ہفتہ، 29 نومبر، 2014

ماں - حصہ اول (بہاول بیگم)



مولانا طارق جمیل مجھے متاثر نہیں کرتے۔ انکا بیانیہ کچھ فکشنل محسوس ہوتاہے۔ ایک زاویہ ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ جس نظام کے وہ اتنے بڑے داعی ہیں، اس نظام نے اگر اپنا بہترین سیمپل جنید جمشید کی صورت میں پیدا کیا ہے تو محترمین، کچھ سوالات تو بنتے ہیں۔ مگر اس بلاگ کا موضوع یہ نہیں۔ 

قبلہ مولانا کا ذکر خیر اس لیے آیا کہ آج ایک دوست نے فیس بک پر صاحب کا ایک بیان شئیر کیا جس میں بابا محمدﷺ کی اپنی والدہ سے محبت کا ذکر تھا۔ آقاﷺ چھ سال کے تھے جب ایک سفر کے دوران آپکی والدہءماجدہ حضرت بی بی آمنہؑ کا ارتحال ہوا اور آپ انکی قبر سے لپٹ کر دیوانہ وار روتے رہے۔ پھر تقریبا ستاون برس کے بعد (جی، ستاون برس بعد) جب بابا محمدؐ، تریسٹھ برس کی عمر میں حج کےلیے تشریف لے جارہے تھے تو اسی مقام سے گزرے، اور قریبا پچاس ساٹھ ہزار لوگوں کے مجمع نے بابامحمدؐ کو اسی انداز سے اپنی والدہ کی قبرمبارک پر بچوں کی طرح گرے، اپنے بازؤں میں قبر کو سمیٹے، ہچکیوں سے روتے ہوئے دیکھااور سنا۔ میں نے یہ بھی کہیں سنا تھاکہ بابامحمدﷺ کو صحابہؑ نے بازؤں سے پکڑ کر قریبا وہاں سے اٹھایا کہ آقاؐ وہاں سے اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔

یہ ہوتی ہے ماں، اور انکے لیے ماں کا مقام کہ جو اس ہستی کی قدر کرتے ہیں۔ اور انکےلیے بھی جو جو ماں کو اپنے وجود و ذہن سے نہیں نکال پاتے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ میرے آپکے اور ہم سب کے وجود کا ایک ایک مسام، خون کا ایک ایک قطرہ، زندگی کا ایک ایک سانس، گزری اور گزرنے والی تمام گھڑیاں، ساعتیں، لمحے اسی ماں کا قرض لیے ہوتی ہیں کہ جس نے نوماہ اپنے خون سے میری آپکی آبیاری کی، جنم دیا، خیال رکھا کہ جب ہم بے بس، مجبور اور لاچار تھے۔ میں زندگی کے سفر میں سے کئی مرتبہ ایسے مقام سے گزرا ہوں جہاں والدہ کے ساتھ اونچ نیچ کر بیٹھا، انسان تھا، اچھی بات کہ سیکھ لیا اور اب ایک عرصہ بیتا، انکے سامنے اونچی آواز کا تصور بھی نہیں، نہ ہوگا کہ جب تک میں زندہ ہوں۔ میری زندگی، صاحبو، میری ماں کا مجھ پر قرض ہے۔ جس سے قرض لیا جاتا ہے، اسکی مہربانی تسلیم کی جاتی ہے۔ قصہ مختصر۔

مائیں اپنے بچوں کے حوالے سے سب ایک سی ہوتی ہیں۔ لہذا میرے ایک بلوچ دوست کی والدہ، بہاول بیگم (یہ اصل نام ہے) بھی میری ماں ہے۔ روایات میں گندھی، سراپا محبت، خود پر دکھ لے کر اپنے خاندان اور اولاد کو سکھ دینے والی، اپنے بچوں کی راہ تکنے اور انکے لیے دعا کرنے والی، خاندان کو اپنی ذات کے مرکز میں سمیٹ کر رکھنے والی، مصائب و آلام کو خود کی ذات پر لیے کر اپنے خاندان اور بچوں کو اپنے پروں کی نرمی اور گرمی تلے بچا لینے والی، اپنی کوکھ سے جنے ہوؤں کے لیے ڈٹ جانے والی، لڑ جانے والی، بھڑ جانے والی یہ سوچے اور جانے بغیر کہ سامنے کون کھڑا ہے، کتنا بڑا ہے، کتنا طاقتور ہے اور کیا ہے۔ بہاول بیگم روایتی بلوچ معاشرے کی وہ ماں کہ جس نے تین نسلوں کے غم دیکھے، اپنے بڑوں کا، اپنے خاوند کا اور اپنے بچوں کا۔ اتنے مصائب کہ جب آرام کرنے کی عمر آئی تو اللہ نے اس نیک روح کو زمین پر رہنے کے قابل ہی نہ جانا اور اپنے پاس بلا لیا۔ وفا اور صبر کی پیکر ایسی کہ اپنے سر کے تاج کے اٹھ جانے سے کچھ ہی ساعتوں میں دنیا کو خیرباد کہہ ڈالا۔ اتنے مصائب و آلام کہ جن سے میں واقف ہوں، واللہ، کسی پہاڑ پر ٹوٹتے تو شاید وہ بھی نہ سہہ پاتا۔

زندگی کا ساتھی پاکستان کے ساتھ وفاداری کے حلف میں وردی پہن کر پاکستان کی خدمت کرتا رہا، ریاست نے شک میں اٹھا لیا، تشدد کیا، اتنا کہ جسم برداشت نہ کرسکا، گھٹنے جواب دے گئے، دو بیٹے اپنی خاندانی نسبت کی وجہ سے اٹھا لیے گئے اور پھر ایک ہی دن ایک کی لاش حب اور دوسرے کی کوئٹہ سے ملی، دونوں بیٹے سرکاری سکول میں ملازم تھے اور سیاست و تشدد سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ 

خاندانی نسبت ڈاکٹر نذر سے جا ملتی تھی، اور ہے، کہ جس کا خراج بہاول بیگم نےاپنے شوہر کی معذوری، بچوں کی شہادت اور دل پر کبھی نہ مٹنے والے غموں کی صورت میں ادا کیا۔ تیسرا بچہ، جو میرا دوست، میرا بھائی ہے، خود ہی اپنے آپ سے دور کر دیا کہ "جا بیٹا، پیدا کیے ہوئے دو تو مجھ سے چھن گئے، آخری کو خود سے چھینے جانے دینے کی ہمت اب مجھ میں نہیں۔" میرے اس یار نے مزاحمت کی، مگر ماں کے سامنے کچھ نہ چلی اور جب یہ سارا سلسلہ چل رہا تھا، تو بہاول بیگم بیمار تھیں، اور بیماری بھی ایسی کہ شاید جس کا علاج مشکل ہوتا، مگر اسکا اپنے تیسرے بیٹے کو نہ بتایا۔ اسے پاکستان سے باہر تعلیم کی غرض سے بھیج دیا اور اسی اثناء میں خود چھپتے چھپاتے بلوچستان سے کراچی آگئیں، اپنے شوہر کو لے کر کہ بڑا شہر ہے، اس میں چھپ جائیں گی۔ شہر نے کیا چھپانا تھا، کچھ ہی عرصہ میں زندگی کے ساتھی کا بلاوا آیا، اور ساتھ میں ہی بہاول بیگم کا بھی۔

میرا بلوچ یار، یتیم و یسیر تو ہوا سو ہوا، غریب الوطن بھی ٹھہرا ان گناہوں کی پاداش میں کہ جو اس نے کبھی کئے ہی نہ تھے۔ ماں کی قبر کی مٹی نجانے کون برابر کرتا ہوگا، نجانے کون جاکر ماں کی روح کے لیے فاتحہ پڑھتا ہوگا، نجانے کون تہواروں اور بڑے دنوں میں وہاں جا کر بہاول بیگم کو یاد کرتا ہوگا۔ 

روایت میں گندھی اولادوں کو انکی مائیں کبھی نہیں بھولتیں، میرے بلوچ یار کی زندگی کا ایک ایک سانس ماں اور اب انکی قبر کی یاد میں گزرتا ہے مگر غریب الوطنی کہ چاہنے کے باوجود زندگی دینے والی کے پاس اسکی فوتیدگی میں نہیں جا سکتا۔ جس نے مٹی کی ڈھیری سے جیتا جاگتا انسان بنایا، اسکی مٹی کی ڈھیری اسکی راہ تکتی ہوگی، مگر بے بسی کہ ماں کی قبر پر آنسؤں  کی شبنم بکھیرنے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں جو ماں کی قبر سے لپٹ کر رو سکے اور کوئی نہیں ایسا کہ جو جا کہ کہہ سکے کہ : ماں تُو چلی تو گئی ہے، مگر گئی کہیں نہیں!۔

قبر بھی راہ تکتی ہوگی۔ مگر ماں کی قبر ہے نا، گلہ نہ شکوہ نہ شکایت، اب بھی دعا ہی کرتی ہوگی۔ اب بھی کہتی ہوگی کہ: جلدی گھر آ جایا کر، مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ جایا کر، اپنا خیال رکھا کر، اور ماں کی بات مانا کر۔

میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو اسے اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھتا ہو۔ میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو نمازِعصر تا مغرب مصلیٰ پر بیٹھ کر اسکی سلامتی کی دعائیں کرتا ہو۔ میرے بلوچ یار کے پاس اب کوئی نہیں جو اسکا ماتھا چومتا ہو۔

جن کے پاس ہیں، وہ قدر کریں۔ وہ اس قرض کا احسان مانیں جو انکی ماں نے انکو انکی زندگی کی صورت میں دیا ہے۔ اس احسان کو نہ ماننے والے اگر دلائل دینے کی کوشش کریں، تو صرف ایک لمحہ میرے بلوچ یار کی جگہ پر اپنے آپ کر رکھ کر سوچ لیں۔

ممتا تیری چھاؤں جیسی
یاد سرہانے سوتا ہوں
کھٹکا ہو تو ڈرتا ہوں
ماں، میں چھوٹا بچہ ہوں

میری بلوچ ماں، بہاول بیگم کے لیے سب سے دعا کی درخواست ہے۔


پیر، 24 نومبر، 2014

مائیں - ابتدائیہ

میں اپنی اور اپنے چند دوستوں کی ماؤں پر چند بلاگ تحریر کروں گا۔ اور یہ بلاگ میری طرف سے اپنے ان دوستوں کو تحفہ ہیں۔ اللہ سے کیا گلہ کرنا کہ ہماری معاشرت میں اللہ سےاسکے مجھ سے عام و گناہگار بندے کی گفتگو کو سمجھا اور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، اور مختلف فتاویٰ تیار ملتے ہیں، مگر اپنے رب سے ایک عاجزانہ گلہ تو کر ہی سکتا ہوں کہ مولا، ماں دیتا ہے، تو پھر واپس کیوں لے لیتا ہے؟ رحیم ہے تو کس طرح اپنے بندوں کے سروں سے مائیں اٹھا لیتا ہے؟ 

میری والدہ کا نام نسیم اختر ہے، وہ حیات ہیں، ملکوال میں رہتی ہیں، میرے لیے  ہر وقت دعا کرتی ہیں اور میں جو کہ اب اتنا ناخلف بھی نہیں رہا، انکی دعاؤں کی چھتری عموما محسوس کرتا ہوں تو کسی بھی حال میں ہوں، مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتاہوں۔ شاید جب انکی گود میں تھا تب بھی ایسا ہی کرتا ہوں گا۔ کہتے ہیں کہ بچپن کی ڈلی عادتیں انسان کے ساتھ ساری عمر کسی نہ کسی روپ میں رہتی ہیں، کیا معلوم انکی گود میں جب بھی کبھی ڈرلگتا ہو تو انکی آواز سن کر مسکرا اور آنکھیں بند کرکے، انکے ساتھ چمٹ جاتا تھا۔ معلوم تو نہیں، مگر ایک احساس یہی ہے۔ بس سوچ کر خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ وہ آج میرے پاس ہیں، کل نہیں ہونگی، کہ مالک کائنات کا یہی اصول ہے۔ کہاں سے تلاش کرتا پھروں گا میں کہ جس کی ممتا بھری آواز سن کر مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتا تھا؟

میرا یار جعفر کہتا ہے کہ مائیں پاگل ہوتی ہیں انکے لیے کہ جن کو نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیتی ہیں۔ پیٹ میں ہو یا گود میں، اولاد کے دکھ اٹھاتی ہیں، دکھ زیادہ اور سکھ کم۔ عموما بے لوث رہتی ہیں، اور جب کبھی بہت مجبور ہوجاتی ہیں تو بیٹھ کر بے بسی سے آنسو بہا لیتی ہیں اورانکےلیے کہ جن کو جنا ہوتا ہے، سوتے جاگتے، ہر حال میں دعا کی حالت میں ہی ہوتی ہیں۔ جعفر ٹھیک ہی تو کہتا ہے، اتنا ایثار و قربانی اور مسلسل دعائیہ کیفیت، کسی پاگل پر ہی چوبیس گھنٹے طاری رہ سکتی ہے۔ مجھ سے خرد و عقل کے داعی نے تو آج تک شاید کسی کے لیے چوبیس سیکنڈ بھی مسلسل دعا نہ کی ہو۔

ماں اور اولاد کا رشتہ یارو، احساس کا رشتہ ہوتا ہے۔ شعوری الفاظ کافی ہو ہی نہیں سکتے کہ اس رشتے کو شعور کے تحت الفاظ کا لباس اوڑھانا ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ اس رشتے کو احساس کے ذریعہ چھو نہیں سکتے تو آپ جان ہی نہیں سکتے کہ یہ رشتہ ہے کیا۔ احساس کی بات ہی تو ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کی بیماری کے دوران اسے سٹیم-سیلز بھیجتا ہے، اسے اپنے حصے کی خوراک روانہ کرتا ہے، پیٹ میں ہی اپنی ماں کی بھوک کو محسوس کرکے اپنے حصے کی خوراک گھٹا دیتا ہے، اسکی خوشی میں خوش اور اسکے غم میں غمگین ہوتا ہے۔ یہ دعوے نہیں، سائنسی تحقیقات ہیں، اور اگر اسکو احساس کے ہاتھ سے اگر چھوا نہ جا سکے تو اسکو محسوس کرنا ممکن ہی نہیں۔

