے بلوچ النسل لوگ پاکستان مخالف ہیں، مگر یہ بہرحال درست ہے کہ بلوچ قوم میں، بلوچستان میں بسنے والے پشتونوں کی نسبت، مرکز گریزیت کچھ زیادہ ہے۔

بلوچستان کی صورتحال کو پاکستان، بالخصوص پنجاب میں بیٹھے لوگ بہت سمپلیفائی کرکے دیکھتےہیں، میں پالیسی میکرز کی بات نہیں کر رہا، بلکہ ایک عام پائے جانے والے تاثر کا ذکر کر رہا ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بلوچ نوجوان بھی اپنی صورتحال کو بھی بہت سمپلیفائی کرکے دیکھتےہیں، آزادی، انقلاب، جدوجہد اور بلوچستان میں جاری تشدد کے حوالے سے۔پنجاب کا عمومی سنٹیمینٹ بھی غلط ہے، اور بلوچ نوجوان کا جذباتی رجحان بھی درست نہیں۔ پاکستانی ریاست چونکہ ایک قومی نیریٹو بنانے میں کامیاب ابھی تک نہیں ہوئی تو اپنے آپ کو لبرل کہلوانے کے شوقین حضرات بلوچستان کی صورتحال کو مشرقی پاکستان کے ساتھ مماثلت دیتے ہوئے نہیں تھکتے اور اسکے ساتھ ساتھ، "سواد" اس چیز کا بھی ہے اپنے کلاسیکی دیوبندی یار بھی اسی خیال کے مالک ملتے ہیں۔ عجب کہ  ان دونوں طبقات کو اگر جوڑتی بھی ہے تو کیا چیز جوڑتی ہے، واہ!

بلوچستان، مشرقی پاکستان نہیں ہے۔ بلوچستان، مشرقی پاکستان نہیں ہے۔ بلوچستان، مشرقی پاکستان نہیں ہے۔

دونوں  کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔ آبادی کا تناسب، زمینی فاصلہ، شورش/بغاوت کا پھیلاؤ، مکتی باہنی کا  1971 کی جنگ سے کہیں پہلے جنگ کے لیے تیار ہونا  (جی، انکے کلکتہ میں مہاجر/ٹریننگ کیمپس تھے)، بھارت کی کھلم کھلا سپورٹ اور بعد میں جارحیت، بین الاقوامی حالات، شورش کا ایک عوامی رجحان،  پاکستانی فوجی آپریشن کی بے سمتی اور اربن وارفئیر کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش جبکہ ایسے حالات میں طاقت و سیاست دونوں چلنے چاہیئں تھے، بھٹو اور یحییٰ کا خودغرضانہ اور احمقانہ کردار کہ بھٹو نے ٹانگین توڑنے کی بات کی، اور یحییٰ صاحب تو شاید اس وقت بھی اپنی وہسکی پی رہے تھے، اور مغربی پاکستانی عوام کی ایک ذہنی نا پختگی کہ جسکو الطاف حسن قریشی صاحب نے "محبت کا زمزمہ" اور سید اطہر شاہ صاحب مرحوم صاحب نے "ادھر ہم ادھر تم" کی صحافتی طور پر بددیانتانہ سرخیوں  سے مزید بڑھایا۔ قریشی صاحب زندہ ہیں، اور اطہر شاہ صاحب بعد میں اس سرخی پر قوم سےشرمندہ بھی ہوئے، مگر بہت دیر بعد۔

ابھی اوپر والے حالات کہ جن کی تخلیاتی بنیاد پر اپنے لبرل اور دیوبندی یار بلوچستان میں مشرقی پاکستان تلاش کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک ایک کرکے ذیل میں بیان کیے گئے ہیں کہ بلوچستان کیوں مشرقی پاکستان نہیں۔

بلوچستان میں ایسے حالات اس لیول کے نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیئے گئے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کے ساتھ متصل صوبہ ہے اور بہت معذرت کہ بلوچستان میں خود بلوچ النسل لوگ ایک سادہ اکثریت میں نہیں ہیں۔ بلوچ اور براہوی بہت سے نسلی اور لسانی حوالوں سے ایک دوسرے کے قریب ہیں، مگر انکی سیاست میں فرق ہے۔ بلوچ النسل قریبا 38-40 فیصد ہیں جبکہ براہوی النسل قریبا18-20 فیصدی ہیں۔ پشتون بلوچستان کا قریبا 30-32 فیصدی بناتے ہیں جبکہ باقی ماندہ لوگ پنجابی، سندھی، سیرائیکی النسل ہیں۔ 2012 میں برطانوی ترقیاتی ادارے کے ایک سروے کے مطابق، 63 فیصد بلوچ النسل لوگوں نے "آزادی" کی مخالفت کی تھی اور پشتون علاقوں میں آزادی مخالف جذبات تقریبا 88 فیصد تھے۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ 73 فیصد بلوچ النسل لوگوں نے بلوچستان کے وسائل اور مسائل پر صوبائی لیڈران اور حکومت کے اختیارات مضبوط ہونے کی حمایت کی اور 53 فیصد پشتون بھی اس معاملہ پر اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ تھے۔ اور اگر آپ مجھ سے بحیثیت ایک پنجابی پوچھیں تو، جناب، شاید خود بلوچوں اور پشتونوں سے بھی زیادہ پنجابی بلوچستان کے عوام کا اپنے صوبائی معاملات پر اپنے اختیار کے ہونے کی مکمل حمایت کریں گے۔

