اتوار، 17 نومبر، 2013

شیعہ-سُنی، بھائی بھائی یا نری لڑائی، مار کٹائی؟

آج اتوار ہے، یارو، اور بہت سے پاکستانی آج سکون و آرام سے بیٹھے اپنا دن گزار رہے ہوں گے۔ میرا بھی دل کرتا ہے، مگر محنت کے علاوہ، مجھ سے لو-مڈل کلاس لوگوں کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار ہی نہیں ہوتا کہ ہم سے لوگ اگر محنت نہ کریں تو جو تھوڑی بہت ذہانت اللہ نے عطا کی ہوتی ہے، اسکو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ اور اگر ذہانت کو زنگ لگ جائے تو پھر صرف اپنے ہی مقدر نہیں، بلکہ نسلوں کے مقدر زنگ آلود اور وہ پھر یہ زنگ اتارتے اتارتے قبر میں ہی جا اترتے ہیں۔ مگر موضوع یہ نہیں  کہ جس پر آج کچھ لکھنا ہے۔ آج دراصل پھر آپکو اپنی ایک ہڈ بیتی سنانی ہے اور فیصلہ آپ پر ہی چھوڑنا ہے کہ آپ نے کیا بن کر جینا ہے: عمل کرنے والا ایک متوازن شخص یا مذہبی مداریوں، اسلامی دغابازوں اور فرقہ پرست دکانداروں کے زیرِ اثر ایک مستقل ردِعمل کا شکار جذباتی ہیجان اور ذہنی خلجان کا مارا ہوا شخص۔

کہانی میری، مگر فیصلہ آپکا۔

یہ 1996 کی بات ہے، میں اور میرا چھوٹا بھائی،  راولپنڈی کے ایک علاقہ پنڈورہ چونگی کے تنگ و تاریک چھوٹے محلے، چشتیہ آباد میں رہائش پذیر تھے۔ زندگی میں محنت مشقت ویسی ہی تھی جیسی کہ آج کل ہے، مگر صرف یہ کہ اب تجربہ ہنر اور مہارت زیادہ لہذا اسکا معاوضہ بہتر۔ ہم دونوں ایک تین منزلہ مکان میں مقیم تھے کہ جسکا کل رقبہ شاید ڈیڑھ مرلہ سے بھی کچھ کم ہی ہوگا۔ مگر اس مکان میں، میں اور مصدق، ہم ہی ایلیٹ کلاس تھے کہ گراؤنڈ پورشن ہمارے پاس تھا۔ درمیان والی منزل میں ایک افغان فیملی کہ جس کے نو بچے تھے اور شاید ایک  دنیا میں آنے والا تھا، جبکہ سب سے اوپر والے حصہ میں تین طالبعلم مقیم تھے جو کہ اکاؤنٹنسی پڑھ رہے تھے۔

افغان فیملی نہایت پرشور مگر سلجھی ہوئی تھی۔ خاتونِ خانہ ایک زندہ دل، مگر نہایت چھوٹی عمر میں ہی بوڑھی ہوجانے والی خاتون تھیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے وہ آج جہاں کہیں بھی ہیں۔ انکے پڑھے لکھے ہونے کا ایک ثبوت ہی کافی تھا کہ شدید بدترین حالات میں بھی انکے سکول جانے کی عمر والے سارے بچے سکول جاتے تھے اور ہم دونوں بھائی سنتے ہی رہتے تھے کہ وہ کس طرح ہر بچے سے سکول جانے کے معاملہ کی بابت پوچھتی رہتی تھیں۔ دو تین ہفتوں میں وہاں رہنے والے تمام لوگوں سے ہماری سلام دعا اچھی ہوگئی اور ہم ایک فیملی کی طرح رہنا شروع ہو گئے۔ انکی ایک چار سال کی بچی کا نام عاطفہ تھا اور پانی والی موٹر کا سوئچ ہمارے پورشن میں تھا۔ جب بھی پانی ختم ہوتا تو اسکی آواز آتی: "اااااااانکللللللل، مَوووتَر چلاااااا دووووو۔" آج بھی کبھی کبھی اپنے گھر میں موٹر کا سوئچ نیچے کرتے ہوئے اس ننھی فرشتہ کی آواز کانوں میں آتی ہے اور میں مسکرا اٹھتا ہوں۔

