ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

تین لائنوں میں "وڈا اپریشن"

امی، امی، مجھے خلافت چاہیے
خلافت نوں چھڈ
پہلاں بزاروں دئیں لے کے آ، ویہلا سارے جہان دا

ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو کہ جعلی ہو
چَول، چَول ہندا
پنجابی ہووے  یا بلوچ

میں سندھی سپر مین ہوں
سندھ کی دھرتی کا بیٹا
مگڑ شالا، سندھی بولنا نئیں آٹا

شہید محترمہ بی بی نے بہت قربانیاں دیں
بہت قربانیاں دیں
حتیٰ کہ مجھ سے شادی بھی نبھائی (زرد-آری)

تبدیلی آ گئی ہے
پہلے سال میں ایک کینیڈین مداری دھرنا دیتا تھا
اب ہم ہر دو مہینیاں بعد اِک دھرنا ٹکا دیندے آں، اوئے

میرٹ، میرٹ، اور صرف میرٹ
چھوٹا وزیرِ خارجہ، پُتر انوسٹمنٹ ایڈوائزر
پُتری لون سکیم دی چاچی تے پَتریا ہیلی کاپٹراں دا شہسوار

اسلام امن، بھائی چارے، آشتی اور محبت کا مذہب ہے
مگر کافر کافر، شیعہ کافر ۔۔ جو نہ مانے وہ بھی کافر
لعنت، لعنت ۔۔ اہلِ بیتؑ کے منکروں پر لعنت

امارا پارٹی پختون قوم کا نمائندہ پارٹی اے
مثلا میں نمائندہ، میرا پِلار نمائندہ، میرا دادا نمائندہ
میری سوتیلی ماں نمائندہ، میرا ماما نمائندہ، میرا بھانجا نمائندہ

بلوچ پاکستان کے منحوس ریاستی جبر کا شکا رہیں
آوارن تو نیویارک سے آگے، کوہلو لندن سے آگے
ڈیرہ بگٹی جینوا اور خضدار دبئی سے بھی آگے اور ترقی یافتہ ہیں

روشن پاکستان کی اس سے بڑی دلیل کیا
کہ اگلے مہینے سے
پاکستان بھر میں لوڈ شیڈنگ

جماعت اسلامی کی رگوں میں قربانی بھری ہوئی ہے
تیرے بیٹے کی قربانی،اُسکے بیٹے کی قربانی
میرے بیان ای کافی ہیگے نیں

اوئےےےےےے جاگیردارااااااااا
میری کتاب پڑھ
تے آ فیر پیار کریئے


یہ ہمارانہیں، عاوام کا پھارٹی ہے
جناب، یہ آپکا پاٹی ہے
عاوام کا پھاڑٹی ہے

دیکھیں حامد
آرمی آپریشن بالکل غلط ہے
میانوالی کی نسوار سے ہی مسئلہ حل ہو جائے گا

اماڑا بہن نے پولیو پڑ بوہٹ کام کیا
اس نے ٹویٹڑ پڑ میسیجز ڈئیے
مگڑ ڈی-مینشیا والے کے واسٹے دماغی پولیو ٹھیک نہ کڑ سکی

کیسی بات کرتے ہیں آپ، کیسی بات کرتے ہیں آپ
مجھے حبیب جالب سے پیار ہے، دلی پیار
اور اس پیار کا اظہار میں شادیاں کر کے کرتا رہتا ہوں

دھرنا ہو یا ریلی
میں کینیڈا سے انقلاب لے کر آؤں گا
پاکستانی چَولوں کو اور بھی چَول بناؤں گا

اللہ ایک، رسولؐ ایک، قران ایک
پر میری مسیت توں نئیں وڑنا،  تیری مسیت میں نئیں وڑنا
بالکل وی نہ وڑیں، نئیں تے میں واڑ دیاں گا

بابا، سندھیوں کے خون میں ہماری پارٹی دوڑتی ہے بابا
بالکل دوڑتی ہیں سائیں ابدی شاہ
بکٹیریا اور  وائرس  کی طرح

دو    روپا، دو    روپا۔۔دو   روپا میں دیکھو
حوروغلمان کے بے چین متلاشیوں کی
آنیاں، جانیاں تے اُڈانیاں

پاکستان میں بسنے والی ہر نسلی قوم
باغیرت ہے، سولہ آنے باغیرت
مگر اپنے علاوہ دوجے سارے بے غیرت، وی آنے بےغیرت

پاکستان اسلام کا قلعہ ہے
کِنے کہیا شخشا؟
او اگ لگے اوہنوں، جِنے کہیا

جذبہء ملی، قومی غیرت، مسلم اُ مہ کا دردِ زہ
یہودی، عیسائی، ہندو،  مجھ سے رندِ خراب، سارے کے سارے دشمن
ذبح کرنے والے، مساجد اڑانے والے؟ آہ بےچارے، آہ بےچارے

تم سی آئی اے کے ایجنٹ ہو
تم سعودی ارب کے ٹٹُو ہو
میری خیر ہے، وہاں بیت اللہ اور روضہءرسولؐ ہیگا

الحمداللہ رب اللعالمین
وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین
پر دوجے تمام جہنمی، گمراہ، بھٹکے ہوئے، آہو

تین لائنوں میں
وڈا   اپریشن  پڑھنے والے
تیرے کول بوہت ای ویہلا ٹائم ہیگا سی، ہیں؟

منگل، 17 دسمبر، 2013

اس کُتے کو باہر نکال دو ( بسلسلہ "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کہانی نمبر1)



 یارو، لکھنے کا دل تو بنگلہ دیشں پر تھا کہ یہ 16 دسمبر بڑے مزے کا دن ہوتا ہے۔ اس دن پاکستان میں پائے جانی والی دو "مخلوقات،" جعلی لبرلز اور نقلی (دیوبندی) ملا، ایک دوسرے کو سلامِ محبت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جعلی لبرل کہتے ہیں کہ: آہ، پاکستان کا بننا ایک غلطی تھا۔ جبکہ انکے ایک دن کے بھائی، نقلی (دیوبندی) ملا ارشاد فرماتے ہیں: دیکھا، ہمارے بزرگوں کے مطابق علمائے دیوبند پاکستان بنانے کے "گناہ" میں شریک نہ تھے۔ یہ الگ بات کہ دونوں ہی سال کے باقی 364 دن ایک دوجے کو "پھکڑ تولتے" نظر آئیں گے، مگر پاکستان کے قائم ہونے اور قائم رہنے کی چِڑ ان دونوں مخلوقات کو اس ایک  دن ایک دوسرے کی جھولی میں لے آ تی ہے۔