ٹالسٹائی نے اپنے عظیم ناول "وار اینڈ پیس" کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ دنیا میں تمام خوش لوگ ایک ہی طرح سے خوش ہوتے ہیں جبکہ افسردہ لوگ اپنی اپنی طرح و طرز پر ہی ناخوش ہوتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان خوشی اور افسردگی کی تقسیم سے قطع نظر، ماں ان تمام خوش یا افسردہ لوگوں میں شاید ایک ہی  طرح سے خوش اور افسردہ ہوتی ہے کہ جب اسکی اولاد خوش یا افسردہ ہو۔ 

اولاد اپنی ماں کی قدر جان ہی نہیں سکتی، اور یہ میرا حتمی خیال ہے، اور اگر کسی کو اختلاف ہوتو ان سے پوچھ لے کہ جن کے سروں پر یہ سایہ اب موجود نہیں۔ پاس موجود ہوتی ہے تو اولاد کے لیے عموما گھر کے ایک فرد سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھ پا سک رہی ہوتی، بیمار ہوتو دوسرے سے تیسرے دن اولاد کو اپنے کاموں سے فرست ملنا مشکل ہو جاتی ہے، سر سے چلی جائے تو میں نے بڑے بڑے مضبوط انسانوں کو اپنی ماؤں کی قبر پر لیٹے، مٹی میں لپٹے روتے دیکھا ہے۔ شاید تب ہی احساس ہوتا ہے کہ جس نے جنم دیا تھا، آج اسکی چھتر چھاؤں سر پر باقی نہیں رہی۔ کوئی نہیں رہا باقی جو راتوں جاگ کر دعا کرتا ہوں، عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد، مغرب تک مصلیٰ پر بیٹھ کر مسلسل دعائیں کرتا ہو، رات جاگتا ہوکہ اولاد گھر آئے تو اسکا کھانا گرم اسکو ملے، بیمار ہوتو اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھے، سرھانے بیٹھ کر پڑھ پڑھ کر پھونکیں مارے، اپنی سادگی میں علاج کی تمام کوشش کرے کہ کسی طرح اس کے پیٹ کا جنا ٹھیک ہو جائے۔ اور اولاد؟ لکھ چکا کہ دوسرے سے تیسرا دن، اور فرست ملنا مشکل!۔

انسانوں کو جوڑنے والی باتیں، انکو آپس میں توڑنے والی باتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ صرف یہ کہ اپنے اپنے انتخاب کی بات ہوتی ہے۔ ماں کی مشترکہ قدر اس لیے کہ ماں ہم تمام کے لیے صرف ماں ہی تھی، ہے، اور رہے گی۔ میرا آپ سے جھگڑا ہوتا ہو تو بھلے ہو، آپکی ماں کے سامنے میں بھی جھک کرمؤدب ہی کھڑا ہونگا۔ مجھ سے آپ اگر نہ جڑ سکیں تو نہ جڑیں، ماؤں کی مشترکہ اقدار کے حوالے سے، جو وہ اپنے بچوں کے لیے محسوس کرتی ہیں، میرے دوستو، میں بھی ویسا ہی ہوں، جیسا کہ آپ ہیں۔

جڑنا ہے یا ٹوٹنا ہے، آپکی مرضی ہے، مگر ماں جوڑنے والی ہے، توڑنے والے ہم اور آپ ہیں۔

بڑی بڑی باتیں تو میں نجانے کب سے لکھ اور کر رہا ہوں، اب ماؤں پر ہی کچھ کہ انکی موجودگی میں اور انکے جانے کے بعد انکی یاد اپنے اور آپ سب کے لیے موجود رہے۔

یہاں بات ختم کرونگا اور اس جمعہ، یعنی 28 نومبر بلوچ ماں کا دکھ تحریر کروں گا۔ اس سے اگلے جمعہ کو ایک سندھی ماں کی مجبوری، پھر ایک پشتون ماں کی بےبسی، اور پھر ایک پنجابی ماں کی افسردگی۔ آخر میں، میں اپنی ماں کے بارے میں لکھوں گا۔ یہ سارے خاکے حقائق پر مبنی ہونگے، سچ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

 اس جمعہ کو۔۔۔انشاءاللہ۔

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

پاکستان مردہ باد



جی، شکریہ کہ جانتا ہوں کہ آ پ میں سے ایک مناسب اکثریت نے اس بلاگ کا ٹائٹل دیکھتے ہی اسکی ترکیب اور اجزا کے بارے میں ایک اندازہ لگا یا ہوگا۔ چند ایک نے میرے الٹے سیدھے بلاگ کی محبت میں اسے کھولا ہوگا، چند ایک نے رواداری میں کہ مبشر اکرم نے اسے شئیر کیا ہے تو اسکے لنک پر کلک کر ہی دو۔ اپنے ایک ٹویٹری یار، نام نہیں لکھوں گا، نے آج سویرے سویرے ہی اپنے اس حسنِ سلوک کی دھونی دے دی کہ جسے میں "عمومی و میعاری پاکستانی رویہ" کہتا ہوں کہ جو کسی شخص اور اسکے نظریات کی شرح کو جانے بغیر ذات پر بات کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اس میں کوئی صحتمندانہ رویہ یا گفتگو کی لگن نہں ہوتی، بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ "میں چونکہ اگلے بندے کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا، لہذا اسکے خلاف جہاد فی الفیس بک یا جہاد فی الٹویٹر لازم ٹھہرا،" یہ اس لیے بیان کیا کہ شاید ایک اکثریت اس بلاگ کو اسی نیت سے کلک کرے گی تاکہ مبشر اکرم کی شان میں ویسی ہی قصیدہ گوئی کی جائے جو ایک عظیم انقلابی رہنما پچھلے دو ماہ سے میاں نواز شریف کی شان میں تقریبا ہر روز فرماتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ دونوں کی اناؤں کا قد ہی اتنا ہے کہ دونوں کو شاید فرق ہی کوئی نہیں پڑرہا، ملک و قوم کی خیر ہے!

میرے پڑھنے والوں نے تنقید بھی کی مجھ پر، بعض نے عقلِ کل کے شوق میں مبتلا جھوٹا دانشور کہا، بعض نے اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے ماں بہن کی گالیاں نکالیں، بعض نے سیاسی غلامی کے طعنے مارتے ہوئے اپنے عظیم رہنماؤں کی سیاسی غلامی میں اپنی وفاداری ثابت کی، بعض نے میرے دینی فہم پر اعتراض کیا اور ایک اکثریت نے جب رائے زنی کی تو مجھے جانے، اور پڑھے بغیر صرف ایک ہی تحریر کی بنیاد پر میری جانب اپنے تاثرات کے ایٹم بم چلا ڈالے، یہ سمجھے بغیر کہ حسن کلام بھی آقامحمدﷺ کی سنت ہے، مگر کیا کیجیے، عقیدہ شاید صفر ڈگری پر منجمد، عقیدت سو ڈگری پر ابلتی ہوئی ذہنیت کے عظیم پاکستانی نوجوان ایک ایسی، معذرت، عجب حقیقت بنتے جارہے ہیں جو اپنی ذات کے گرداب اور ذہنیت کے کنویں میں چھپاکے مار کر سماجی و دماغی لہریں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور نئے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ان لہروں سے بجلی پیدا کرکے پوری دنیا کو برآمد کریں۔ مفت مشورہ ہے۔

لیکچر دینا مقصود کبھی ہوتا ہی نہیں کہ مجھے جو حقیقت میں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میں اپنی ذات کے اختیار سے باہر اور کسی بھی قسم کے بڑبولے کام کو دور سے سلام کرتا ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی یہی کہتا رہتا ہوں کہ ہونے والے، مگر چھوٹے چھوٹے کام کیا کیجیے، کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ایک دن جُڑ کر بہت بڑی کامیابی نظر آتی ہیں اور سوچ کا یہ سلیقہ، میرے دوستو، مجھے اس تنقیدی شعور، جسے انگریزی میں کریٹیکل تھنکنگ، نے دیا جسکی بنیاد میرے دو سینئرز نے رکھی: وجیہ الاسلام عباسی اور شکیل چوہدری صاحبان۔ وگرنہ آج سے کوئی سترہ سال قبل، خادم بھی سو ڈگری پر اُبلتا اور کھولتا، امت مسلمہ اور نشاة ثانیہ کا ایک عظیم کھوجی و مجاہد تھا۔ ہر وقت کے ردعمل میں مبتلا، عباسی صاحب اور شکیل صاحب نے مجھے اپنے ذہن، فکر و سوچ کی لگامیں تھامنا سکھایا۔ ابھی بھی پھسلتا ہوں، مگر کم کم، بہت ہی کم۔ اور جب بھی پھسلتا ہوں اب، سیکھتا ہوں۔ اپنے بارے میں بتائیے اور سوچئے گا؟

تنقیدی شعور، میرے یارو، تصویر کے اگر تمام نہیں تو اکثریتی رخ دیکھنے کی صلاحیت سے ہی ممکن ہوتا ہے اور یہ رخ آپ کو صرف اس وقت ہی سکھا سکتے ہیں کہ جب اس میں سے آپکی سوچ اور آپکی شخصیت کے زاویوں کو ایک شدید چبھن کا احساس ملتا ہو۔ ہم میں سے زیادہ تر اس چبھن کے احساس کے ہاتھوں اپنی ذات کے خول میں مزید گہرائی تک دھنس جاتے ہیں کہ وہی ایک محفوظ رستہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی ذات کو پیاری سوچ کی حفاظت کرتا ہے، مگر اس سے آپ ایک انسان کے طور پر جسمانی طور پر تو بڑھتے ہیں، مگر اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک شخص کے طور پر نہیں بڑھ سکتے۔ جب بھی آپ کی ذات پر کسی بھی معاملہ کی ہمہ جہتی سے شدید چبھن ہوتی ہو، تو صاحبو، وہی تو وقت ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی شخصیت و ذہن میں موجود زنگ کو کھرچنے کے قابل اور قریب تر ہوتے ہیں۔ ہمت کرکے آپ جب اپنی اس سوچ کے زنگ کو کھرچتے ہیں جو ریاست، معاشرہ اور آپکی ذات آپ پر لگا دیتا ہے، تو جناب، اسکے نیچے سے سوائے چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کے کچھ اور برآمد نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کچھ عرصہ کے بعد ایک نئی سوچ کی چبھن کا شکار ہو تو اس وقت بھی نہیں گھبرانا بلکہ اس عمل کو چلاتے ہی چلے جانا ہے، وگرنہ آپ بحیثیت ایک وجود تو بڑھ رہے ہوتے ہیں، بحیثیت ایک ذہن و شخصیت نہیں۔ اور بہتر یہی کہ ذات کے ساتھ دوسرا معاملہ رہے وگرنہ دماغ کا مسل صرف عضو ہی بن کر رہے گا، خیالات و نظریات کے معاملہ میں آپکی ذات اور وجود کا انجن نہ بن پائے گا۔

اسی لیے تو ایک فقرہ ایجاد کیا کہ: "آخری حقیقت میں تشدد، غربت، جہالت اور ترقی، انسان کا اپنا ہی انتخاب ہوتا ہے!" خیال کیجیے کہ آپکے انتخابات کیا ہیں زندگی میں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے محترمی وجاہت مسعود اور ڈاکٹر مبارک حیدر صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک علی نے بہت عمدہ تحاریر پیش کی ہیں، مگر "بیلی پور کے کارل مارکس،" "لالہ موسیٰ کے بِل گیٹس،" "لاہور کے حکیم لقمان،" "رحیم یار خان کے خلیفہ،" "دلربا مقبول جان لیوا" اور "دنیا کے بے۔نذیر پلاٹوی" وغیرہ جیسوں کے شوقین، اپنی رائے سازی روز کی بنیاد پر کی گئی قلم کی مزدوری پر کرنے والے، اوپر بیان کیے گئے تین مصنفین کی کتب و کالمز کو "بورنگ" ہی پائیں گے، مگر کوشش تو کیجیے کہ اس سے آپکی "آخری حقیقت" آپکی "روزانوی حقیقت" سے کہیں بہتر برآمد ہوگی، میں چیلنج کرتا ہوں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے سب سے زیادہ ضروری تین الفاظ سے دوستی اور انکی دل و جان سے قبولیت ہے۔ وہ تین الفاظ ہیں: لیکن، مگر، اگر۔ کیسے؟ چند ایک فقرات آپکی سوچ کو مہمیز لگانے کے لیے اور پھر اجازت:

۱۔ پاکستان امت مسلمہ کا عظیم ملک ہے لیکن اس ملک میں کوئی دو کروڑ بچے سکول نہیں جاسکتے۔
۲۔ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہوگا، مگر اس کے ساتھ جنگوں میں شہید و ہلاک ہونے والے لوگوں سے زیادہ لوگ پاکستان کے اندرونی تشدد میں مارے گئے۔
۳۔ تمام مسلم ممالک عظیم اقوام ہیں، مگر ان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین پچاس یونیورسٹیز میں شامل نہیں۔
۴۔ عمران خان بہترین انسان ہونگے، لیکن انکی سیاست میں تضادات بھی ہیں۔
۵۔ جماعتِ اسلامی اپنے آپکو پاکستان کی فکری اساس کی محافظ گردانتی ہے، مگر پاکستان کی اندرونی سیاسی و معاشرتی آزادیوں کے معاملہ میں اسکا کردار ایک جائزہ چاہتا ہے۔
۶۔ بھٹو ایک عظیم رہنما ہونگے، مگر وہ اپنی ذات کی انانیت کے بھی بڑے وکٹم تھے۔
۷۔ نواز شریف کی حکومت اچھے کام کررہی ہوگی، لیکن بہت سے معاملات میں یہ بنیادی ریاستی تبدیلیاں ممکن نہ بنا سکی ہے ابھی تک۔
۸۔ زرداری صاحب زیرک سیاستدان ہیں، مگر سودے بازی کی ہی سیاست کی۔
۹۔ حمزہ شہباز و مریم نواز میں قابلیت ہوگی شاید، لیکن وہ اگر حکمران گھروں کے چشم و چراغ نہ ہوتے تو انکا سیاسی کردار کیا اس اونچائی کا ممکن تھا؟
۱۰۔ پاکستان اور بھی بہتر طریقہ سے چلایا جا سکتا ہے، اگر اس میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا کردیں۔
۱۱۔ پاکستان آج ایک کہیں بہتر ریاست اور معاشرہ ہوتا، اگر پاکستانی ریاستی ادارے جمہوریت، گورننس اور شہری حقوق کے سیاسی خیالات پر عمل کرنے والے ہوتے۔
۱۲۔ کرسٹینا لیمب لکھتی ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کا ڈرائنگ روم عالیشان تھا، لیکن اس میں بُک شیلف نہ تھی۔

مثالیں اور بھی ہیں، مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔

اور سب سے اہم تنقیدی و شعوری مہمیز آپکی نظر کہ:

اس بلاگ کا عنوان تو "پاکستان مردہ باد" ہے، لیکن اس میں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں۔

اور محترمین پھر دیکھ لیجیے کہ بلاگ کے عنوان پر اگر آپ نے ایک رائے قائم کرلی ہوتی تو شاید یہ فقرہ پڑھ ہی نہ رہے ہوتے۔ پھر بھی کسی عظیم مجاہد کی عظیم مجاہدانہ سوچ سے بچنے کےلیے اپنے بلاگ کے ٹائٹل کے "گناہ" کو دھوتے ہوئے اختتام ایک نعرے پر ہی کرونگا: پاکستان زندہ باد!

