بدھ، 26 مارچ، 2014

امریکہ سے نفرت کا فائدہ؟

کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر کچھ مختصر تحریر کروں۔ آج دوستوں کے ساتھ لنچ میں یہ بات کی تو آگے سے منع ہی کیا گیا۔ "چھوڑ یار، کیوں بھِڑوں کے چھتے میں ہاتھ دیتا ہے۔ امریکی یہودی نصاریٰ کا ایجنٹ کہلوائے گا۔"۔

کچھ مزید لکھنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں سنہء1997 سے سیاست، سماج اور معاشرت سے متعلق پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے منسلک ہوں۔ میرے اس تجربہ نے مجھے بہت کچھ بتایا، سکھایا، سمجھایا،  اور ان علوم کے حوالے سےمجھے ایک عمدہ پروفیشنل میں ڈھالا ہے۔  پاکستانی سیاست، معاشرت اور سماج کے دشت کی سیاحی بہت تفصیل سے کی ہے اور اپنے تجربات کے حوالے سے کبھی کبھی کچھ اشاراتی لکھتا بھی رہتا ہوں اور مزید بھی لکھوں گا کہ کیسے کیسے مناظر اور مشاہدات سے پالا پڑا۔ یہاں یہ بتانا اس لیے ضروری سمجھا کہ  پڑھنے والا یہ جان لے کہ یہ مضمون میرے تجربات، مشاہدے، مطالعہ اورایک شعوری کوشش پر مشتمل ہے کہ جس میں ایک نقطہءنظر آپکے حوالے کرنا مقصود ہے کہ شاید آپ ایک نیوٹرل پرسپیکٹِو سے سوچ سکیں۔ مجھے جو کہنا ہے، کہتے رہیں، کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور  اگر آپ نے اپنی نفرت  اور سازشی نظریات کے تیزاب میں ہی جلنا ہے، تو یہ آپکی چوائس ہے۔ اس سے نہ پہلے آپکو کچھ حاصل ہوا ہے، اور نہ ہی آئندہ کچھ حاصل ہوگا۔

 میرا  پوائنٹ آف ویو یہ تھا، اور ہے، کہ امریکہ، اور مغرب، کے خلاف نفرت عموما پاکستانی اشرافیہ، بالادست طبقات اور حکومتی زعما، جن میں سویلین اور ملٹری بیوریوکریسی برابر شریک ہیں، نے اپنے  مفادات کو پاکستانی مفادات بنا کر پاکستانی عوام، اور خصوصا لومڈل/مڈل کلاس کے نوجوانوں میں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی طور پر بیچا ہے۔ اور ابھی تک بیچ رہے ہیں۔ مجھ جیسے سٹرگلنگ مڈل کلاس پروفیشنل کے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ پراسس ابھی بھی جاری ہے، اور اسکا نشانہ زیادہ تر شہری، نیم شہری اور قصباتی مراکز میں رہنے والے نوجوان ہی ہیں اور یہ "سیاسی تزویراتی منجن" کامیابی سے بِک رہا ہے۔

یہاں کہنے کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ امریکی ریاست سے پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ امریکی ریاست اور کئی حکومتوں نے پاکستان سے تعلقات  کے حوالے سےبڑی فاش غلطیاں کیں۔ ریاست کے تمام طبقات تو شاید اس میں کماحقہُ شامل نہ تھے، مگر ریاست کے طاقتور اداروں اور طبقات نے، یوں محسوس ہوتا ہے، کہ پاکستان سے تعلقات کے حوالے سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کو پسِ پشت ڈالا اور اپنے تئیں اپنی ادارہ جاتی پالیسیز اس طریقے سے بنائیں، اور چلائیں کہ جن کا اثرنہ صرف پاکستانی ریاست پر ہوا، بلکہ امریکی ریاست نے بھی قیمت ادا کی۔ حوالہ کے طور پر، سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ، ہیلری کلنٹن کا سینیٹ کی، شاید، خارجہ امور کی کمیٹی میں ایک بیان بھی تھا کہ "ہم نے خود یہ جہادی پیدا کئے اور پھر بعد میں انکو(اور پاکستان) کو انکے حال پر چھوڑ دیا اور اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔" (مفہوم) اسکے علاوہ، پچھلے سال آنے والی، مارک میزاٹی کی کتاب "دی وے آف دی نائف" کا مطالعہ بھی بہت علم افزاء ہے۔ اسکے علاوہ کوئی پانچ چھ سال پہلے آنے والی ، ران سسکنڈ کی "دی وے آف دی ورلڈ" بھی کافی معلومات فراہم کرتی ہے۔

حال میں آنے والی، کونسل آن فارن ریلیشنز، کے  غیرجذباتی مقصدیت اور فوکس رکھنے والے اہلکار، ڈینئل مارکی کی کتاب "نو ایگزٹ فرام پاکستان" میں بھی انہوں نے بہت  ہی غیرجذباتی انداز میں پاکستان اور امریکی تعلقات کے تاریخی پس منظر، موجودہ حالات اور آنے والے مستقبل کے بارے روشنی ڈالی ہے۔ پڑھتے ہوئے ہنسی  بھی نکل گئی کہ ایک "پاکستانی" حسین حقانی صاحب تو امریکہ کو یہ کُھلا مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نقلی ہیں اور  امریکہ کو پاکستان سے تعلقات (تقریبا) کُلی طور پر ختم کرلینے چاہیئں، جبکہ ایک "امریکی" ڈینئل مارکی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست، معاشرت، اداروں اور قوم کے ساتھ امریکہ کو مزید تعلقات بڑھانے چاہئیں، جمہوریت، جمہوری اداروں اور غیرسرکاری اداروں کی استعدادِ کار میں اضافہ اور بہتری کی کوشش کرنی چاہیے اور اسکے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ معاشی تعاون ، جو کہ لمبے عرصے تک محیط ہو، شروع کرے تاکہ پاکستانی ریاست  پاکستانی نوجوانوں کے لیے بہتر اور زیادہ معاشی مواقع پیدا کر سکے۔

ممکن ہے کہ انکی سفارشات اس طریقے سے پوری نہ ہوسکتی ہوں کہ جیسی ظاہری توقع وہ اپنی کتاب میں کررہے ہیں، مگر بہرحال، انکا ایک زاویہ ہے اور اسکی  عدل پر مبنی تعریف نہ کرنا غلط ہوگا۔

آپ اور مجھ جیسے لومڈل/مڈل کلاس نوجوان یہ تو سوچے، کبھی کہ، وہ کیا  پراسس تھا کہ  1980 کی ساری  دہائی اور 1990 کی دہائی کے وسط تک، ہم  جیسے لوگ امریکہ زندہ باد کے نعرے مارتے رہے، اور کم و بیش پچھلے 20 سالوں سے، خصوصا 1994/95 کے بعد سے، ہم جیسے لوگ امریکہ مردہ باد کے نعرے مار رہے  ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی اشرافیہ اور بالا دست طبقات چاہتے ہیں، ایک لولی پاپ پر ایک نعرہ، چاہے امریکہ زندہ باد ہو یا امریکہ مردہ باد، لکھ کر پاکستانی عوام اور نوجوان کے مونہوں میں ڈالتے ہیں اور ہم جیسے اس لولی پاپ کو پورے خشوع و خضوع سے چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ بغیر سوچے اور سمجھے کہ اسکا ہماری زندگیوں، اور ذہنوں،  پر اثر کیا ہو رہا ہے۔

