اتوار، 19 اپریل، 2015

لمحوں کا وزن، جو ساری عمر اٹھانا پڑتا ہے

سچ تو یہ ہے دوستو کہ  میں نے یہ خیال جعفر حسین، کہ جن کا لعل ابھی گدڑی میں ہی ہے، سے مستعار لیاہے۔ جعفر نے ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دکھ ہمیشہ کےلیے ہوتے ہیں، اور سُکھ محض وقتی۔ جعفر کی اس بات سے فورا ہی اتفاق کیا کہ یہی حقیقت ہے۔  یہ حقیقت میرے خیال کی آجکل تقریبا بجھی ہوئی آنچ پر بہت عرصہ ہلکے ہلکے سسکتا رہا۔ کل شام ایک تقریب میں شرکت کے دوران ہی یہ خیال کچھ سوختہ ہونے لگا تو سوچا کہ کندھوں سے یہ وزن  اتار دیا جائے۔

میری زندگی میں دو لمحات ایسے ہیں کہ جن کا وزن مجھے ساری عمر اٹھانا ہے۔ ان دو لمحات میں، میں نے اپنے دو محسنوں کو مناسب رویہ نہ لوٹا سکا اور اسکا قلق ہے۔ سبق کیا سیکھا، اسکا تذکرہ آخر میں آئے گا۔

سنہء1990، یا شاید ایک آدھ سال اس سے پہلے، میں اپنے قصبہ ملکوال میں تھا اور اپنے معیار کا ایک مناسب کرکٹ کا کھلاڑی تھا۔ ہماری کرکٹ ٹیپ بال سے ہوتی تھی اور سال میں کئی ایک ٹورنامنٹس بھی ہو جایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بھی اب لاؤڈسپیکری تفریح اور معاشرے کے ایک خود پر جعلی طور پر مسلط کردہ مسلسل احساس گناہ میں مفقود ہو چکا۔ نوجوان اب ٹیپ بال کرکٹ کی بجائے اپنے گناہ بخشوانے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں، اور بخشش کے سامان کے ساتھ ساتھ، اپنے تئیں گناہ کا سامان بھی مسلسل کیے جاتے ہیں۔ بہرحال۔۔۔

مناسب کھلاڑی ہونےکی وجہ سے آس پاس کے قصبات کی ٹیمیں مجھے اور چند ایک دیگر کھلاڑیوں کو "ادھار" پر بھی لےجایا کرتی تھیں ان علاقوں میں ٹورنامنٹس  کھیلنے کےلیے۔ ہم لوگ عموما ، میانی، پنڈدادنخان، ہریا اور آہلہ (یہ سب مختلف گاؤں کے نام ہیں) جایا کرتے تھے اور بعض اوقات یہاں سے کھلاڑی ملکوال بھی آ کر کھیلا کرتے تھے۔ تحریری قید میں لایا جانے والا یہ واقعہ پنڈدادنخان سے متعلق ہے۔ ایک ٹیم مجھے اور میرے دو دوستوں کو کرکٹ کھیلنے کےلیے وہاں لے گئی۔ وہاں ہم نے البیرونی کالج کے گراؤنڈ میں دو میچز کھیلے، ایک جیتا، ایک ہارا۔ اس دوران اس ٹیم کے چار لڑکوں سے اچھی سلام دعا ہو گئی۔ بعدازکرکٹ انہوں نے ہمیں خداحافظ کہا، سٹیشن تک چھوڑنے آئے اور ہم پھر ٹکٹ کے بغیر ریل گاڑی میں سوار ہوکر ملکوال پہنچ گئے۔ رابطہ کا کوئی ذریعہ ان دنوں تھا نہیں، لہذا ایک ہی صورت تھی کہ یا میں پنڈدادنخان جاتا، یا وہ ملکوال آتے۔ خیر کوئی ڈیڑھ ماہ کے عرصہ کے بعد وہ ملکوال آئے اور میرے ساتھ گئے ہوئے، میرے رشتہ دار، امجد بٹ کی دکان پر جا پہنچے، کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کرکٹ میچ کھیلنے وہاں گیا تھا۔ انہوں نے امجد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، اور امجد نے انہیں اپنے دیرینہ ملازم، چاچا  گاما، کے ہمراہ میرے گھر روانہ کر دیا جو کوئی ایک منٹ کی واک پر تھا۔ چاچا گاما بہت مزیدار شخص تھے، عمر میں بڑے تھے، مگر انکے ساتھ ہماری ٹیں پٹاس چلتی رہتی تھی، جسکو وہ خود بھی بہت انجوائے کرتے تھے۔ خیر ان چاروں سے، کہ جن کے نام بھی اب مجھے یاد نہیں، ملاقات ہوئی اور چاچا گاما جب جانے لگے تو انہوں نے میرے ہاتھ میں پچاس روپے کا ایک نوٹ تھما دیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا بھی کہا۔ میں سمجھ گیا۔

