جمعرات، 14 نومبر، 2013

لالہ موسیٰ کاولی

چار ہفتے قبل مجھےمیرے ایک دوست، خرم، نے کہا کہ بےچینی بہت ہے، مالی و دنیاوی کامیابی کے باوجود اور مجھے "کسی ولی کا پتا بتاؤ کہ میں جاؤں اورجاکر اپنی بےچینی کا علاج کرواؤں۔" میں نے جو مشورہ اسے دیا، وہ ورزش، واک، کتب بینی اور اپنے آس پاس کے ماحول کی تبدیلی کا تھا کہ میں ذاتی حیثیت میں ماں باپ اور آپکی اور آس پاس کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے والوں کو  ہی فی زمانہ اللہ کا ولی سمجھتا ہوں۔ 

ہم میں سے بہت سارے اولیاء کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور ایک خاص ذہنی خاکہ بنائے انسانوں میں روحانی اور میٹافزیکل معجزات تلاشتے رہتےہیں۔ ملتا کچھ نہیں کہ انسانوں سے معجزات کی کیا توقع؟ بلکہ "اسٹیبلشڈ اولیاء" سے معجزات کی توقع رکھنے والے اپنا وقت ہی ضائع کررہے ہوتے ہیں جبکہ انکے آس پاس روزانہ بہت سارے انسان ایسے بےشمار معجزات کر رہے ہوتے ہیں، مگر مجھ سے عامی انہیں دیکھ ہی نہیں پاتے۔

میں اسی لیے آپکو آج لالہ موسیٰ کے ایک سچے ولی کی داستان سناتاہوں، مگر یاد رہے کہ اسکا تعلق ایک مشہور کالم نگار سے نہیں، آہو!

1999 کی بات ہے، میں جاپانی سفارتخانے کے شعبہ سیاسیات میں ایک اسسٹنٹ تھا۔ ستمبر کے مہینہ میں ایک پبلک اشتہار کے ذریعہ میں نے امریکن سفارتحانہ میں شعبہء سیاسیات میں اسسٹنٹ کی ملازمت کےلیے اپلائی کیا۔ تین ماہ کے بعد، نومبر کے مہینہ میں مجھے اس ملازمت کے لیے چن لیا گیا اور چنوتی کے اس عمل میں میرے حوالے ایک فارم کیا گیا کہ اسکو بھرنا ہے۔ یہ ایک سٹینڈرڈ فارم تھا جو کہ آپکا نام، تجربہ، شناختی کارڈ نمبر وغیرہ کی معلومات کو اکٹھا کرتا ہے، اور بس۔ میری تنخواہ، دس ہزار سے چودہ ہزار مقرر ہوئی اور میں خوشی سے پاگل کہ اب میں ایک بڑا افسر بن گیا ہوں تو کیوں نہ اپنے قصبہ، ملکوال، جا کر والدین کو یہ اطلاع دوں کہ "اماں، تیرے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے، اماں۔ اب ہمارے سارے مسئلے حل ہو جاویں گے۔" اسی فیصلے نے مجھے رات بارہ بجے والی پشاوری جی ٹی ایس نیلی ہینو بس پر فیض آباد سے سوار کرایا کہ میں چار یا پانچ بجےکے آس پاس لالہ موسیٰ اترکر چھ سے سات کے درمیان آنے والی چناب ایکسپریس پر بیٹھ کر ملکوال جا نکلوں گا۔

ڈرائیور صاحب نے شاید مردان میں بنی  ڈبل چونے والی ایف سولہ نسوار کھائی ہوئی تھی تو میرے اندازے سے قبل ہی لالہ موسیٰ پہنچ گئی بس۔ میرے لالہ موسیٰ پہنچنے سے قبل ایک واقعہ اور بھی مگر وہ پھر کسی دن سہی کہ اس سے یہ تحریر کافی طویل ہو جائے گی۔

ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر میں نے بنچ پر بیٹھ کر آس پاس ایک نگاہ تکبرانہ ڈالی کہ ان عامیوں میں اب ایک افسر بھی بیٹھا ہے۔ ہا! اور دو کپ چائے پینے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ طویل فارم ہی بھر لیا جائے۔ اپنے بنچ کے سامنے پڑے ایک سٹُول کو میں نے اپنی طرف کھینچا اور اس پر اپنے بیگ سے نکال کر فارم رکھا اور اسے بھرنا شروع کر دیا۔ کویئ دس منٹ بعد میرے سامنے ایک عام انسان آیا   (یاد رہے کہ میں ان عامیوں میں ایک افسر تھا) اور اسکے گلے میں ایک لکڑی کے تختہ میں سگریٹ، پان، چھالیہ، عام بازاری ٹافیاں وغیرہ پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے دیکھا اور کہا کہ "بابا، میربانی، مینوں کج نئیں چاہی دا۔" مجھے دیکھ کر وہ ان پڑھ بوڑھا اور بدبودارعام مزدور مسکرایا اور کہنے لگا "خیر اے پتر،" مگر کھڑا میرے سامنے ہی رہا۔ میں نے سوچا کہ یار اس ملک کے یہ عام لوگ کبھی "انسان" نہیں بن سکتے اور اس بابے کو مکمل طور پر اگنور کر کے اپنے فارم میں ڈوب گیا۔