کچھ گزارشات درج ذیل ہیں، پڑھئیے اور ہو سکے تو سوچئیے گا بھی:

1۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے کتنے پاکستانی نوجوان امریکہ گئے ہیں؟
2۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے کتنے پاکستانی نوجوان امریکہ کے بارے میں حقیقی معلومات رکھتے ہیں؟
3۔ امریکہ و مغرب کے خلاف نفرت اور متشددانہ جذبات رکھنے والے کتنے پاکستانی حقیقت میں وہاں کی معاشرت، لوگوں اور ماحول کے بارے میں صحتمندانہ علم کے حامل ہیں؟
4۔ کہیں ایسا تونہیں کہ پاکستانی نوجوان اپنے جذباتی، معاشرتی، معاشی مسائل کو پاکستانی اشرافیہ کے پڑھائے ہوئے سیاسی اسباق میں مِکس کرکے اپنے لیے غیرصحتمندانہ جذباتی ہیجان اور دماغی خلجان کا سامان پیدا کرتا ہے؟
5۔ کبھی سوچا کہ جب آپ سڑکوں پر امریکی جھنڈے جلا رہے تھے، نعرہ زنی کر رہے تھے، اپنے پیچیدہ مسائل کا حل ایک سیاسی/مذہبی رہنما کی مشتعل و جذباتی تقریر میں ڈھونڈ رہے تھے، عین اس وقت آپکے سیاسی، مذہبی، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے اہلکاران، گماشتے اور انکے خاندان، اعزاءواقارب، امریکہ اور مغرب میں کاروبار، تعلیم، روزگار وغیرہ کے مواقع تلاش کر رہے، اور بنا رہے ہوں؟
6۔ اگر آپکو بیک وقت  دو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے پی ایچ ڈی، یا کوئی اور ڈگری کرنے کا موقع ملےتو آپ کس ادارے کا سکالرشپ وصول کرنا چاہیں گے: جارج واشنگٹن یونیورسٹی، واشنگٹن   یا  صومالیہ کی  سٹیٹ یونیورسٹی، موگادیشو؟ (اس سوال کا جواب دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے دیجیے گا کہ اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا!)
7۔ سیرو تفریح کےلئے آپ کہاں جانا چاہیں گے: افغانستان کے پہاڑوں میں یا ڈزنی لینڈ؟
8۔ علاج معالجے کے لیے آپکی انتخاب کیا ہوگا: یمن یا امریکہ/یورپ؟

سوال اور بھی ہیں جو کہ میں یہاں لکھ  اور پوچھ سکتا ہوں، مگر مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر آپ سے آخری بات یہ کرونگا کہ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ امریکہ و مغرب کی ہر بات کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ انکی قومی، ریاستی اور حکومتی پالیسیز پر تنقید نہ کریں۔ یہ آپکا جمہوری اور سیاسی حق ہے کہ آپ انکی پالیسیز کے حوالے سے ایک رائے قائم کریں، مگر اس میں سے تشدد، نفرت اور غصے کے عناصر نکال کر۔ ایک صحتمندانہ انداز سے اگر آپ انکی اپروچ کو سمجھیں اور جاننے کی کوشش کریں گے تو آپکے لیے انکو سمجھنا بھی آسان ہوگا، اور اپنی پوزیشن سمجھانا بھی۔

میرے خیال میں پاکستانی لومڈل/مڈل کلاس کو اپنے لیے امریکہ و مغرب میں ایک مثبت اور صحتمندانہ طریقے سے مواقع تلاش کرنے چاہئیں۔ تعلیم، روزگار، کاروبار، ٹیکنالوجی، ذراعت، معاشی/سیاسی/معاشرتی/عمرانی علوم، سیکھنے سکھانے کے حوالے سے اپنے لیے اپنے ذہن کے کینوس کو وسیع کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک پاکستانی نوجوان کئی دہائیوں سے اپنے لیے امریکہ و مغرب میں  مثبت مواقع پیدا کرنے، اور ان سے فائدہ اٹھانے، کے  تاریخی عمل پر "پورے جذباتی مگر منفی خلوص" سے آرا اور کلہاڑی چلاتا  رہا ہےاور اسکا  نہ پہلے کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ اب ہو رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا۔ اپنے لیے مواقع تلاش اور تخلیق کرنا بعض اوقات آپکی اپنی شرائط پر ممکن نہیں ہوتا، مگر ایک مثبت اور عملی اپروچ کے تحت یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ گلا پھاڑ کر نعرہ زنی کی جائے، جذباتیت کے ہیجان میں ایک دماغی خلجان کے ساتھ سینہ کوبی کی جائے، اپنے نفرت اور، معذرت، جہالت کےتیزاب میں زندہ رہا جائے۔ اس سے آپکا وقت، جوانی اور آنے والے کئی مواقع تو ضائع ہوتے ہی ہیں، جن کے خلاف آپ جذباتی احتجاج کررہے ہوتے ہیں، ان پر قطعی کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ وہ شاید اپنے ٹی وی سکرینز پر یہ سب دیکھ کر ہنس رہے ہوتے ہیں۔

آپکی مرضی ہے یارو، کہ "توپوں میں کیڑے پڑنے" کی بددعائیں کرنا ہیں، ماتم زاری کرنا ہے، بلند آواز میں نعرے مارنے ہیں یا پرسکون رہ کر اپنے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مثبت، تعمیری اور لانگ ٹرم مواقع تلاش کرنے ہیں۔ یاد صرف یہ رہے کہ "بددعاؤں" کی صورت میں اگر کچھ حاصل ہونا ہوتا تو 1857 میں دہلی کے مسلمانوں کو حاصل ہوچکا ہوتا اور بہادر شاہ ظفر، جو صرف نام کے ہی بہادر، شاہ اور ظفر تھے، برما میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنا حُقہ پیتے کسمپرسی کی حالت میں فوت نہ ہوتے۔

زندگی تعمیر کرو اپنی اور دوسروں کی۔ تعمیری انداز سے جیو۔ پورے خلوص سے دعا اور درخواست ہے۔


جیتے اور سلامت رہیں۔

بدھ، 19 مارچ، 2014

جاؤ بابا، بخشو کو معاف کرو

نہ لکھتا، مگر لکھنا ہی پڑا۔

مانا کہ ویسی کاٹ نہیں، کہ لکھنا میرا  پیشہ نہیں، ایک لگن، بہرحال ضرور ہے۔ یہ بھی مانا کہ ویسی فالؤنگ بھی نہیں، مگر اسکی کبھی پرواہ نہ کی، نہ ہے، اور نہ ہی  کبھی ہوگی۔  اور یہ تو مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کرکے مانا کہ کہاں مجھ سے "پینڈو بخشو "  کا ایک تھکا ہوا بلاگ اور کہاں برِ صغیر کے سابقہ آقاؤں کی نشریاتی اُردو۔ اور جناب، یہ تو سر، کندھے، گُھٹنے، ہاتھ اور کمر، سب کچھ ہی جھکا کر مانا کہ کہاں مبشر اکرم  کا تنگ سا تخیل اور کہاں وہ "وسعتیں" اور گہرائیاں۔

