ہفتہ، 2 اگست، 2014

محترم عمران خان صاحب کے نام کھلا خط

محترم جناب عمران خان صاحب،

آپکا اور میرا کوئی جوڑ بن ہی نہیں سکتا۔ آپ پاکستان کی دوسری بڑی ووٹ لینے والی جماعت کے سربراہ ہیں، اور میرا نام تو میرا ہمسایہ نہیں جانتا، لہذا تقابل میں تو آپ سے بات کرنے کا میرا معیار تو ہے ہی کوئی نہیں، مگر جناب، تین رشتے ہیں آپکے ساتھ:

1۔ میں پاکستانی شہری ہوں،ا ور مستقبل قریب میں کسی دوسرے ملک کا شہری ہونے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں رکھتا۔
2۔ میں اسلام آباد کا رہائشی ہوں اور آپکے آنے والے سو-کالڈ "آزادی مارچ" کے جملہ اثرات کا وصول کنندہ ہوں۔
3۔ 2013 کے عام انتخابات میں، میں نے آپکی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔

آپکے نام اپنے پہلے کُھلے خط میں، میں نے کچھ عرض کیا تھا اپنے بارے میں اور اس سے قبل کہ آپکی جماعت کے نوجوان مجھے پٹواری  اور انقلاب مخالف وغیرہ ہونے کا طعنہ ماریں، مختصر طور پر عرض کرتا چلوں کہ میں 1993 سے پاکستانی ووٹر ہوں اور سیاسی عمل پر کبھی نہ ہلنے والا ایمان رکھتا ہوں۔ میں نے 1993 اور 1997 کے انتخابات میں پی پی پی کو اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں پی ایم ایل این کو ووٹ دیا تھا۔ 2013 میں آپکی جماعت کی اپیل سے متاثر ہوا اور آپکو ووٹ دیا۔ مجھے بلاشبہ آپکی سیاست سے بعد میں مایوسی ہوئی جو کہ مجھے تشدد کو روا سمجھنے والی چند "دینی سیاسی جماعتوں" کی سیاست کے قریب تر محسوس ہوئی، مگر آپکی سیاست آپکا حق ٹھہرا اور میرے خیالات میرا حق۔ بات کی زیادہ تمہید نہ باندھوں گا اور آپ سے کرنے والی چند باتیں کروں گا۔ ملاحظہ کیجیے گا:-

آپکے سو-کالڈ آزادی مارچ کے کل تین  "حقیقی مطالبات، " میری ریسرچ کے مطابق،  ہیں اور میرے نزدیک وہ تینوں مطالبات برحق، درست، پاکستانی عوام اور جمہوریت کے حق میں بہترین ہیں۔ آپ نے یا آپکی جماعت کے رہنماؤں نے مندرجہ ذیل تین مطالبات کو ہی اپنے آزادی مارچ سے متصل کرکے بذریعہ میڈیا عوام کے سامنے پیش کیا ہے:

1۔ چار حلقوں کی دوبارہ سے گنتی؛ کچھ کہتے ہیں کہ بات اب چار سے چالیس تک جا پہنچی ہے۔  حلقے چار، چالیس یا چار سو ہوں، آپکی بات درست ہے ۔
2۔ پچھلے سال ہونے والے الیکشنز کا آڈٹ۔
3۔ پاکستان میں انتخابی اصلاحات، کہ جس میں الیکشن کمشن آف پاکستان کی اصلاحات بھی شامل ہیں۔

خدا شاہد کہ میرے نزدیک آپکی یہ تینوں ڈیمانڈز درست ہیں، مگر میرے نزدیک انکو حاصل کرنے کا طریقہ نہ صرف درست نہیں، بلکہ پاکستان میں سیاسی انارکی کے ایک مخصوص کلچر کا بھی آئینہ دار ہے کہ جسکی مجھے آپ سے توقع اس لیے نہ تھی کہ آپکو پاکستان کی "پڑھی لکھی مڈل کلاس" کے نوجوانوں نے ووٹ کا اعتماد بخشا مگر آپ نے اپنی سیاست، گفتار اور پارلیمانی کردار میں اپنے اکثریتی حامیوں کو "لِیڈ" تو کیا، مگر "ایجوکیٹ" نہ کرسکے۔