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

بیٹیاں - گزشتہ سے پیوستہ

ایک منظر جو ذہن میں کبھی کبھار آ جاتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔

سال1999 کی گرمیاں تھیں اور میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ  مری  کی جانب رواں دواں تھا، اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے جہاں مری ہائی وے سے ملتی ہے، اس سے ذرا آگے سڑک کنارے ایک چھوٹا سا  جمگھٹا تھا جس نے سڑک تھوڑی سی بلاک کی ہوئی تھی  مگر ٹریفک ایک سمت سے ہو کر آہستہ آہستہ جا ہی رہی تھی۔ وہاں کوئی معمولی سا حادثہ ہوا تھا۔ ہماری گاڑیاں بھی جب پاس سے گزریں تو دیکھا کہ دو مرد ایک تیسرے مرد کی پٹائی کر رہے ہیں اور سائیڈ پر ایک چھوٹی سے بچی، کہ جسکی عمر شاید چھ یا سات سال ہو گی کھڑی رو رہی ہے۔ جیسا کہ اسلام آباد کا عمومی مزاج ہے کہ لوگ ایسے واقعات کو دیکھتے ہیں اور عام طور پر آگے بڑھ جاتے ہیں، یہی ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی آگے بڑھنے کی ٹھانی  مگر سچ یہ کہ اس بچی کو دیکھ کر رک گیا۔ گاڑی سے اُتر کر اس تماشے کی جانب بڑھا اور کوشش کی کہ یہ معاملہ سمجھوں اور اگر ہوسکے تو ختم ہی کروں (اب بھی، مگر کہیں کم کم ایسا ہی کرتا ہوں)۔ معلوم ہوا کہ جسکی پٹائی ہو رہی ہے اس نے اپنی بائیک سے ایک سوزوکی مہران کو پیچھے سے ہلکا سا ہِٹ کیا تھا۔ اسکے بعد بات تھوڑی بگڑ گئی اور سوزوکی مہران میں بیٹھے "ایلیٹ کلاس" کے لوگوں نے عامی کی پھینٹی شروع کردی۔ میں نے جب مداخلت کی تو وہ بچی میری جانب بے اختیار دوڑی ، ہاتھ باندھے اور روتے ہوئے کہا کہ میرے ابو کو یہ مار رہے ہیں، میرے ابو کو بچا ؤ۔ زبان تھوڑی توتلی تھی، سہمی ہوئی تھی، رو رہی تھی، بے بس تھی، مگر اپنے باپ کی بیٹی تھی اور اسکے ساتھ یہ سب ہوتے ہوئے دیکھ کر اپنی بےبسی میں ہی تڑپ رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا، اور میں نے اپنے ہمراہ کزنز کی مدد سے یہ معاملہ ختم کروایا۔ سوزوکی مہران کے ہائی کلاس لوگوں نے طعنہ مارا کہ نقصان تم پورا کردو۔ میں نے حامی بھری اور یوں کوئی 1،700 روپوں پر یہ بات ختم ہوئی۔ جب یہ معاملہ ختم ہورہا تھا، اور پٹائی کروانے والا کچھ الگ ہورہا تھا، تو اسکی بیٹی اسکی ٹانگ سے لپٹی ہوئی رو رہی تھی اور "ابو، ابو، ابو" کہے جا رہی تھی۔ بائیک والے صاحب نے شکریہ ادا کیا، اپنا فون نمبر دیا، میرا لیا اور کہا کہ یہ پیسے مجھے پہنچ جائیں گے، میں نے اصرار نہ کیا، مگر ہم دونوں دوست بن گئے۔ اب وہ بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے اور راولپنڈی میڈیکل کالج میں شاید اپنے پانچویں یا چوتھے سال میں ہے۔ نام میں یہاں نہیں لکھوں گا، مگر اپنے ان دوست کو میں نے جب کبھی اپنے بیٹے کا گِلہ کرتے پایا تو مسکرا دیتا ہوں۔

میں 2002 میں شدید معاشی دباؤ میں تھا۔ شہر اسلام آباد میں رہائش اور پاس کسی قسم کی کوئی سواری نہ تھی۔ کچھ پیسے جوڑ کر سوزوکی سنٹر، مری روڈ رالپنڈی سے ایک ایس-ڈی فلیش 110 سی سی بائیک قسطوں پر لیا۔ گھر میں اطلاع نہ دی ہوئی تھی، اس لیے جب بغیر بتائے گھر پہنچا تو سب سے زیادہ خوشی میری بڑی بیٹی کو ہوئی۔ خوشی میں ہنستے ہوئے وہ چھلانگیں مارتی رہی۔ اس وقت اسکی عمر کوئی دو سال تھی۔ یہ منظر میرے ذہن میں محفوظ ہے اور کبھی کبھی یاد کرکے مسکرا اٹھتا ہوں۔ اگلی صبح جب میں اپنی جاب پر جانے کے لے تیار ہوکر باہر نکلا تو وہ پیلے رنگ کپڑا ہاتھ میں پکڑے میری بائیک صاف کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو وہ اپنی توتلی زبان میں "ابو بائیک، ابو بائیک" بولی اور پھر مجھے اگنور کرکے بائیک کی صفائی میں مشغول ہو گئی۔ میں نے منع کیا تو اس نے مونہہ بنایا، میں کھڑا ہوگیا تو پھر سے صفائی شروع کر دی۔ اسی آنکھ مچولی میں کوئی پانچ منٹ گزر گئے اور جب اس نے اپنی تسلی کر لی تو خود ہی ایک طرف کھڑی ہو گئی، اور میں آفس کی جانب ہو لیا۔

مقبوضہ کشمیر سے میرے ایک کشمیری دوست تھے، ابھی امریکہ جا بسے ہیں۔ انکے ہاں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوئی۔ شدید گھن آئی انہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کو کوئی چار ماہ ہاتھ نہ لگایا اور اس سارے عرصہ میں اپنی بیوی کو بھی طعنے تشنے دیتے رہے۔بیٹی کی پیدائش پر اتنے شرمندہ ہوئے کہ کسی کو بھی اطلاع نہ دی اور ایک خوشگوار حادثے کے طفیل، معلوم پڑا تو انہیں مبارکباد دینے گیا تو انہوں نے ایک شانِ بے نیازی سے میری مبارکباد پر خیر مبارک بھی نہ کہا اور اوپر سے اپنی اولاد کی برائیاں شروع ہو گئے۔ نام نہیں لکھوں گا کہ مشہور آدمی تھے، مگر انکی "بیٹی-بیزاری" کا یہ سلسلہ کوئی تین سال چلا۔ دوسری اولاد بیٹا ہوا تو انکے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ انکے امریکہ سدھارنے سے کوئی تین ماہ قبل ان سے آخری ملاقات ہوئی تو بیٹی کی ان سے محبت دیدنی تھی، مگر موصوف بہت ہی کم مہربان تھے بچی کی جانب۔ اس دن فیصلہ کیا کہ ان سے دوبارہ نہیں ملنا۔ اس لیے نہیں کہ میں کوئی بڑا مہان انسان ہوں، بلکہ اس لیے کہ مجھ سے یہ جاہلانہ طرز عمل تب بھی، اور اب بھی، برداشت نہیں ہوتا۔

واقعات اور بھی ہیں، لکھتا ہی رہونگا آئندہ بھی مگر یہاں یہ تین واقعات صرف اس لیے تحریر کیے کہ بیٹے بھی خدا کی دین ہوتے ہیں، مگر شاید بیٹیوں کا دل اپنے باپوں کی جانب بہت نرم ہوتا ہے۔ نجانے کیسے باپ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی جانب مہربان نہیں ہوتے۔

صاحبو، میں بہت  کوشش کرتا ہوں کہ مذہب کبھی میرا پوائنٹ آف ریفرنس نہ بنے، کہ جب بھی میں سماجی، معاشی و سیاسی معاملات پر بات کر رہا ہوں تو۔ مگر بہرحال اسی معاشرے کا حصہ ہوں اور لوگوں کے رویوں کو دیکھ کر بسا اوقات بات کرنا پڑ جاتی ہے۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور آپکو یہ بات پچھلے بلاگ، "بیٹیاں" میں بھی کہہ چکا کہ کرنے کی باتوں میں تو ہم صبح دوپہر شام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت حقوق دیے ہیں، اسلام نے تو حقوق دے دئیے ہیں، آپ کب دیجیے گا؟  انہی لوگوں کی اکثریت جو یہ منترا پڑھتی رہتی ہے، اگلے ہی سانس میں عورتوں کو مرد کا نصف بتا رہے ہوتے ہیں، تہذیب اور علم کے ساتھ مکالمہ کی کوشش کریں تو آپکے ایمان پر فتاویٰ اور گالم گلوچ پر فورا ہی اتر آئیں گے۔ اتنا بھی نہیں سننا چاہتے کہ اگر اسلام نے، کہ جسکی خواہمخواہ کی ٹھیکیداری آپ نے اٹھا رکھی ہے، خواتین کو  مردوں سے بھی زیادہ حقوق دیے ہیں تو محترمین، وہی حقوق من و عن آگے ٹرانسفر کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ مگر نہیں جناب، یہاں مسلم معاشروں کے اکثریتی مردوں کے سماجی اور صنفی کنٹرول کی بات آ جاتی ہے کہ جو اِن مردوں نے اپنی جسمانی طاقت اور متشدد روایات کے بنیاد پر اسلام کے ساتھ مکس کر کے خود ہی سے اپنے لیے حاصل کرلیے ہیں۔ لہذا ہر وہ بات جو سماجی و صنفی مفادات پر ضرب لگائے گی، وہ اسکے دفاع کا کوئی حوالہ مذہب کی تشریحات سے نکال کر آپکے مونہہ پر دے ماریں گےاور اسکے بعدآپ معاشرے اور انٹرنیٹ پر اپنی جان بچاتے پھریں گے۔

کچھ تحقیق کہ ہے تو معلوم پڑا کہ  قبائلی معاشروں میں کہ جہاں کھیتی باڑی ہزاروں سال تک روزگار اور سماجی حیثیت کا واحد ذریعہ رہا، مردوں کی جسمانی ہئیت اور طاقت کی بنا پر انکی "سوشل پوزیشنگ" کو مضبوطی بخشی اور انہوں نے پھر آنے والے تقریبا تمام مذاہب کی تشریحات کا سہارا لے کر عورتوں کی ملکیت کا دعویٰ مضبوط کیے رکھا۔ میں آپکو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ مذاہب  کی عبارات پر جانے کی بجائے ان مذاہب پر عمل کروانے والے اپنی اپنی طرز کے ملاؤں کے ابتدائی رویے دیکھیے تو معلوم پڑے گا کہ کس طرح سے تمام مذاہب کے ان پروہتوں نے خواتین کو معاشرے و سماج میں دوسرے یا شاید دسویں درجے کا شہری بنا کر محدود کر دیا۔ وہ معاشرے کہ جنہوں نے انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ معاشرتی  علوم کو بھی اپنے ساتھ ارتقائی سفر میں ساتھ رکھا، وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور کچھ صومالیہ  کہلائے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں اور اس پر زیادہ بات اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتا کہ جنت کا کوئی شیدائی اس خادم کے سر نہ چڑھ جائے۔

دوسروں کی کیا بات کرنی، اپنے ہی معاشرے میں دیکھ لیجیے۔ قتل میں کروں تو پشتون کلچر میں سوارا کے نام پر میری بہن یا بیٹی قیمت ادا کرے گی۔ مخالف کی فصل کو آگ میں لگاؤں تو پنجابی ثقافت میں ونی  یا ادلہ بدلہ کے نام پر قیمت میری بہن یا بیٹی ادا کرے گی۔ ساتھ والے کھیت کے پانی کی چوری میں کروں تو  اسکی قیمت سندھ کے کلچر میں میری بیٹی یا بہن ادا کرے گی۔ بلوچوں کا ریکارڈ اس معاملے میں نسبتا بہتر ہے، مگر وہاں بھی قبائلی جھگڑوں میں آپس کی بے جوڑ شادیاں ملیں گی۔ اسی طرح آپکو "غیرت" (کہ جسکی معاشرتی تشریح میں آج تک نہیں سمجھ پایا ماسوائے اس تشدد کے جو مرد کے غصہ کے ساتھ جُڑا ہوا ملتا ہے) کے نام پر قتل ہونے والوں میں 99٪ خواتین ہی ملیں گی، بھلے پاکستان کاکوئی سا بھی سب-کلچر ہو۔نصیر آباد میں پانچ عورتیں زندہ دفن ہوں تو ثقافت۔ کوہستان میں شادی کی ویڈیو پر تین عورتیں قتل ہوں تو غیرت۔ ڈیرہ غازی خان میں چار سال کی بچی کی شادی انچاس سالہ شخص سے ہوتو  سماجی/قبائلی روایت۔ کندھ کوٹ میں ایک مرد کارا اور تین عورتین کاری ہوں تو غیرت کا معاملہ کہ جس میں وہ ایک مرد بچ گیا جرمانہ دے کر، تین ماردی گئیں۔غیرت کے نشانے پر ہمیشہ بیٹیاں ہی کیوں؟

