جمعہ، 13 فروری، 2015

مجھے اسکی کہانی معلوم نہ تھی







زندگی میں، یارو، بہت سے مقام آتے ہیں۔ کچھ پر آپ ٹھہر جاتے ہیں اور کچھ آپ پر ٹھہر جاتے ہیں۔ مقام، آپ پر بیتے، یا آپ مقام پر بیت جائیں، شاید اسی عمل کے دوران انسانوں کی یادیں بنتی ہیں۔ کچھ یادیں، آہستہ آہستہ انسانی ذہن کے پردوں میں دبتی ہوئی، کتنی ہی تہوں میں چھپ جاتی ہیں، اور پھر کسی لمحے، کئی سالوں بعد ایک دم سے اپنا ہاتھ بلند کرتی ہوئی آپ کو گھسیٹ کر اس لمحہ اور مقام میں واپس لے جاتی ہیں کہ جہاں اس یاد نے خود کو تخلیق کیا ہوتا ہے، اور اس معاملے میں آپ مکمل طور بے بس ہوتے ہیں۔ مگر کچھ یادیں، سبق بن جاتی ہیں، ساری عمر، لمحہ بہ لمحہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں، آپکی زندگی، ذہن، معاشرت اور رویہ کو بدل دیتی ہیں، اچھے کےلیے بھی، اور برے کےلیے بھی۔ یہ مضمون، صاحبو، ایک حساس  کردینے، مگر بہتر نتائج دینے والے ذاتی واقعہ پر مبنی ہے۔

سنہء2005 میں، میں ایک بڑے سفارتی ادارے کے شعبہءسیاسیات کی ایک اہم پوزیشن پر تھا۔ اور میرے بہت سے "دوست" تھے۔ جب اس ادارے سے مستعفی ہوا، تب ہی معلوم ہوا کہ وہ میرے نہیں، میری پوزیشن اور کرسی کے دوست تھے۔ انہی میں محترمی عثمان بٹ صاحب بھی شامل تھے کہ جن کے ساتھ "جگری یاری"  ملازمت کے ساتھ ہی کہیں ماضی کے سیلاب میں بہہ گئی۔ خیر، مذکورہ سال میں انہوں نے پےفون کارڈ کی ایک دھواں دار کمپنی قائم کی اور اسکا ایک زبردست دفتر اسلام آباد کے مشہور، اور بہترین پلازہ، رضیہ شریف پلازہ کے ٹاپ فلور پر قائم کیا کہ جہاں سے  اس وقت کا نظارہ بہت ہی عمدہ تھا۔ انکا ادارہ پاکستانی میڈیا پر فون انڈسٹری میں آنے والے نئے رجحانات قائم کررہا تھا اور دفتر کو کچھ بہتر طریقے سے بنا لینے کےبعد انہوں نے مجھے ایک دن اپنے دفتر کافی کے لیے مدعو کیا۔ میں جا پہنچا اور ریسیپشن پر پہنچنے سے قبل کوئی بیس قدم کی اعلیٰ گیلری-واک تھی جو آنے والے کو بلاشبہ متاثر کرتی تھی۔ اس تاثر کےبعد آپ ایک کشادہ ریسپشن پر پہنچتے تھے اور وہاں ایک نہایت ہی خوبصورت خاتون کاؤنٹر پر آپکو خوش آمدید کہتی تھیں۔ میں  جب کوئی تین چار مرتبہ ان سے ملنے جا چکا تو میری کچھ سلام دعا ان خاتون کے ساتھ بھی ہوگئی اورانہوں نے مجھے پہچاننا شروع کر دیا۔

سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی وہ پہلی ملاقات میں کچھ جانی پہچانی لگیں، مگر پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔ تین چار مرتبہ جب میں عثمان بٹ سے ملنے گیا تو کچھ سلام دعا کے بعد میں نے ان سے اس بابت سوال کر ڈالا۔ انہوں نے اپنا نام بتایا، جو میں یہاں اصل تحریر نہیں کرونگا، مگر وہ نوے کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں آنے والے ایف ایم ریڈیو میڈیا کی ایک نہایت مشہور ریڈیو اینکر تھیں اور انہی دنوں "اسلام علیکم پاکستان" کے نام کے ایک ریڈیو سے نکلنے والے جریدہ میں انکی تصاویر مسلسل چھپا کرتی تھیں۔ "آپ سے اب اصل میں مل کر خوشی ہوئی،" میں نے کہا۔ انہوں نے ایک مسکراہٹ دی اور سر کے اشارے سے کہا کہ جائیے، بٹ صاحب آپکے منتظر ہیں۔ میں اپنی کافی، اور گپ شپ کےلیے عثمان بٹ کے پاس چلا گیا۔