میرا بنیادی خیال یہ ہے کہ یہ تینوں مطالبات "پروسیجرل اور آئینی" ہیں نہ کہ عوامی و سیاسی۔ سڑکوں پر لوگوں کو بھلے لے کر آئیں، مگر وہ مطالبات پھر عوامی ہوں، تکنیکی اور آئینی نوعیت کے نہیں۔ بجلی، مہنگائی، امن عامہ کی صورتحال، معیشت وغیرہ چند ایک معاملات ہیں کہ جن پر سڑکوں پر آنا بنتا ہے، آپکے موجودہ مطالبات کی روشنی میں سڑکوں پر آنا، ریاست کے تکنیکی معاملات کو مزید پیچیدہ تو کر سکتا ہے، انکو حل نہیں کر سکتا۔

مثال کے طور پر موجودہ الیکشن کمشن پر آپکو خود اعتماد نہیں، مگر الیکشن کمشن میں اصلاحات، صرف حکومت نہیں بلکہ پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہےکیونکہ کسی قسم کی اصلاحات کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہو گی اور یہ آئینی اصلاحات آپکے چودہ اگست کو سڑک پر بیٹھنے سے ممکن نہیں، پارلیمان کے اندر سے ہی ممکن ہونگی۔ عین اس وقت کہ جب موجودہ پارلیمان ہی الیکشن کمشن میں اصلاحات ممکن بنا سکتی ہے، آپکو اس پارلیمان کو "دھاندلی کی پیداوار" کہتےآئے ہیں، تو گویا آپکو اس پارلیمان کے سیاسی اور آئینی کردار پر بھی بھرپور اعتماد نہیں، بھلے آپ اور آپکی جماعت اسکا حصہ بھی ہیں۔ آپکی ایک اور ڈیمانڈ، کہ الیکشن کا آڈٹ کروایا جائے، تو جناب ، یہ کام بھی الیکشن کمشن ہی کر سکتا ہےا ور اس کام کے لیے کوئی "تھرڈ پارٹی آڈیٹر" تعینات نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بھی غیر آئینی ہوگا۔ سیاست کے ایک  ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے، میں یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ جب آپکی ظاہر کی گئی تین ڈیمانڈز ایک دوسرے کے ساتھ ایک دائروی انداز  متصل ہیں اور یہ معاملہ مجھ سا عامی کچھ سمجھ سکتا ہے کہ عوامی نہیں، سیاسی/آئینی/تکنیکی ہے، تو محترم، آپکی جماعت کے سیاسی مشیر اور جفادری کیوں نہیں جان پا رہے کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کارستہ قانونی اور پارلیمانی ہے، "سڑکوی اور احتجاجی"  نہیں؟

کچھ تو رہنمائی فرمائیے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ الیکشن کمشن کی اصلاحات پارلیمان کا دائرہ اختیار، پارلیمان کو آپ دھاندلی کی پیداوار کہیں، الیکشن کا آڈٹ، الیکشن کمشن کی ذمہ داری اور الیکشن کمشن کی اصلاحات  کی گیندپھر پارلیمان کے کورٹ میں؛ اور یہ بھی یاد رہے کہ آپکے مطلوبہ حلقوں کا معاملہ الیکشن ٹریبیونل میں موجود ہے۔  عجب دائرہ ہے یہ مگر اس گُتھی کو سلجھانے کا آغاز پارلیمان کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور سیاسی عمل کی سُستی کی حقیقت کو جانتے ہوئے، مسلسل سیاسی، پارلیمانی مگر مثبت دباؤ ہی کارگر ثابت ہوگا؛ بلند آواز، نعرے بازی اور دشنام طرازی نہیں۔

