بدھ، 20 نومبر، 2013

گمشدہ لوگ، موجود کہانیاں

فرض کیجیے آپ ایک باپ ہیں اور آپکی عمر 70 سال ہے۔ آپکا بیٹا صبح دفتر جانے سے پہلے آپکے پاؤں چُھو کر جاتا ہے اور آپ اسے کہتے ہیں کہ آتے ہوئے دوکلو چِکن لے آنا کہ "شائستہ کے سسرال والے آرہے ہیں۔" ٹھیک ہے بابا، جواب آتا ہے۔ مگر وہ خود پچھلے  تین سالوں سے گھر نہیں آتا۔

یہ بھی فرض کیجیے کہ آپ ایک بہن ہیں اور آپکے والد صاحب کا انتقال کوئی دس برس قبل ہو گیا۔ آپکا بڑا بھائی ہی آپکا واحد کفیل ہے اور آپ اسکی شادی کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ ایک دکاندار ہے اور آپ کہتی ہیں، "بھائی، شام کو جلدی آنا، آپکی شادی کے جوڑے کا ناپ دینا ہے۔" وہ مسکراتا ہوا آپکو دیکھتا ہے اور کہتا ہے  کہ "جس بھابھی کو گھر میں لا رہی ہو، اسکی پھر شکائتیں نہ لگانا۔" آپ بھی جواب میں مسکراتی ہیں۔ مگر آج اسکی راہ تکتے کوئی سات برس بیت چلے۔ اور خود آپکے بالوں میں سفیدی آن چلی۔

آپ ایک بیٹی ہیں اور آپکی عمر ابھی بارہ سال ہے۔ آپکے ابو صبح سکول پڑھانے جاتے ہیں کہ وہ ٹیچر ہیں، مگر یہ واقعہ آج سے آٹھ سال قبل کا ہے۔ آپ نے اپنےابو کی شکل نہیں دیکھی اتنے عرصہ سے۔

اور۔۔۔آپ ایک ماں ہیں۔ دو بیٹوں کو جنم دیا، ایک قتل ہوگیا اور دوسرا غائب۔ آپ پچھلے چھ ماہ سے اپنے شہر کی سڑکوں پر دھکے کھا رہی ہیں اور آپکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

یہ ساری کہانیاں افسانوں کے بازاری رسالوں میں نہیں چھپیں، دوستو، یہ ساری کہانیاں انسانوں کی ہیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کی جو باپ، بیٹے، بہنیں، بیٹیاں، مائیں اور بیویاں ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جوظلم کا شکار ہوئے، ان میں وہ بھی ہیں جو شک کی بنا پر اٹھا لیے گئے، ان میں وہ بھی ہیں جو صوبائیت کے نام پر متشدد جاہلیت کی بھینٹ چڑھا دیے گیے۔ ہزاروں لوگ، ہزاروں کہانیاں، مگر افسانے نہیں، سچی کہانیاں۔

بلوچستان کی سچی کہانیاں جو کانوں کو بھلی نہیں لگتیں، مگر دل چیر دیتی ہیں!

میں ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ چودہ ہزار بلوچ جوان اٹھا لیے گئے۔ خود انسانی حقوق کمشن کی رپورٹ کے مطابق تعدا دوہزار سے کم ہے اور ان میں بھی کافی ایسے ہیں جواپنے تئیں سردارزادوں کی سیاسی عیاشی کی نذر ہولیے، مگر بہرحال زیادہ تر تعداد انہی کی ہے جو کہ اٹھا لیے گئے، مار ڈالے گئے، مار کر پھینک دیے گئے۔ اور اس سارے "گھڑمس" میں طرفین نے اپنے اپنے سچ بھی گھڑ لیے اور اپنے سچ کو ہی واحد سچ جانا۔