انکےوالد صاحب، پنڈورہ چونگی میں واقعی ایک تندور میں روٹیاں لفافے میں لپیٹ کر گاہکوں کے حوالے کرنے کی نوکری کرتے تھے اور میں نے انہیں کبھی بھی بولتے ہوئے نہ دیکھا۔ خاموش رہتے، آنکھیں نیچے رکھتے، اپنے کام سے کام اور نہ ہی کوئی دعا، نہ کوئی سلام۔ صبح سویرے سیڑھیاں اترتے اور کام پر، دوپہر میں کچھ دیر آتے، دو گھنٹہ بعد پھر کام پر اور پھر رات گئے واپسی۔ جاتے بھی خاموشی اور آتے بھی خاموشی سے۔

ایک دن اوپر والی خاتون نے ہم بھائیوں کے لیے دہی میں بینگن بنا کر ایک پلیٹ بھیجا، میں انکا شکریہ ادا کرنے کےلیے تنگ درمیانی صحن میں آیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آج چھٹی ہے، بس آرام تو انہوں نے کہا کہ کیا تم "اماری شادی کا فیلَم دیکنا چائے گا؟" میرے پاس بھلا اور کیا جواب ہوتا، میں نے حامی بھرلی اور ایک منٹ سے کم ٹائم میں عاطفہ سے ایک سال بڑی "یلدا" ویڈیو کیسیٹ لے کر نیچے۔

فلم وی سی آر میں لگائی اور میرے ہوش اڑ گئے۔ ساری عمر کے لیے ایک سبق حاصل کیا اور اس سبق کو شئیر کرنا ہی اس مضمون کا مطمئع نظر ٹھہرا۔ سکرین پر نہایت ہی امیر و کبیر خاندان کی جھلکیاں، مکمل مغربی طرز کی شادی کی تقریبات، ایک بہت بڑے ہوٹل میں کہ جسکا لان بھی درمیان میں کبھی کبھی نظر آ رہا تھا، مہمان بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف۔ بہت خوبصورت طریقہ سے ملبوس خواتین و حضرات، متمول، خوش، مطمئن، مسرور، بے فکر اور ہنستے مسکراتے ہوئے۔ اور انہی خواتین و حضرات میں اوپر والی آنٹی اور انکے شوہر بھی۔ شادی کے بہترین سفید مغربی جوڑے میں خاتون اور کالے رنگ کے بہت اعلیٰ مغربی لباس میں صاحب۔ اک عجب ٹرانس کے عالم میں وہ فلم دیکھی اور جب واپس کی تو پوچھا کہ کہاں یہ فلم اور کہاں پنڈورہ چونگی کا محلہ چشتیہ آباد؟

خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور کہا: "جنگ میرے بھائی، جنگ۔ لڑائی میرے بیٹے لڑائی!"

اسی مرحلہ پر معلوم ہوا کہ صاحب ایک بہت بڑے اور کامیاب کاروباری خاندان سے تھے، مگر نسلی، گروہی اور مذہبی لڑائی جو کہ کچھ افغانوں کی اپنی غفلت اور کچھ پاکستانی "مہربانی" سے ان پر مسلط کی گئی۔ ان جیسے ہزاروں خاندان تباہ ، برباد، مہاجر اور در بدر ہوگئے۔ قریباایک کروڑ افغان بین الاقوامی مہاجر بنے، مارے گئے یا اپنے ہی ملک میں ہجرت کی۔ اسکا سبب: لڑائی، لڑائی، لڑائی۔

اور زندگی چلانے، بلکہ گھسیٹنے اور پیٹ کا جہنم ٹھنڈا رکھنے کی خاطر، ایک نہایت کامیاب کاروباری، ایک تندور پر روٹیاں پکڑانے کے کام پر !