فارم بھرنے میں مجھے کوئی دو سے ڈھائی گھنٹے لگ گئے جس دوران وہ بدبودار بابا زیادہ تر میرے آس پاس اور سامنے ہی رہا۔ شدید چڑچڑاہٹ کے احساس کے باوجود توجہ سے اپنی افسرانہ ملازمت کا فارم بھرا اور پھر پورے سلیقے سے تہہ کرکے اپنے بیگ میں ڈالنے کے بعد میں نے اس بابے پر پھر چار حرف بھیجے اور پورے سلیقے سے وہ سٹُول اپنے سے پرے دھکیل دیا۔

جیسے ہی وہ سٹوُل میں نے پرے دھکیلا، اس عام جاہل اور بدبودار بابے نے وہ سٹول اپنی طرف کھینچا اور میں نے محض اسی وقت دیکھا  کہ وہ سٹول اس نے اپنی بائیں کٹی ہوئی ٹانگ کے نیچے رکھا اور اس سٹُول کی اونچائی بالکل اتنی کہ جس کے اوپر وہ اپنی کٹی ٹانگ رکھ کر آرام سے کھڑا ہو سکے۔

اس پراسس نے جس نے کہ بمشکل 15 سیکنڈز لیے، اس بابے کو  خوشبودار اور مجھے اس پلیٹ فارم پر موجود سب سے زیادہ بدبودار مخلوق بنا ڈالا۔ احساس شرمندگی اور ندامت ایسا کہ جیسے گھڑوں پانی میرے اوپر۔

خدا شاہد کہ بہت مشکل سے اپنے حواس سنبھالے اس ایک آدھ منٹ میں اور کہا "چاچا، جے کر ایہہ سٹُول تواڈا سی تے دس دینا سی، میں توانوں اوسے ویلے ای دے دیندا۔"

جواب آیا  "لے دس پُتر، جے میں تیرے کولوں سٹُو ل لے لیندا تے رب دیاں رحمتاں جیڑیاں میرے اتے ہویاں، اوہ   ولا  فیر ہونیاں سن؟"

یارو، میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ مگر  یہ کہ ایک سبق سیکھ لیا، ساری عمر کے لیے، وہ یہ کہ جو بدبو آپ کو دوسروں میں سے آ رہی ہو، ممکن ہے کہ وہ آپ کے اندر ڈھیروں اور بےشمار ہو۔ اور ایک سگریٹ بیچنے والا بابا آپ سے کہیں بہتر انسان ہو۔

انسان اپنی زندگی کے سفر میں بےشمار تجربات سے گزرتا ہے۔ میں بھی گزرا ہوں۔ آپ بھی گزرے ہوں گے۔ مگر اپنے ان تمام دوستوں سے کہ جو پیروں، فقیروں، سجادہ نشینگان، علما، فقیہان و دیگر میں سے اپنے لیے اولیاء تلاش کرتے ہیں، گذارش یہ کرتا ہوں کہ اپنے آس پاس دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا اور آپ بہت سارے ایسے زندہ انسانوں کو پہچان پائیں گے کہ جو اللہ کے ولی ہوں گے۔ اپنی تکلیف سے بےنیاز، اپنے اوپر جبر کرڈالنے والے، کار میں یا گفتار میں، مگر آپکو آسانی دینے والے۔ اور اسکی ابتدا ہوتی ہے آپکی ماں، پھر باپ اور پھر یہ چلتے پھرتے کردار۔

میرے تجربے کے مطابق "اسٹیبلشڈ صحافیوں"  کی طرح،  "اسٹیبلشڈ اولیاء"  بھی زیادہ تر، میرے دوستو، نرا ڈھکوسلا ہی ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات، انفلوئنس، کارپوریٹ اکانومی،  اور سماج میں اثریت وغیرہ کے غلام۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اپنی خواہشات کے غلام، بھلا آپکو کیا آزادی، سکون اور اصلیت دیں گے؟ خود سوچیں۔

مگر بہرحال، کسی بھی حوالے سے میرا اشارہ ایک مشہور لالہ موسوی صحافی کی طرف نہیں۔ لہذا انکے "جانثار" میری جان بخشی کریں، ایک مستقبل بینوی درخواست ہے۔