میرے سابقہ گاؤں اور حالیہ قصبہ، ملکوال، کی پنجابی میں ایک کہاوت ہے: ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے۔ اسکی اُردو نہیں کرونگا کہ جس کو اسکی چاہ ہو، وہ خود ہی کھوج لے۔ مگر سوچا کہ آج "شہتیر" کو جپھا ڈال ہی لیا جاوے۔

پاکستان میں پچھلے چند روز سے "بخشو بخشو" ہو رہی ہے۔ کبھی لکھا ہوا اور کبھی صوتی کالم آس پاس، دھڑا دھڑ پڑھایا اور سنایا جا رہا ہے۔ شروع کی مزاحمت کے بعد، آج سُن ہی لیا تو معلوم ہوا کہ طنز اور خود ترحمی کے درمیان الجھا ہوا ایک بیان ہے کہ جس میں نشتر زنی محسوس بھلے ہوتی ہو، مگر  ایک احساسِ حظ بھی نمایاں ہے جو عموما ایک خاص بلندی پر اپنے آپ کو خود سے ہی متمکن  کر کے اپنی  مرضی کے زاویہ  کو لِکھ یا نشر کرکے حاصل کیا جاتا ہے کہ بھیا، وطنِ عزیز میں تو کہہ ڈالنے کی روایت ہے، جوابی سننا توشاید منع ہی ٹھہرا۔ اور اگر جوابی سنایا جاوے، اور وہ بھی ایک "ملکوالی کوڑھ کِلی" کے قلم کا تو جواب الجواب میں دھائیں سے ایک جوتا مارنا ہی کافی کیونکہ جسکا بِکتا ہے یارو، اسی کا تو بِکتا ہے۔ اور اپنے وطن میں، اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہونے کے بعد بھی یہ بخشو وہی منظر قریبا روز ہی دیکھتا ہے جو آج سے چونتیس سال قبل دیکھا اور سنا تھا: رگڑ دے استاد!

کہنا یہی ہے کہ خودمتمکنہ بلندی سے عجب طرح کی خودترحمی کو واعظانہ طنز کے ساتھ لکھ/بیان کر ڈالنا تو آسان ٹھہرا کیونکہ "مرے کو مارے شاہ مدار" تو ہمیشہ سے ہی آسان معاملہ رہا ہے۔ گرے ہوئے کو یہ بتانا کہ بھیا، تم تو نیچے گرے ہوئے ہو، جناب، کیا کوئی کرامت ہے؟ نشتر زنی اعلٰی کام ٹھہرا، مگر ترحمی کے بیان کے ساتھ بخشو بنا کراپنے تئیں کپڑے اتار ڈالنا بھی تو صاحب، کوئی معجزہ نہ ہوا۔ یہ کام تو  وہ بھی کرتے اور کرواتے چلے آئے کہ جن کے کسی زمانے میں "کڑاکے کڈھ دئیو" بہت مشہور تھے۔ بخشو کا سوال تو یہ ہے کہ آپ نے بھی اپنے تئیں "کڑاکے کڈھ" ڈالے، کیا کمال کیا؟

کیا بہتر نہ تھا کہ بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچنے کی کوشش کی بجائے اسے دو گز ٹاٹ ہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی کہ بھیا ٹھیک ہے، بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا، مرضی سے بھی اور بغیر مرضی کے بھی، مگر باقی لنگوٹی کو بھی غنیمت جانو اور یہ لو دو گز دماغ کا ٹاٹ کہ جس سے کچھ تو ستر پوشی ہو۔ لازمی کہ جو دِکھتا ہے، چونکہ وہی بِکتا بھی ہے، تو یار لوگوں نے بھی یہ جانے بغیر  اس کو آس پاس، اوپر نیچے، دائیں بائیں، غرضیکہ ہر طرف "ٹھوک ڈالا،" کہ خود ترحمی خود کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے کہ اس میں چاہے آپکے بیان کی بےپایاں "وسعت" ہو یا "بخشو کی عزت افزائی،" انسان حوصلہ ہارنے کی جانب کچھ زیادہ رفتار سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ مجھے اسلام کے ہجے بھی صحیح نہیں آتے مگر حضرت علیؑ کا ایک قول دماغ کے پلُو میں باندھ کر رکھا ہمیشہ کہ: مصیبت میں گھبراہٹ، دوسری مصیبت ہوتی ہے۔

مگر چلیں محترم، یہاں کم از کم آپ کی عظمت اور ملکوال کی کوڑھ کِلی میں ایک چیز تو مشترکہ نکلی کہ مرضی کی خودمتمکنہ صحافتِ بلندی کرو یا اپنے مذہب کی چنیدہ تشریح، مقصدیہ کہ"ڈنگ ٹپا" دیا جاوے۔ ویسے بھی اب جسکے ہاتھ میں گاجر نما مائیکروفون ہو، ایک مشہور ویب سائٹ ہو، راکٹ لانچر نما کالا کیمرہ ہو، یا قمیض کی پٹی پر مکھی کی طرح بیٹھا ایک چھوٹا وائرلیس مائیک، اسی کے پاس تو سارے لائسینس ہیں۔ وہ چاہے مردانہ و زنانہ پوشیدہ بیماریوں پر بات کرے، آئین و مذہب کی پیچیدگیاں سلجھائے، دہشتگردی کے معاملات پر ہردم ماہرانہ رائے دے، علاقائی دشمنیوں اور دوستیوں کی گرہیں باندھے/کھولے، بین الاقوامی تعلقات کے نشیب و فراز بیان کرے ، پانی سے ہزار سی سی کار چلائے ، نیوز سٹوڈیو میں جوڈو کراٹے کرے یا بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچ کر اسکے "پوشیدہ اثاثے"  ظاہر کرنے کی کوشش کرے، کس کی مجال ہے کہ پوچھ سکے۔ کوئی پوچھے تو ایک کالم، ایک پروگرام، ایک احتجاج یا  خبطِ عظمت  پر مبنی ایک مسکراہٹ کی ہی تو مار ہے۔

آخر میں یہی کہنا ہے کہ کیمرے، مائیکروفون، اور سٹوڈیو چلانے اور قلم زبانی کرنے والے بڑے آئے، بڑے گئے، مگر کیا کریں کہ بخشو ان سب سے ڈھیٹ ہی نکلا۔ یہ کوئی سڑسٹھ سال قبل آ تو گیا، مگر جا ہی نہیں کہیں رہا۔ ہاں مگر زعم ِ وسعت ِ گفتار  میں نیچے رینگتے انیس کروڑ، ننانوے لاکھ، ننانوے ہزار، نو سو ننانوے بخشوؤں کے دماغوں میں خود ترحمی کے کیل مزید گہرے ٹھونکنا تو آسان تھا، ہے اور رہے گا کیونکہ میری شعوری  زندگی کے پچھلے چونتیس سالوں سے جاری  یہ جنتر منتر ابھی تک نہیں بدلا: رگڑ دے استاد!