بیٹے پیدا کرنے کے پریشر میں کئی مرتبہ آس پاس سے سنا کہ جب آقامحمدؐ کے ہاں انکے صاحبزادے، حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش ہوئی تو فرشتوں اور کائنات نے خوشیاں منائیں۔ لہذا بیٹا پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ میں نے کوشش کی ہے مگر قرآن میں اسکا ریفرنس نہ مل سکا مگر یہ بات کرنے والے اگلی ہی سانس میں کہہ ڈالتے ہیں کہ بی بی حلیمہ سعدیہؑ اور بی بی فاطمۃ الزہراؑ کےلیے ہی صرف آقاؐ  اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے اور انکے لیے اپنی چادر بھی بچھاتے تھے۔ اپنی زندگی اس معاشرے میں گزر گئی، کچھ گزرتی جار ہی ہے، میں نے کم ہی ایسا دیکھا کہ بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دی جاتی ہو، بلکہ اسکے اُلٹ ہوتا ہے، مگر باتیں  اور انکے حوالہ جات  آقامحمدؐ کی زندگی اور سنت سے، کرتوت اور عمل سارے قبائلی اور جاہلانہ۔

آخر میں، یارو، ایک بات کہنی یہی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کا کروموسوم  جناب حضرت مرد صاحب  کی جانب سے آتا ہے۔ خدا نے پیدائش کا ایک انسانی عمل متعین کر رکھا ہے اور اس عمل میں ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا فیصلہ  جناب حضرت مرد صاحب کے دیے ہوئے کروموسوم ہی کرتے ہیں۔ اگر بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے اور آپ دل گرفتہ ہیں تو جناب پاکستان کے روایتی حضرت مرد صاحب سے یہ کہنا ہے کہ تم وہ قبائلی مرد ہی نہیں ہو کہ جس کے ساتھ تم اپنے رویے کی  متشدد  برتری جوڑتے ہو۔تم بھلے اپنے آپ کو ایک بیٹے کا حقدار جانتے رہو اور ایک بیٹے کی تلاش میں بیٹیاں پیدا کرتے رہو، تم عمومی پاکستانی جناب حضرت مرد صاحب بھلے ہوگے، مرد  بالکل نہیں ہو، بہرحال۔

بڑے ہو جاؤ!


کبھی ہو گے بھی ویسے؟

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

بیٹیاں

کمی بیشی معاف، مگر ذہن اگر کچھ ساتھ دے رہا ہے تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صحابی آقامحمدؐ کی خدمت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے اور کہا کہ زمانہء جاہلیت میں کیا گیا ایک کام انکے ذہن میں ہمیش موجود رہتا ہے اور ایسا کہ جسکا قلق جائے ہی نہیں پاتا اور دل و دماغ مسلسل احساس جرم کے نیچے ایسے پستے رہتے ہیں کہ وزن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آقاؐ نے استفسار کیا تو ان صحابی نے عرض کی اے اللہ کے رسول، زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی، اسکی کچھ پرورش کی اور وہ کچھ بڑی ہوگئی، مگر گود میں تھی۔ جاہلانہ رسم کے مطابق مجھے وہ بوجھ محسوس ہوئی اور میں نے اسے زندہ دفنانے کا فیصلہ کیا۔ سارے رستہ وہ میری گود میں رہی، مجھ سے چمٹی رہی، اٹھکیلیاں اور اپنی عمر کے مطابق شرارتیں کرتی رہی، بیٹی تھی، شدید احساس تحفظ میں بھی ہوگی کہ میں اپنے باپ، جو میری چھت ہے، کےبازؤں میں اسکی چھتر چھاؤں کے تلے ہوں، کبھی میرے کندھوں پر اپنا مونہہ رکھے، تو کبھی میرے گالوں پر، کبھی میرے بالوں سے کھیلے تو کبھی میرے چہرے پر اپنے ننھے ننھے اور نرم ہاتھ لگائے، کبھی مجھے دیکھ کر ہنسے اور کبھی میری آنکھوں میں اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھے اور مسکرائے۔

شہر سے باہر ایک مقام آن پڑا، وہاں میں نے اسے زمین پر لٹایا اور اسکے ساتھ ایک گڑھا کھودنا شروع کیا۔ وہیں لیٹے لیٹے وہ مجھے دیکھے اور قلقاریاں بھرے، میری سمجھ میں نہ آنے والی، مگر اپنی جانب سے شرارت بھرے پیار کی باتیں کرے۔ میں نے گڑھا کھود ڈالا، اور بہت بےدردی سے اپنی اس بیٹی کو کہ جو اپنا نام پہنچانتی تھی، مگر کہہ اور بول کچھ نہ سکتی تھی، مجھے اور اپنی ماں کو جانتی تھی، پیار کرتی تھی، میرے سائے میں محفوظ اور اپنی ماں کی گود میں خوش و خرم رہتی تھی،  اسے میں نے اس گڑھے میں ڈالا اور جیسے ہی اسے وہاں رکھ کر اپنے ہاتھ پیچھے کھینچے، اس نے لپک کر میری ایک انگلی پکڑی اور اپنے مونہہ میں ڈال لی، شاید بھوکی تھی، میں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی، وہ معصوم اپنی معصومیت میں ہنستی تھی، مٹی سے کھیلتی تھی، اور میری آنکھوں میں جھانکتی تھی، آہستہ آہستہ میں نے مٹی اسکے چہرے پر ڈالنا شروع کی تو اسکا سانس اکھڑا اور اس نے اپنی بساط کے مطابق لپک کر میرے بازؤں میں آنے کی کوشش کی کہ شاید گھبرانے سے زیادہ سہم گئی تھی اور میری گود، میرے بازؤں میں آنا چاہتی تھی، مگر میں نہ رکا، میں نے مٹی ڈالنا جاری رکھی، پہلے جو اسے کھیل سمجھ کر ہنس رہی تھی، پھر سہمی، میری طرف لپکی، روئی، میری آنکھوں، میرے چہرے کی طرف دیکھا، روتی رہی، آنکھوں میں شکایت، شکوہ، سوال لیے، اور پھر اسکا چہرہ کسی بھی بددعا کے بغیر ہمیشہ مٹی کے نیچے دفن کر دیا میں نے۔

جانتا ہوں، کہ وہ میری بیٹی تھی، اسے شکایت تو ہوئی ہوگی، مگر اس نے گِلہ نہ کیا اور نہ ہی کوئی بددعا دی ہوگی، جانتا ہوں کہ میرے لیے، اے اللہ کے رسولؐ وہ سراپا اور باعث رحمت و محبت تھی، اس نے اپنی آنکھوں اور ذہن میں سوال تو لائے ہونگے مگر میرے جاہلانہ طرز پر وہ  اپنی جان جاتے ہوئے دیکھ کر میری محبت میں شاید خاموشی سے مر گئی ہوگی۔ بیٹی تھی نا، شاید اس لیے!۔

کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ اتنا پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ نہ اس سے پہلے انہیں ایسے روتا دیکھا گیا، اور نہ ہی اسکے بعد۔ آپؐ نے اس صحابی کا ہاتھ تھاما، اور کہا کہ جو ہوا، سو ہوا، وہ تمھارا جاہلانہ طرز تھا، جاؤ کہ اللہ تم پر اپنا رحم کرے اور تمھیں اپنی ذات کے سوالات اور جرم کے بوجھ سے بچائے اور ہلکا کرے۔

مجھ سا جاہل گناہگار نہیں جانتاکہ یہ صحابیؑ بروزِ قیامت اپنی اس بیٹی کا سامنا کیسے کریں گے؟ مجھ سا "نہ اِدھر کا، نہ اُدھر کا" مسلمان اس ہمت اور دل و گردے کا تصور کرنے سے قاصر ہے جو اس اک خاص لمحہ میں انکوؑ بحیثیت ایک باپ چاہیے ہوگا کہ جس سے وہ اپنی اس معصوم بیٹی کا  چہرہ دیکھ اور آنکھیں پڑھ سکیں گے۔ نامعلوم یہ کیسے ممکن ہوگا، نہ معلوم یہ کیسے ممکن ہوگا، بخدا۔

زمانہء جاہلیت سے فاسٹ فارورڈ ہوں اور آج کے اسلامی پاکستانی معاشرے میں آ جائیں۔ اس ضمن میں تجربات تو بہت ہیں میرے مگر ایک دو پر ہی اکتفا کرونگا کہ مقصد ڈھول پیٹنا نہیں، اک خیال ہی دینا ہے کہ جن کے ذہن کی زمین زرخیز ہو، انہیں ایک دو خیالات ہی کافی اور جو بھلے پی ایچ ڈی کرتے پھرتے ہوں، مگر ذہن کی زمین پرکبھی ہل ہی نہ چلا ہو، وہ گدھے، اوہ معذرت، کھوتے پر لدی کتابوں کی مزدوری ہی کرے ہیں۔

دو بلاگ لکھے تھے اپریل 2014 کے مہینہ میں، ایک اپنے ذاتی تجربات پر تھا بعنوان "آدھی عورت اور در فٹے مونہہ" جبکہ دوسرا  "آدھی انسان؟۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ۔" ان دونوں میں، میں نے پاکستان کے مردانہ معاشرے میں عورت کی آدھی گواہی پر بات کی، اور جواب میں جتنی گالیاں اس دو بلاگز پر پڑیں، وہ میری بیالیس سالہ زندگی میں شاید پڑنے والی گالیوں کا دوگنا ہوں گی۔

میرا مشاہد ہ اور تجربہ ہے کہ  پاکستان میں اسلام کے نام کی  فرقوی و مردانہ تشریحات پر جب ہلکی سی ضرب پڑتی ہے تو مجاہدین اسلام کی غیرت فٹا فٹ جاگ اٹھتی ہے۔ ایسا ہی ہوا اور انہوں نےفورا  بذریعہ گالم گلوچ و تبریٰ اپنا "جہاد فی انٹرنیٹ" شروع کر ڈالا۔ انہی مجاہدین اسلام اور پھر بعد میں تحریک انصاف کے انقلابیوں کی محبت کہ میں نے بلاگ کا کمنٹ سیکشن ڈس-ایبل کر ڈالا۔ اپنے سفید ہوتے ہوئے سر کے ساتھ، ان کاکوں، بلونگڑوں اور جہلا کی بدبُوؤں کو میں کیوں سونگھوں جبکہ ان بدبوؤں کا سب سے پہلا حق خود انکے اپنے دماغ اور آس پاس کے پیاروں کا ہے؟ 

آپ میں سے بہت کم جانتے ہوں گے کہ انسانی معاشروں کی ابتدا مادرانہ برتری سے ہوئی۔ عورت کوقدیم قبائلی معاشروں میں بڑی قدر سے دیکھا جاتا تھا، اور انکی سماجی منزلت آج کے قبائلی معاشروں سے کہیں زیادہ تھی۔ عورت نے نسل انسانی کو تین بنیادی اشیاء فراہم کیں کہ جسکی بنیاد پر ہم آج وہاں کھڑے ہیں جہاں ہیں، یہ الگ بات کہ ہم نے عورت کا ، بحیثیت ایک سماجی گروہ،"رگڑا کڈ ڈالا!" 

عورت نے مرد کو ایک خاندان کی طرح رہنا سکھایا کہ جس سے قبیلے بنے اور یہی قبیلے بعد میں معاشرے اور شہر پھر ملک بنے۔ عورت نے انسان کو زراعت دی، غلہ اگانا اسے محفوظ کرنا، اسے بطور غذا اور  دوا  استعمال کرنا سکھایا۔ اسی لیے آج بھی ایمزون اور افریقہ کے قدیم قبائلی علاقوں میں روائتی طریقہ کار سے علاج و دوا زیادہ تر عورتوں کے ہاتھ میں ہی  ہے۔ عورت نے مرد کو معاشرتی نظم وضبط اور اس وقت کے مروج  قوانین کے مطابق اس وقت کی مہذب زندگی گزارناسکھائی اوراپنےقبیلےمیں قوانین کا نفاذ بھی کیا۔

پھر ہوا یہ کہ مرد  نے آگ اور نیزہ دریافت کیا اور وہیں سے عورت کے قائم کردہ پرامن معاشرے کا تاروپو بکھرنا شروع ہو گیا، اور خیر سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کہ جہاں آپکو دنیا بھر میں متشدد رویوں پر مردوں کی بلاشرکتِ غیرے اجارہ داری  ملتی ہے۔ آپ خود سے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھ لیں کہ آپکے علم میں آنے والے متشدد اعمال و جرائم میں عورتوں کی، مردوں کے مقابلے میں، کیا نسبت ہے، اور آپکو اس پیراگراف میں میرے بیان کردہ تھیسس کا جواب مل جائے گا!۔

بات نہ چاہنے کے باوجودطویل ہوگئی، اسکی معذرت، اور شاید کہ اپنے مشاہدے میں موجود معاشرتی رویوں پر بات اگلے بلاگ میں کر لوں گا جومشاہداتی  اور اپنی زندگی میں آنے والے  واقعات پر مبنی ہونگے، مگر ایک واقعہ جلدی سے سناؤں اور پھر آخری خیال کے ساتھ آپکا شکریہ ادا کروں۔

میرے ایک عزیز دوست کے ہاں، دو بیٹوں کے بعد بیٹی پیدا ہوئی۔ میں اپنی فیملی سمیت مبارکباد دینے گیا اور راستے میں سے پانچ کلو مٹھائی کی ایک ٹوکری بھی ساتھ لی۔