مگر ایک بات یاد رہے کہ میری مراد یہاں جعلی لبرلز اور نقلی دیوبندی ملاؤں سے ہے، وگرنہ اصلی ترقی پسند لوگ تو پاکستان کے قیام کو جمہوری عمل گردانتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کے حکم پر پاکستان چلے آئے اور یہاں اپنی جدوجہد کی اور علامہ سلمان ندوی اور علامہ شبیر عثمانی رحمتہ اللہ علیہان جیسے دیوبند زعماء پاکستان کے قیام کے حق میں تھے اور اسکے لیے اپنی بساط کے مطابق ہمت و کوشش بھی کی۔ مگر چننے والے کی مرضی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو چُنے اور اس ملک میں رہے ہوئے، یہاں کا کھاتے، پیتے اور یہیں اینٹھتے ہوئے، اس ملک، پاکستان، کے قیام میں کیڑے نکالیں۔ ایسوں کے لیے خبر یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت کے ایک نئے "ابُو" نریندرا مودی وہاں الیکشن لڑ رہے ہیں، اور ایسے سارے انکی سیاسی ولدیت میں جا سکتے ہیں کہ ابھی موقع بہت مناسب ہے۔ اس سے یہ جعلی لبرلز اور نقلی دیوبندی ملا بھی خوش رہیں گے، اور مجھ سے جاہل پاکستانیوں کی جان بھی ان سے چھوٹ جائے گی۔

چند دن قبل ایک بہت اعلیٰ روحانی تجربہ سے گزرا تھا اور وہ بھی شئیر کرونگا کہ اللہ، جو کہ مالک جہانانِ کُل ہے، سب کا ہے اور اسکی ذاتِ اکبر پر صرف مسلمانوں کے ہی کاپی رائٹس نہیں مگر چند ایک دوستوں کی فرمائش پر "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کے سلسلہ میں چند ایک مضامین تحریر کرونگا۔ خاص طور پر ان پاکستانی نوجوانوں کے لیے جو اپنی بیس کی دہائی میں زندگی گزار رہے ہیں اور عام طور پر ہر کسی کے لیے کہ زندگی میں، صاحبو، حقیقت میں کچھ بھی واقعی ہی حتمی نہیں ہوتا۔ جس معاملات اور نتائج کو ہم "حتمی" جان بیٹھتے ہیں، وہ دراصل ایک اور، اچھی یا بری" صورتحال کی طرف لے کر جانے کای ایک راستہ ہی ثابت ہوتا ہے مگر تقریبا نہ ہونے کے برابر لوگ اس پراسس کو شعوری طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں اور اپنے اوپر آنے والے اچھے یا برے واقعات کو اس پراسس میں اپنا  آخر جان لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہوتا۔

جان لیجیے کہ کائنات کے اس نظام میں انسانی حوالے سے عالمِ اسباب میں حتمی صرف "موت" ہے، موت۔ اور کیا دلچسپ معاملہ ہے موت کا کہ اسکے حتمی ہونے کا تو معلوم ہے، مگر اسکے آنے کا وقت انسانوں کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا۔ لہذا، جو چیز انسانی زندگی کے معاملہ میں حتمی ہے، ہم اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور یہ بھی کہ اگر موت کو روحانی پہلو کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بھی حتمی مرحلہ نہیں کہ اسکے ذریعہ سے ہم عالم الاسباب سے عالم الارواح میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں کی زندگی لافانی ہے۔ یہی عقیدہ ہے دنیا کے زیادہ تر مذاہب کا اور پھر ہر مذہب کی اپنی اپنی تشریح ہے، مگر  اس پر پھر کبھی سہی۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔

1993 کے دسمبر کی بات ہے اور میں اسلام آباد میں اپنے "جگری چاچُو" محمد حسن بٹ صاحب کے گھر مقیم تھا۔ اور اسلام آباد کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چاچُو نے خود اپنی زندگی میں بہت/بہت/بہت شدید محنت کی اور مجھے بھی مصروف ہی رکھتے تھے کہ کام کاج میں لگا رہوں۔ کچھ ٹائیپنگ میں نے سیکھی تھی ملکوال سے مگر اس کو "کمال" تک چاچُو نے ہی میرے پیچھے پڑ پڑ کے ہی پہنچایا۔ انہی دنوں روزنامہ جنگ کے اشتہارات کے صفحہ پر ایک مترجم کی نوکری آئی اور میں نے اپنا نہایت ہی دیہاتی سٹائل کا بنا ہوا "سی-وی" روانہ کر دیا۔ چند دن بعد مجھے وہاں سے کال آ گئی اور میں، اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ایک پلازہ، گنزہ سنٹر، کے چوتھے فلور پر  انٹرویو اور ٹیسٹ کے لیے چلا گیا۔ سارے معاملات ٹھیک ہوئے اور دو دن بعد مجھے چاچُو کے گھر کے فون نمبر پر دوبارہ کال آئی کہ آپکو سیلیکٹ کر لیا گیا ہے، اور آپ سوموار والے دن آ جائیں، اور کام شروع کر دیں۔

غربت سے مسلسل جنگ کرنے والے وہ جو کہ میرا یہ مضمون پڑ ھ رہے ہونگے، انکو اندازہ ہوگا کہ میں نے اس وقت کیسا محسوس کیا ہوگا۔ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے میں نے سوچا کہ اب میرے تمام مسائل ختم، میں امیر  اور زندگی میں بہت آگے بڑھ جاؤں گا، افسری کرونگا، میرے پاس نوکر چاکر، گاڑی بنگلہ اور تمام نعمتیں ہونگی اور میں اپنے قصبہ، ملکوال، کا سب سے کامیاب ترین آدمی کہلاؤں گا۔ جی 21 سال کی عمر میں 900 روپے ماہانہ کی نوکری پر یہی جذبات ہوتے ہیں جب آپ نے غربت اور مسلسل کوشش کی زندگی گزاری ہوتو۔

سوموار والے دن میں اپنی واحد جینز پہن کر نوکری پر پہنچا تو جس کرسی پر مجھے بیٹھنا تھا، وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی کام کر رہی تھیں۔ میں انکے سامنے بیٹھ گیا اور تقریبا ایک گھنٹہ انتظار کے بعد، اس آفس کے مالک جن کا نام مجھے آج بھی یاد ہے، ظفر راٹھور، تشریف لائے۔ وہ اس وقت آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم، ممتاز راٹھور کے کزن تھے اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو دونوں کا ہی معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ میں نے انکو کھڑا ہو کر سلام کیا تو انہوں نے ایک نگاہِ بےپرواہ ڈال کر اندر جانا مناسب سمجھا۔ کچھ دیر بعد بلاوا آیا تو جا کر کہا کہ جناب مجھے آپ نے نوکری کے لیے بلایا ہے اور میں حاضر ہوں۔