 بلوچستان کی تمام آبادی، پاکستانی آبادی کا دس فیصد سے بھی کم ہے، قریبا ایک کروڑ کے لگ بھگ، جبکہ پاکستان کی آبادی اس وقت 19 کروڑ کے قریب ہے، اور اس ایک کروڑ میں بلوچ النسل لوگ 40 لاکھ کے قریب ہیں، اور اس 40 لاکھ میں سے کوئی 30 لاکھ آزادی کو رد کرتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان سے الگ نہیں، جیسا کہ مشرقی پاکستان تھا اور درمیان میں ہزار میل سے زیادہ پر پھیلا ہوا "پڑوسی ملک" بھارت بھی موجود نہیں۔ بلوچستان کے مسلح لوگ، کہ جنہیں میں پہلے سرمچار سمجھتا تھا، اور اب 2010 کے بعد سےہچمچار کہتا ہوں کہ انکی تحریک میں اب جدوجہد سے زیادہ بے سمتا تشدد آ چکا ہے جسکا شکار پنجابی تو تھے ہی، اب خود بلوچ، پشتون اور براہوی بھی ہور ہے ہیں۔ بلوچ ہچمچاروں کو افغانستان سے سپورٹ ملتی ہے، اور یہ بات درست ہے، وگرنہ براہمداغ محترم افغانستان سے افغانی پاسپورٹ پر دہلی، اور پھر جینوا نہ جاتے، اور بالاچ مری بھی خاص حالات میں نہ مارے جاتے، اور افغانستان، میرے یارو، بھارت نہیں کہ جو پاکستان پر چڑھ دوڑے، تین مرتبہ تو کوشش کی جون 2012 سے، مگر پٹائی ہی کروا کے واپس بھاگے۔ اور اگر افغانستان سے سپورٹ نہیں ملتی تو میں پھر اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سارا اسلحہ، کمیونیکیشن کے آلات، پیسہ، نقشات وہ دیگر اشیاء بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے خاص طور پر متعین کردہ "بلوچ فرشتے" ہی ان ہچمچاروں کے گھروں کی چھتوں پر رات کو آسمانوں سے آکر رکھ جاتے ہیں۔

موجودہ جدید ریاستوں کی ساخت اب ایسی ہو چکی کہ شورش پیدا کرکے انکو چاکلیٹ کیک کی طرح سے کاٹنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور پاکستان جیسی بھی ہے، ایک منظم ریاست ہے اور اسکے معاملات میں، جو اسکو توڑنے کے درپے ہوں، خطے کی کوئی بھی ریاست اب کھلم کھلا حمایت نہ کرے گی۔ بین الاقوامی حالات، کہ جن میں ہربیار مری، فیض بلوچ، براہمداغ و دیگران، جتنا مرضی ہے شور مچا لیں، ایک بین الاقوامی فوج کی پیراشوٹنگ کا کوئی امکان نہیں اور خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب شورش کا رجحان عوامی نہیں اور یہ بھی درست ہے کہ بلوچوں کے باہمی اختلافات ،کہ جس میں ابھی تک مرکز گریز اور مرکز کے حمایت یافتہ سرداروں کی لڑائیاں ہی ختم ہونے کو نہیں آ رہیں، ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ دوستو، یہ اختلافات تو پچھلے پانچ سو سال کی ڈاکیومینٹڈ تاریخ میں تو حل نہیں ہوئے اور شاید آئندہ کے پانچ سو سال میں بھی حل نہ ہوسکیں گے۔

1971 کے بالکل برعکس، پاکستان، اور خصوصا پنجاب میں، عوام کی اکثریتی رائے مرکز کی پالیسیوں کی ناقد ہے اور خود لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں کئی مرتبہ ایسی گفتگو ہوئی کہ پنجابی طلباء نے سر جھکا کر اور آبدیدہ آنکھوں سے بلوچ مہمان طلباء کی گفتگو سنی اور ان سے اتفاق بھی کیا۔ میڈیا، بھلے بندر کے ہاتھ استرے کے مصداق اپنی پہنچ کا درست فائدہ نہ اٹھا رہا ہو، مگر ساتھ ساتھ ہی میں یہ نہ تو "محبت کا زمزمہ" بہا رہا ہے اور نہ ہی "ادھر ہم، اُدھر تم" کے نعرے لگا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچوں کے حق میں سب سے بلند آواز دو پنجابی کشمیری صحافی، حامد میر اور نصرت جاوید نے ہی بلند کی ہے، اور کیے رکھ رہے ہیں۔ ایسا کچھ بھی 1971 میں نہ تھا۔ ایک شعوری ادراک اور احساس ہے پاکستانی معاشرے میں بلوچستان کے حالات کے دگرگوں ہونے پر، مگر عوام کی اکثریت، بالکل بلوچ قوم کی اکثریت کی طرح ریاستی امور میں دخل نہیں رکھتی مگر یہ بات کہنا بھی مکمل درست نہ ہوگی کہ بلوچستان کے حوالے سے پاکستانی، یا پنجابی قوم "ستُوپی کر سو رہی ہے،" ایسا کچھ نہیں، وگرنہ یہ مضمون بھی نہ لکھا جا رہا ہوتا۔

تحقیق کہ سچ کہا جائے کہ بلوچستان میں جاری معاشرتی تشدد کا جواب ریاست نے جوابی تشدد سے دیا۔ سچ کہا جائے کہ کلاسیکی انداز کا کوئی فوجی آپریشن بلوچستان میں نہیں ہو رہا۔ سچ کہا جائے کہ بلوچ مسلح دتھے ، چاہے ہچمچاری ہوں، یا چاہے ریاستی ہوں، ان دونوں کے ہاتھوں بے گناہوں کی بھی ایک کثیر تعداد ماری گئی۔ سچ کہا جائے کہ بلوچ مسلح تحریک میں واحد نظریاتی تحریک واجہ ڈاکٹر اللہ نذر کی ہے جبکہ دوسرے سارے گروہوں میں یا تو جرائم پیشہ افراد سرایت کر چکے، کچھ بلوچ گروہ اپنی طاقت کےلیے مذہبی شدت پسندوں سے بھی ہاتھ ملا چکے، اور باقی، میرے یارو، سردرار زادوں کے "ٹائم پاس" کرنے کا شغل بن چکے ہیں۔ بگٹی و مری قبائل کے  چندسردار زادے جو کہ شاید اب پاکستان کبھی واپس نہ آئیں، باہر اپنی پر تعش زندگیوں میں سے روز چند لمحات نکال کر بلوچ نوجوانوں کو ایک اندھی گلی میں دھکیلنے میں مصروف ہیں اور  میرے بلوچ یار کوئی سوال پوچھے بغیر انکے پیچھے چلنے کو تیار۔ ہنسنے کا مقام نہیں تو اور کیا ہے کہ بگٹی سردار زادہ ایک "ریپبلیکن پارٹی" بنا کر چلا رہا ہے، جب کہ اصلیت میں موصوف کا ریپبلک نظریات سے کروڑوں نوری سالوں کا بھی تعلق نہ بنتا ہو۔  ایک دومری سردار زادے لندن کے معتدل موسم میں بلوچستان میں آگ بھڑکانے کے شغل میں مصروف ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ سوال بھی پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جناب آپ کس سمت سے انقلابی نظر آتے ہیں۔