آپ بھلے تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہوں، جو آپکے ووٹرز کےلیے تو بڑی دلپذیر ہوگی،مگر اصلاحات کے موضوع پر دنیا بھر میں جدید ریاستیں سست روی سے چلتی ہیں کیونکہ تمام فریقین کو ساتھ اور اکٹھا لے کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پارلیمان میں یا پاکستان میں آپکی جماعت ہی واحد جماعت نہیں کہ جو آپ چاہیں، وہی قانون بھی ہو اور اسی ڈگر پر ریاست بھی چلے۔ میں خود تبدیلی کا حامی ہوں، نہ ہوتا تو آپکو ووٹ بھی نہ ڈالتا، مگر محترم، سڑکوں پر سے لاقانونیت تو جنم لے سکتی ہے، اصلاحات نہیں۔ اسی ایک نقطہ پر آپ سے ایک چبھتا ہوا سوال یہ پوچھتا چلوں کہ آپ نے اپنے صوبے میں خود ہی ایک سال میں کتنی "تبدیلی" متعارف کروائی ہے؟ آپ، آپکی جماعت اور آپکی صوبائی حکومت جو مرضی کہتے رہیں، مگر جناب، فاٹاریسرچ سنٹر کی  رپورٹ، جو آپکی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی  کے بارے میں تھی، کچھ اور ہی داستان سناتی پائی گئی اور آپکی صوبائی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کے مندرجات پر کوئی مضبوط دلیل اور جواب تاحال ناپید ہے۔ یہاں کچھ سوالات آپکی نذر کرتا ہوں، کہ شاید سوچ کو کچھ مہمیز لگتی ہو:-