مذہبی جذباتیت کے دماغی ہیجان اور ذہنی خلجان میں مبتلا پاکستانی نوجوان نہیں جانتے کہ جب ملک اندر سے خراب ہوں، ٹوٹ جائیں تو انہی نوجوانوں کی مائیں مہاجر، بیویاں، بیٹیاں اور بہنیں ذلیل و خوار ہونگی۔ جو عمر میں بوڑھی ہونگی، وہ پرانے دنوں کی یاد میں آہیں بھرا کریں گی، اور جو نوجوان اور جوان ہونگی وہ طوائفیں، گھروں میں کام کرنے والیاں بنیں گی اور اک نسل کی جدوجہد میں مبتلا اندر سے خالی، ٹوٹی ہوئی شخصیات ہونگی۔ ابھی شیعہ اور دیوبندی بن کر سوچنے اور عمل کرنے والوں کی "انسانی غیرت" اس وقت دیدنی ہوگی جب خالی پیٹ انکے گھروں کی باعفت، با شرم اور تحفظ میں جینے والے بچیاں دوسروں کی ہوس بجھانے پر مامور کہ گھر میں ایک وقت چولہا جل جائے۔ تب شاید ان "شیعوں، دیوبندیوں، بریلویوں، اہلِ حدیثوں" کو سمجھ آئے گی کہ ردِعمل میں لڑائی، مار کٹائی کا اپنا مزہ بھلے ہوتا ہو، مگر وہ بےچارگی بھی کچھ کم "مزیدار" نہ ہوگی۔

اگر معاشرے اور ملک تباہ و برباد ہوں، تو دوستو، سب سے زیادہ متاثر بچے اورخواتین ہوتی ہیں۔ میری عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ ہم پاکستانی افغانوں کو تین نظروں سے ہی دیکھتے جوان ہوئے کہ انہوں نے پاکستان میں: ہیروئین، کلاشنکوف اور طوائفیں پھیلائیں۔ مان لیا کہ پھیلائیں اور وجہ یہ کہ انکے ملک میں لڑائی اور جنگ تھی۔ اور اگر ایسے ہی حالات اگر پاکستان کے ہوئے تو دماغی طور پر شیعہ اور دیوبندی بن کر جینے والے "غیرت مند پاکستانی جوان" جان لیں کہ ہیروئین اور کلاشنکوف تو اب کام ہوئے پرانے، مگر ان کے گھروں کی خواتین بہرحال طوائفیں ضرور بن سکتی ہیں کہ یہ قدیم ترین پیشہ ہے، جو جدید ترین بھی اور تاقیامت جاری رہے گا۔

آخری بات یہ کہ: کیا آپ نے کبھی، دوبارہ کہتا ہوں، کیا آپ نے کبھی کسی بھی افغان مولوی، مذہبی لیڈر اور مُلا کے گھر کے بارے میں وہ سنا جو میں نے اوپر بیان کیا ہے؟ کبھی سنا؟ اور اگر سنا ہوگا تو یہ کہ افغان مُلا امیر، کبیر اور خوشحال ہی ہوا اس جنگ کے کاروبار میں۔ آپ، ہم جیسے لوگ ذلیل و خوار ہوئے کہ افغانستان میں رہنے والے لوگ بھی "انسان" ہی تھے۔ ابھی یہ آپکی مرضی کہ آپ ذلالت (اور دلالت) کا راستہ چنتے ہیں اور شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، فرقہ پرست مُلاؤں کو خوشحال کرتے ہیں، یا اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے، ردِعمل سے انکار کرتے ہیں اور ایک صحتمندانہ زندگی سوچتے، بناتے اور جیتے ہیں۔

کہانی میری تھی، یارو، اور میں نے فیصلہ تو بہت عرصہ قبل ہی کرلیا تھا۔ اب آپکو سنا ڈالی، اور اب شاید فیصلہ کرنے کی باری آپکی ہے۔


ہاں جی، تو پھر ہو جائے شیعہ-دیوبندی لڑائی تاکہ  آپکی بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں۔۔۔۔ آہم! آہم! آہم!!!