میرا وجدان نہیں، سیاسی تحقیق ہے کہ بلوچستان کی آزادی کا خواب ایک جھوٹا خواب ہے۔ ایک آوازاری کا احساس جو کہ مرکز کے حوالے سے ہے وہ بھی بلاوجہ نہیں، مگر اسکی Manifestation بھی صحتمندانہ نہیں۔ بلوچ نوجوان کو ریاست نے آگے ہی کم مواقع فراہم کیے ہیں اور موجودہ حالات میں، میرے نزدیک وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان، میرے یارو، کوئی چاکلیٹ کیک نہیں کہ جسکو افغانستان میں بیٹھے چند ایک عناصر کاٹ پھینکیں، یہ ٹوٹی پھوٹی جیسی بھی ہے ایک منظم ریاست ہے اور اس نے جب بھی ایک پولیٹیکل وِل کے ساتھ منظم طریقے سے عمل کیا، نتائج سامنے آئے۔ ڈاکٹرمالک بلوچ کی صورت میں بلوچستان کے پاس ایک بہت اعلیٰ سیاسی موقع ہے اور پاکستان کے سیاسی حالات بھی موافق ہیں کہ فیڈریشن سے سیاسی و آئینی طریقہ سے اپنی بات منوائی جا سکے۔ مجھ سے سست اور کاہل لوگ بھی بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد کے حق میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فیڈریشن میں بلوچوں کا حق "بیک ڈیٹ" کے ساتھ انکو شکریہ کے ساتھ لوٹایا جائے۔ پاکستان لڑکھڑاتا جمہوری سفر پر گامزن ہو چکا اور فوج بھی بہت سے حوالوں سے اس پراسس کے ساتھ ایک عقلی رشتہ جوڑنے کی کوشش میں ہے۔ بہت سے مسائل ابھی بھی باقی ہیں اور شاید اس سے دس گنا مزیدآئیں بھی، مگر میرے بلوچ دوستو، تشدد کی زبان سے کہ جہاں پیر غائب میں لائن میں کھڑا کرکے نو پنجابی مزدوروں کو گولی سے اڑا دو گے، تو آزادی نہیں، مزید خرابی تمھارے اور ہمارے حصے میں آئے گی اور یہ دونوں کا نقصان ہو گا۔ بلوچ نوجوان کے لیے، میرے نزدیک پچھلے 67 سالوں میں ایسا موقع پہلے نہ آیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو فیڈرلی مین-سٹریم کرے اور اپنے حقوق کے لیے، بلکہ نہ صرف اپنے حقوق کےلیے بلکہ پاکستان کے تمام زیردست طبقات کے حقوق کے لیے ایک سیاسی جدوجہد کی شاندار تاریخ رقم کرے۔ ماما قدیر کے پاس افغانستان سے بھیجے گئے کوئی راکٹ لانچر نہیں، مگر ایک بوڑھے پر امن آدمی نے پاکستان میں ایک ایسا موضوع زندہ رکھا ہوا ہے کہ جو بلوچ جوان تشدد کے بل بوتے پر زندہ نہ رکھ سکے۔ تشدد سب کو کھا جاتا ہے، سب کو۔ جنوبی ایشائی سیاسی وزڈم ابھی اس نہج پر نہیں پہنچی کہ جہاں معاشرتی والَو سیاست پر دباؤ ڈال کر تشدد کو عدم تشدد میں جذب کر لیں، پاکستان بھی مختلف نہیں۔ میں کسی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کرتا مگر بلوچ نوجوان اب یہ سوچے کہ کتنے سال، کتنے جوان اور کتنے خواب مزید تشدد کی بھینٹ چڑھانے ہیں جبکہ تشدد اب اسے بھی کھا رہا ہے۔ دوسرا رستہ شاید اسکی انا، ماضی کے زخموں، ریاستی حماقتوں اور ایک عام سی پاکستانی لاپرواہی کی وجہ سے مشکل نظر آتا ہو، مگر میرے بلوچ بھائیو، اصل رستہ بھی وہی ہے۔ آگے بڑھو صرف ایک قدم، آپکو دس قدم چل کر آپکی طرف آنے والے پاکستان میں اب بہت ملیں گے، بہت۔ اتنے کہ گن نہ پاؤ گے۔ ماضی میں زندہ نہ رہو کہ ماضی تمھاری طرح میرا بھی شاید زخمی ہی ہو، مگر کیا منادی کرنا، ماسوائے اسکے کہ کسی کا کہا ہوا مان لیا کہ زندگی آگے کی طرف بڑھتی ہے اور ماضی پیچھے کی طرف کھینچتا ہے، "فیصلہ کرلو مبشر کہ آگے بڑھنا ہے یا ماضی میں ہی گڑے رہنا ہے!" مجھے یہ الفاظ میرے گاؤں، ملکوال کے میرے ماضی کے ایک دوست طارق نے لاہور میں 1989 میں کہے تھے۔ آج میں دل سے اسکا مشکور ہوں کہ میں آگے بڑھ آیا، اور ماضی کو وہیں رہنے دیا، جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔

بلوچ یارو، ایک بار، صرف ایک بار ایسا کر کے تو دیکھو۔ زندگی کے ساتھ آگے بڑھنے کو کوشش تو کرو یارو۔ زندگی صلہ دے گی، کھلے دل سے۔ میرا وعدہ ہے۔ تشدد کی آگ سب کو کھا جاتی ہے، اور کھا رہی ہے، اور یہ میرا خدشہ ہے۔

یہ مضمون میری آراء پر مبنی ہے۔ آپکا اتفاق یا اختلاف کرنا آپکا حق ہے۔ کوشش کیجیے کہ اگر اختلافی نوٹ لکھنا ہو تو اس میں آپکی تہذیب جھلکے۔ آگے آپکی مرضی ہے۔