آپ بھلے رگڑتے رہیں کہ بیانِ قلم و زباں، کارِ دست و ذہن سے کہیں آسان ہے۔ بخشو بھلے لنگوٹی میں نیم برہنہ کھڑا ہو، مگر بیانِ قلم و زباں سے اسکی لنگوٹی تو پچھلے چونتیس سالوں میں نہیں گری تو امید کہ اب بھی نہ گرے گی۔

اسی لیے تو پہلے ہی کہہ ڈالا کہ "بڑے آئے، بڑے گئے!"


تو آپ کیسے مختلف ہونگے، صاحب؟

منگل، 18 مارچ، 2014

کھڈا، سڑک، آسمان – اور نئے آسمان

آج ایک کانٹریکٹ سے انکار ہو گیا، کہ جس پر شدید محنت کی تھی۔ تقریبا چھ سے سات مہینے لگا کر ایک آئیڈیا تخلیق کیا، مگر نہ ہونا تھا،  نہ ہوا۔ کوئی آدھا گھنٹہ سوچتا رہا کہ وہ پراسس جو کہ اس آئیڈیا سے شروع ہو سکتا تھا، وہ پراسس اب شروع نہ ہو سکے گا، کم از کم  مستقبل قریب میں۔ اُٹھ کر کافی کا ایک کپ بنایا، اپنے پارٹنر اور دوست، علی سے بات شئیر کی۔ اس پر بھی تھوڑا سا اثر ہوا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ آئیڈیا پچھلے سال جولائی سے پرسُو کر رہا تھا میں، اور بہت کمٹڈ تھا، ذاتی اور پروفیشنل حوالوں سے۔ کافی کا کپ ختم کیا، تو میں نے علی کو، اور علی نے مجھے دیکھا۔ ہم دونوں ہنسے اور ایک فقرہ جو ہم پچھلے سوا سال کی رفاقت میں مسلسل بولتے ہیں:

یار، ہم ناکام ہو گئے، کوئی بات نہیں۔ اب ہم زیادہ سخت محنت کریں گے اور کامیاب ہونگے۔

اور میں، اور علی، زندگی میں آگے بڑھ گئے کہ یہ نہ تو اختتام تھا، اور نہ ہی ہوگا۔ بہت زمان و مکان اور مواقع ابھی باقی ہیں۔ آج نہیں تو کل، زیادہ تر محنت مشکل تر کو ممکن تر بنا ڈالے گی۔ ہم دونوں کا تجربہ، اور ذہنی میلان، یہی کہتا ہے۔

پچھلے ہفتے "کھڈا، سڑک اور آسمان" تحریر کیا۔ دوستوں نے پسند کیا۔ بالکل سچی کہانی تھی۔ آج جو لکھنے لگا ہوں، وہ بھی کھڈا، سڑک اور آسمان کا ہی آخری حصہ ہے جو مجھے رانا عقیل صاحب بتانا بھول گئے تھے  ہماری پہلی نشست میں۔ انکی زبانی جب انکے والد، رانا عبدالطیف مرحوم، کا تذکرہ سنا تو اپنی یہ سوچ مزید مضبوط ہوئی کہ انسان اپنے آس پاس اور ہونے والے چھوٹے چھوٹے کام اگر کرتا رہے تو یہی چھوٹے چھوٹے کام اسکی زندگی میں ہی ایک بڑی کامیابی کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اسکے لیے، صاحبو، انتظار اور محنت تو کرنے پڑتے ہیں، مگر انسانی زندگی میں تقریبا 99٪ طریق ارتقائی ہے، انقلابی نہیں۔ انقلاب بھی ہوتے ہیں، انسانوں کی زندگیوں میں، جیسا کہ کسی کی لاٹری وغیرہ نکل آئے، یا کوئی نیول چیف، ملک صاحب کےساتھ "رَل مِل" کے بحریہ کا نام استعمال کرنے کے معاملہ پر خاموش رہے اور ملک صاحب پاکستان کی ایک ہستی بن جائیں، کوئی بیس سال کے عرصہ میں۔ مگر آپ سب سے کہنا یہ ہے کہ لاٹری اور ملک صاحب بننے کے تقریبا سات ارب کی انسانی آبادی میں کیا پرسینٹیج بنتی ہے؟ شاید کوئی کیلکولیٹر بھی اسکا حساب نہیں لگا سکتا۔

واپس آتے ہیں، رانا عبدالطیف مرحوم کی جانب۔

چک نمبر 26، ملکوال، میں آج سے کوئی 40-45 سال قبل نہری زمین فروخت کرتے ہوئے "اپنی ماں کو بیچنے" کے طعنے سننے والا شخص اپنی دُ ھن کا پکا تھا اور شاید وہ راز پا چکا تھا جو بڑے بڑے ڈگری ہولڈر نہیں پا سکتے:

ایک زندگی ہے، محدود انسانی کیپیسیٹی ہے، آس پاس کی ذمہ داریاں/چیلینجز زیادہ اہم،  لوگوں کی باتیں صرف باتیں ہیں قوانین نہیں، اور میرے کرنے والے کام صرف/صرف/صرف وہی ہیں جو کہ میں کر سکتا ہوں۔

رانا عقیل صاحب کوجب پی ٹی سی ایل (سابقہ ٹی این ٹی) میں جاب مل گئی تو اسکے ساتھ ہی انہیں واپڈا میں بھی اس سے کہیں بہتر  موقع ملا۔ خوش ہوئے کہ اپنا تبادلہ اپنے گاؤں کے آس پاس، ہیڈ فقیریاں، مونہ ڈپو، ملکوال وغیرہ میں کروالوں گا اور ہر روز رات کو اپنے گھر کی روٹی کھایا کرونگا۔ اسی خوشی میں اپنے والد صاحب کے پاس جان پہنچے تو انہوں نے ڈانٹتے ہوے کہا کہ  "میں تمھیں اس ماحول سے اس لیے باہر بھیجنا چاہتا ہوں کہ یہاں تم جو بن سکتے ہو، نہ بن پاؤ گے۔ اپنی زندگی صرف گزارو نہیں، بناؤ!  اور نہ صرف اپنی ہی زندگی، بلکہ دوسروں کی بھی جو تمھارے لیے  کچھ معانی و مطلب رکھتےہیں۔ تمھاری نوکری شاید میرے لیے غیر اہم ہے، مگر تمھاری زندگی، اور میری نسل کی ترقی، بہت اہم۔ بھلے تنخواہ کم، مگر نوکری تم ٹی این ٹی کی ہی کرو گے۔"