امجد کو میرے حالات معلوم تھے، اور اس نے پچاس روپے اس لیے بھجوائے تھے کہ میں ان چاروں کی کوئی خدمت خاطر کرسکوں۔ ملکوال میں ان دنوں "سلیم کے چاول چھولے" بہت مشہور اور "ایلیٹ کلاس" کے ہوتے تھے، آٹھ روپے کی بڑی پلیٹ آتی تھی، تو ہم پانچ لوگ چالیس روپے میں بہترین عیاشی کرنے کےبعد ڈیڑھ روپے فی کپ کے حساب سے پانچ کپ چائے بھی پی سکتے تھے۔ امجد کو معلوم تھا، میں بھی سمجھ گیا، لہذا یہی کیا اور سینتالیس روپے پچاس پیسوں میں میری عزت رہ گئی۔ باقی ڈھائی روپوں سے میں نے سٹریٹ فائٹر ویڈیو گیم کے پانچ ٹوکن کھیل لئے، قصہ تمام۔

امجد نے میرے ساتھ اس وقت کی بہت بڑی نیکی کی کہ ہمارا روایتی معاشرہ، بقول میرے کزن عمران بٹ کے، "ٹؤر (نمود ونمائش) کے جاہلانہ تصور کے ہاتھوں قیمہ بنا ہوا ہے!" وہ پچاس روپے نہ ہوتے تو ان چار اصحاب کو کھلانے کےلیے میرے پاس کچھ نہ تھا، ماسوائے اپنے گھر کے نلکے کا گیڑا ہوا پانی۔ امجد نے بعد میں سنہء2002 میں ایک کاروبار کو شروع کرنے میں میری بہت مدد کی اور میری وجہ سے تقریبا ایک لاکھ روپیہ اگلے آٹھ سال تک میرے پاس پھنسائے رکھا۔ میں اسکو وقت پر پیسے واپس نہ کرسکا کہ میرے اپنے حالات شدید مشکل اور کوشش والے تھے، اور اسی عرصہ کے دوران، اسکا معاشی دباؤ، اور میری معاشی مجبوریاں، ہماری دھائیوں پرانی دوستی پر اپنی گرد چھوڑ گیا۔ تعلق کا دھاگہ ابھی بھی قائم ہے، مگر بہت پتلا ہو چکا۔ ملکوال جانا ہوتا نہیں، جاؤں تو وہاں کی اپنی مصروفیات، مگر امجد سے رابطہ کرنا ضرور ہے، آجکل میں ہی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ میں ان پچاس روپوں کا وزن ساری عمر بخوشی اٹھاؤں گا،  یہ ظرف کا مطالبہ بھی ہے۔

دوسرا معاملہ 2003 کا ہے۔ معین قریشی، میرے ایک جاننے والے کے حوالے سے دوست بنے۔ انکے والد صاحب، سمیع اللہ قریشی، ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور نہایت مناسب لوگ تھے۔ میں نے معین قریشی کے ساتھ "اپنی کوشش اور اسکے سرمایہ" کی بنیاد پر ایک کاروباری شراکت شروع کی۔ معین کا کام اخباری اشتہاروں کا تھا اور اسکے ساتھ، خدا شاہد، کہ پوری نیت کے ساتھ معاملات شروع  کیے اور پھر قائم رکھے۔ ہمارے معاملات تقریبا خوش اسلوبی سے تین سے چار ماہ تک چل رہے تھے کہ کچھ اسکے آفس کے پرانے سٹاف ،کہ جن کے نام غفور اور عتیق سے مجھے یاد پڑتے ہیں، کی کان بھرائی سے اور خود میرے  ایک لالچ کرنے سے، خرابی آ گئی۔