وہاں پہنچا تو میاں، بیوی اور پیدا ہونےوالی بیٹی کی دادی، پھوپھو، نانی،  اور چاچی وغیرہ کو روتے ہوئے پایا۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ بیٹی کی پیدائش پر رو رہے ہیں۔ میں پہلے پریشان ہوا، پھر حیران اور پھر غصہ آ گیا۔ جواب دیا کہ رو کیوں رہے ہو، دو بیٹے بھی تو ہیں نا۔ آگے سے ملنے والا جواب پاکستانی معاشرے کی عمومی جہالت کا کلائمیکس تھا: "بیٹی کی پیدائش نہیں، بیٹی کے مستقبل کے مقدر سے ڈر لگتا ہے، اسی لیے رو رہے ہیں۔"

 میرا میٹر اور شارٹ ہو گیا اور میں نے کہا کہ بیٹے کے مقدر سے ڈر نہیں لگتا کیا؟ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ دونوں نیلسن مینڈیلا بنیں گے (یہ میں نے واقعی ہی کہاتھا!) اور تمھاری بیٹی تمھارے لیے مسائل ہی پیدا کرے گی؟ اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ دونوں آوارہ نہیں ہونگے اور تمھاری بیٹی ہی تمھارے بڑھاپے میں دادرسی کرنے والی ہوگی۔ آگے سے جواب اور رویہ وہی جاہلانہ تھا، میں غصے میں رہا، اٹھ آیا اور آتے ہوئے اپنی مٹھائی بھی واپس لے آیا، اور کہا کہ میں تم لوگوں پر اپنی مٹھائی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ ان سے تعلقات کچھ عرصہ کےلیے منقطع ہوئے مگر پھر بحال ہوگئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ دونوں بیٹے کلاس میں پوزیشن ہولڈر نہیں، جبکہ وہ بیٹی، ابھی پرائمری جماعتوں میں ہی ہے، مگر پوزیشن ہولڈر ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے یارو کہ اپنے اس دوست کی بابت میں ابھی بھی کچھ زیادہ مثبت نہیں سوچ پاتا۔

خواتین کے بارے میں اپنے رویوں پر کبھی غیرمتعصبانہ طریقے سے غور تو کیجیے گا۔ یہ جو احساس کہ خواتین ہم مردوں سے آدھی ہیں اور بہت سے دیگر سٹرئیوٹائپس جو ہمارے آس پاس خواتین کے حوالے سے پھیلے ہوئے ہیں، ان خیالات کا پراپر ایکیڈیمک سورس کیا ہے؟ کبھی تحقیق کی؟ کہنے کو ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں اور بہت بات کرتے ہیں کہ جی اسلام نے عورتوں کو تو بہت حقوق دیے ہیں۔ او بھائیو، اسلام نے توجو حقوق دیے، وہ دیے ہونگے، آپ نے کیا وہ حقوق دیے ہیں اپنے گھروں اور معاشرے میں عورتوں کو؟ اسلام کی فرقوی اور مردانہ معاشرے کی اساس پر کی گئی تشریحات پر، خدارا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے، اپنے دل کو ٹٹولیے، اپنے آپ سے سوال کیجیے، کہ کہیں آپ بھی تو نہیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی معاشرتی، مردانہ اور سماجی  جاہلیت کی مٹی میں زندہ دفنا رہے؟ مجھے اس سوال کا عمومی جواب پہلے ہی معلوم ہے، اسی لیے اپنے کمنٹ سیکشن کو ڈس-ایبل کرنے پر خوش ہوں، مگر پھر بھی اپنی فطری رجائیت کو قائم رکھتے ہوئے آپ سے حسن ظن موجود ہے، اور رہے گا کہ شاید آپ واقعی ہے ایک غیر متعصبانہ غور وفکر کر سکیں۔

روایات کے نام پر موجود تمام اقسام کی جاہلیت سے بچ کر جئیں، اور اگر بچیں گے نہیں، تو صاحبو، جاہل رہیں گے اور جاہل ہی کہلائے جائیں گے۔ شکریہ


پس تحریر: پاکستانی معاشرتی خاندانی اکائیوں کے حوالے سے عورتوں سے سلوک/رویے اور خیالات کے حوالے سے جگ بیتیاں "بیٹیاں-گزشتہ سے پیوستہ" میں اگلے جمعے تحریر کرونگا۔ ان تمام دوستوں کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے بلاگ نہ لکھنے کی وجہ پوچھی، محبت بھری لعن طعن کی اور جسکے نتیجے میں خادم کی عالمِ ارواح سے جاری سُستی کچھ دور ہوئی۔ آپ سب کو دلی دعا ہے۔

ہفتہ، 2 اگست، 2014

محترم عمران خان صاحب کے نام کھلا خط

محترم جناب عمران خان صاحب،

آپکا اور میرا کوئی جوڑ بن ہی نہیں سکتا۔ آپ پاکستان کی دوسری بڑی ووٹ لینے والی جماعت کے سربراہ ہیں، اور میرا نام تو میرا ہمسایہ نہیں جانتا، لہذا تقابل میں تو آپ سے بات کرنے کا میرا معیار تو ہے ہی کوئی نہیں، مگر جناب، تین رشتے ہیں آپکے ساتھ:

1۔ میں پاکستانی شہری ہوں،ا ور مستقبل قریب میں کسی دوسرے ملک کا شہری ہونے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں رکھتا۔
2۔ میں اسلام آباد کا رہائشی ہوں اور آپکے آنے والے سو-کالڈ "آزادی مارچ" کے جملہ اثرات کا وصول کنندہ ہوں۔
3۔ 2013 کے عام انتخابات میں، میں نے آپکی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔

آپکے نام اپنے پہلے کُھلے خط میں، میں نے کچھ عرض کیا تھا اپنے بارے میں اور اس سے قبل کہ آپکی جماعت کے نوجوان مجھے پٹواری  اور انقلاب مخالف وغیرہ ہونے کا طعنہ ماریں، مختصر طور پر عرض کرتا چلوں کہ میں 1993 سے پاکستانی ووٹر ہوں اور سیاسی عمل پر کبھی نہ ہلنے والا ایمان رکھتا ہوں۔ میں نے 1993 اور 1997 کے انتخابات میں پی پی پی کو اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں پی ایم ایل این کو ووٹ دیا تھا۔ 2013 میں آپکی جماعت کی اپیل سے متاثر ہوا اور آپکو ووٹ دیا۔ مجھے بلاشبہ آپکی سیاست سے بعد میں مایوسی ہوئی جو کہ مجھے تشدد کو روا سمجھنے والی چند "دینی سیاسی جماعتوں" کی سیاست کے قریب تر محسوس ہوئی، مگر آپکی سیاست آپکا حق ٹھہرا اور میرے خیالات میرا حق۔ بات کی زیادہ تمہید نہ باندھوں گا اور آپ سے کرنے والی چند باتیں کروں گا۔ ملاحظہ کیجیے گا:-

آپکے سو-کالڈ آزادی مارچ کے کل تین  "حقیقی مطالبات، " میری ریسرچ کے مطابق،  ہیں اور میرے نزدیک وہ تینوں مطالبات برحق، درست، پاکستانی عوام اور جمہوریت کے حق میں بہترین ہیں۔ آپ نے یا آپکی جماعت کے رہنماؤں نے مندرجہ ذیل تین مطالبات کو ہی اپنے آزادی مارچ سے متصل کرکے بذریعہ میڈیا عوام کے سامنے پیش کیا ہے:

1۔ چار حلقوں کی دوبارہ سے گنتی؛ کچھ کہتے ہیں کہ بات اب چار سے چالیس تک جا پہنچی ہے۔  حلقے چار، چالیس یا چار سو ہوں، آپکی بات درست ہے ۔
2۔ پچھلے سال ہونے والے الیکشنز کا آڈٹ۔
3۔ پاکستان میں انتخابی اصلاحات، کہ جس میں الیکشن کمشن آف پاکستان کی اصلاحات بھی شامل ہیں۔

خدا شاہد کہ میرے نزدیک آپکی یہ تینوں ڈیمانڈز درست ہیں، مگر میرے نزدیک انکو حاصل کرنے کا طریقہ نہ صرف درست نہیں، بلکہ پاکستان میں سیاسی انارکی کے ایک مخصوص کلچر کا بھی آئینہ دار ہے کہ جسکی مجھے آپ سے توقع اس لیے نہ تھی کہ آپکو پاکستان کی "پڑھی لکھی مڈل کلاس" کے نوجوانوں نے ووٹ کا اعتماد بخشا مگر آپ نے اپنی سیاست، گفتار اور پارلیمانی کردار میں اپنے اکثریتی حامیوں کو "لِیڈ" تو کیا، مگر "ایجوکیٹ" نہ کرسکے۔

میرا بنیادی خیال یہ ہے کہ یہ تینوں مطالبات "پروسیجرل اور آئینی" ہیں نہ کہ عوامی و سیاسی۔ سڑکوں پر لوگوں کو بھلے لے کر آئیں، مگر وہ مطالبات پھر عوامی ہوں، تکنیکی اور آئینی نوعیت کے نہیں۔ بجلی، مہنگائی، امن عامہ کی صورتحال، معیشت وغیرہ چند ایک معاملات ہیں کہ جن پر سڑکوں پر آنا بنتا ہے، آپکے موجودہ مطالبات کی روشنی میں سڑکوں پر آنا، ریاست کے تکنیکی معاملات کو مزید پیچیدہ تو کر سکتا ہے، انکو حل نہیں کر سکتا۔

مثال کے طور پر موجودہ الیکشن کمشن پر آپکو خود اعتماد نہیں، مگر الیکشن کمشن میں اصلاحات، صرف حکومت نہیں بلکہ پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہےکیونکہ کسی قسم کی اصلاحات کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہو گی اور یہ آئینی اصلاحات آپکے چودہ اگست کو سڑک پر بیٹھنے سے ممکن نہیں، پارلیمان کے اندر سے ہی ممکن ہونگی۔ عین اس وقت کہ جب موجودہ پارلیمان ہی الیکشن کمشن میں اصلاحات ممکن بنا سکتی ہے، آپکو اس پارلیمان کو "دھاندلی کی پیداوار" کہتےآئے ہیں، تو گویا آپکو اس پارلیمان کے سیاسی اور آئینی کردار پر بھی بھرپور اعتماد نہیں، بھلے آپ اور آپکی جماعت اسکا حصہ بھی ہیں۔ آپکی ایک اور ڈیمانڈ، کہ الیکشن کا آڈٹ کروایا جائے، تو جناب ، یہ کام بھی الیکشن کمشن ہی کر سکتا ہےا ور اس کام کے لیے کوئی "تھرڈ پارٹی آڈیٹر" تعینات نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بھی غیر آئینی ہوگا۔ سیاست کے ایک  ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے، میں یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ جب آپکی ظاہر کی گئی تین ڈیمانڈز ایک دوسرے کے ساتھ ایک دائروی انداز  متصل ہیں اور یہ معاملہ مجھ سا عامی کچھ سمجھ سکتا ہے کہ عوامی نہیں، سیاسی/آئینی/تکنیکی ہے، تو محترم، آپکی جماعت کے سیاسی مشیر اور جفادری کیوں نہیں جان پا رہے کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کارستہ قانونی اور پارلیمانی ہے، "سڑکوی اور احتجاجی"  نہیں؟

کچھ تو رہنمائی فرمائیے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ الیکشن کمشن کی اصلاحات پارلیمان کا دائرہ اختیار، پارلیمان کو آپ دھاندلی کی پیداوار کہیں، الیکشن کا آڈٹ، الیکشن کمشن کی ذمہ داری اور الیکشن کمشن کی اصلاحات  کی گیندپھر پارلیمان کے کورٹ میں؛ اور یہ بھی یاد رہے کہ آپکے مطلوبہ حلقوں کا معاملہ الیکشن ٹریبیونل میں موجود ہے۔  عجب دائرہ ہے یہ مگر اس گُتھی کو سلجھانے کا آغاز پارلیمان کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور سیاسی عمل کی سُستی کی حقیقت کو جانتے ہوئے، مسلسل سیاسی، پارلیمانی مگر مثبت دباؤ ہی کارگر ثابت ہوگا؛ بلند آواز، نعرے بازی اور دشنام طرازی نہیں۔

آپ بھلے تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہوں، جو آپکے ووٹرز کےلیے تو بڑی دلپذیر ہوگی،مگر اصلاحات کے موضوع پر دنیا بھر میں جدید ریاستیں سست روی سے چلتی ہیں کیونکہ تمام فریقین کو ساتھ اور اکٹھا لے کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پارلیمان میں یا پاکستان میں آپکی جماعت ہی واحد جماعت نہیں کہ جو آپ چاہیں، وہی قانون بھی ہو اور اسی ڈگر پر ریاست بھی چلے۔ میں خود تبدیلی کا حامی ہوں، نہ ہوتا تو آپکو ووٹ بھی نہ ڈالتا، مگر محترم، سڑکوں پر سے لاقانونیت تو جنم لے سکتی ہے، اصلاحات نہیں۔ اسی ایک نقطہ پر آپ سے ایک چبھتا ہوا سوال یہ پوچھتا چلوں کہ آپ نے اپنے صوبے میں خود ہی ایک سال میں کتنی "تبدیلی" متعارف کروائی ہے؟ آپ، آپکی جماعت اور آپکی صوبائی حکومت جو مرضی کہتے رہیں، مگر جناب، فاٹاریسرچ سنٹر کی  رپورٹ، جو آپکی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی  کے بارے میں تھی، کچھ اور ہی داستان سناتی پائی گئی اور آپکی صوبائی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کے مندرجات پر کوئی مضبوط دلیل اور جواب تاحال ناپید ہے۔ یہاں کچھ سوالات آپکی نذر کرتا ہوں، کہ شاید سوچ کو کچھ مہمیز لگتی ہو:-