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپکی صوبائی حکومت نے عمدہ قانون سازی کی، مگر ان پر عملد رآمد کی کیا رفتا ر ہے؟ آپ نے قومی وطن پارٹی سے الحاق ختم کرکے سیاسی دلیری کا مظاہرہ کیا، مگر قومی وطن پارٹی کے "کرپٹ منسٹرز" کے خلاف آپکی حکومت نے کیا تادیبی کارروائی کی؟ یا ابھی تک "نئے خیبر پختونخواہ" میں قانون صرف مجھ سے غریبوں کے لیے ہی ہے؟ آپ نے اپنی جماعت کے وزیر برطرف کیے، اچھی مثال قائم کی، مگر انکے خلاف قانون نے کارروائی کیوں نہ کی ابھی تک یا محض انکی برطرفی ہی انکی انتہائی سزا ٹھہری؟ آپ نے ابھی تک، ایک سال گزر چلا، چیف منسٹر ہاؤس کو لائبریری کیوں نہ بنایا، خود آپکا اعلان تھا کہ آپ ایسے وی آئی پی کلچر کو ختم کر دیں گے؟ آپ نے ابھی تک، ایک سال گزر جانےکے باوجود، بلدیاتی انتخابات کیوں نہ کروائے، آپکا وعدہ تین ماہ کا تھا؟ تاویل بھلے جو مرضی دیں، مگر یہی کام بلوچستان نے کر دکھایا، اور انہوں نے تو کسی انقلاب کی نوید بھی کبھی نہ سنائی تھی۔ آپ نے تین سو پچاس ڈیمز بنانے کا اعلان کیا تھا، اس محاذ پر کیا ترقی اور مثبت پیش رفت ہوئی ہے، کچھ مطلع فرمائیے گا؟  سروے رپورٹس سے ہٹ کر، سنجیدہ ادارے آپکے صوبے کی گورننس کے انڈیکیٹرز کو حوصلہ افزا قرار نہیں دیتے، کچھ نظرکرم اس طرف بھی کب فرمائیے گا؟ آپکے نام پہلے خط میں تحریر کیا تھا کہ کےپی زیادہ تر زرعی صوبہ ہے، اپنی حکومت کی مدت میں ابھی تک کیا زرعی اصلاحات ہوئیں، اور ان پر عملدرآمد کی کیا صورتحال ہے؟ تعلیمی میدان میں آپ نے تعمیرِ سکول پروگرام شروع کیا تھا، اس پر ترقی کی کیا صورتحال ہے؟ علاوہ ازیں، پرویز خٹک صاحب نے ستمبر 2013میں خصوصی طور پر تعلیم کی ترقی و ترویج پر نوٹس لیا تھا، یہ بات کہاں تک پہنچی؟ آپکی صوبائی حکومت کے آزاد احتسابی ادارے کی پرفارمنس ابھی تک کیا ہے اور کتنے بڑے کرپٹ لوگوں کو ابھی تک سزا مل سکی ہے؟ کیا آپکی صوبائی حکومت نے بیرونی امداد کو انکار کیا، بھلے آپ اور آپکی جماعت بیرونی امداد دینے والے ممالک کے خلاف احتجاج کرتے اور جلوس نکالتے رہیں؟ آپکی صوبائی حکومت نے کیا کوئی پیراڈائم وضع کیا ہے کہ جسکے تحت آپکی صوبائی معیشت میں سے آہستہ آہستہ بیرونی امداد کو کم سے کم تر اور پھرختم کر دیا جائے گا؟ آپ نے کراچی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین  صاحب کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا، یہ معاملہ کہاں تک پہنچا؟ اسی طرح آپ کے نجم سیٹھی صاحب کے حوالے سے بھی کچھ ارشادات فرمائے تھے، کچھ ذکر ادھر بھی ہو جائے؟ آپ نے جیو ٹی وی کا بائیکاٹ کیا، میں اسکے حق میں نہ تھا کہ سیاست اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بھی کہ میں جیو ٹی وی کی "نشریاتی سیاست" کا شدید مخالف ہوں، مگر ابھی حال ہی میں آپ نے انکے ساتھ کچھ گفتگو سلطنتِ برطانیہ میں فرما لی، کیوں؟ آپکی جماعت کے ایک سرگرم رکن، جو میرے دوست بھی ہیں، اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے انہیں کیا بتایا/کہا تھا، مگر آپ نے  ایک "شعلہ بیان اور جذباتی ہیجان کے ماہر" ٹی وی اینکر کی بات پر پورے پاکستان میں "پینتی پینچر" کا ڈھول کیوں پیٹا اور اگر آپ ابھی بھی اس بات کو درست جانتے ہیں تو اسکے ثبوت کب مہیا ہونگے؟ اسی طرح انہی نابغہ ٹی وی اینکر صاحب محترم مدظلہ علیہ کے فرمودات عالیہ کو بنیاد بنا کر آپ نے ملٹری انٹیلیجنس کے ایک بریگیڈئیر صاحب کا بھی ذکر کیا تھا، اس پر کچھ مزید گفتگو کب ہوگی؟

سوالات اور بھی ہیں، اور مندرجہ بالا سے بھی مزید چبھتے ہوئے، مگر میں آپکی جماعت کے "پڑھے لکھے مڈل کلاس" نوجوانوں سے پٹواری، سازشی وغیرہ ہونے کا کوئی تمغہ نہیں لینا چاہتا، لہذا نہی کم چبھتے ہوئے سوالات پر ہی اکتفا کرونگا۔