بلوچ کہتے ہیں، چودہ ہزار۔ حکومت کہتی ہے آٹھ سو—اور دونوں ہی جھوٹ بولتے ہیں، سفید، کالا اور لال جھوٹ۔ اپنے اپنے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے پھیلاتے ہوئے اور دراصل محض اپنے اپنے افسروں کو خوش کرتے ہوئے۔اور انہی اعداد میں موجود ہزاروں انسانی کہانیاں جیسے اپنا وجود ہی نہیں رکھتیں۔ ایک ثابت کرے کہ پاکستانی، اور خاص طور پر پنجابی، دنیا کے ظالم ترین اور  گھٹیا ترین لوگ ہیں۔ دوسرا یہ ثابت کرے کہ غائب ہونے والے سارے بلوچ ہی مسلح دھشتگرد تھے۔ پہلے بھی کہا، اب پھر کہتا ہوں: تم دونوں جھوٹے ہو۔ اور ایک کچا پکا مسلمان ہونے کے باوجود مجھے کہنا ہے کہ جھوٹؤں پراللہ کی لعنت ہے!

ماما قدیر اور اسکے ساتھ چلتی بلوچستان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں، میں آپ سب سے پوچھتا ہوں، کیا فاترالعقل ہیں؟ کیا انکے دماغ خراب ہیں کہ سردی گرمی میں پکی سڑک پر اپنی چپلوں میں آٹھ سو میل کا سفر احتجاجی طور پر کر رہے ہیں؟ کیا انکے بھائی، بچے، باپ، بہنیں اور گھر نہیں کہ یہ باہر سڑک پر اپنے پیاروں کے لیے در بدر ہورہے ہیں؟ کیا انہیں ویسے ہی گھر کا آرام عزیز نہیں جیسے آپکو ہے کہ یہ باہر نکلے ہوئے ہیں؟ کیا یہ بلوچ، انسان نہیں؟ اور کیا یہ پاکستانی نہیں؟

اپنی آواز بلند کیجیے آپ جہاں بھی ہیں۔ انکے لیے کہ یہ درماندہ ہیں آج، کیا معلوم کل آپکی باری ہو۔ اور آپ اگر آج خاموش رہے، تو یارو، آپکے لیے کل کوئی نہ بولے گا۔

بلوچ کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ چند احمق نوجوانوں نے جوابی تشدد کیا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ مارے دونوں طرف سے آپ اور مجھ سے عام لوگ ہی زیادہ گئے، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ اس وقت سڑک پر چلنے والے پر امن اور غیر مسلح بلوچ آپ اور مجھ جیسے عام لوگ ہی ہیں۔ انکی بات سنیئے، پھیلائے اور اپنے تئیں جتنا ہوسکتا ہے، جہاں ہوسکتا ہے انکا دامن پکڑئیے۔ ریاست نے جواب بھلے دیا ہو اپنے تئیں بلوچ نوجوان کے آزادی کے "سرداری سراب" کا مگر، بڑی ذمہ داری، میرے دوستو، ریاست کی ہی بنتی ہے۔ ریاستی جواب اور ایک مسلح بدمعاش کے جواب میں فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق بہتر ہو کہ آپ ابھی سے سمجھ لیں اس سے قبل کہ یہ آپ کے ساتھ ہو۔

میرے نزدیک، ہر اس بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی کا ساتھ دینا آپکا اور میرا سیاسی اور "پاکستانی" فرض بنتا ہے جو مسلح غنڈہ گردی کیئے بغیر اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ آج یہ بچے، بہنیں اور بیٹیاں باہر سڑکوں پر ہیں اور پر امن ہیں، خدارا انکے ساتھ کھڑے ہوں کہ یہ اپنا حق مانگتے ہیں اور اس میں بھی ریاست کا ہی بھلا ہے کہ یہ اٹھا کر غائب کردینے والی عادتِ بد سے شایدایسے ہی چھٹکارا پا لے۔

میرے یارو، یہ گمشدہ لوگوں کی موجود کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں کو سنو، سمجھو اور اس سے پہلے کہ یہ آپکی کہانی بنے، اس کہانی کے دراز ہونے کو روکو۔ ابھی اور یہیں۔


وگرنہ لوگ بھی گمشدہ ہوتے رہیں گے اور انکی کہانیاں بھی موجود رہیں گی۔