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپکی صوبائی حکومت نے عمدہ قانون سازی کی، مگر ان پر عملد رآمد کی کیا رفتا ر ہے؟ آپ نے قومی وطن پارٹی سے الحاق ختم کرکے سیاسی دلیری کا مظاہرہ کیا، مگر قومی وطن پارٹی کے "کرپٹ منسٹرز" کے خلاف آپکی حکومت نے کیا تادیبی کارروائی کی؟ یا ابھی تک "نئے خیبر پختونخواہ" میں قانون صرف مجھ سے غریبوں کے لیے ہی ہے؟ آپ نے اپنی جماعت کے وزیر برطرف کیے، اچھی مثال قائم کی، مگر انکے خلاف قانون نے کارروائی کیوں نہ کی ابھی تک یا محض انکی برطرفی ہی انکی انتہائی سزا ٹھہری؟ آپ نے ابھی تک، ایک سال گزر چلا، چیف منسٹر ہاؤس کو لائبریری کیوں نہ بنایا، خود آپکا اعلان تھا کہ آپ ایسے وی آئی پی کلچر کو ختم کر دیں گے؟ آپ نے ابھی تک، ایک سال گزر جانےکے باوجود، بلدیاتی انتخابات کیوں نہ کروائے، آپکا وعدہ تین ماہ کا تھا؟ تاویل بھلے جو مرضی دیں، مگر یہی کام بلوچستان نے کر دکھایا، اور انہوں نے تو کسی انقلاب کی نوید بھی کبھی نہ سنائی تھی۔ آپ نے تین سو پچاس ڈیمز بنانے کا اعلان کیا تھا، اس محاذ پر کیا ترقی اور مثبت پیش رفت ہوئی ہے، کچھ مطلع فرمائیے گا؟  سروے رپورٹس سے ہٹ کر، سنجیدہ ادارے آپکے صوبے کی گورننس کے انڈیکیٹرز کو حوصلہ افزا قرار نہیں دیتے، کچھ نظرکرم اس طرف بھی کب فرمائیے گا؟ آپکے نام پہلے خط میں تحریر کیا تھا کہ کےپی زیادہ تر زرعی صوبہ ہے، اپنی حکومت کی مدت میں ابھی تک کیا زرعی اصلاحات ہوئیں، اور ان پر عملدرآمد کی کیا صورتحال ہے؟ تعلیمی میدان میں آپ نے تعمیرِ سکول پروگرام شروع کیا تھا، اس پر ترقی کی کیا صورتحال ہے؟ علاوہ ازیں، پرویز خٹک صاحب نے ستمبر 2013میں خصوصی طور پر تعلیم کی ترقی و ترویج پر نوٹس لیا تھا، یہ بات کہاں تک پہنچی؟ آپکی صوبائی حکومت کے آزاد احتسابی ادارے کی پرفارمنس ابھی تک کیا ہے اور کتنے بڑے کرپٹ لوگوں کو ابھی تک سزا مل سکی ہے؟ کیا آپکی صوبائی حکومت نے بیرونی امداد کو انکار کیا، بھلے آپ اور آپکی جماعت بیرونی امداد دینے والے ممالک کے خلاف احتجاج کرتے اور جلوس نکالتے رہیں؟ آپکی صوبائی حکومت نے کیا کوئی پیراڈائم وضع کیا ہے کہ جسکے تحت آپکی صوبائی معیشت میں سے آہستہ آہستہ بیرونی امداد کو کم سے کم تر اور پھرختم کر دیا جائے گا؟ آپ نے کراچی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین  صاحب کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا، یہ معاملہ کہاں تک پہنچا؟ اسی طرح آپ کے نجم سیٹھی صاحب کے حوالے سے بھی کچھ ارشادات فرمائے تھے، کچھ ذکر ادھر بھی ہو جائے؟ آپ نے جیو ٹی وی کا بائیکاٹ کیا، میں اسکے حق میں نہ تھا کہ سیاست اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بھی کہ میں جیو ٹی وی کی "نشریاتی سیاست" کا شدید مخالف ہوں، مگر ابھی حال ہی میں آپ نے انکے ساتھ کچھ گفتگو سلطنتِ برطانیہ میں فرما لی، کیوں؟ آپکی جماعت کے ایک سرگرم رکن، جو میرے دوست بھی ہیں، اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے انہیں کیا بتایا/کہا تھا، مگر آپ نے  ایک "شعلہ بیان اور جذباتی ہیجان کے ماہر" ٹی وی اینکر کی بات پر پورے پاکستان میں "پینتی پینچر" کا ڈھول کیوں پیٹا اور اگر آپ ابھی بھی اس بات کو درست جانتے ہیں تو اسکے ثبوت کب مہیا ہونگے؟ اسی طرح انہی نابغہ ٹی وی اینکر صاحب محترم مدظلہ علیہ کے فرمودات عالیہ کو بنیاد بنا کر آپ نے ملٹری انٹیلیجنس کے ایک بریگیڈئیر صاحب کا بھی ذکر کیا تھا، اس پر کچھ مزید گفتگو کب ہوگی؟

سوالات اور بھی ہیں، اور مندرجہ بالا سے بھی مزید چبھتے ہوئے، مگر میں آپکی جماعت کے "پڑھے لکھے مڈل کلاس" نوجوانوں سے پٹواری، سازشی وغیرہ ہونے کا کوئی تمغہ نہیں لینا چاہتا، لہذا نہی کم چبھتے ہوئے سوالات پر ہی اکتفا کرونگا۔

آخر میں ایک سینارئیو آپکی نذر اور آپ سے درخواست کہ اسکا حل بھی بتلائیے گا: آپ چودہ اگست کو اسلام آباد میں "لاکھوں کا مجمع" اکٹھا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جیتے جاگتے اور آنکھوں میں خواب لیے جذباتی پاکستانی ہیں۔ کچھ بتائیے گا کہ وہ یہاں کتنے دن رہیں گے؟ انسان ہیں، اوپر سے گرمی ہے شدید اور انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے جذباتی خوابوں اور پروپیگنڈہ کے علاوہ خوراک، کچھ جسمانی آرام اور دیگر حوائجِ  ضروریہ کی بھی  ضرورت ہوتی ہے، اگر آپکا قیامِ انقلاب ایک دن سے بڑھ کر تین، چار، چھ، دس دن تک محیط ہوتا ہے تو ان معاملات کا کیا انتظام ہے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شدید جذباتی  سیاسی خواہشات اور انسانی تھکن کے ملن سے جو تشدد جنم لے سکتا ہے، اسکا مداوا پہلے سے ہی آپکے اور آپکی جماعت کے رہنماؤں کے اذہان میں موجود ہوگا؟ تصور کیجیے کہ تیسرے دن، ایک تھکا ہوا جذباتی نوجوان جو گرمی سے تنگ ہے ایک پولیس والے سے بدتمیزی کر ڈالتا ہے اور جواب میں ایک گروہی ذہنیت کی وجہ سے کچھ تشدد جنم لیتا ہے، کہ جسکا حقیقی خطرہ ہے، تو اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کیا صرف حکومت پر ہوگی یا کچھ حصہ آپکے کندھوں پر بھی ہوگا؟  میں جانتا ہو کہ شاید آپ یا آپکی پارٹی کے چند رہنماؤں کےلیے تو آپکی پارٹی کے ایک نہایت امیر اور جہازوی رہنما کے قریبی گھر سے  خالص دیسی سبزیوں پر مشتمل کھانا اور خالص لائم کی سکنجبین  تو شاید آتی رہے گی، سڑک پر بیٹھے لوگوں کے لیے کیا سلسلہ ہو گا؟ علاوہ ازیں، میرے ایک دوست، خواجہ ناصر، کا کاروبار ہے بلند مرکز، بلیو ایریا میں، جو ڈی چوک کے بالکل قریب ہے، میں جانتا ہوں کہ اس نے ستمبر کے درمیان فرانس کچھ گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے ہیں اور اس نے اس کانٹریکٹ کےلیے بہت محنت کی ہے، ایک ہفتہ سے کچھ اوپر نیچے وہ علاقہ بند ہونے کی صورت میں اسکے کاروباری نقصان کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یاد رہے کہ اسکی چھوٹی بہن کی شادی بھی نومبر میں طے ہے اور وہ اکتوبر میں رقم کی توقع کر کے بیٹھا ہوا ہے بشرطیکہ ستمبر کے درمیان تک اسکا آرڈر پورا ہوتا ہو۔ اس علاقے میں تو سینکڑوں خواجہ ناصر ہونگے، انکے کاروبار وغیرہ کا کیا بنے گا؟

آپ اور آپکی جماعت پاکستانی جمہور کا  لازمی حصہ ہے، مگر جمہور کے لیے سیاست شرط ہے، صرف احتجاج ہی نہیں۔ سیاست اور ریاست سست رو عمل ہوتے ہیں اور مسلسل کام اور جدوجہد چاہتے ہیں، آپکی جماعت کے لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ہمیں کے پی میں صرف ایک سال ہوا ہے اور دہائیوں کے بگڑے مسائل ایک سال میں کیسے درست ہوں، تو جناب، یہی فارمولا وفاق اور ریاست کے بگڑے امور پر کیوں لاگو نہیں؟ دھیرج سے مسائل حل ہوتے ہیں، تیز رفتار سے نقصانات ہی ہوتے ہیں۔

 آپکی صحت و ترقی کے لیے دعا گو،

مبشر اکرم
اسلام آباد


پس تحریر: اس بلاگ کو تحریر کرنے کے بعد میں نے کومنٹ سیکشن ڈس-ایبل کر دیا کہ عمومی رائے کا ایک مناسب تجربہ ہے۔ اسی لیے اوپر کہا کہ اکثریتی لوگ "لِیڈ" تو بھلے ہوئے، مگر  اختلافی رائے کے معاملہ میں"ایجوکیٹ" نہ ہوسکے،  بدقسمتی سے۔

ہفتہ، 19 جولائی، 2014

پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ

سوشل میڈیا پر آنے کےلیے آپکے پاس سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو یقینا جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے لیے ایک خواب ہوتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والے لوئرمڈل سے شروع ہوتے ہیں، اور کچھ نہ کچھ فارمل تعلیم رکھتے ہیں اور مناسب خاندانی تربیت کے حامل بھی ہوتے ہونگے۔ معاشرتی اور سماجی تربیت کی بات نہ کرونگا یہاں کہ اسکے جو حالات ہیں، وہ ہم سب ہی جانتے ہیں۔ میرا مناسب سا مشاہدہ ہے اور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے ہی معاشی اور معاشرتی انڈیکیٹرز رکھنے والے دیگر ممالک میں معاشرے کے اس طبقے نے اپنی قوموں کی حالت بدل ڈالی ایک سے دو دہائیوں میں اور جب سنجیدگی سے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس معاشی اور قومی ترقی میں اس طبقے کے اپنے اپنے کام سے متعلقہ "فوکس" نے یہ معجزات ممکن بنائے۔

یہاں پر دو "بز ورڈز" ہیں: لوئرسےمڈل کلاس اور فوکس۔

میرا تجربہ اور مشاہدہ پاکستانی لوئر تا مڈل کلاس کا صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں۔ کوئی تمغے والی بات تو نہیں، مگر میں مختلف پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں پاکستان کے تقریبا 93 اضلاع میں جا چکا ہوں۔ وہاں سے صرف گزرا ہی نہیں، بلکہ وہاں رکنے اوررہنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ اس میں فاٹا سے لے کر بلوچستان کے علاقہ تفتان و تربت اور سندھ کے اندرونی علاقے، گھوٹکی، عمر کوٹ، کندھ کوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے اس تقریبا 17 سالہ مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی مڈل کلاس میں کلاسیکی مڈل کلاس والی عادات کم و بیش کُلی طور پر ناپید ہیں، نہ صرف ناپید ہیں، بلکہ پاکستانی مڈل کلاس،  معیاری مڈل کلاس عادات کے مخالف رویہ کی حامل ہے۔ ممکن ہے آپ میری  بات سے اختلاف کریں، آپکا حق ہے، مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ معیاری مڈل کلاس عادات کہ جنکی بدولت معاشروں، ذہنوں، لوگوں اور نظریات میں تحریک رہتی ہے، ہمارے ہاں ایک تسلسل سے غائب ہی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ کوئی غلط نہ سمجھے، مگر آرگیومنٹ کی خاطر کہنا یہ ہے کہ ان معیاری عادات کے مسلسل غائب ہونے سے جو معاشرتی خلا پیدا ہورہا ہے، قریبا پچھلے پچیس سالوں سے، وہ خلا انواع واقسام کی مذہبی، فرقوی اور نسل پرست جماعتیں پُر کر رہی ہیں، اور کافی کامیابی سے، در حقیقت۔ یہ خطرے کی وہ علامت ہے جو کبھی کبھار مجھے پاکستان، پاکستانی معاشرے اور اسکے لوگوں کے ایک صحتمندانہ مستقبل سے مایوس بھی کرتی ہے، مگر زندگی تو رجائیت میں ہی جی جاتی ہے، دوستو، تو کچھ دیر بعد، دوبارہ سے سنبھل جاتا ہوں۔

پاکستان میں موجود اکثریتی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنی اپنی طرز کے نظریات بیچ رہی ہیں اور آپ بھلے نہ مانیں، آپکو ان سب میں ایک چیز مشترک ملتی ہے: تشدد یا ایک ملفوف انداز میں تشدد کی حمایت۔ اب اوپر بیان کیے گئے سماجی خلا، کہ جو معیاری مڈل کلاس عادات کی غیر موجودگی معاشرے میں پیدا کرتی ہے، کو اگر مذہبی، فرقوی اور قوم پرست جماعتیں اپنے اپنے نظریات سے پُر کریں گی تو آپکو اسکے نتیجہ میں معاشرے میں وہی رجحانات کی بہتات ملے گی اور لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر انہی نظریات کو سماجی قوانین گرداننا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ سماجی روایات بن جاتی ہیں۔ یہاں پر مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتیں جو وفاق کی سطح پر کام کررہی ہیں،  چونکہ وہ بھی معاشرے کی اسی بنوتری سے اپنے سپورٹرز وصول کرتی ہیں،ا ور اس پراسس میں اپنے ہمدردوں کی کوئی تربیت نہیں کرتیں، لہذا ان میں بھی آپکو اسی قسم کے تشدد کی لہریں نظر آتی ہیں، چاہیں وہ شہباز شریف صاحب  کے خاندان کی ایک خاتون کا بیکری والے پر تشدد ہو، شیریں مزاری صاحبہ کی زبان دانی، پیپلز پارٹی والوں کا جاگیردارانہ کنٹرول، ایم کیو ایم کا شہری تشدد، جماعت اسلامی کا اپنا متشدد نظریہ، قوم پرستوں کا تشدد کی بلاواسطہ حمایت کرنا وغیرہ، شامل ہے۔