مگر ہم نے آپکی جگہ وہ لڑکی رکھ لی ہے، اب ہمیں آپکی کوئی ضرورت نہیں، جوا ب آیا۔

مجھے پہلے پہل تو کوئی سمجھ نہ آئی، مگر پانچ چھ سیکنڈ کے بعد جب ادراک بحال ہوا تو میں نے تھوڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ جناب مجھے تو آج نوکری پر آنے کے لیے کہا گیا تھا اور اگر آپ نے انکار کرنا تھا تو مجھے پہلے بتا دیتے۔ اس گفتگو کے درمیان انکے مینیجر، تنویر صاحب، آفس میں آ گئے اور وہی بات دہرائی، مگر زیادہ درشتگی سے۔ میں کنکھیوں سے دیکھا کہ وہ خاتون اس صورتحال پر زیرِلب مسکرا رہی تھیں اور توہین کا ایک شدید احساس، جی 21 سال کے دیہاتی سے آپ کیا توقع کرسکتے تھے اس وقت، میرے اوپر طاری اور میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا کہ یہ تو زیادتی ہے اور یہ بہت غلط ہے۔ انکے مینیجر تنویر نے میری کلائی زور سے پکڑی اور شاید راٹھور صاحب کے اشارے پر مجھےانکے دفتر سے ایک دم باہر کی طرف کھینچا۔ میں نے جھٹکے سے کلائی چھڑائی اور کہا کہ ایسی بدتمیزی نہ کریں اور انکے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔ تنویر صاحب نے اپنے آفس کے دو گارڈز اور چپڑاسی کو اشارہ کہا اور انہوں نے مجھے دو تین مکے لاتیں جڑنے کے بعد زبردستی پکڑ کر دفترسے باہر دھکیلنا شروع کیا۔ اسی مزاحمت میں مجھے چوٹیں بھی آئیں اور  میرے کانوں نے تنویر صاحب کے یہ الفاظ سنے: "اس کتے کو باہر نکال دو!"

میں روپڑا اور روتے روتے گنزہ سنٹر کی سیڑھیاں اترا اور پھر دسمبر کی اس بادلوں بھری قریب-دوپہر کو بلیو ایریا سارا پیدل اور روتے ہوئے طے کیا۔ اللہ سے شدید شکوہ کیا، مقدر کو کوسنے دئیے، اپنی غربت اور بےچارگی کے شدید احساس میں ناقابلِ بیان توہین محسوس کی – اور روتا رہا۔ حساس دل کے مناسب سے ذہین افراد، یارو، میری اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ بہت/بہت اچھی طرح سے کہ جانتا ہوں کہ میری کلاس سے تعلق رکھنے والے اپنے حالات بدلنے کی دھن میں ایسے تجربات سے لازمی گزرتے ہونگے، لازمی۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا، صاحبو، میں جاپان ایمبیسی میں شعبہء سیاسیات میں اسسٹنٹ بھرتی ہوگیا، یہ بھی ایک پوری کہانی، مگر پھر سہی۔ اور اسی نوکری کےدوران ایک دن، وہی تنویر صاحب کہ جن کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں، میرے سامنے ایک پیکنگ اور شِپنگ کمپنی کے سیلزمین بن کر بیٹھے ہوئے میری منتیں کر رہے تھے کہ ایک حوالے سے انکو ایک  کانٹریکٹ  لے کردے دوں وگرنہ انکے مالکان انکو نوکری سے نکال دیں گے۔ میں انکے سامنے بیٹھا مسکراتا رہا اور سچی بات کرونگا، کہ انکی اس حالت میں بہت لطف بھی آیا۔ وہ میرے لیے ڈائری، کیلنڈر، بال پین اور پیپر ویٹ بھی لے کر آئے، جو کہ میں نے وصول کر لیے اور پھر ان سے چند ایک دن کی مہلت چاہی۔ میرا اس کانٹریکٹ سے کوئی تعلق نہ تھا مگر ٹی-سی-ایس میں کام کرنے والے ایک دوست کے حوالے سے ان سے ملاقات کرنا پڑی۔ میں چاہتا تو انکے خلاف بات تو بہرحال کر سکتا تھا لیاقت صاحب سے، جو ان دنوں جاپان ایمبیسی میں ایڈمن کے انچارج تھے، مگر میں نے، سچی بات ہے کہ تنویر صاحب کے خلاف کوئی بات نہ کی مگر انکے حق میں بھی کوئی بات نہ کی کہ میں مجاز نہ تھا۔ انکو کانٹریکٹ مل گیا اور وہ اپنے تئیں میرا شکریہ ادا کرنے آئے اور مجھے کھانے کی دعوت بھی دی۔ عین اس لمحہ میں نے ان سے صرف پانچ سال قبل اپنے ساتھ انکے سلوک کی بابت بات کی اور کہا کہ محترم، میرے لیے بھی آپکو کتے کی طرح نکالنا ممکن تھا، مگر ایسا نہ کیا۔ اور اب آپکو اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ ایسا رویہ دوسروں کے ساتھ کبھی نہ روا رکھیں۔ انکی حالت دیدنی تھی، بہرحال، مگر انہوں نے اس واقعہ سے انکار کیا اور میں نے ان سے بحث کرنا مناسب نہ جانی۔ میری اسکے بعد ان سے کبھی دوبارہ ملاقات نہ ہوئی، مگر کہنا یہ ہے کہ مجھے تو کُتا کر کے انہوں نے اپنی طاقت کے زعم میں نکال باہر پھنکوایا، اور خود پانچ سال بعد میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

مضمون طویل ہوگیا، معذرت، مگر ذرا سوچئیے کہ کیا میری زندگی گنزہ سنٹر سے اترتے وقت اس توہین کے احساس کے وزن تلے دب کر ختم ہوگئی؟ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ایسا ہی محسوس کیا تھا کہ اب میری زندگی میں آگے کچھ باقی نہیں رہا، مگر آہا، میں آج زندہ ہوں، صحتمند ہوں، ترقی کر رہا ہوں، کاروبار، بھلے چھوٹا سا ہی سہی، چلا رہا ہوں، زندگی نے مجھے بہت/بہت/بہت نوازا ہے۔ تکالیف بھی اٹھائیں، اور اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، مگر دوستو، میں نے 1993کے دسمبر میں جس معاملہ کو اپنی زندگی میں "حتمی" جانا تھا، آج وہ میرے لیے ایک یاد اور سبق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اور یہی آپ سے ہی کہنا ہے کہ:

کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا!