آخر میں ایک سینارئیو آپکی نذر اور آپ سے درخواست کہ اسکا حل بھی بتلائیے گا: آپ چودہ اگست کو اسلام آباد میں "لاکھوں کا مجمع" اکٹھا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جیتے جاگتے اور آنکھوں میں خواب لیے جذباتی پاکستانی ہیں۔ کچھ بتائیے گا کہ وہ یہاں کتنے دن رہیں گے؟ انسان ہیں، اوپر سے گرمی ہے شدید اور انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے جذباتی خوابوں اور پروپیگنڈہ کے علاوہ خوراک، کچھ جسمانی آرام اور دیگر حوائجِ  ضروریہ کی بھی  ضرورت ہوتی ہے، اگر آپکا قیامِ انقلاب ایک دن سے بڑھ کر تین، چار، چھ، دس دن تک محیط ہوتا ہے تو ان معاملات کا کیا انتظام ہے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شدید جذباتی  سیاسی خواہشات اور انسانی تھکن کے ملن سے جو تشدد جنم لے سکتا ہے، اسکا مداوا پہلے سے ہی آپکے اور آپکی جماعت کے رہنماؤں کے اذہان میں موجود ہوگا؟ تصور کیجیے کہ تیسرے دن، ایک تھکا ہوا جذباتی نوجوان جو گرمی سے تنگ ہے ایک پولیس والے سے بدتمیزی کر ڈالتا ہے اور جواب میں ایک گروہی ذہنیت کی وجہ سے کچھ تشدد جنم لیتا ہے، کہ جسکا حقیقی خطرہ ہے، تو اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کیا صرف حکومت پر ہوگی یا کچھ حصہ آپکے کندھوں پر بھی ہوگا؟  میں جانتا ہو کہ شاید آپ یا آپکی پارٹی کے چند رہنماؤں کےلیے تو آپکی پارٹی کے ایک نہایت امیر اور جہازوی رہنما کے قریبی گھر سے  خالص دیسی سبزیوں پر مشتمل کھانا اور خالص لائم کی سکنجبین  تو شاید آتی رہے گی، سڑک پر بیٹھے لوگوں کے لیے کیا سلسلہ ہو گا؟ علاوہ ازیں، میرے ایک دوست، خواجہ ناصر، کا کاروبار ہے بلند مرکز، بلیو ایریا میں، جو ڈی چوک کے بالکل قریب ہے، میں جانتا ہوں کہ اس نے ستمبر کے درمیان فرانس کچھ گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے ہیں اور اس نے اس کانٹریکٹ کےلیے بہت محنت کی ہے، ایک ہفتہ سے کچھ اوپر نیچے وہ علاقہ بند ہونے کی صورت میں اسکے کاروباری نقصان کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یاد رہے کہ اسکی چھوٹی بہن کی شادی بھی نومبر میں طے ہے اور وہ اکتوبر میں رقم کی توقع کر کے بیٹھا ہوا ہے بشرطیکہ ستمبر کے درمیان تک اسکا آرڈر پورا ہوتا ہو۔ اس علاقے میں تو سینکڑوں خواجہ ناصر ہونگے، انکے کاروبار وغیرہ کا کیا بنے گا؟

آپ اور آپکی جماعت پاکستانی جمہور کا  لازمی حصہ ہے، مگر جمہور کے لیے سیاست شرط ہے، صرف احتجاج ہی نہیں۔ سیاست اور ریاست سست رو عمل ہوتے ہیں اور مسلسل کام اور جدوجہد چاہتے ہیں، آپکی جماعت کے لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ہمیں کے پی میں صرف ایک سال ہوا ہے اور دہائیوں کے بگڑے مسائل ایک سال میں کیسے درست ہوں، تو جناب، یہی فارمولا وفاق اور ریاست کے بگڑے امور پر کیوں لاگو نہیں؟ دھیرج سے مسائل حل ہوتے ہیں، تیز رفتار سے نقصانات ہی ہوتے ہیں۔

 آپکی صحت و ترقی کے لیے دعا گو،

مبشر اکرم
اسلام آباد


پس تحریر: اس بلاگ کو تحریر کرنے کے بعد میں نے کومنٹ سیکشن ڈس-ایبل کر دیا کہ عمومی رائے کا ایک مناسب تجربہ ہے۔ اسی لیے اوپر کہا کہ اکثریتی لوگ "لِیڈ" تو بھلے ہوئے، مگر  اختلافی رائے کے معاملہ میں"ایجوکیٹ" نہ ہوسکے،  بدقسمتی سے۔