رانا عقیل صاحب اسلام آباد واپس چلے آئے۔ کم تنخواہ اور مشکل تر حالات میں اپنے پروفیشنل سفر کا آغاز کیا۔ چک نمبر 26 میں زمینیں بِکتی رہیں، مرحوم رانا صاحب کو "شریکا" کے طعنے ملتے رہے، لوکل "غیرت بریگیڈ"  انہیں غیرت دلانے کی کوشش کرتا رہا، اس پراسس میں مرحوم کے تمام بچے پڑھتے، اور آگے بڑھتے رہے۔ اس سارے پراسس میں مرحوم رانا صاحب کی تقریبا ساری زمین بِک گئی۔ وقت گزرتا رہا، اور کم و بیش زمین کی فروخت ، اور بےغیرتی کے طعنوں کے 35 سال بعد، مرحوم رانا صاحب نے اپنی انوسٹمنٹ، جو کہ انہوں نے تعلیم کی صورت میں اپنے بچوں پر کی تھی، پر منافع بہت/بہت/بہت شاندار طریقہ سے وصول کیا۔

انہوں نے ساری کی ساری زمین، جو کہ انہوں نے فروخت کی تھی، دوبارہ سے اپنے گاؤں میں مونہہ مانگی قیمت پر دوبارہ خرید لی۔ نہ صرف خریدی بلکہ جب پٹوار اور کچہری میں انتقال اور رجسٹری کے معاملات طے پار رہے تھے، تو مرحوم رانا صاحب کو بےغیرتی کے طعنے مارنے والے انکے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، مارکیٹ سے مہنگی قیمت پر زمین بیچتے ہوئے، مگر اپنے ہاتھوں میں اپنے پوتوں، نواسوں و دیگران کی نوکری کی درخواستیں بھی ہاتھوں میں تھامے ہوئے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یارو، اس سارے منظر میں منافع میں کون رہا؟ چک نمبر 26 کا "غیرت بریگیڈ" یار رانا عبدالطیف  مرحوم؟

زندگی میرے دوستو، آپ پر چیلنجز لے کر آتی ہے۔ مجھ پر ابھی کوئی دو گھنٹے پہلے آیا کہ میری مہینوں کی محنت اکارت گئی۔ مگر یہ جان چکا ہوں کہ زندگی ہمیشہ آگے کی طرف ہی سفر کرتی ہے۔ ماضی کی یادوں میں گڑ ے، حال میں جینے والے لوگ، یا قومیں، بہتر مستقبل پر اپنا حق کھو بیٹھتے ہیں۔ کہیں چینی فوک وزڈم میں پڑھا تھا کہ اہم یہ نہیں ہوتا کہ آپ سات مرتبہ گر پڑے، اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ آٹھویں مرتبہ پھر اُٹھ کھڑے ہوں۔

جس وقت مرحوم رانا صاحب آٹھویں مرتبہ اُٹھ کھڑے ہو رہے تھے، اس وقت دیگر کے پہلی مرتبہ گرنے کی ابتدا ہو رہی تھی۔ خود سے فیصلہ کیجیے کہ گزرے ہوئے 35 سالوں میں جو فاصلہ مرحوم رانا صاحب کی نسل دوسروں سے پیدا کر چکی، وہ فاصلہ طے کرتے کرتے کتنا عرصہ لگ جائے گا اور اسی اثناء میں رانا صاحب کا خاندان کہاں سے کہاں جا پہنچے گا؟

اپنے اختیار میں ہونے والے کام کیا کریں۔ اور اگر نہیں، تو آئیے بحث کرتے ہیں کہ مریخ پر بسنے والے مخلوق کا مذہب کیا ہوگا اور وہ اس مذہب کے کونسے فرقہ کی وہاں اکثریت ہوگی۔


موضوع کو چھوڑیں جناب، بحث ہی تو کرنی ہے!

منگل، 11 مارچ، 2014

کھڈا، سڑک اور آسمان


کرائے کے گھروں کے اپنے عذاب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کرایہ دار گذارا ہی کر تے ہیں اور میرا تجربہ اسلام آباد میں کرائے کے گھروں میں رہنےکا خیر سے 20 سال پر محیط ہے اور ان گھروں کے مالکان میں سے 90٪کو میں نے بہت سارے عجیب و غریب کمپلیکسز کا مارا ہوا پایا ہے۔ انکی تفصیلات میں کیا جانا، مگر اسلام آباد میں ہونے والی بارش اور پھر شدید تیز آندھی نے میرے کرائے کے گھر کے انجر پنجر ہلا ڈالے اور چار پانچ گھنٹے کی نیند کے بعد سے "ٹھاہ ٹھاہ اور چوں چوں" نے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ سوچا کہ بجائے دوبارہ سونے کے ناکام کوشش کرنے کے، کیوں نہ محترم رانا عبدالطیف مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور ساتھ میں روائیتی "پاکستانی اباؤں" کو بھی انکی وساطت سے کچھ کہہ ڈالا جائے۔

رانا عقیل اختر خان صاحب سے میری ملاقات بنیادی طور پر ایک کاروباری معاملے میں ہوئی۔ میں نے انہیں دوسروں سے بہت مختلف پایا۔ روایات کے حوالے سے کاروباری معاملات طے کرنے کے بعد جب "چا ء مٹھیائی" کی باری آئی تو باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ موصوف کا تعلق بھی میرے آبائی علاقہ، ملکوال سے ہے۔ بلکہ ملکوال کے ایک نواحی گاؤں، چک نمبر 26 سے۔ انکے والد رانا عبدالطیف مرحوم ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے نامعلوم کس طرح ملکوال کے نواح میں آن پہنچے، مگر انکی داستان بہت دلچسپ ہے۔ بڑے رانا صاحب مرحوم کے چھ بیٹھے ہیں، ماشاءاللہ تمام حیات ہیں اور رانا عقیل اختر خان صاحب کا نمبردوسرا ہے۔ اِنہوں نے پی ٹی سی ایل میں قریبا 21 سال ملازمت کرنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا اور پچھلے پانچ چھ سال سے، اپنی محنت اور خدا کی رحمت کی بدولت ترقی ہی کر رہے ہیں۔

رانا عقیل صاحب کے والد صاحب نے میلوں پیدل چل کر، ضلع ہوشیار پور کے کسی دور افتادہ گاؤں میں تعلیم حاصل کی اور پھر کچھ عرصہ برٹش آرمی میں خدمات انجام دیں، جنگ پر بھی گئے اور پاکستان بننے کے بعد گھومتے گھامتے چک 26 آ کر ڈیرہ جمایا۔ ایک بہتر گاؤں اور ماحول سے وہ بالکل پسماندہ علاقہ میں آن پہنچے، مگر زندگی تھی، ہمت نہ ہاری اور ایک ایک کرکے پیدا ہونے والے سارے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں پنجاب کی نہری زمینیں فروخت کرکے اور گروی رکھوا کر اپنے بچوں کو سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی کی سطح تک پہنچایا۔ اپنی ذات، برادری، خاندان، یار دوست، رشتہ داروں، احباب و دشمنوں کی جلی کٹی باتیں بھی سنیں کہ "زمین ماں کی طرح ہوتی ہے اور یہ اپنی ماں کو بیچ ڈالتا ہے۔" مگر رانا صاحب مرحوم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور ایک ایک کرکے انکے تمام بچے پڑھ لکھ گئے اور پھر "افسر" بھی لگ گئے۔ رانا صاحب چند برس قبل اللہ کی طرف لوٹ گئے اور صرف ایک ہی نسل میں وہ لوگ کہ جو انکو گندی زبان میں طعنے مارا کرتے تھے، اب اپنے بچوں، بھتیجوں، نواسوں اور پوتوں کی نوکریوں کےلیے انکی اور انکے بیٹوں کی منتیں کرنے پر مجبور ٹھہرے۔ رانا صاحب مرحوم کی اعلیٰ ظرفی اور کچھ زندگی کی روانگی کے ساتھ بہہ کر اپنا سفر طے کرنے کی عادت کہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق انکی بھی مدد کی کہ جنہوں نے شاید کبھی انہیں "اپنی ماں فروخت" کرنے کے طعنے مارے ہوں گے!