جمعرات، 12 دسمبر، 2013

عمران خان صاحب کے نام کھلا خط



محترم جناب عمران خان صاحب:

تحقیق کہ سچ کہا جائے۔

آپکی زندگی میں پاکستانی نوجوانوں کے لیے بہت سارے مثبت سبق ہیں، بلاشبہ۔ آپ کے اکثریتی ووٹر شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ زندگی میں ایک مرتبہ ایک ڈاکٹر نے آپکے کندھے کا  غلط آپریشن کردیا جسکی وجہ سے آپکا کرکٹ کھیلنا تقریبا ختم ہوا چاہتا تھا، مگر آپ نے صرف اور صرف اپنی قوتِ ارادی سے اپنی جسمانی پرابلم کو شکست دی اور  جیسا کہ انگلش میں کہتے ہیں، "ان دی سکیم آف تھنگز" پاکستان کو دنیائے کرکٹ کی چوٹی پر ورلڈ چیمپیئن کی شکل میں لے گئے۔ آپکے بہت سارے ووٹر یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ آپ پاکستان، شاید دنیا، کے واحد کرکٹر ہیں کہ جنہوں نے ریٹائرمنٹ لی اور پھر مملکتِ پاکستان کے صدر نے آپ سے ذاتی درخواست کی کہ آپ اپنا فیصلہ واپس لیں۔ یقینا دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی درست ہے کہ آپ نے زندگی میں جس کام کی ٹھانی، کر ڈالا اور  بہت سارے حوالوں سے معاشرے میں پائی جانے والی معاشرتی اور سیاسی منافقت سے کام نہ لیا، بلکہ اپنی جوانی کے واقعات سے لیکر اپنی ذات کی ہیئتِ ترکیبی میں آنے والی تبدیلی، سب اپنے چاہنے والوں سے شئیر کیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ذات کی حیثیت میں اتنا سچ کسی پاکستانی نے لوگوں کے سامنے نہ بولا، اور شاید آنے والے بہت/بہت/بہت سالوں تک نہ بولیں، کہ جتنا آپ نے کہا۔

تحقیق، کہ جو ہے، وہی کہا جائے۔

آپ نے اپنی والدہ مرحوم و مغفور ،محترمہ شوکت خانم سے اپنی محبت کا بےپایاں ثبوت پاکستان کو پہلا کینسر ہسپتال دے کر دیا۔ تعلیم کے میدان میں نمل یونیورسٹی جیسی درسگاہ قائم کر ڈالی کہ جسکے ساتھ ندی کے کنارے بیتی ہوئی ایک شام میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر مجھے شاید کبھی نہ بھولے۔ آپ نے اپنی سیاسی جماعت قائم کی اور لوگوں کے شدید مذاق اڑانے، ٹھٹھہ کرنے اور ہمت توڑنے کے باوجود ڈٹے رہے۔ مجھے آپکے 1997 کے ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات ابھی تک یاد ہیں کہ جس میں آپ نے پاکستان میں قائم سیاسی بھیڑ چال کو چیلنج کیا اور لوگوں کو باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کا کہا۔ مجھے وہ فضا بھی یاد ہے جب بہت سارے "پاکستانی دانشوران" کا ایک جمِ غفیر آپکے آس پاس اکٹھا ہوا اور جیسے آیا، ویسے ہی آپکو تنہا چھوڑ کر اپنی اپنی ذات، اور دماغی دکانوں کے ڈربوں میں جا گھسا۔ آپکو بھی اس وقت احساس ہوا ہو گا کہ وہ لڑنے نہیں، صرف "بانگیں" دینے والے مرغے، اور مرغیاں، تھے۔ مگر آپ ڈٹ کر کھڑے رہے، اور آگے بڑھتے رہے اور آپکی سیاست بھی ہچکولے کھاتے ہمراہ رہی۔ آپ پاکستان کے وہ واحد سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر نیشل/سیٹلائٹ میڈیا پر قوم سے معافی مانگی اور اپنے اس قدم کا کبھی دفاع نہ کیا۔ اسی ملک میں دوسرے بھی تھے، اور ہیں، جو جنرلز کو ڈیڈی کہتے رہے اور جن کو جنرلز نے اپنی زندگی بھی لگ جانے کی دعا دی، مگر انکے ظرف میں قوم سے معافی مانگنا شاید توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

آپکی جماعت اکتوبر 2011 کے لاہور جلسے کے بعد، انگریزی زبان کے مطابق "اِز برسٹنگ ایٹ دا دسِیمز" کے دور سے گزری اور آپ سے بہت سارے غلط اور کچھ درست فیصلے بھی ہوئے۔ بہت سے لوگ آپکے ساتھ آن ملے اور انہی میں سے بہت سارے فورا فرار بھی ہوئے۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں نے آپکی پارٹی سے رابطہ کیئے بغیر، خود ہی سے پریس کانفرنسز میں تحریکِ انصاف  میں شمولیت کا اعلان کیا اور پھر خود ہی سے باہر ہو لیے۔ آپ نے اس شدید دباؤ کے دور میں بھی کبھی اپنی عزتِ نفس اور پارٹی کے وقار پر، اپنے تئیں، کوئی حرف نہ آنے دیا۔

یہی سچ ہے۔ جس نے جو کہنا ہے کہتا پھرے، مگر اوپر جو کچھ بھی تحریر کیا گیا، وہ سچ کے علاوہ کچھ نہیں۔

2013 کے الیکشنز میں، بے شک آپکی اور آپکے ووٹرز کی بہت امیدیں تھیں کہ تحریکِ انصاف پاکستان میں کوئی بہت بنیادی جوہری تبدیلی لےکر اکثریت حاصل کر لے گی۔ میں جانتا تھا کہ ایسا اس لیے نہ ہوگا کہ یہ سیاسی حکمت اور سوچ کے خلاف بات ہےکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور اقوام اپنے مزاج میں مل جانے والی عادات جلدی میں نہیں بدلتیں۔ یہ ممکن نہ تھا شروع سے ہی مگر ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے ووٹرز کی امیدیں قائم رکھنا بھی آپ پر فرض تھا اور آپ نے یہ فرض بخوبی سرانجام دیا۔ 2013 کے الیکشنز نے آپکو، 2002 میں ایک  سیٹ  والی پارٹی سے پاکستان کی ووٹ حاصل کرنے والی دوسری بڑی جماعت بنا ڈالا، خیبر پختونخواہ میں آپکی حکومت قائم ہوئی، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں اپوزیشن کی سیٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے کورٹس سے باہر نکلی، کراچی میں آپکی جماعت نے ایم کیو ایم کا ڈٹ کر سیاسی مقابلہ کیا اور یہ کام جماعت اسلامی بھی ویسے نہ کرپائی کہ جیسے آپکی تحریک نے کر ڈالا۔ آپ واحد وفاقی سیاسی  رہنما ہیں کہ جو بلوچستان میں کھلے عام سیاسی جلسہ کرتے ہیں، فاٹا جانے کی کوشش کرتے ہیں، کے پی کے شورش زدہ علاقوں میں بےخوف جاتے ہیں۔ آپ کے سیاسی کردار نے پاکستان کے وفاق میں نئی امیدیں جگائیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپکی جماعت کا فوکس ابھی بہت ہٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور آپکی جماعت ابھی ایک مستقل ردِعمل کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے

آپ کی جماعت کے پاس کےپی کی حکومت ہے۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ڈرون کے ردِعمل میں طالبان اپنا جاہلانہ تشدد پاکستانی شہریوں کےخلاف کرتے ہیں کہ انکی ترکیب ہی متشدد، مجرمانہ اور حرام کے ذریعے سے پیسے حاصل کرکے اپنی کارروائیوں کو چلانے والی ہے، ان سے کیا، کِس اور کیسی شریعت کی توقع کرنا کہ انکے کسی امیر میں کوئی مذہبی قابلیت نہ تھی اور نہ ہوگی کہ اسلام کو سمجھنے اور جاننے والا کسی زندہ انسان کا گلا کبھی نہیں کاٹتا! آپ نے مارچ کیا ڈرون کے خلاف اور دھرنا دے ڈالا۔ معذرت مگر اگر آپکا سٹانس ڈرونز کے خلاف عوامی جذبات کا مظہر ہوتا تو، آپکے احتجانی کیمپ جو پشاور رنگ روڈ پر ہے، پر جمِ غفیر ہوتا جبکہ وہاں گن کے بارہ لوگ بھی شاید نہ ہوتے ہوں اور ان چند ایک میں اکثریتی فارغ اور بےکار لوگوں کی ہی ہوگی۔ اس رنگ روڈ کے پیچھے لاکھوں کی آبادی والا پشاور شہر اس کیمپ کو نظرانداز کرکے اپنےکاموں میں مصروف رہتا ہے۔

طالبان کے ظلم اور تشدد نے کے پی میں صنعتوں کو تباہ کر ڈالا، درست ہے، مگر محترم، کے پی کی معیشت کا  شاید 83٪ تو زراعت پر مبنی ہے اور بجائے آپ 17٪ یا کم پر توجہ دیں، پوچھنا یہ ہے کہ کے پی میں روز روز کے احتجاج سے 83٪ معیشت کی کیا خدمت ہو رہی ہے؟ نہ صرف یہ بلکہ یہ مسلسل احتجاجی رویہ آپکی پارٹی، اسکے رہنماؤں اور کارکنان میں ہر وقت "تنی کمانوں" والا رویہ موجود رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کرنے والے کام وہیں کے وہیں جہاں وہ پچھلے دور میں تھے۔ آپکی کے پی حکومت کے پاس کروڑوں کی آبادی والا ایک صوبہ اور اس صوبے میں چلنے والے ہزاروں معاملات ہیں۔ زراعت، سڑکیں، پولیس، لوکل گورنمنٹس، آبپاشی، لوکل ٹیکسز، تعلیم، خواتین کی مین-سٹریمنگ، پولیو، بچوں کےلیے معیاری تعلیمی ماحول، کھیل، تفریح، ثقافت، موسیقی، ادب، شاعری، پینے کا پانی، سِوِک سروسز، رہداریاں، آبی ذخائر، بجلی، سیاحت، بنیادی و اجتماعی صحت، معاشرتی ترقی، دیہی ترقی، گھریلو صنعتوں کی ترویج، لوکل ثقافی آرٹس اور کرافٹس و دیگر امور شامل ہیں۔

مگر آپ نے ڈرون حملے کو ہی مشقِ ستمِ سیاسی ہی کیوں بنا ڈالا؟ آپ نے احتجاج کا حق ہی کیوں استعمال کرنا جانا اور اوپری درج معاملات میں ترقی اور بہتری کیوں بظاہر پسِ پشت ڈال دی؟ آپ نے گورننس کے معاملات میں بہتری اور اعلیٰ معیار دکھانے کی بجائے سیاست میں شدت کے عنصر کو ہی کیوں اپنا "ریزن ڈی ایٹرا" بنایا ہوا ہے؟ آپکے مسلسل احتجاج سے، کیا پوچھنا میرا حق نہیں، کہ اوپری درج اور بہت سے دیگر شعبات میں کیا ترقی ہوئی؟ چلیں چار چھ ماہ میں ترقی کا  پوچھنا شاید مناسب معلوم  نہ ہو، مگر کیا پالیسی معاملات طے پائے ؟ کیا غوروفکر ہوا اور فہم و فراست کے ساتھ ان سماجی و سیاسی معاملات کوترقی کی جانب گامزن کرنے کا کیا روڈ-میپ طے پایا؟ اور اگر ان معاملات پر درست سمت میں کوئی پیش قدمی ہوئی ہے تو آپکی حکومت کی کمیونیکیشن کہاں ہے اور لوگ کیا جانتے ہیں اس حکومت کی پرفارمنس کے بارے میں؟

آپ اور آپکی جماعت سے اکثر اوقات کے سیاسی احتجاج نے، معذرت کہ بہت سے مجھ جیسے آپکے ووٹرز کو بددلی اور مایوسی کی سڑک پر ڈال دیا ہے۔ اگر احتجاج کرنا اور بلند آواز سے بولنا ہی تبدیلی کی سیاست تھی تو یہ کام محترم لیاقت بلوچ، طاہر القادری اور الطاف حسین صاحب تو پہلے سے ہی کر رہے تھے، آپ کے اتنی محنت کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی پھر؟ ابھی سنا ہے کہ آپ لاہور میں شاید 22 دسمبر کو غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ آپکا احتجاج قیمتیں کم کرنے میں کیا جادوگری دکھائے گا اوراس کے بعد چک نمبر 13 گ-ب میں منیرے نائی کی زندگی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور پھر اسکی اور اسکے خاندان کی زندگی میں بہار آ جائے گی؟ بہت ہوا، محترم، تو آپکے احتجاج سے لاہور کے اس علاقے میں منرل واٹر کی بوتل ذرا مہنگی ہوجائے گی اور اس دن برگر کافی بکیں گے آپکے احتجاجی جلسے کے آس پاس کے علاقوں میں۔ تبدیلی بہرحال نہ آئے گی۔

مجھے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ 22 دسمبر کے احتجاج سے پہلے ہی آپکی جماعت اگلے احتجاج کا اعلان نہ کر ڈالے اور رفتہ رفتہ آپکی جماعت کا دوسرا نام "پاکستان تحریکِ احتجاج" پڑ جائے۔ یقین کیجیئے کہ طنز مقصود نہیں، مگر جو لکھا ہے وہ ایک سچے اور ٹیکس گزار پاکستانی کی حیثیت سے لکھا ہے۔ میں ریاست کو ٹیکس دیتا ہوں تواسکے بدلے مجھے زندگی میں سکون، ترقی، امن اور امان چاہیے نہ کہ پشاور رنگ روڈ پر غریب ڈرائیورز کے پٹائی کرنے اور کپڑے اتارنے والے جوشیلے سیاسی کارکن جو جذباتی ہیجان میں اپنی زندگی میں فراغت اور ناکامیوں کا بدلہ غریب ڈرائیوروں کی داڑھیاں کھینچنے میں لے رہے ہیں۔