اس تعارف سے اگلی ملاقات  بہت عجب تھی، بہت ہی ایسی کہ جس نے میری زندگی کا تمام زاویہ بدل ڈالا۔ آنے والے تمام سالوں، مہینوں، دنوں، گھنٹوں، منٹوں، سیکنڈوں اور لمحات کے لیے۔ اور یہ اب نہیں بدلنے والا، کبھی بھی نہیں۔

میں اس "بیس قدم کی شاندار گیلری-واک" کے بعد، اک دن جیسے ہی اس کشادہ ریسپیشن میں داخل ہوا، تو ان خاتون کی پشت میری جانب تھی، اور آپکو بتاتا ہوں کہ ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحے میں میری نظر انکے کمپیوٹر سکرین پر پڑی۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم کہ مجھے وہ لمحہ بالکل ایسے یاد ہے جیسے یہ تحریر کرتے میں اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین کو دیکھ رہا ہوں۔ انکی سکرین پر دو الفاظ تھے جو انہوں نے اس ایک لمحہ میں "سیلیکٹ-ڈیلیٹ" کر دئیے۔  وہ دو الفاظ تھے:

Life Sucks!

یہ دو الفاظ نہیں، انکی زندگی کا گلہ تھے۔ انکی اس زندگی کا گلہ تھے جو وہ ایک ایسے معاشرے میں گزارنے پر مجبور تھیں جو انکی شکل صورت کی قیمت دینے پر یقین رکھتا تھا، اور ہے، مگر انکی حقیت جاننے کے حق میں نہ تھا۔ یہ وہ شکایت تھی جو وہ ہر وقت شاید اپنے آپ سے کرتی ہونگی اور یہ شکایت انکو اس خلا میں دھکیلتی ہوگی کہ جہاں انکے بہت سے خواب کرچی کرچی ہو کر بکھرے ہونگے اور انکو ان کرچیوں پر زخمی زخمی ہر روز بلاناغہ ننگے پاؤں چلنا پڑتا ہوگا۔ انکی حقیقت انکا شاندار لباس، وہ کشارہ ریسیپشن، بیس قدم کی بہترین گیلری-واک، ایک  کامیاب کاروبار میں ملازمت، انکی خوبصورتی، انکا حسن، انکی گفتگو اور انکی مسکراہٹ نہ تھی۔ انکی حقیقت یہ گلہ تھا جو انکے کمپیوٹر سکرین پر تھا اور یہ گلہ وہ صرف اپنے آپ سے کررہی تھیں، کہ کسی اور سے کر ہی نہ سکتی تھیں۔ کیونکہ مجھ سمیت، اس دفتر میں آنے والے سارے کے سارے، انکی حقیقت سے واقف نہ تھے، اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتے تھے۔

قسم کیا اٹھائیے گا یہاں، مگر واللہ، میں اندر تک ہل گیا اور ٹوٹ گیا۔ عین اس لمحہ میں نے یہ سیکھا کہ کسی کی حقیقت جانے بغیر اس کےبارے میں رائے قائم کرنا پرلے درجے کی زیادتی اور حماقت ہوتی ہے۔ مجھے انکا "سرِ آئینہ" معلوم تھا، انکا "پسِ آئینہ" معلوم نہ تھا۔ اور انکی حقیقت انکا "پسِ آئینہ" تھا، اور "سرِ آئینہ" تو محض مجبوری کا ایک جھوٹ تھا۔ میں اور باقی سارے انکی مجبوری کے جھوٹ کے گاہک تھے اور اسی جھوٹ کو خرید کر خوش ہوتے تھے۔ انکی مجبوری کے جھوٹ سے کہیں پیچھے انکی مجبوری کا ایک سچ بھی تھا جو کوئی بھی جاننے کا شائق اور طلبگار نہ تھا۔ میں بھی نہ تھا، اگر مجھ پر وہ ایک لمحہ نہ بیت گیا ہوتا اور اس ایک لمحے میں میری ایک یاد، میرا سبق نہ بن گئی ہوتی۔

وہ خاتون وہاں سے کچھ عرصہ بعد کہاں چلی گئیں، میں نہیں جانتا۔ کہاں ہونگی، میں نہیں جانتا۔ کیا کررہی ہونگی، میں نہیں جانتا۔ انکی مجبوری کا جھوٹ کیا بدلا، میں نہیں جانتا۔ انکی مجبوری کا سچ کیا بدلا، میں نہیں جانتا۔ مگر میں جو جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ: یارو، کسی کی حقیقت اور کہانی  جانے بغیر اسکے بارے میں رائے قائم نہ کیا کرو۔  اور اگر تم یہ کام کرتے ہوتو، اپنے آپ سے ہی جھوٹ بولتے ہو۔میں بدل گیا۔ تم بھی بدل جاؤ۔ یہی فائدےکا سودا ہے۔ یہی اصل سودا ہے۔

اس خاتون کےلیے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ آپ بھی کیجیے۔