رانا عقیل صاحب نے چار دن قبل بات کرتے ہوئے سنایا اور یہ بتاتے ہوئے انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہتے ہیں کہ:

"1960 کی دہائی کے وسط میں، میں راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کا طالبعلم تھا اور انہی دنوں میرے والد صاحب میرے پاس، بیسیکلی میری حوصلہ افزائی کےلیے آئے ہوئےتھے کہ میں کہیں دل نہ چھوٹا کرڈالوں۔ میری رہائش ان دنوں کوہِ نور ٹیکسٹائل مِل کے بالکل قریب ایک پرانے سے علاقے، نصیر آباد میں تھی اور وہاں سے میں قریبا تین چار میل پیدل چل کر کالج جایا کرتا تھا۔ سنگل روڈ تھی اور روڈ کے آس پاس گہرے گہرے کھڈے تھے۔ آنا جانا بہت دشوار تھا، مگر میں اپنے تئیں اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا تھا۔ انہی دنوں میں سے ایک دن، میرے والد صاحب میرے ساتھ کالج کی طرف روانہ ہوئے کہ اسی بہانے مجھ سے گپ شپ بھی ہو جائے گی، کالج بھی دیکھ لیں گے اور میرا حوصلہ بھی بنا رہے گا۔ جاتے ہوئے، ہمارے سروں سے ایک جہاز گزرا تو والد صاحب نے مجھے روک لیا اور کہا کہ بیٹا، ایک ہم ہیں جو کھڈوں میں ہیں، دوسرے وہ ہیں جو سڑک پر اور تیسرے وہ جو ہم سب کے سروں پر، آسمان پر موجود ہیں۔کھڈے میں ہم بھلے ہیں، مگر محنت کرو اور دل میں عہد بھی کہ ایک دن ان کھڈوں سے نکل کر آسمان پر جا پہنچنا ہے اور یہ ناممکن نہیں۔"

"بٹ صاب، ہُن اسی اپنے پِنڈ جاوی دا تے آسے پاسے دے لوگ پشاندے ای نئیں کہ جناں دے نال مِلدے پئے او، او تواڈے رشتے دار ای نیں۔ ایتھے سلاماباد وی لوکی نئیں جے مندے پر ویخ لوو، ایہناں وِیاں، تیاں سالاں وچ ساڈی دنیا کتھے جا اپڑی تے او جیہڑے گالاں تے طانے معنے دیندے سن، او اوتھے دے اوتھے ای، سغوں ہور وی پِچھے!"

رانا صاحب کی آواز رندھ گئی اور آنکھوںمیں اس بات، اور یقینی طور پر ایسی بہت سی باتوں کی یادیں لیے وہ  اپنے مرحوم باپ کی یاد میں آئے چند آنسو پونچھتے خاموش ہو گئے۔ میں بھی کچھ نہ کہہ پایا، "کم چینی اور تیز پتی" والی چائے پیتے ہوئے اپنے آپ سے یہ حروف لکھنے کا وعدہ کیا اور آپ سب کی نذر کر ڈالے۔

رانا عبدالطیف صاحب مرحوم کی زندگی کی جدوجہد میں کئی ایک سبق ہیں، مگر ایک بنیادی سبق یہ ہے کہ روایات کے نام پر معاشرے نے جو جہالت انسانوں کے آس پاس بُنی ہوتی ہے، ان میں جکڑے لوگ  نہ صرف اپنی اپنی جہالت کے اسیر ہوتے ہیں بلکہ اس جہل میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گھسیٹنا چاہتے ہیں اور یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت و حالات کے مطابق زندگی جینے کے تلخ فیصلے کرے یا پھر "زمین ماں ہوتی ہے" جیسے الفاظ کی نذر ،اپنی ذاتی حیثیت میں، اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل جہالت کی نذر کر دے اور پھر بعد میں صرف پچھتائے۔

میں کئی ایسے "اباؤں" کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے حال میں زندگی جینے اور مستقبل  کی روشن امید کی قیمت پر اپنی  ماضی کی روایات میں جینے کو ترجیح دی اور ایسا کرتے ہوئے بنیادی طور پر اپنی انا کی تسکین کی اور اسے اپنے معاشرتی مقام کے ساتھ جوڑا اور  نہ صرف اپنی زندگی کو ماضی کا غلام بنا کر رکھا بلکہ اپنے خاندان اور بچوں کے لیے بھی بہت سارے آنے والے چانسز کا گلا گھونٹ ڈالا۔ میرے تجربے میں آنے والے ان تمام "اباؤں" کو میں نے اپنی اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے بھی پایا، مگر جب یہ موقع آیا، وقت و حالات بہت آگے جا چکے تھے اور وہ محض کفِ افسوس ہی ملتے رہ گئے۔

حضرت علیؑ سے منسوب ایک روایت ہے کہ "زندگی کو اسکی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جیو" مگر جنوبی ایشیائی خطے اور خاص طور پر پاکستان، کہ جسکا مجھے تجربہ بھی ہے، میں الٹا زندگی نے انسانوں کو انکی پیشانیوں کے بالوں سے پکڑا ہوتا ہے اور آس پاس گھسیٹ رہی ہوتی ہے۔

دماغی مٹی میں لتھڑے، ماضی کے مزاروں میں زندہ، غلط سلط روایات کی جہالت میں زندہ، اپنے آپ اور اپنے سے متصل لوگوں کے حال اور مستقبل سے کھیلتے اور زندگی میں آگے آنے والے چیلنجز اور مواقع سے پہلو تہی کرتے لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ دراصل کھڈوں کی تہہ میں زندہ ہیں اور انکے لیے ذرا بلندی پر نظر آنے والی سڑک، انکی دماغی اپروچ کے مطابق، شاید آسمان ہی ہے۔ آسمان میں پرواز کاتوشاید وہ سوچ سکتے بھی نہیں۔

اپنے آس پاس دیکھیے تو آپکو بہت سی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ ایسے لوگوں کے اثرات سے شعوری طور پر بچا کریں اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اپنے دل میں جھانکیں کہ کہیں آپ بھی تو روایات کے نام پر جہالت کے اسیر نہیں؟ یہ لازمی کیجئے کہ آپ اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔

اور اگر بولا تو میری بات لکھ لیں کہ ایک ہی نسل کے فرق میں آپ ان صاحب سے اپنے بچوں، نواسوں اور پوتوں کی نوکریوں کی درخواست کر رہے ہوں گے کہ جنکا آپ ابھی مذاق اڑا رہے ہیں۔

لکھ لیں بے شک کہ زندگی آگے چلتی ہے، پچھلے پاؤں تو  صرف بلائیں چلتی ہیں، انسان نہیں۔

منگل، 4 مارچ، 2014

دس سال کی بے غیرتی

یارو، دل شدید دکھی ہے ایف-ایٹ کے واقعہ پر۔ ریاست کا ایک اہم اہلکار، سیشن جج، جاہلان کی خودساختہ "شری جدوجہد" کی نذر ہوگیا، اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی، فضہ ملک، شہید ہوگئی اور دیگر کوئی درجن بھر عام پاکستانی اس جاہلیت اور درندگی کا شکار ہوئے کہ جس کو ابھی تک چند پاکستانی مذہبی اور سیاسی  رہنما "یہ ہماری جنگ نہیں" کہتے نہیں تھکتے۔ ارادہ تھا کہ اللہ میاں کے نام ایک کھلا خط تحریر کرتا، مگر مزاح دیکھ لیں کہ ایک دو دوستوں سے بات کی تو انہوں نے قریبا ایک جیسے ہی الفاظ میں منع کیا: بندے دا پُتر بن، ایویں کوئی مولوی سرے چڑھ جاوی گا۔

اسلام، جو کئی حوالوں سے امن و آشتی کا پیغام لے کر آیا تھا، اسی کے نام لیواؤں نے اس مذہب کو کہاں سے کہاں پہنچا ڈالا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایف-ایٹ حملہ کے تمام حملہ آوروں نے "کافر پاکستانی" قتل کرنے سے پہلے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور پھر اندھا دھند گولیاں چلیں، اور لاشیں گریں۔

جی بالکل، یہ ہماری نہیں، مریخ پر بسنے والی قوم کی جنگ ہے اور وہی آکر لڑے گی۔ آپکی سیاست اور آپکی مذہبی مفادات  کی صراحی بھری رہے، بس، آپ بنے رہیں ساقی،  آپکے پیروکار، مے خور اور پاکستان خوار۔

جس موضوع پر تحریر کرنا ہے وہ انسان کے اندر "غیرت" کے نتیجے میں ابھرنے والے متشدد رویے کے بارے میں ہے۔ ابھی تک ریسرچ نہیں کر پایا، مگر غیرت کے روائتی تصور کو میں ردعملانہ متشدد جہالت کے پرسپیکٹو میں زیادہ دیکھتا ہوں کہ جس  میں پاکستانی مرد سماج کی بُنتی پر اپنی طاقت، گروہ بندی اور جسمانی طاقت کی بنا پر قابو رکھنا چاہتا ہے۔ آپ بھی بھلے اپنے ایکسپوژر کے حساب سے دنیا میں دیکھ لیں،غیرت کا متشدد تصور آپکو قبائلی اور نیم قبائلی معاشروں میں سر چڑھ کر بولتا نظر آئے گا۔ جن باتوں پر ایسے معاشروں میں قتل و غارت ہوتی ہے، مہذب اور پڑھے لکھے، اور موسٹ امپورٹنٹلی، کام میں مصروف معاشروں میں وہ معاملات زندگی کی رو میں لیے جاتے ہیں۔ دو سچے واقعات ہیں، اور بھی ہیں، مگر مضمون کہیں بہت طویل نہ ہوجائے، لہذا آج کی "ڈوز" دو واقعات پر ہی مشتمل ہے۔ یہ واقعات میرے کزن، جو کہ محکمہ جیل پنجاب کے ایک افسر ہیں، کے ساتھ پیش آئے اور انہی کی زبانی ہی سنے۔ میرا چھوٹا بھائی ہے، اور موضوع  کی خاطر اسے ذیشان  کا نام دے دیتے ہیں۔ ذیشان مولانا عزیز (المعروف برقعے والی سرکار) کے بھی بہت/بہت سے رازوں کا امین ہیں۔ کبھی اسکی اجازت ہوئی تو وہ بھی تحریر کر ڈالوں گا۔

پہلا واقعہ ذیشان یا " شانی،"  کی اڈیالہ جیل میں پوسٹنگ کا ہے۔

جبران کیانی (فرسٹ نیم تبدیل کیا ہے) ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ جیل میں بھی انکا رویہ دوسرے قیدیوں سے بہت مختلف تھا۔ کتب بینی کرتے، مہذب گفتگو کے مالک اور بہت اچھے سلوک کا مظاہرہ کرنے والے شخص تھے۔ شانی کی پہلی بڑی پوسٹنگ اسی جیل میں تھی اور چونکہ خود بھی شانی کتابوں کا بہت بڑا "ٹھرکی" ہے، لہذا، کیانی صاحب سے اسکی دوستی ہوگئی۔ ایک دن باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ محترم، آپ جیسا مہذب، ہلکی آواز میں گفتگو کرنے اور کتب بینی کا شوقین، کہ جس نے دنیا بھی گھومی ہوئی ہے، جیل میں کیسے آن پہنچا؟ جواب ملا کہ: "جھوٹی اور نقلی غیرت!"

شانی کے پوچھنے پر کیانی صاحب نے بتایا کہ وہ ایک خاتون سے محبت کرتے تھے اور ان سے شادی کا ارادہ بھی تھا۔ مگر چونکہ برادری مختلف تھی (جہالت  کا ایک اور جنوبی ایشیائی میڈل!) لہذا بات رکی ہوئی تھی۔ ایک دن ان خاتون نے شکایت لگائی کہ انہیں کوئی شخص موبائل پر تنگ کرتا ہے تو کیانی صاحب نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان صاحب کا اتا پتا دریافت کروا لیا اور  ان سے رابطہ کیا۔ ان صاحب نے ان خاتون سے اپنی محبت کے بارے میں انکار نہ کیا بلکہ پڑھے لکھے رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیانی صاحب کو اس معاملہ پر گفتگو کرنے کی پیش کش کی۔ کیانی صاحب نے بھی حامی بھری اور ان سے ملنے سے قبل اس خاتون کو فون کیا اور دوسرےشخص سے ملنے کا بتایا تو  باتوں باتوں میں آگے سے ان خاتون نے کیانی صاحب کو "بےغیرت" ہونے کا طعنہ سنا ڈالا اور کہا  "تم مرد ہی نہیں ہو جو اپنی عورت کی حفاظت نہیں کرسکتا۔" یقینا اور بات بھی ہوئی ہوگی، مگر جو ڈسکشن ان دونوں کے درمیان ہوئی، اس نے کیانی صاحب کا پارہ چڑھا دیا اور اسلام آباد، بلیو ایریا کے ایک ریستوران میں ان صاحب کو، کہ جہاں انکو مدعو کیا ہوا تھا، چھ گولیاں ماریں۔ وہ موقع پر قتل ہوئے، کیانی صاحب چند دن روپوش رہنے کے بعد گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، قتل ثابت ہوا اور وہ یوں اڈیالہ کی چکی میں جا پہنچے اور عمر قید کے بعد پھانسی چڑھنے کا انتظار کرنے لگے۔