آپکی جماعت پر کروڑوں پاکستانیوں نے اعتماد احتجاج نہیں، بہتریں مثالیں قائم کرنے کے لیے کیا تھا۔ آپ سیاستدان ہیں، سیاسی تدبر کی امید ہے آپ سے اور وہ بھی مشکل ترین حالات میں۔ اگر حالات آئیڈیل اور مثالی ہوں تو صاحب، حکومت تو میں بھی کر اور چلا سکتا ہوں اور شاید منیرا نائی بھی کہ مثالی حالات میں حکومت چلانا بھی بھلے کیا کمال ہو گا؟

مضمون طویل ہوگیا، آپ سے معذرت خواہ ہوں اور آخر میں آپکے پرجوش کارکنان کی اکثریت سے یہ کہتا چلوں کہ میں 1993 سے پاکستانی ووٹر ہوں اور آپ کے شاید 90٪ ووٹر اس وقت عالمِ ارواح میں اپنے کروموسومز کے جوڑے بننے کا انتظار کر رہے تھے جب میں  ملکوال میں ووٹرز کی لائن میں لگا ہوا تھا۔ 1993 میں پی پی کو ووٹ دیا کہ خاندانی رجحان تھا، 1997 میں پھر پی پی کو کہ فاروق لغاری زیادتی کر گئے، 2002 میں پی ایم ایل این کو کہ مشرف نے حماقت کا ارتکاب کیا اس پارٹی کے خلاف، 2008 میں پھر پی ایم ایل این اور آخر میں ابھی، 2013 میں آپکی پارٹی کو۔ ابھی یہ آپکی پارٹی کی چوائس ہے کہ مجھ سے غیرتقلیدی رویہ کے حامل ووٹرز کو آپ اپنے احتجاج سے "متاثر" کرتے ہیں یا اپنی حکومت کی "حکمت" دکھاتے ہیں۔ پاکستانی ووٹر آپکے حق میں بدلا ہے، یہ آپکے خلاف بھی بدل سکتا ہے۔ آخری فیصلہ بہرحال، آپکے اپنے ہاتھ میں ہے۔

اللہ تعالیٰ آپکو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

آپکا مخلص،

مبشر اکرم
اسلام آباد

پیر، 9 دسمبر، 2013

جنت کی کنواریاں



دوستو، فروری 2007 میں، میں اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ اسلام آباد میلوڈی فوڈ پارک میں اس شام ڈھاکہ فرائیڈ فِش کھا رہا تھا جب اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے ایک حافظ صاحب نے خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں انکا نیچے والا دھڑ اڑ گیا تھا اور وہ تقریبا 30-40 منٹ زندہ رہا اور پھر اسکا معاملہ اللہ کے سپرد ہو گیا۔ اس پر کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان سے خود کش حملہ کروانے والوں نے پندرہ لاکھ روپے انکے خاندان کو دینے کا وعدہ کیا تھا اور  انکی تین بیٹیا ں تھیں۔ انکے خاندان کو پندرہ لاکھ کبھی بھی نہ مل سکے اور گھر میں شدید غربت اور فاقہ کشی کےمارے، انکی بیوہ نے اپنی تینوں بیٹیاں ڈی جی خان پریس کلب کے سامنے "برائے فروخت" رکھ ڈالیں۔ یہ چھوٹی سی کہانی اس سچے واقعہ کے اوپر ہی لکھی گئی ہے۔ جانتا ہوں کہ اسلوب اعلٰی نہ ہوگا اور کہانی بھی کچی ہی محسوس ہو گی کہ میں افسانہ نگار نہیں۔ مگر لکھا اس لیے کہ خود کشوں میں دینی اور معاشرتی گلوری تلاش کرنے یا انکا دفاع کرنے والے جانیں کہ مرنے والے مر جاتے ہیں، انکے خاندان ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے میرے اس سٹانس پر ایک مرتبہ لکھا تھا کہ یہ اعتراض ایسا ہے کہ جیسے دوسروں کے بچے اور بچیاں بکنے کے لیے کبھی بھی پیش نہیں ہوئے سربازار۔ ان سے بحث نہ کی، کہ انکے مذہبی فہم کا میں ذمہ دار  نہ تھا، نہ ہوں اور نہ ہی ہونگا۔ انکے فہم کا معاملہ وہ جانیں اور اللہ جانے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں رہ کر کام کرتے ہوئے اس قسم کا خودکش کرکے وہ، یا کوئی اور بھی اپنی بیٹیوں کو یتیم کرنا نہ  چاہے گا۔ مگر کسی دوسرے کے کیے ہوئے خودکش حملے اور اسکے خاندان کا وارث اللہ کو بناتے وقت، وہ اللہ، اسکے رسولؐ اور صحابہؑ کی دیگر تعلیمات اور زندگی میں شدید کوشش کرنے اور فلاحِ انسانی کے پیغام کو سکون سے بھول جاتے ہیں۔ کہ "کون سا میں نے کرنا ہے خود کش، مگر چونکہ یہ میرے فہم کے خلاف بات ہوئی ہے، لہذا اسکا دفاع بھی  ضروری!" --- اس سوچ سے بچیں۔

نام بدل ڈالے ہیں اس ساری کہانی میں۔ کچھ زبان بازاری استعمال کی ہے شروع میں۔ اسکی دل سے معذرت چاہتا ہوں۔ درگذر کیجیے گا۔ مگر سوچا کہ کہانی تو بہت پکی نہ لکھ پایا، مگر جتنا حقیقت کے قریب کر سکوں، کر ڈالوں۔ مگر اس پر دل سے معافی بہرحال قبول کیجیے۔


ملاحظہ کیجئے۔ اللہ آپ سب کو دینِ مُلا کی تشریحات سے آگے اور اوپر بڑھ کر جینے کی توفیق عطا فرمائے کہ اسلام آپکی شلوار کے پائنچے کی اونچائی میں نہیں، ستاروں، خلاؤں، آسمانوں، سمندروں، لوگوں، معاشروں، محلوں اور لوگوں کی بات زیادہ کرتا ہے۔ 

کہانی شروع ہوتی ہے

----


"اوئے حفیظ، دیکھ اسے۔ مولوی مرا ہے کہ نہیں،" حافظ شراکت کے کان میں آواز آئی۔

"زندہ ہے بھین چود۔ ابھی مر جائے گا۔ آدھا دھڑ تو اڑ گیا، خون بھی نہیں رک رہا۔ مرے کتے کا بچہ، آیا تھا بڑا ہمیں مارنے،" شاید کہ حفیظ نے کہا، حافظ شراکت نے سوچا۔

"ایمبولنس کو فون کیا؟" پہلے والی آواز نے دوبارہ پوچھا، اور حافظ شراکت کے سن ہوتے ہوئے ذہن نے اپنی زندگی کی شدید ترین اذیت محسوس کرنا شروع کر دی۔