پاکستانی، بالخصوص شہری، اور اس میں سے بھی بالخصوص/بالخصوص پنجابی، شہری طبقات نے اپنی اپنی طرز کی عدم برداشت پال رکھی ہےاور بہت ساری مڈل کلاس عادات پر اس عدم برداشت کے کڑے پہرے بھی ہیں۔

دنیا کے جن ممالک نے بھی معاشی اور معاشرتی ترقی کی، اس میں مڈل کلاس ہی صفِ اول میں رہی۔ یہ کلاس معاشروں کا "چینج انجن" ہوتی ہے اور ایک بڑی تبدیلی ممکن بناتی ہے۔ بل گیٹس، سٹیو جابز، گورڈن مُور، رابرٹ نوئس، لکشمی مٹل، جمسیٹھ جی ٹاٹا اور ایک بہت لمبی فہرست لوگوں کی آپکو ملتی ہے جو بھلے آج تو ارب/کھرب پتی ہوں، مگر انکی شروعات لو/مڈل کلاس تھیں۔ بل گیٹس اور سٹیو جابز نے تمام دنیا کے کام کرنے کی عادات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا، وہ مڈل کلاس تھے، اور فوکسڈ تھے۔

مڈل کلاس کے عمومی معیارات میں سے کچھ یہ ہیں: مڈل کلاس معاشرے میں رواداری کو بنا کر رکھتی ہے، برداشت کو سنوارتی ہے، فنون کو مدد فراہم کرتی ہے، اپنی جدوجہد میں اپنے سے نیچے والوں کے لیے معاشی، معاشرتی و سماجی مواقع پیدا کرتی ہے، اپنے سے بالا طبقات کے ساتھ جڑ کر رہتی ہے اور ان سے مختلف حیثیتوں میں اپنے معاشرے، لوگوں اور ملک کےلیے بہتری کے کام کرواتی ہے۔  مڈل کلاس جانتی ہے کہ معاشرتی نظم،  صرف اور صرف باہمی احترام اور برداشت پر قائم ہوتا ہے، اس لیے یہ اسکی حفاظت اور ترویج کرتی ہے۔ یہ کلاس کتب بینی کرتی ہے، سینما جاتی ہے، موسیقی سنتی ہے، اپنے بچوں کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے انکی ترقی کی راہیں بذریعہ تعلیم متعین کرتی ہے، معاشرے میں ایلیٹ اور غرباء کے تعلق کو قائم رکھوا کر ایک توازن اور آرڈر مقرر رکھتی ہے۔ یہ کلاس سیاحت کرتی ہے، اپنے گھروں پر خرچ کرتی ہے، شدید معاشی جدوجہد کرتی ہے کہ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں معاشی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ مڈل کلاس اپنے معاشرے کے روایتی تصورات کی امین ہوتی ہے، دوستیاں پالتی ہے، تعلقات نبھاتی ہے، معاشرتی نظم کی سب سے بڑی بینیفشری ہوتی ہے،  عموما اپنے سے بہتر کلاس اپنی اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔ یہ کلاس اپنی جدوجہد میں ایجادات کرتی ہے، نئے نئے، چھوٹے بڑے، کام کرتی ہے، نئے نئے آئیڈیاز اور تصورات کے ساتھ مارکیٹ میں آتی ہے، ناکام ہوتی ہے تو پھر سے کوشش کرتی ہے، کوشش کرتی ہے تو کامیابی کےلیے جان مارتی ہے، شہروں میں آکر قبائلی سوچ سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہے، اسی کلاس میں اپنے سے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھاتی ہے اور اسی سلسلہ میں  نئے خاندان، نئے نظریات اور نئی نسلیں تشکیل پاتی ہیں۔ یہ کلاس عموما مضطرب ہوتی ہے، کچھ کرکے دکھانا چاہتی ہے، سیاسی اور معاشرتی تبدیلی کی علمبردار ہوکر ریاست، ملک اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانا چاہتی ہے، ذمہ داری لیتی ہے اور پھر اس ذمہ داری  کی انجام دہی میں کئی مزید مواقع تلاش اور پیدا کرتی ہے۔

  یہی کلاس، صاحبو، معاشرے، ملک، ریاستیں، اور تاریخ بدلتی ہے۔ 

اب اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ اوپر کے ایک مختصر پیراگراف میں سے کتنی عادات آپکو پاکستانی مڈل کلاس میں ملتی ہیں؟

اکثریتی: سرکاری نوکری کے متوالے، کام سے بھاگنے والے، کام لے کر ذمہ داری سے پورا نہ کرنے والے، تقدیر کے جبر کو اپنی ذات اور ذہن کے مطابق دل سے تسلیم کرنے والے، گفتگو کے فن سے قریبا نابلد، تحریر سے دور، کتب بینی کی حالت یہ کہ بیس کروڑ لوگوں کی آبادی میں کتاب کے ایڈیشن پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتے، ہزاروں شہر/قصبوں میں سینماؤں کی تعداد دو درجن سے کم، کھیلنے کے میدان ناپیداور اس پر مکمل خاموشی،  نوجوانوں کےلیے مواقع ناپید، اس پر مکمل خاموشی، ستر ہزار پاکستانی قتل کردئیے گئے، اس پر مذہبی، سیاسی، سماجی تاویلیں، موسیقی حرام، فلم حرام، کو ایجوکیشن حرام، خواتین کا معاشرے میں آگے بڑھنے کےلیے کوشش کرنا قریبا قریبا مکروہ، زبانی، ذہنی اور جہاں ممکن ہو جسمانی تشدد کی لائن پر موجود اندھی سیاسی اور مذہبی تقلید اور اس تشدد کے مظاہرے کےلیے ایک خاموش خواہش اور مرضی بھی اور اس تشدد کے اظہار کو طاقت جاننا بھی۔ذات پات، قبائلیت، دماغی تعصبات، اندھی تقلید، سوال پر فوری ردعمل، جارحانہ اشارے، سیاسی، معاشرتی مذہبی شدت پسندی عام۔ اپنے محدود تجربہ میں مجھے دنیا کے کسی دوسرے معاشرے میں 70ہزار شہریوں کے قتل ہو جانے کی توجیحات دینے والے شاید نہیں ملیں گے، یہاں وافر ملتے ہیں، سیاسی بھی، مذہبی بھی، اور سماجی بھی۔

"تمغے" اور بھی ہیں، مگر چھوڑئیے کہ اتنا ہی کافی اگر سوچ کو کوئی مہمیز ملتی ہے تو، اور اگر اس سے بھی نہیں ملتی، تو مزید تمغے بھی بےاثر ہونگے۔

دلی معذرت کہ بات لمبی ہوگئی، مگر پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ پڑھنا تھا کہ مجھے اپنے بچپن کا پاکستان بھی بہت اچھی طرح یاد ہے۔ پاکستانی مڈل کلاس کا نوحہ پڑھنا تھا کہ اس کلاس کو اپنے معاشرتی، سماجی اور تہذیبی نقصان کا معلوم ہی نہیں ہو چُک رہا۔

اگر اس مضمون نے آپکو کچھ/کچھ/کچھ بھی سوچنے پر مجبور کیا ہوتو محنت وصول ہوئی، اور اگر جواب میں آپکے پاس دشنام، تنقید اور ردعمل ہی ہے تو میں اپنی ذات میں بہت کلئیر ہوں کہ میں نےایک لمبا عرصہ جان مار کے معاشرتی مڈل کلاس کے آس پاس رسائی حاصل کی ہے اور ویسا ہی معیاری رویہ بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔ جان چکا ہوں کہ مڈل کلاس، یا اس سے بہتر، زندگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر اسکے لیے جان مارنی اورمخصوص رویے اپنانا پڑتے ہیں۔ میں اپنے اس حق کا ہر جگہ، ہر فورم پر دفاع کرتا ہوں، اور کروں گا۔ آپ سب سے بھی گزارش ہے کہ کچھ  آزاد ذہن کے ساتھ، دوستو، اپنی ذات پر خود سے ڈالے کڑے پہرے ہٹا کر تو دیکھو، زندگی آسان بنے گی، آپکی بھی اور دوسروں کی بھی۔

ابھی تک اگر آپ معیاری مڈل کلاس رویوں کے حامل نہیں رہے، آج سے کوشش تو کرکے دیکھیے۔ بھلا ہوگا، میں پورے یقین سے کہتا ہوں۔

پیر، 23 جون، 2014

مولوی اور مصیبت

علی حمید میرا یار ہے، جگری۔ کبھی کبھار کہتا ہے: "مبشر بھائی، یہ مذہب و ملا کے حوالے سے زیادہ باتیں نہ کیا کریں۔ ہمارے لوگوں کو سوچنے کی زیادہ عادت نہیں، اور وہ آپکو پھر لیبل بھی کر دیں گے۔" میں اسکی بات اسکے سامنے ہمیشہ مان لیتا ہوں، مگر کیا کروں، آجکل جیسے حالات دیکھتا ہوں تو دل جلتا ہے، دل جلتا ہے تو پھر یارو، زبان بھی جلتی ہے۔ لہذا، علی جانی، بس ایک مرتبہ اور (اور یہی بات میں اگلی مرتبہ لکھنے/بولنے پر بھی کہوں گا، تُو جانتا ہی ہے!)۔

یہ بلاگ میں ان تمام پاکستانی نوجوانوں کے نام کرتا ہوں جو مُلائیت میں اسلام اور  ملاؤں میں شرع اور ان دونوں میں اسلامی نشاۃ ثانیہ اور انقلاب  تلاش کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاؤنگا، بس جلد جلداپنی ذات کے تجربہ اور مشاہدات پر مبنی واقعات آپکی نظر کرونگا۔

میں پانچ یا شاید چھ سال کا تھا جب ملکوال میں سوِل ہسپتال کے آفیسر، ڈاکٹر مبشر احمد کے خلاف مظاہرے ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب چونکہ احمدی تھے، لہذا انکو وہاں سے ہٹایا جائے اور تمام کائنات کا اسلام بچایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں کئی سالوں سے تھے، نہایت ملنسار، اپنے کام سے مخلص اور معاملات میں دیانتدار تھے۔ ملکوال ان دنوں چھوٹا سا خاموش قصبہ تھا اور وہ راتوں کو بھی لوگوں کے گھروں میں جاکر انکو خدمات مہیا کرتے تھے اور اسکا معاوضہ بھی نہ لیتے تھے اور میں اس بات کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔ خیر سے جامع مسجد بزم توحید (دیوبندی)، بڑی جامع مسجد (بریلوی) اکٹھے ہوئے اور پورے قصبہ میں ایک "دماغی آگ" لگا ڈالی۔ لوگ تنی کمان اور دو تین دن میں ہی یہ معلوم پڑا کہ ڈاکٹر صاحب پر شاید حملہ بھی کیا جائے۔ میرے والد صاحب، جو اس وقت اور اب بھی، بھٹو کے ڈسے ہوئے تھے،  ڈاکٹر صاحب کی عزت کرتے تھے اور شاید تیسرے دن کی آدھی رات، ڈاکٹر مبشر احمد اپنے خاندان سمیت ہمارے گھر کے دروازے پر پناہ کے لیے آئے۔ میرے والد صاحب  پی پی پی کے وائس چئیرمین تھے اور علاقے میں انکا کافی نام تھا ۔ انکار نہ کیا اور ڈاکٹر صاحب گھر تشریف لے آئے۔ کوئی  رات دو بجے فدائینِ اسلام ہمارے دروازے پر آن دھمکے اور بدتمیزی کی کوشش کی اور والد صاحب کو دھمکیاں بھی دیں۔ ابُو نے اپنا لائسنسی ریوالور نکال لیا اور کہا کہ جو بھی میرے گھر کی دہلیز پار کرے گا، اسے میری لاش کے اوپر سے ہی جانا پڑے گا۔ میں اس بات کابھی چشم دید گواہ ہوں۔ ان دنوں اسلحہ شاذ ہی تھا کہ یہ بعد میں "شہید غازی ضیاءالحق مدظلہ علیہ رحمہ" کی مہربانی سے پاکستان کا زیور بنا، لہذا تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد، مجاہدین اسلام پسپا ہوئے۔ ابُو نے ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ ملکوال اب انکے رہنے کی جگہ نہ رہا تھا، لہذا وہ یہاں سے روانہ ہوجائیں، ڈاکٹر صاحب نے ایسا ہی کیا اورانکے جانے کے کچھ دنوں بعد، سوِل ہسپتال ملکوال میں جامع مسجد بزم توحید کے خطیب کا سالا وہاں کا ڈاکٹر اور بڑی جامع مسجدکے خطیب کا ان-کوالیفائیڈ بیٹا کمپاؤنڈر تعینات ہو گیا۔ اور یہ یقینا ایک عظیم معجزہ ہی ہوا ہوگا کہ اللہ اپنے نیک بندوں کو یہاں بھی اور اوپر بھی نوازتا ہے، بلاشبہ۔

ملکوال میں ہی صدیقی صاحب تھے۔ فوت ہوگئے ہیں اور انکا پورا نام بھی یاد نہیں۔ انکی منیاری کی دکان تھی اور دو بیٹوں کے ساتھ دکانداری کرتے تھے۔ کٹڑ دیوبندی تھے اور مقامی تبلغی جماعت کے امیر بھی۔ خیر سے سود پر پیسے دیتے تھے اور پیسے کی وصولی میں پوری ایمانداری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ سود پر پیسے دینے کے علاوہ انکا ایک کام یہ بھی تھا کہ بیٹوں کی شادیاں کرتے، جہیز وصول کرتے اور پھر بعد میں طلاق عنایت کروا دیتے کہ اتنے نیک انسانوں میں ان گناہگار عورتوں کا کیا کام تھا بھلا؟ میرا ان سے ٹاکرا ایک مرتبہ جامع مسجد بزم توحید کے مؤذن، فتح محمد کی نوکری ختم کرنے کے حوالے سے ہوا، میں ان دنوں بڑا پکا دیوبندی تھا اور نمازعصر کے بعد اس محفل میں شریک تھا جب اس مسکین کی نوکری ختم کرنے کی بات چیت کی جا رہی تھی۔ میں نے انہیں کنفرنٹ کیا، اپنی نوجوانی کے جنون میں، تو انکا فقرہ ابھی تک یاد ہے:" تم ہم میں سے ہو ہی نہیں، تمھارا باپ شاید بریلوی ہے۔" کچھ بات بڑھی، مگر میں بہرحال فتح محمد کی نوکری نہ بچا سکا۔ موصوف شاید اس وقت حوروغلمان کے ساتھ شراب طہورہ سُڑوکے مار مار کے پی رہے ہونگے اور مجھ کم نصیب کے لیے ستُو بھی مہیا نہیں، آہ!