بدھ، 22 جنوری، 2014

آؤ کہ مذاکرات کریں۔


ایک مرتبہ پھر اپنے بلوچ یاروں کےنام مضمون ادھار رہا۔ ان سے گذارش ہے کہ مجھے ایک غاصب پنجابی نہ جانیں اس بنیاد پر ذرا بھی کہ انکا لہو میری رگوں میں دوڑتا ہے اور میرا دل کوئٹہ و بولان کے ساتھ دھڑکتا ہے، خدا شاہد ہے۔ بلوچستان میں بہتری کی امید آئی ہے کہ ڈاکٹر مالک بےتحاشا محنت کر رہے ہیں وہاں، اور یہ بھی درست ہے کہ حساس موضوعات اور معاملات اگر پبک ڈومین سے پرے ہی رہیں تو اچھا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکیں۔

فی الحال ایک ایویں کی مگر دل سے دکھی نظم عمران خان اور منور حسن صاحب کے نام کہ ڈیزل و سینڈوچ سے امید تو کبھی نہ تھی اور نہ ہی کوئی شوق ہے ایسا۔

عرض کیا ہے۔۔۔

آؤ کہ مذاکرات کریں
جل جائے یہ ملک
مرتے ہیں لوگ، بھلے مریں
آؤ کہ مذاکرات کریں

اجڑ گئے لاکھوں گھرانے
بیٹے ہوئے یتیم، ہوئیں بیٹیاں یسیر
خیر ہے، کہ ہم دم اپنی سیاست کا بھریں
آؤ کہ مذاکرات کریں

چلتی رہے میری سیاست
بِکتا رہے اسکا فہم دیں
ہیں لوگ حیراں، کہ کیا کریں
آؤ کہ مذاکرات کریں

روتی ہیں مائیں، ہیں باپ حیراں
بیٹے پریشان تو بیٹیاں ویراں
سہاگنیں ہوئیں بیوہ، عمر ساری جلیں
چلو جی، آؤ مذاکرات کریں

بم دھماکہ ہے اِدھر
سر بریدہ لاش ہے اُدھر
پولیو والے ہوئے قتل
یہ سب ہے اپنے لیے شغل
مانگ دوجوں کی خوں سے بھریں
آؤ، آؤ کہ مذاکرات کریں

لڑ مرے اس فوج کے بیٹے
لٹا دیں جانیں پولیس والوں نے
گھر جلتے ہیں جنکے، بھلے جلیں
آؤ کہ ہم مذاکرات کریں

بڑھا دو دماغی شور
کردو تقسیم قوم کے اذہان
کچھ جب اور نہ بن پڑے
تو چلو، چلو، دھرنے کو چلیں
آؤ کہ مذاکرات کریں

مرتے ہیں لوگ مریں
جلتے ہیں گھر جلیں
مانگ خوں سے بھریں
دم محض سیاست کا بھریں
آؤ کہ مذاکرات کریں
آؤ کہ مذاکرات کریں


جمعہ، 10 جنوری، 2014

سیاست میں دماغی شور کیا نقصان کرتا ہے؟

ٹویٹر پر میرے بڑے پیارے، اور ظاہرا عمر میں چھوٹے دوست ہیں، جنید۔ ان سے چند دن قبل ایک گفتگو میں عمران خان صاحب کی طالبان کی بابت پالیسی پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ  وہ سمجھ نہیں پائے کہ عمران خان کے طالبان کے ساتھ بات چیت کے مطالبہ پر اتنا ردِعمل کیوں ہے (مفہوم) اور جنید، جنہیں میں یاری میں "جے" کہتا ہوں، پہلے بھی کئی مرتبہ طالبان کے خلاف فوجی  آپریشن کے حوالے سے کافی تندو تیز فقرات کہتے رہتے ہیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ لکھوں گا کہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے کسی بھی معاشرے میں اس قسم کے اہم موضوع پر ایک معاشرتی و سیاسی یکجہتی کو فروغ دینا کتنا اور کیوں اہم ہوتا ہے، لہذا آج اپنے تئیں یہ وعدہ پورا کر رہا ہوں۔مگر یاد رہے کہ یہ میرا زاویہء نگاہ و خیال ہے، آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔ بہرحال، اس مضمون کو تحریر میں پورے حسنِ نیت سے ہی کر رہا ہوں۔

یارو، ریاستیں ایک جامد، ساکن یا  یک-جِسمی (مونولِتھِک)   اکائیاں نہیں ہوتیں۔ یہ متحرک اور ہر وقت تغیر پذیر رہنے والی حقیقتوں پر مبنی ہزاروں نہیں، لاکھوں اور کروڑں پراسیسیز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ریاستی کاروبار ایسی ایسی پیچیدگیوں پر مبنی ہوتا ہے کہ مجھ سے ٹویٹری جاہل اسکا ادراک بھی بعض اوقات نہیں کر پاتے۔ اپنی ملازمت کے دنوں میں، میں جب جاپان ایمبیسی کام کرتا تھا تو مجھے میرے سیکشن کے انچارج نے ایک ٹاسک یہ دیا کہ میں پاکستانی وزارتِ خارجہ سے یہ معلوم کروں کہ کیا پاکستانی ریاست نے روس کے برفانی موسم میں ہجرت کرکے پاکستانی آنے والے پرندوں کی سیفٹی کے پروٹوکول پر دستخط کیے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ اور ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر مجھے یہ معلوم کرنے کو کہا گیا کہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں بسنے والے پرندوں اور جانوروں کے ماحولیاتی تغیر کی حفاظت کے لیے کیا پاکستانی ریاست  نے عالمی قوانین کو لاگو کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں یا نہیں؟یہ سن کر پہلے تو میں مسکرایا، شاید آپ بھی مسکرائے ہوں، مگر اس مسکراہٹ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ذرا سوچئیے کہ ریاستی کاروبار کو کیسی کیسی باریک پیچیدگیوں سے نبردآزما رہنا پڑتا ہے، تقریبا ہر وقت۔ اور ریاست سونے یا آرام کرنے والی حقیقت نہیں ہوتی، یہ ہر وقت جاگتی ہے، ہر وقت کام کرتی ہے اور ہر وقت ہے ہزاروں مشکلات سے لڑ رہی ہوتی ہے۔