"جی سر،" ایک مختلف آواز نے کہا۔ "آتی ہی ہوگی، مگر سر، مجھے اسکا بچنا بہت مشکل لگ رہا ہے، ٹانگیں اڑ گئیں اور خون بھی بہت ضائع ہو رہا ہے۔ مر جائے گا۔" اسی آواز نے کہا۔

حافظ شراکت کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ مرنے کے قریب تر ہو رہا تھا۔ شدید ترین تکلیف اور اذیت میں اس نے کچھ کہنے کے لیے مونہہ کھولا، مگر الفاظ نہ نکل سکے۔ "حفیظ، جلدی سے کان لگا اسکے مونہہ کے ساتھ۔ سن کیا کہنا چاہ رہا ہے؟" سب سے پہلے والی آواز پھر آئی۔ حافظ شراکت نے حفیظ کے ہیولہ اپنے سامنے آتے ہوئے دیکھا اور پھر اسکے مونہہ سے گالی سنی "کیا بولنا ہے مادر چود نے،" مگر اپنا کان حافظ شراکت کے قریب کر لیا۔ "پانی، اللہ کے واسطے، پانی،" حافظ شراکت بمشکل بولا۔ "اوئے مراد، جلدی سے پانی دے، مولوی کو۔ مر تو جانا ہے، ماں کے کھسم نے، پانی ہی پلا دے، دس نیکیاں ملیں گی تجھے۔" تھوڑی دیر میں حفیظ کے ہیولے نے حافظ شراکت کا سر اوپر کر کے پانی پلایا۔ گلا تر ہوا تو آواز مزید بہتر ہوئی تو کہنے لگا " تم سارے گناہگار ہو، جہنم میں جاؤ گے۔ اور تم میرے اتنے خلاف کیوں ہو؟ تم بھی مسلمان ہو، میں بھی، میں نے تو اللہ کے دین کی اپنی جان سے خدمت کی ہے"

"اوئے مولوی، بکواس نہ کر، اپنا اتا پتا بتا۔ بڑا آیا، جنت اور جنہم کا داروغہ۔ کدھر سے آیا ہے، کس نے بھیجا ہے، کس کے لیے کام کر رہا ہے اور کیوں یہ کام کیا تو نے؟" حفیظ نے ٹوکا اور اسے ڈانٹ کر سوال کیے۔

حافظ شراکت کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ وجود میں سے اب شدید اذیت کے اثرات ختم ہو کر ایک سُن ہونے والی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی۔ آنکھیں بند ہونا شروع ہوئیں، زبان نے ساتھ دینا چھوڑنا شروع کر دیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں، مگر سانس چل رہی تھی۔ حافظ شراکت کی آنکھوں کے سامنے اپنی تینوں بیٹیوں، سکینہ، کلثوم اور  عتیقہ کے چہرے آ گئے۔ آتے وقت کلثوم اور عتیقہ نے اپنے بابا سے گڑیوں اور لال رنگ کے دوپٹوں کی فرمائش کر ڈالی تھی۔ سکینہ سب سے بڑی تھی، پورے چودہ سال کی، سب سے صابر اور کلثوم اس سے ایک سال ہی چھوٹی جبکہ عتیقہ دس سال کی تھی۔  "تُو کیا لے گی اپنے بابا سے؟" حافظ شراکت نے اپنی بڑی بیٹی سکینہ سے پوچھا تھا، اسے یاد تھا۔ "کچھ نہیں بابا، بس اس سال عید پر نئے جوتے لے دینا۔ میری ہمسائی شمسہ میرا مذاق اڑاتی ہے کہ تمھارا بابا تمھارے لیے کچھ نہیں لاتا۔"

فکر نہ کر بیٹی، تمھاری ماں اس سال، تمھیں نئے جوتے بھی لے کر دے گی اور کپڑے بھی، حافظ شراکت نے ایک اداس سے مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا، مرتے ہوئے دماغ اور جسم میں بیٹیوں کی یاد نے اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلا دی۔ "اب اپنی ماں کو تنگ نہ کرنا اور نہ ہی آپس میں لڑنا،" حافظ شراکت کو یاد تھا جو اس نے ان تینوں کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا تھا۔ جانے سے قبل اس نے  اپنی سدا کی صابر بیوی،  شازیہ، کو ایک بار جی بھر کے دیکھا اور سوچا کہ پندرہ سال کے سفر میں وہ کتنی بوڑھی ہو گئی تھی۔ جانے سے پہلے اس نے شازیہ سے کہا کہ کچھ لوگ ٹھیک مارچ کی یکم تاریخ کو کچھ پیسے لے کر آئیں گے، "وہ رکھ لینا، میں ذرا کام سے دوسرے شہر جا رہا ہوں۔ امید ہے کہ مزدوری اچھی مل جائے گی وہاں۔ اور ہاں، جتنے بھی پیسے ہوئے، وہ تمھارے اور میری بیٹیوں کے لیے ہیں۔ احتیاط سے استعمال کرنا،" حافظ شراکت کو یہ بھی یاد تھا کہ شازیہ نے کیسے مسکرا کے اسکی طرف دیکھا تھا۔

"مولوی، تو ہنس کیوں رہا ہے،" حفیظ کے ہیولے نے اس سے پوچھا۔

حافظ شراکت نے اپنی آنکھیں بمشکل کھولیں، کچھ کہنا چاہا، مگر اسے محسوس ہو گیا کہ یہ اسکا آخری لمحہ تھا۔ اس نے ایک لمحہ سے بھی کم وقت میں سکینہ، کلثوم اور عتیقہ کے سر پر ہاتھ پھیرا، کلمہ پڑھنے کی کوشش کی، مگر زبان سے ادا نہ ہوا، اور وہ کلمہ پڑھے بغیر ہی اپنے باقی ماندہ جسم میں باقی تکلیف اور جان کے عذاب سے نکل گیا۔

"مر گیا ہے سر۔ ایمبولنس کے سائرن کے آواز بھی آ رہی ہے، یہ سالے میڈیکل کور والے سارے ہی نرسیں ہیں، ھمیشہ ہی دیر سے آتے ہیں،" حفیظ نے کہا اور  حافظ شراکت کا سر زمین پر رکھ دیا۔

-----

حافظ شراکت نے اتنا ہلکا پھلکا کبھی اپنے آپ کو محسوس نہ کیا تھا۔ وہ  ایسے کہ جیسے ہوا میں اڑ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس بدبودار اور قید خانہ نما دنیا سے بہت دور اپنے آپ کو جنت میں اللہ کی رضا سے داخل ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس نے صرف نفع کا سودا کیا ہے۔ اس میں نقصان کوئی نہیں، کم از کم اسے قاری حسین نے یہی بتا یا تھا۔ اسے "بشارت "دی تھی کہ تمھارے لیے آسمانوں پر حوریں گیت گائیں گی اور تمھارا استقبال کریں گی۔ تمھیں وہاں کوئی مسئلہ نہ ہوگا اور تمھارے خاندان کو یہاں کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ تمھاری عظیم قربانی کے ہم پورے پندرہ لاکھ دیں گے، کبھی دیکھے ہیں پندرہ لاکھ، قاری حسین نے اس سے پوچھا تھا۔ "جی نہیں، کبھی نہیں دیکھے،" حافظ شراکت نے جواب دیا تھا۔  "پندرہ لاکھ لاؤ، اور اسے دکھاؤ،" قاری حسین نے اپنے کسی  شاگرد کو حکم دیا اور یوں حافظ شراکت نے زندگی میں پہلی بار پندرہ لاکھ روپے ایک تھیلے میں اکٹھے دیکھے۔