شانی نے کیانی صاحب سے اس خاتون کی بابت پوچھا تو معلوم ہوا کہ قتل کے چھ ماہ بعد انہوں نے شادی کی اور امریکہ جا بسیں اور "ادھر میں روز جیتا اور روز مرتا ہوں۔"

ابھی سب سے زیادہ کیا خیال آتا ہے، شانی نے دریافت کیا تو جواب ملا کہ "بٹ صاحب، میری دس منٹ کی غیرت تھی اور اب دس سال کی بےغیرتی برداشت کرتا ہوں کہ میری ماں، بہنیں مجھ سے ملنے جیل آتی ہیں۔ ان سے بدتمیزی تو کوئی نہیں کرتا، مگر وہ گھر کی عورتیں ہیں اور ادھر تمام مردوں میں سے گزر کر وہ مجھ تک پہنچتی ہیں۔ میری ماں کئی مرتبہ مجھ سے اس بے بسی کا اظہار کر چکی ہے، مگر ماں ہے نا، چلی آ تی ہے پھر۔"

موقع جو بھی ہو، کوشش کریں کہ زندگی کے ساتھ ساتھ چلیں، آپکو تو گلوری مل جاتی ہے، مگر اسکی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور بعد میں آپ خود تو  خجل خراب ہوتے ہی ہیں، آپکے گھروالے بھی ہوتے ہیں، کیانی صاحب نے کہا۔

دوسرا واقعہ شانی کی فیصل آباد میں پوسٹنگ کا ہے۔

شانی کا ایک آفیسر ٹرانسفر ہو کر فیصل آباد آیا تو صبح کی ایک تقریب میں اسکے سامنے حاضری ہو رہی تھی۔ جبار چیمہ (فرسٹ نیم تبدیل کیا ہے) نامی ایک قیدی کے سامنے سے گزرے پر، اس آفیسر نے آواز لگائی: چیمیا، مینوں پشانیا ای؟ توں تے اُکا ای رہ گیا ایں!

چیمہ صاحب نے سر اوپر اٹھایا، کمزور سی آواز میں بولا: مائی باپ، پشان لیا اے، بس قید مار گئی مینوں۔

کریدنے پر آفیسر نے شانی کو بتایا کہ جبار چیمہ قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ قیدی تھا۔ جھاوریاں، سرگودھا کے پاس ایک گاؤں، سے اسکا تعلق تھا۔ نہایت کھاتا پیتا اور علاقے کا معزز آدمی تھا۔ زمینوں کو پانی لگانے کے جھگڑے کے معاملہ پر ایک قتل کیا۔ "مخالف پارٹی بھی تگڑی تھی اور وہ بھی مقدمہ پورے زور سے لے کر چلے اور سزا دلوا کر ہی دم لیا۔"

زمین بکی، گھر گئے، باپ فوت ہو گیا، ماں بھی کچھ عرصہ بعد چل بسی، تین بیٹے اور ایک بیٹی پیچھے تھے، بیٹی کی شادی کر دی ایک کریانہ فروش دکاندار کے ساتھ، جبکہ تینوں بیٹے، جو کہ سرگودھا کے اچھے سکول میں تھے، تعلیم سے محروم ہوئے اور اب مزدوری کرکے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتے ہیں۔ آفیسر نے شانی کو یہ بھی بتایا کہ چیمہ صاحب نے انہیں خود بتایا تھا کہ: افسر صاب، جے کر میرے وس ہووے، تے میں مقتول دی تھاں، اپنے آپ نوں ای مار دیندا۔ ایہہ روز روز دی بےغیرتی تے بےوسی تے نا ویخن نوں ملدی!

جبار چیمہ ابھی تک فیصل آباد جیل میں ہے۔ قید کے ساتویں سال میں۔ آٹھ ابھی باقی ہیں، اور پھر پھانسی!۔

زندگی، میرے دوستو، یک طرفہ ٹریفک ہے۔ اس میں انسانوں کے ساتھ بہت عجب حادثات و واقعات پیش آتےہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے تیئں خواہمخواہی کا ہیرو بن رہا ہوتا ہے، مگر اس ایک لمحے کی لغزش کا نتیجہ "دس سال کی بےغیرتی" بھگتنے میں نکلتا ہے۔

آخری کمنٹ یہ کرنا ہے کہ چونکہ پاکستان میں آجکل شریعت اور آزادی کا موسم ہے اور اس موسم کی سب سے مرغوب خوراک نوجوان خون اور جسم ہوتے ہیں۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک کھلا چیلینج دیتا ہوں کہ وہ بھلے گہری سے گہری تحقیق کرلیں، شریعت اور آزادی کے خواب دکھانے والے بڑے بڑے سرخیلوں میں سے 99فیصد اپنی اپنی جگہوں پر آرام اور سکون سے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ کوئی لاہور میں بیٹھ کر آزادی کا ماما بنا ہوتا ہے تو کوئی اسلام آباد میں بیٹھ کر آزادی کی ملکہ۔ بحریہ ٹاؤن میں مسلح گارڈز کے ہجوم میں کوئی شریعت نافذ کروا رہا ہوتا ہے تو کوئی جھنگ و رحیم یار خان میں براجمان ہو کر پاکستان کو پاک کرنے کے چکروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف کالے چوغے پہن کر لوگ زبردستی کی شادیاں رچا کر سیٹلائٹ ٹاؤن پنڈی سے اہلِ بیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں توکوئی ہیروں کی تجارت سے سواداعظم کے چسکے لے رہے ہوتے ہیں۔ آپ، میں اور ہم جیسوں کے بچے بھلے مریں، مگر لندن میں ہر ویک اینڈ ایک ہائی اینڈ کلب میں جا کر آزادی کی خدمت ہو رہی ہوتی ہے یا مونچھیں داڑھی منڈوا کر جنیوا سے ایک پارٹی چلائی اور دھشتگردی کروائی جا رہی ہوتی ہے۔

بلا شبہ معاشرے اور ریاست کی حماقتیں ہیں، مگر اوپر بیان کردہ تضادات کی جڑ میں،اگر ایک چیز مشترک ہے تو میرے یارو وہ یہ ہے کہ یہ 99فیصدی مذہب اور سیاسی حقوق کے نام پر دراصل اس "غیرت" کو ہی مہمیز لگا رہے ہوتے ہیں جوکہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کا ایک خاص وطیرہ بن چکا ہے۔

مگر یاد رکھیں کہ آخری چوائس آپکی ہی ہوتی ہے کہ یاتو زندگی کی ندی میں آگے بہتے چلے جائیں، بہتر سے بہتر کرتے چلے جائیں، اپنے اور دوسروں کے لیے، یا پھران مذہبی اور سیاسی شعبدہ بازوں کی باتوں میں آ کر  دس منٹ کی غیرت دکھائیں اور پھربعد میں  دس سال کی۔۔۔!

مرضی کے مالک ہو یارو۔


شانی کی زبانی کے چند دیگر واقعات پھر کبھی سہی۔