بات لمبی بھی کرسکتا ہوں یہاں اسی موضوع پر، مگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے لئے اپنے دل کے سادہ اور دماغ کے گرم، مگر مخلص کارکنان کو دو چار بڑھکوں پر جذباتی کرکے آگے لگا لینا کہیں آسان ہوتا ہے اور مجھے کہنے دیجیے کہ قریب قریب 99 فیصدی نوجوان انکے کہے کو سچ مان کر اور ریاست کی پیچیدگیاں جانے بغیر کبھی لاہور جا نکلتے ہیں، کبھی پشاور رنگ روڈ بلاک کر ڈالتے ہیں، کبھی  ایک نئے، روشن، خلافتی، شرعی وغیرہ پاکستان کی تلاش میں اپنے کرنے والے کام نہ صرف کرتے نہیں، بلکہ اپنی زندگی کی مثبیت سے زندگی کی عصبیت کا سفر کر ڈالتے ہیں اور وہاں سے واپسی بہت/بہت مشکل ہوتی ہے۔

یہی وہ موقع ہے کہ جہاں مجھے عمران خان صاحب اور قبلہ و کعبہ و بیت المقدس شریف، جنابِ منور حسن صاحب مدظلہ علیہ صاحب کا تذکرہء جمال کرنا ہے۔ اس تذکرہ میں محترمی سمیع الحق صاحب بھی اہم مگر سائیڈ کے خاموش کھلاڑی ہیں مگر چونکہ انکی سماجی، سیاسی اور معاشری نفوزپذیری محدود ہے، لہذا، قرعہءمضمون عمران اور منور صاحبان کے نام ہی رہے گا۔

ریاستیں چھتری کی طرح ہوتی ہیں، اور ہر ریاستی چھتری میں سوراخ ہوتے ہیں جو مختلف بحرانوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اس چھتری کی سکِن کو کھڑا کرنے میں ریاستی اداروں کی سپورٹ ہوتی ہے (ذہن میں چھتری کی اندرونی تاروں کا میکنزم لے کر آئیے) اور یہ ریاستی ادارے ایک بڑی شافٹ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں کہ جسکو ہم معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔ بالکل ایک چھتری کی ہی طرح۔ یہ ریاستی ادارے ویسے ہی حرکت کرتے ہیں کہ جیسے ایک چھتری میں موجود ایک شافٹ کے آس پاس جڑی وہ مضبوط تاریں جو چھتری کی چھت کو کھول کر رکھتی ہیں۔ ان تاروں میں کبھی کبھی جھول بھی آ جاتا ہے کہ جسکو مختلف انتظامی، سیاسی اور معاشرتی اقدامات سے اقوام حل کرتی ہیں۔ سیاسی، آئینی، سیکیوڑٹی، سفارتی اور دیگر معاملات وغیرہ کے حوالے سے یہ اقدامات اقوام کی اجتماعی سیاسی بصیرت کرتی ہے جو کہ پارلیمنٹ میں موجود ہوتی ہے اور اپنے ملک کی طاقت اصلیہ (اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ مل ملا کر اور حکمت سے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ریاستی امور میں شور بالکل، بالکل نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ حکومت صرف چند ایک معاملات میں ہی عوام کے سامنے اقدامات کرنے کی پابند ہے اور تقریبا 80 سے 85، یا شاید 90 فیصدی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جنکو عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ پیرالکھنا ضروری اس لیے تھا کہ ریاستی عملداری کے حوالے سے ایک بنیادی تعارف دے دیا جائے۔

میں نے عمران خان صاحب کو ووٹ دیا۔ میرے تمام دوستوں نے مجھے اس سے منع کیا۔ میں قریبا 600 کلومیٹر کا سفر کرکے اس فرض کا سرانجام دے کر آیا۔ کوئی احسان نہیں کیا، اپنا ایک سیاسی اور جمہوری فرض ادا کیا۔ 1993 سے ووٹ دے رہا ہوں، پہلا ووٹ پی پی، دوسرا پی پی کو، تیسرا پی ایم ایل این کو، چوتھا پی ایم ایل این کو اور پانچواں پی ٹی آئی کو اور اس امید پر عمران خان صاحب کو ووٹ دیا کہ یہ مڈل کلاس پاکستان کی نمائندگی اور حکمت سے رہنمائی کریں گے۔ پاکستانیوں نے ایک سیٹ سے کئی درجن سیٹیں انکے قدموں میں ڈال دیں اور ایک صوبے کی حکومت بھی عطا کر دی، وہ اب کیا پرفارم کرتی ہے، اسکا فیصلہ بھی ہو جائے گا مگر بہت سارے ایسے اقدامات کی ایک فہرست مرتب ہوسکتی ہے کہ جن سے مجھے اتفاق نہیں ہے اور میرے نزدیک وہ اقدامات پاکستان میں ذہنی خلفشار اور سیاسی یک-سمتی کو کمپرومائز کر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی منور حسن صاحب کا وطیرہ ہے، مگر یارو، ان سے گلہ بھی بے کار ہے۔ ماضی اور اپنی ذات کے زعمِ شیخائی میں زاہدانِ خشک سے، بھلے آپ ماضی کھنگال لیں، خیر کم، بہت کم ہی ہوتی ہوئی ملے گی۔ لہذا، زیادہ فوکس عمران خان صاحب کے حوالے سے۔

اب ذرا چھتری والی مثال کی طرف واپس آئیے۔ ذرا تصور کریں کہ چھتری کی  شافٹ سے جڑی دس تاروں میں سے چار کام نہیں کرتیں تو اس سے نہ صرف چھتری درست طریقہ سے کھلتی نہیں بلکہ باقی والی چھ تاروں کی پرفارمنس بھی متاثر ہوتی ہے۔ طالبان کے حوالے سے آرمی آپریشن پر موجود معاشرے میں پایا جانے والا خلفشار بھی اسی پس منظر میں دیکھئیے کہ فوج اور حکومت عمران خان صاحب کو اپنے اعتماد میں لیے بغیر کوئی سٹریٹیجک فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس فیصلے کے خلاف خان صاحب کی شافٹ سے جڑی پاکستانی ریاست  سے متصل چھتری کی چار درست کام نہیں کرتیں، تو کیا انکو باہر رکھ کر کیا جانے والا فیصلہ کچھ مثبت پیدا کر پائے گا؟ میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو پائے گا۔