اللہ بخشے، ماسٹر اکبر شاہ صاحب۔ سر سے لیکر پاؤں تک بھیگے ہوئے بریلوی تھے۔ بھیرہ کے پیر، پیر کرم شاہ صاحب ایک دن ملکوال آئے، تو مجھے یادہے کس طرح لوگوں نے انکی پیجیرو کے ٹائروں پر ہاتھ مل کر اسکی مٹی اپنی آنکھوں میں پھیری تھی، ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ ماسٹر صاحب، نیک اور صالح آدمی تھے مگر سکول کے بعد ٹیوشن پر زیادہ زور دیتے تھے اور سکول کے دوران "مولا بخش" سے ہماری "ڈُھونڈریاں" سرخ کرے یا پھر نماز ٹھیک کرنے کی تلقین بھی کرتے۔ ایک مرتبہ کہا کہ جو شخص دورانِ رکوع گھٹنوں پر ہاتھ ایسے رکھے کہ اسکی انگلیاں گھٹنوں سے آگے نکلی ہوں تو روزِ قیامت، وہ انگلیاں آرے کے ساتھ کاٹ دی جائیں گی۔ وہ دن اور یہ دن، یہ رندِ خراب اپنی انگلیاں ہی بچاتا پھر رہا ہے۔ اپنے تئیں اسلام کی مکمل تصویر تھے، مگر اپنے ہوتے ہوئے کسی جونئیر کی پروموشن نہ ہونے دیتے تھے۔ آخر کو صلہء رحمی کی اپنی تشریح میں خود کو اور اپنے قریبیوں کو ہی سب سے آگے رکھنا فرض تھا شاید۔

اپنے ایک شیعہ ذاکر بھی ملکوال میں تھے، عاشق حسین صاحب۔ اعلیٰ ذکر کرتے اور بہترین مرثیات پڑھتے تھے۔ ذاکر ہونے کے علاوہ اسم بامسمیٰ بھی تھے اور ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ عشق فرماتے فرماتے ایک بچے کے باپ بننے کی طرف سفر بھی شروع کر دیا اس خاتون سے شادی کے بغیر۔ منڈی بہاؤالدین کے کسی گندے سے کلینک میں اس بےچاری کو لے گئے اور اسقاط کروانے کے پراسس میں اسکی اور اسکے بچے کی جان گئی۔ چونکہ آقا حسینؑ کے اپنے تئیں سچے عاشق تھے، اور نام بھی عاشق حسین تھا، لہذا، بھاگنے میں عافیت جانی اور کئی سال غائب رہنے کے بعد ہی وارد ہوئے۔ انکے دیگر معاملات بھی ہیں، مگر ذات کے حوالے سے گناہ ثواب پر بات کرنا میرا ظرف نہیں، اور جو بھی تحریر کیا ہے، ان حضرت کی اس منافقت کو بیان کرنے کےلیے کہ شاید کسی کے دل میں بات اترتی ہو۔ خیر سے موصوف اب بھی آقاحسینؑ سے عشق کرتے ہیں اور دس محرم سے چالیسویں تک کوئی بیس سے پچیس لاکھ روپے جمع کرلیتے ہیں اور پھر ان پیسوں میں سے کچھ پیسے خرچ کرکے، تھائی لینڈ اور چین اسلام پھیلانے جاتے ہیں اور بہت سی بدبخت اور جہنم کے جانب روانہ خواتین کو راہِ جنت پر گامزن کروا کر ہی واپس آتے ہیں۔

خان محمد قادری صاحب بڑے جوشیلے بریلوی مقرر تھے ملکوال میں۔ خوب فرقہ واریت بھڑکائی اور ملکوال سے ترقی کرتے ہوئے لاہور جا پہنچے۔ وہاں بھی حسبِ عادت سماج سدھار کا ٹھیکا اٹھا لیا اور ایک مقامی بدمعاش کو ایک خطبے میں رگڑا لگا دیا۔ کچھ رکھ رکھاؤ والے بدمعاش تھے وہ صاحب شاید، وہ شام کو مولانا قادری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ جناب  مجھے اپنی خطابت سے باہر ہی رکھیں کہ یہ لاہور ہے، ملکوال نہیں۔ اور "ایتھے بندہ مر جائے یا کُتا، پُچھدا کوئی نئیں جے!" مولانا صاحب کی ساری حریت بذریعہ "قادری انجلاب" بہہ گئی اور اسکے بعد کبھی انکے مونہہ سے ان بدمعاش صاحب کی شانِ عظیم میں گستاخی نہ ہوئی۔ بلاشبہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے، مگر صرف میری اور آپکی، قادری صاحب اپنی باری پر سیانت فرما گئے۔

اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران مجھے کوئٹہ کے ایک پشتون بھائی، فضل کریم، سے ملاقات کا موقع ملا۔ انکا بیٹا اسلام آباد کی ایک سب سے بڑی اہلحدیث مسجد و مدرسہ میں طالبعلم تھا اور ایک استاد محترم کے منظور نظر بھی جو اس بچے سے موقع کی مناسبت سے "زیادتی فرما لیا کرتے" تھے۔ فضل سے میرا رابطہ بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او کے توسط سے ہوا اور اپنی پیشہ وارانہ اہلیت اور چند دوست ہونے، اور بھرپور کوشش کرنے کے باوجود بھی میں ان استاد ذی احترام کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ کرا سکا، بلکہ فضل کو ان کا اپنا بیٹا بھی کوئی تین ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد ہی اس عظیم مدرسہ سے دلوا سکا اور اس سلسلہ میں میرے ایک اہلحدیث دوست، جو انکے سیاسی رہنما بھی تھے/ہیں، نے مدد کی۔ وگرنہ وہ استاد صاحب تو اس بچے کے ساتھ "شفقت" فرماتے ہی چلے جاتے۔ اس قضیہ میں مدرسہ کی انتظامیہ نے بھی بھرپور طریقے سے اپنے استاد کاساتھ دیا اور عین اس صبح وہ شاید یہ پڑھا کر آتے ہوں کہ کیسے میرے آقا محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر جرم فاطمہؑ بھی کرتیں تو انکا ہاتھ بھی کاٹ دینے کا حکم دیتا! مگر چھوڑیں جی۔ کہاں ایک غریب کوئٹہ وال کا بچہ اور کہاں ایک محترم استاد؟ یہ انصاف وغیرہ تو باتوں میں ہی اچھا لگے ؛ ہیں نا جی؟

اسلام آباد میں ایک مشہور اخبار تھا "مرکز" کے نام سے۔ اسکا دفتر اس وقت کے امریکی معلومات کے دفتر کے سامنے تھا بلیو ایریا میں۔ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف شدید مظاہرہ ہو رہا تھا، اور شیدائینِ اسلام و فدائینِ ناموسِ رسالتؐ ایک برطانوی مصنف کی تصنیف پر عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتی عمارت کے سر چڑھنے جا رہے تھے۔ کیا ہی اعلیٰ فہم پایا ہے میری قوم نے انصاف و عدل کا، یقینا!   قیادت "بطل حریت" مولانا عبدالستار نیازی فرما رہے تھے کہ آنسو گیس کے بعد پولیس نے فائرنگ کر ڈالی۔ آٹھ افراد جان سے گئے اور مولانا صاحب بھاگ کر مرکز کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں کے ان دنوں کے ایڈیٹر، جوبعد میں میرے بزرگ دوست بنے اور اب وفات پا چکے ہیں، نے بتایا کہ مولانا صاحب شدید گھبراہٹ میں تھے اور کہا کہ  معلوم نہ تھا گولی چل جائے گی اور "بڑی مشکل سے جان بچی!" اور وہ جو آٹھ مارے گئے، وہ تو بلاشبہ انسان تھے ہی نہیں۔ اتفاق ہے مولانا صاحب مرحوم، مکمل اتفاق ہے۔

اور بھی بہت کچھ دیکھا بھالا زندگی میں، پھر کبھی تحریر کرونگا۔ مگر اب بہت کوئیکلی، چار واقعات  و مشاہدات جو کینیڈین مداری، قادری شکاری کے انقلاب کی  زینت کی حوالے سے آپکی نذر کر رہا ہوں:

1۔ کل رات، مورخہ 22 جون کو میں نے اپنے دوست کی بیگم، جو ماں بننے والی تھی، کو خون دینے قائدِ اعظم انٹرنیشنل ہسپتال، پشاور روڈ جانا تھا۔ آفس سے نکلا اور وہاں کا رخ کیا تو کوئی ایک گھنٹہ ٹریفک میں الجھا رہا۔ قصہ مختصر کہ میں خون دینے نہ پہنچ سکا، مگر ٹویٹر پر ایک رحمدل دوست نے آرمی کے ٹرانسفیوژن سنٹر رابطہ کرنے کا کہا۔ دوست کو یہ مشورہ دیا تو عین آخر وقت میں خون کی دوبوتلیں ارینج ہوئیں، اور خاتون اور بچے کی جان بچی۔ انقلاب مبارک ہو قادری صاحب۔

2۔ آج صبح، میری ایک رشہ دار، مسرت باجی، نے چکوال سے فون کیا اور پوچھا کہ کیا اسلام آباد کی انٹرنس بند ہے؟ کنفرم کرنے پر بتایا کہ انکی بیٹی اور ساتھ میں گاؤں کی دو بچیوں کے  نسٹ میں انٹری ٹیسٹ تھے، جو وہ اس عظیم انقلاب کی بدولت نہیں دے سکیں گی۔ قادری صاحب نے تین نسلیں برباد کر ڈالیں کہ یہ تین بچیاں اب شاید وہ موقع زندگی میں حاصل نہ کر پائیں اور میاں صاحب کی عظیم فہم و فراست پر بھی "عقیدت کے چار حرف" کہ 2014 میں بھی 1014 جیسی ذہنیت کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ مگر خیر ہے، قائدِ انقلاب کے اپنے بچے تو باہر کی یونیورسٹیز میں پڑھ لیے، اور قائدِ اعظم ثانی کی اولاد تو یہاں ہوتی ہی نہیں، لہذا، انکو بھی کیا فکر؟ "پر یار شباز، ایہہ موٹر وے سمندر وچوں کڈ کے سدھا جدے تیکر تے لے جا!"

3۔ آپ میں سے کسی کو یاد بھی ہے ان بارہ مرنے والوں کے نام جو 12 ستمبر 2012 کو یوٹیوب پر ویڈیوکے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد میں مارے گئے تھے؟ وہ بھی اسلام کے نام پر مرے، اور اب ذرا انکی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، اور بوڑھے باپوں کے حالات کے بارے میں ایک لمحہ تو سوچیے؟ ان بارہ کو تو اپنی جہالت کی سزا مل گئی، انکی رہنمائی کرنے والے "شاہینِ شریعت، رہنمائے طریقت، مجاہد ناموس و ختم رسالت  و نبوت وغیرہ وغیرہ" خودیا انکے اپنے بیٹے رتبہء شہادت پر فائز نہ ہوئے؟ سوچیے کہ سوچنا اور تفکر کرنا ہی قرانی فیصلے کے مطابق آپکو چوپاؤں سے ممتاز کرتا ہے۔

4۔  آخر میں دل سے سوچئیے گا کبھی کہ آپ مسلمان زیادہ ہیں یا بریلوی، دیوبندی، شیعہ یا  سلفی وغیرہ؟ آپکا جذبہ، فہم اور ادراک کیا اسلامی ہے یا اپنے فرقہ کی بنیاد پر محض جذباتیت کے ہی شکار ہیں؟ آپکا بھلا مطالعہ وسیع ہو ان معاملات میں، مگر کیا اس مطالعہ نے آپکا ذہن کشادہ کیا یا آپکو مزید سخت کر ڈالا اپنے خیالات، نظریات اور تصورات میں؟ میں اپنے تجربہ، مطالعہ اور مشاہدہ سے یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر کوئی علم آپکی طبیعت میں سختی اور زعم پیدا کردے، تو وہ علم نہیں، آپکی  انا اور ضد کا چارہ ہے، اور کچھ نہیں!

آخر میں یہ کہ فتویٰ سے پرہیز کیجیے گا کہ مجھ سا رندِ خراب خان محمد قادری کو زندہ رہنے کے معاملہ میں اپنا پِیر مانتا ہے۔ 

حق حق حق!۔

پس تحریر: آپ میں سے کتنے ہیں جو اس بلاگ کی تصویر میں موجود بیان کی حقیقت میں رہنا چاہیں گے؟ خاص طور پر میرے لو/مڈل کلاس پنجابی دوست کہ جن کا طالبان کے ساتھ رومانس ہی ختم نہیں ہوچُکتا۔ "ویخ لیا جے فیر انڈین فلماں وی نئیں ویخن نوں لبھنیاں، آہو!"۔