"یہ سب تمھاری بیوی اور بچوں کے پاس جائیں گے، فکر نہ کرو،" قاری حسین نے کہا اور قران پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تھی۔

-----

زمان و مکان کی قید سے اب وہ آزاد تھا۔ مگر میرا بلاوا کیوں نہیں آ رہا  جنت کے لیے، حافظ شراکت نے سوچا۔ اسی بے وزنی کی کیفیت میں باالآخر  اسے یکدم بڑی شدت سے سخت جلتی ہوئی زمین پر گھسیٹے جانے  کا احساس ہوا۔ اس نے آس پاس دیکھا تو نہایت ہی خوفناک شکلوں والی مخلوق اسکے گرد گھیرا ڈالے اسے بے دردی سے گھسیٹ کے لیے جا رہی تھی۔

میں جنتی ہوں، میرے ساتھ یہ سلوک نہ کرو، حافظ شراکت چلایا۔

تُوجنتی نہیں، جہنمی ہے۔ تُونے اللہ کی دی ہوئی زندگی اپنی مرضی سے ختم کر ڈالی، تُو نے چار معصوم بچے مار ڈالے، تُو نے دو عورتیں، تین مرد اور ایک بزرگ قتل کر ڈالا، تُو، توُ کہاں سے جنتی ہے؟ جواب آیا۔

نہیں، نہیں، تمھیں کوئی غلطی لگی ہے، میں تو پکا جنتی ہوں، مجھے قاری حسین نے خود بتایا تھا،  حافظ شراکت نے جواب دیا اور انکے نرغے سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔

قاری حسین جب آئے گا، اسکا اپنا حساب ہو گا۔ ابھی تو تیری پیشی پکی ہے جہنم میں۔ اب تو آگ سے زیادہ دور نہیں، جہاں تو رہے گا، اسے جواب ملا۔

 جہنم ٹھکانہ کا سن کر وہ چیخا، اور کہا کہ میں تو جنت کا متلاشی تھا۔ اور مجھ سے یہ کام صرف اللہ کے دین کی بلندی کی خاطر ہی سرزد ہوا۔ میری سن لو۔ قاری حسین سے پوچھ لو۔ اس نے بشارت دی تھی۔میں حافظ ہوں، قران میرے سینے میں ہے، کچھ اسکا خیال کرو۔میری تین بیٹیاں ہیں، میں نے انکی بڑے پیار سے پرورش کی ہے، کیا یہ بھی میرے اور جہنم کے درمیان دیوار نہ بنے گا؟ میرے ساتھ تو جنت کی کنواریوں کا وعدہ تھا، دوزخ کے شیاطین کا نہیں ، حافظ شراکت نے  چلا چلا کر منت کی۔

جو مرگئے، وہ بھی کسے کے بچے تھے، ان میں بھی حفاظ اور نمازی تھے، اور تیری طرح اللہ کی رحمت سے مایوس نہ تھے کہ اپنے بچوں کی خاطر دوسروں کے بچوں کو یتیم کرتے پھرتے۔ مگر تیرے سینے میں کسی زمانے میں قران تھا، جو کہ اب نہیں، مگر بتا کہ تیری ایک خواہش پوری ہو سکتی ہے، بول کیا خواہش کرے گا تُؤ؟

حافظ شراکت نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ نامعلوم کتنا عرصہ بیت گیا اسکے مشن اور اسکی اس حالت کے درمیان۔ بےبسی کے عالم میں اسے سکینہ، کلثوم اور عتیقہ بہت یاد آئیں۔ "مجھے اپنی بیٹیوں کو دیکھنے دو کہ کس حال میں ہیں۔ مجھے ان کو دیکھنے دو، میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، میں نے ان سے کسی بھی باپ سے بڑھ کر پیار کیا ہے۔ مجھے انکو دکھا دو۔ میں نے دیکھنا ہے۔

اور اسکی خواہش کے مطابق اسے کچھ دیر کے لیے وہی مخلوق زمین پر دوبارہ لے کر آئی۔

-----

حافظ شراکت نے اپنا گھر پہچانا۔ اپنی بوڑھی ہوتی ہوئی بیوی کو پہچانا۔ سکینہ، کلثوم اور عتیقہ کو پہچانا۔ "بڑی ہو گئیں ہیں،" اس نے سوچا اور انکو زور سے آواز دی۔ مگر اسکی آواز نہ سنی گئی۔ پھر اسے اپنے قاری صاحب کا پڑھایا سبق یاد آیا کہ دو مختلف جہانوں کی مخلوقات ایک دوسرے سے عالم اسباب میں بات نہیں کر سکتیں۔ مگر وہ اپنے خاندان کے آس پاس ہونے والی بات سن سکتا تھا۔

یہ، یہ  دو مرد کون ہیں، میرے گھر میں اور میری بیٹیوں کے پاس بیٹھا کیا کر رہےہیں؟ اس نے شدید غصہ محسوس کیا اور جیسے ہی وہ قریب گیا تو اسے نے سنا کہ ایک گہرے پکے سانولے رنگ والا دوسرے ذرا امیر دکھنے والے شخص سے کہہ رہا تھا:

او شاہ جی، فکر نہ کریں۔ اصلی مال ہے۔ آپ کو پہلے کبھی کوئی شکایت ہوئی جو اب ہو گی، آپ انکو دیکھیں تو سہی میرے کہنے پر۔ مال پسند نہ آئے تو آپکو جرمانہ دونگا۔

"دیکھ لےبِلے، اس سے پہلے بھی تو نے پچھلے ہفتے ایسی ہی بات کی تھی، مگر مال ٹھیک نہ تھا،" جواب آیا۔

او نا جی موتیاں والیو۔ آپ دیکھیں گے تو آپ بھی کہیں گے یہ تو  پوری کی پوری "جنت کی کنواریاں ہیں۔"

حافظ شراکت اس سے آگے اور کچھ نہ سن سکا۔

-----

قاری حسین نے نصیب گل کو دیکھا اور کہا، فکر نہ کر میرے بیٹے، تیری ماں اور باپ کو پورے پندرہ لاکھ ملیں گے، پورے پندرہ لاکھ۔ کبھی دیکھے ہیں پہلے اپنی زندگی میں؟

----
کہانی ختم ہوئی