خان صاحب نے، کہنے دیجیے، بڑی سمجھدار چالاکی سے کبھی طالبان کا نام لیکر انکی کسی دھشتگردی کی مذمت نہیں کی، حالانکہ یہی طالبان خود انہیں بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ سنٹورس جانے والے، عمران خان صاحب کی سیکیورٹی ڈیٹیل دیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب نے ہمیشہ واقعہ کی مذمت کی مگر واقعہ کے ذمہ داران، حتی کہ اگر وہ ذمہ داری قبول بھی کرلیں، کی مذمت سے اجتناب کیا۔ اپنی فرقہ ورایت کی نفرت میں جلتا کوئی پاگل شخص ہی دھشت گردی کے عفریت کی حمایت کرے گا مگر کچھ سیاسی سمجھ رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ایک واقعہ کی مذمت کرنا اور واقعہ کے ذمہ داران کی مذمت کرنا دونوں جڑی ہوئی، مگر مختلف سیاسی پوزیشنز ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں اینٹ مار کے آپکا سر پھاڑ دوں، میرے والد صاحب، آپکے والد صاحب سے اینٹ مار کے سر پھاڑنے والے واقعہ کو تو برا کہیں، مگر میرا نام بھی اپنے لبوں سے نہ لیں، مجھے سبق سکھانا تو دور کی بات رہی۔ تھوڑی کوشش کریں آپ تو یہ فرق آپ مکمل طور پر سمجھ جائیں گے۔

اب اس سے ہوتا کیا ہے کہ انکے فالوورز عمل کو بھلے برا کہتے، جانتے اور سمجھتے رہیں، مگر عمل کرنے والے کی طرف بات نہ جانے کی وجہ سے معاشرے اور ریاست کے دوسرے حصے جب ایسے قبیح اعمال کرنے والوں کو بھی برا کہتے ہیں تو ایک معاشرتی اور سیاسی رخنہ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ جو بھلے شروع میں بہت باریک ہو، مگر آہستہ آہستہ معاشرے کے ذہنی خلجان کا باعث بننا شروع ہو جاتا ہے، اور یہی پاکستان میں ہوا ہے جسکو فرنٹ سے عمران خان اور قبلہ منور حسن صاحب نے لیڈ کیا ہے۔ مجھے منورحسن صاحب کا وہ انٹرویو نہیں بھولتا جو  انہوں نے پشاور میں ایک شدید بم دھماکے کے وقت دیا کہ  حکومت اگر امریکہ کی مذمت کرے تو میں بھی اس دھماکے کے مجرموں کی مذمت کرونگا۔ ذرا چشمِ تصور سےیہ دیکھیے کہ انکے یہ فقرات اس دن شہید ہونے والے کسی عام پاکستانی کی بیٹی نے سنے ہوں تو اسے کیسا محسوس ہوا ہو گا؟

ان دونوں حضرات نے  پاکستان میں ہونے والے پے درپے دھشتگردی کے واقعات کی تو مذمت کی، مگر ان واقعات میں ملوث دھشتگردوں کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا۔ اسی "سٹریٹیجک سیاسی تقسیم" نے پاکستانی معاشرے، بالخصوص نوجوانوں، کے ذہنوں میں ایک خلجان کو نہ صرف جنم دیا، بلکہ اسکو مزید پروان بھی چڑھایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مارنے والوں نے کبھی تخصیص نہ کی کہ مرنے والا کیا جماعتِ اسلامی کا رکن ہے، تحریک انصاف کا وزیر یا مجھ سا ایک جاہلِ  مطلق!

ریاستیں، میرے دوستو، بہت اہم ہوتی ہیں اور انکو چلانے والے بھی۔ ایک ریاستی اہلکار، سیاسی یا انتظامی سالوں کے تجربہ کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ معاملہ فہمی کر سکے اور بہتر فیصلے کرسکے۔ پاکستان میں یہ ریکارڈ بلاشبہ بہت اچھا نہیں، مگر جیسی بھی ہے، پاکستان بہرحال ایک منظم ریاست ہے اور اس کے نظم میں ہی اسکی بہتری ہو گی۔ یاد رکھیں کہ ریاستی نظم میں معاشرتی و سیاسی نظم اور یکجہتی بھی اشد ضروری ہوتی ہے اور ہر وہ شےء جو اس نظم اور یکجہتی کو کمپرومائز کرے، وہ ریاستی اہداف کا حصول مشکل سےمشکل تر، مشکل تر سے مشکل ترین اور مشکل ترین سے ناممکن بنا ڈالتی ہے۔ اپنی سیاسی بصیرت کے سراب میں الجھے رہنما اپنی سیاست کو بچانے اور بڑھانے کے لیے بہت کچھ کر ڈالتے ہیں، عمران خان صاحب بھی بہت کچھ کر گزرے کہ تحریک کے ساتھیوں پر بہت ساری جگہوں پر مشرف کے ساتھ لوٹے مسلط کر ڈالے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی سیاست کی ہیتِ ترکیبی بھی یہی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایسا ہی کھلواڑ وہ طالبان کے حوالے سے معاشرے اور سیاست میں کر رہے ہیں، اور یہ ریاست، اسکے اداروں اور بالآخر پاکستانی عوام کے لیے بہتر ثابت نہ ہوگا۔

ذاتی طور پر میں فوجی آپریشن کو آخری سے آخری آپشن کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں، مگر کیا یہ آخری سے آخری حد ابھی آن نہیں پہنچی؟ اسکا فیصلہ کرنے والا میں کوئی نہیں ہوتا، مگر شاید یہ معاشرہ، پاکستانی سیاست اور ریاست بھی اس "آخری سے آخری حد" کے آن پہنچنے کا ادراک بہت پہلے کرچکے ہوتے اگر انکی ترکیبات میں "تقسیمی شور" موجود نہ ہوتا، جو کہ ہے اور اس شور کی موجودگی تک، ریاست و حکومت جو بھی کرپائیں گی، نیم دلی سے ہی کرپائیں گی، بدقسمتی سے۔