میں اس شدید معاشی دباؤ کو برداشت نہ کرپایا جو صرف ایک سال قبل اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے اور اس میں ناکامی کی وجہ سے میرے اوپر طاری تھا۔ اس شدید معاشی دباؤ میں کہ جس میں مجھے ہر ماہ پانچ بینکوں کو قرضے کی اقساط دینا ہوتی تھی، کہ جب میری تنخواہ کوئی پچیس ہزار اور ماہانہ اخراجات، اقساط سمیت، اکتالیس سے پینتالیس ہزار تھے، اور اس روٹین نے مجھے توڑ ڈالا تھا۔ معاشی دباؤ سے زیادہ بڑا نقصان ناکامی اور بےبسی کے مسلسل احساس کا تھا اور اس عجیب سے مکسچر نے مجھے لالچ کا شکار کیا اور میں نے معین قریشی کے کاروبار سے سیکھ کر خود سے وہی کام کیا (اخباری اشتہارات کا)، اس کام کو کامیاب کیا، مگر صرف چند ماہ بعد  میرے ساتھ میرے انویسٹر نے وہی سلوک کیا، جو میں چند ماہ قبل معین قریشی سے کر آیا تھا۔ خود پر جب بیتی تو معلوم پڑا کہ کیسا محسوس ہوتا ہے۔ چند ایک مرتبہ کوشش کی کہ معین سے سلام دعا کرسکوں، بیچ میں ایک دو ریفرنسز بھی ڈالے، مگر اس سے تعلق بحال نہ ہوسکا، اور آج بھی اس سے کوئی تعلق موجود نہیں ہے، مگر  اپنی لالچ، مجبوری، جلدی میں معاشی ترقی کرنے، حالات بہتر کرنے وغیرہ، اسے جو مرضی ہے نام دے لیں، کی وجہ سے ان لمحات کا وزن اٹھائے پھرتا ہوں اور شاید ساری عمر ہی یہ وزن اچانک سے بذریعہ خیال کندھوں پر آن موجود ہوتا ہے۔ کچھ دیر اسکو ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہوں، اور پھر زندگی اپنی جانب گھسیٹ لیتے ہے، تاآنکہ اگلی مرتبہ تک کےلیے یہ خیال پھر آن وارد ہوتا ہے!۔

مجھے اپنی تان وہیں پر توڑنا ہے کہ جہاں سے شروع کیا تھا۔ ہم میں سے ہرانسان اپنی زندگی میں ایسے چند لمحات کا وزن اٹھائے پھرتا ہے، اٹھانا پڑتا ہے۔ راز، بلکہ بہتری، اس میں یہی مضمر ہے کہ لمحوں کے اس وزن کی حقیقت سے سیکھ لیا جائے، اپنی ذات کے کچھ ایسے فلسفے بنا لیے جائیں کہ جتنے لمحات کے اوزان ذہن و کندھوں پر موجود ہیں، بھلے رہیں، مگر ان میں کچھ اضافہ نہ ہونے پائے۔ میں نے اپنے انسانی تجربات میں کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں، جو آپ، مجھ اور ہمارے آس پاس کتنوں سے ہی زیادہ خوش اور خوشحال محسوس ہوتے ہیں، انکے قریب جانے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر بیت جانے والے ان دولمحات جیسے درجنوں لمحات اپنے اوپر لئے پھرتے ہیں، اور ساری عمر انہیں اسکا شعور ہی نہیں ہوپاتا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے اپنے کسی افلاطونی لمحہ میں یہ شعور خود سے گھڑ لیا، مگر آپسی تعلقات کی بہت ساری جہتیں میں نے ان دو لمحات کے وزن سے ہی سیکھیں، بنائیں اور ان جہتوں میں سے زندگی کی جو سوچ برآمد ہوئی، وہ میں اب ہر بار کہتا رہتا ہوں:

دھیرج، یارو، دھیرج!۔

لمحات بھلے ذہن میں مسرتیں نہ چھوڑ کر جائیں، کہ مسرتیں ہوں بھی تو اپنے وقت آنے پر بھک سے اڑ جاتی ہیں، مگر لمحات، صاحبو، اپنا وزن نہ ہی چھوڑ کر جائیں تو بہتر ہوتا ہے۔ جتنے لمحاتی وزن آپ پہلے ہی سے اپنے اوپر لئے  پھر رہیں ہیں، ان میں اضافہ نہ کیا کیجیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وزن بڑھتا چلا جائے اور آپ کچلتے چلے جائیں۔ آپ چاہیں تو میری بات مان سکتے ہیں کہ یہ اختیار کلی طور پر آپکا اپنا ہے۔


آج اتوار ہے، چھٹی انجوائے کیجیے۔