دوستو، دماغی شور کی موجودگی میں جہاں آپکا ذہن تقسیم ہوا ہو، آپ جوتوں کے تین جوڑوں میں سے ایک جوڑا منتخب نہیں کرپاتے درست طریقے سے، ایک معاشرہ طالبان کے خلاف اس سے ہزار گنا  زیادہ دماغی شور کی موجودگی میں بھلا فیصلہ کیا کر پائے گا؟ جب تک یکسوئی کے ساتھ ایک مضبوط ارادے والا فیصلہ نہیں ہوگا، یہ شور اور یہ نیم دلی جاری رہے گی۔ ہائی سیکیورٹی ڈیٹیل میں عمران خان سینٹورس کی سیر کو جاتے رہیں گے، مگر آپ ، میں، اور چوہدری اسلم مرتے رہیں گے۔

آپ خود سوچئیے، سمجھیے کہ سیاستدان بھی انسان ہوتے ہیں، انکے بھی کارپوریٹ انٹرسٹ ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی لحاظ سے اکملیت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوتے۔ انہیں بھی چند مخصوص طبقات کی ترجمانی کرنا ہوتی ہے، مگر انکی ترجمانی ہر وقت ہی تو درست نہیں ہوسکتی نا جی۔

مگر بہرحال، کچھ سیاستدان اپنا کہا ہوا، کیا ہوا اور غلطیاں تسلیم کرلیتے ہیں، مگر کچھ منور حسن ہوتے ہیں۔

تالمت بالخیر۔

جمعرات، 9 جنوری، 2014

شیر گیس کھا گیا

ایک ایویں کی پنجابی نظم، رائے ونڈانہ شیر کی نذر، جو دنیا کا واحد شیر ہے جو گیس کھانے کا ماہر ہے۔ مگر سوال یہ کہ اتنی گیس کھا کے کرتا کدھر ہے؟

!ذرا سوچئیے

-:عرض کیتا اے

آ گیاچھاگیا،  شیرگیس کھاگیا
 قوم نوں وختاپاگیا،  شیرگیس کھاگیا

 لوکی ٹھرگئے،  وڑگئے،  مرگئے
وختاووٹ سانوں پاگیا،  شیر گیس کھاگیا

 نہاری کھاؤ،  گیس بناؤ، گرمی پاؤ، بل بچاؤ
سبق ایہہ سکھا گیا، شیر گیس کھا گیا

اج بڑی ٹھنڈ اے،  گیس فیر بند اے
قوم نوں تھُک لا گیا،شیر گیس کھا گیا

 سردی وچ ٹھراگیا،  ہر شے جما گیا
بولتی بند کرا گیا، شیر گیس کھا گیا

گھر شے پکدی نئیں، ٹھنڈ دفتروچ مکدی نئیں
ٹھرُو ٹھرُو کرا  گیا، شیر گیس کھا گیا

بجلی غیب، گیس غیب،گھپ ہنیرا چار چوفیرے
روشن پاکستان وخا گیا، شیر گیس کھا گیا

شیر نوں ووٹ پان آلیو، ٹھنڈ مینوں لوان آلیو
ٹھنڈ جُسے واڑ گیا، شیر گیس کھا گیا

ٹھنڈ ٹکاویں برفاں جمی، رائے ونڈ دے سارے کمی
ووٹ لیندیاں ای دوڑ لا گیا، شیر گیس کھا گیا

چوٹھے لارے، گولی بازی، دنے راتی دنے راتی
پھُدو چنگا لا گیا، شیر گیس کھا گیا

طائرانِ لاہوتی وڑ گئے سارے
ٹھر گئے سارے، مر گئے سارے
وخا کے سجی، کھبی قوم نو مرا گیا
شیر گیس کھا گیا، شیر گیس کھا گیا

چھاگیا وئی چھاگیا، شیر گیس کھا گیا
چھاگیا وئی چھاگیا، شیر گیس کھا گیا

جمعرات، 2 جنوری، 2014

زندگی میں بند گلی ہوتی ہی نہیں

ایک موضوع پر لکھنا ابھی تک ادھار ہے کہ جو میرا دلی تحفہ ہوگا اپنے بلوچ دوستوں کےلیے۔ لکھ چکا ہوتا کئی دن قبل مگر غمِ روزگار بہاولپور لےگیا اور پھر دال روٹی کے چکر نے "چکرا" کے ہی رکھا۔ بہر کارِ دنیا دراز است اور ہر ذی روح اس "دُرگُھٹنا" کا شکار ہے، آپ ، میں، یہ، وہ، کوئی بھی -- ایکسیپشن نہیں۔

زندگی میں یارو ہم انسان مسائل میں ہی الجھے ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ امیر یا بہت زیادہ غریب لوگوں کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر آپ، مجھ جیسے جو لو/لوئرمڈل کلاس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ اپنے وجود پر موجود چادر کو ہی درست کرتے کرتے اپنی زندگی کے بہت سے اہم لمحات، خیالات اور واقعات اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں محسوس ہی نہیں کرپاتے۔ کبھی کبھی دوستوں سے کہتا ہوں کہ دونوں ہاتھوں میں ہی نہیں، بلکہ دونوں پیروں میں بھی اپنی بقاء کی جنگ کےلیے تلواریں سنبھالے لڑتے لڑتے اس دنیا سے قبر میں جا پڑتے ہیں ہم سے لوگ۔ اور وہاں جاکر بھی نامعلوم ہونا کیا ہے، مگر مجھ سے تو آمنے سامنے اللہ سے درخواست ہی کریں گے کہ حساب کو تیار ہوں، میرے رب، مگر ذرا  "ہتھ ہولا رکھئے" گا! 

ہمارے طبقے کی صورتحال کافی مخدوش ہوتی ہے۔ ذات کے گھن چکر میں الجھے بہت سے معاشرتی، معاشی، خاندانی، "مُحلاتی" اور برادری وغیرہ جیسے مسائل ہم لوگوں کو اندر، اور باہر سے بھی، کھا جاتے ہیں۔ ہمیں اسکا ادراک اور شعور ہی نہیں ہو پاتا۔ زندگی کی بہت سی لطافتیں، خوبصورتیاں اور رعنائیاں ایک پروپوزل لکھنے، ایک کانسیپٹ نوٹ ڈیویلپ کرنے، ایک رپورٹ تحریر کرنے اور کچھ  نہ ہوتو کوئی ایسے مسئلے پر سوچنے یا اسکو سلجھانے پر ہی قربان ہوجاتیں ہیں کہ جن پر ہمارا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا۔ اور اس مسلسل کوشش کی کیفیت میں ہم سے لوگ عموما بہت/بہت/بہت مرتبہ ایسے محسوس کرتے ہیں کہ ہم شاید زندگی میں ایک مکمل بند گلی میں آن پہنچے ہیں، اور اب اس سے کوئی مفر ممکن نہیں۔ ہماری تخلیقکاری، ٹیلنٹ، ارادے، آئیڈیاز وغیرہ ایک تنخواہ، ایک ڈگری، ایک چھوٹی بڑی مجبوری کی مار بن جاتے ہیں۔ نظر ٹھہر نہیں پاتی، دماغ سنبھل نہیں پاتا، ہمت ہو نہیں پاتی، دل مان نہیں پاتا اور ایک کے بعد دوسرے کے بعد تیسرے کے بعد چوتھے اور نامعلوم کتنے ہی سمجھوتے ہماری زندگیوں کی کہانی بن جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری بندگلی کو اپنا مقدر جانتے اور سمجھتے ہوئے ہم میں سے اکثریتی لوگ ایسے ہی مہد سے لحد میں جا اترتے ہیں۔

یہ درست نہیں۔ یہ بالکل درست نہیں۔ یہ بالکل بھی درست نہیں۔

میں ثقافتی اور قران سے سیلیکٹیولی ہدایت کشید کرنے والا خراب مسلمان ہوں۔ تمام فرقوں کو قریب سے دیکھنے کےبعد ان سے شدید آوازاری کا ایک شعوری احساس رکھتا ہوں اور اپنی اس خراب حالتِ ایمانی میں ہی "ٹھنڈ پروگرام" میں رہتا ہوں۔ یہ حوالہ یہاں ضروری اس لیے تھا کہ مجھ سا رندِخراب بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ قرانی فیصلہ کے مطابق کسی بھی انسان پر اس کی بساط و برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ ہوتا محض یہ ہے کہ ہم اپنی جلدی اور اس وقت کی موجودہ پرابلم کے زیرِ اثر اپنے فیصلے کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور اسی قسم کی طبیعت کے زیرِاثر ہم اپنے تئیں اپنے آپکو بند گلی میں کھڑے تصور کرتے ہیں۔جبکہ تھوڑا سا صبر اور تھوڑی سے حکمت بہت سے معاملے اچھے طریقے سے حل بھی کرتے ہیں اور زندگی کو آگے بڑھانے میں ممدومعاون بھی ثابت ہوتے ہیں۔

تین اصول، جوکہ میں خود بھی کبھی کبھی بھول جاتا ہوں، مگر آپکی نذر لازمی کرنے کا سوچا کہ زندگی جینے کا نام ہے، ایک کے بعد دوسرا سمجھوتا کرنے کا نہیں۔ زندگی، میرے یارو، ایک ون-وے ٹکٹ ہے۔ جو پل گیا، سو گیا۔ لہذا بہتر یہی کہ اس کے بہترین میں ہی جیا جائے، نہ کہ ایک مسلسل بدترین میں۔

اصول نمبر1: زندگی کے فیصلے اس بنیاد پر کبھی مت کیجیے کہ آپ ابھی کیا چاہتے ہیں۔ یہ میرے پسندیدہ مصنف، پالوکوایلہو کا اصول ہے۔ ہم حال کی گھڑی کو ہی اپنی مصیبت کی انتہا جانتے ہوئے جلدی کے فیصلے کر بیٹھتے ہیں اور پھر تادیر انکی قیمت ادا کرتے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں۔

اصول نمبر 2: جس معاملہ نے آپکی حال کی گھڑی میں جان کھائی ہوئی ہے، ذرا سوچیں کہ چھ ماہ، ایک سال یا دوسال بعد اسکی آپکے لیے کیا وقعت ہوگی؟ کہنا یہ ہے کہ شاید آپکو یہ معاملہ/مسئلہ یاد بھی نہ ہو۔ مزید بہتر یہ کہ شاید یہ آپکے لیے ایک لطیفہ اور اس سے بھی زیادہ بہتر کہ ایک سبق بن چکا ہو۔ زندگی صرف آپکے حال کی گھڑی میں ہی ختم نہیں ہوتی۔ چلتی ہے، چلتی رہتی ہے اور اسکے چلتے رہنے کی اصلیت کو جانئیے اور اسکے مطابق ہی فیصلہ سازی کیجیے۔

اصول نمبر 3: اگر آپ "لگے رہو مُنا بھائی" ہیں تو یقینِ محکم رکھیے کہ زندگی میں ابھی بہت کچھ اچھا/برا دیکھنے کو ملے گا۔ یہاں پر مقصد یہ نہیں کہ سستی کا مظاہرہ کریں یا معاملہ فہمی کو ترک کریں  ۔  نہیں، بالکل نہیں۔ بھرپور کوشش کریں اور اپنے تئیں معاملہ سازی کی مخلصانہ اور شاندار کوشش کریں مگر پھر بھی کسی بھی وجہ سےدرستگی نہ ہو تو اسے بھی اپنے لیے بند گلی تصور نہ کریں بلکہ اس پوائنٹ سے آگے بڑھ جائیں اوراپنے آپ کو اس واقعہ، کام، ناکامی، انسان، وقت وغیرہ میں کبھی بھی نہ گاڑیں، کبھی بھی نہیں۔ کسی بھی قیمت پر بھی نہیں۔

ان تین اصولوں کو اگر آپ تین ستون جان لیں تو میرے دوستو، ان ستونوں کے اوپر چھت کا نام ہے: زندگی میں بند گلی ہوتی ہی نہیں۔


اور یہ میرا بہت آزمودہ نسخہ بن چکا ہے۔ آپ بھی آزمائیے، فیدا نہ ہووے تے پیسے واپس!