جمعہ، 14 فروری، 2014

ویلینٹائنوی جمعہ یا جمعوی ویلینٹائن؟

تمام کے لیے تو نہیں کہتا، مگر پاکستانیوں کی ایک بہت/بہت بڑی اکثریت کو بڑی بڑی باتوں، بڑے بڑے کاموں، ٹائٹینک سائز کے گلوبل اور خلائی مسائل  پر جلنے، کڑھنے، رائے زنی کرنے اور اپنے تئیں انہی معاملات میں انقلاب لانے کا "روزانوی شوق" رکھتی ہے۔ ہر روز صبح اٹھ کر، مجھ سے اعلیٰ پائے کے جاہل پاکستانی، علاقائی اور دنیا کی سطح کے پیچیدہ، مشکل اور تقریبا حل نہ ہونے والے مسائل پر اپنی ایک سٹرگل شروع کر دیتےہیں اور اسکے مظاہرے آپ سرکاری دفاتر کے چپٹراسیوں سے لے کر پاکستانی شہروں کی اعلیٰ آبادیوں کے فیشن ایبل ڈرائنگ رومز میں وافر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ بڑے بڑے کاموں اور بڑی بڑی باتوں میں الجھے میرے یہ تمام جاہل دوست اپنی بساط میں ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے مسئلے مسائل کی طرف توجہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ آپ سارے ہی پاکستان میں موجود گندگی پر کڑھتے ہونگے مگرکتنے ایسے ہیں کہ جنہوں نے راہ چلتے کوئی آوارہ شاپنگ بیگ، جوس کا ڈبہ، یا ریڈ بُل کا ٹِن اٹھا کر کسی قریبی ڈسٹ بن میں ڈالا ہوگا؟ کتنے؟

شاید کم، بہت کم کہ یہ "کام تو دیکھیں جی حکومت کا ہے، جو کہ کرپٹ ہے، اور امریکہ کی غلام ہے، کیونکہ امریکہ اور مغرب افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اسے پاکستان کی ضرورت ہے جو کہ اسلام کے لیے بنا تھا، مگر یہاں پھر مارشل لاء لگ گیا اور فوج (اور پنجاب ، آہم، آہم) نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا، لہذا یہاں اسلام نہ آ سکا کیونکہ ہم اچھے مسلمان نہیں اور قران میں ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران، لہذا ہمارے مسائل کی وجہ اللہ اور اسکے رسولؐ کے دین سے دوری ہے، وغیرہ وغیرہ۔"

اور اس سارے کے سارے کام میں آوارہ شاپنگ بیگ، جوس کا ڈبہ اور ریڈ بُل کا ٹِن، وہیں کا وہیں۔

کچھ ایسی ہی بات میں ویلینٹائن کے موقع پر ہر سال دیکھتا اور سنتا ہوں۔ اپنے اسلامی یار دوست اس دن کو "حیا ڈے" کے طور پر منانے کی سعی کر تے ہیں، اور کچھ کم-اچھے مسلمان ویلینٹائن ڈے کی طرف رجحان رکھتےہیں، اور کچھ ہیں مجھ جیسے "نہ ایدھر دے، نہ اودھر دے" کہ جو اس  اس سارے "گھڑمس گراؤنڈ" سے باہر کرسیوں پر بیٹھے آرام سے بھنے چھولے کھارہے ہوتے ہیں، اور مسکرا رہے ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی کڑھن بھی آ جاتی ہے، مگر کبھی کبھی۔

خاص طور پر اپنے اسلامی دوستوں کی نذر فرید ذکریا کا ایک آرگیومنٹ کرنا ہے کہ جس میں موصوف نے ایک بہت مزیدار، مگر کنٹروورشل، نظریہ پیش کیا تھا کہ کمیونزم کے بعد، دنیا کی معیشت میں "مارکیٹ ہی گاڈ ہے،" یاد رہے کہ "گاڈ"   کا  "جی"  سمال تھا۔ فتووں کے ڈر سے مجھے یہاں لکھنا پڑھا کہ کہیں میرے ایمان و نکاح کو خطرہ ہونے کی فکر میرے اسلامی یاروں کو نہ ہو جاوے۔

اور ویلنٹائن ڈے ہو، عیدِ میلاد النبیؐ ہو، محرم ہو، یا بڑی بڑی ناموسِ صحابہ کانفرنسز ہوں، میرے یارو، انکے پیچھے موجود ہے صرف ایک چیز: مارکیٹ اکانومی۔

آج جمعوی ویلینٹائن یا ویلینٹائنوی جمعہ کے دن نہ تو اسلام کو کوئی خطرہ ہے، نہ معاشرے کو، نہ لوگوں کو اور نہ ہی ان لوگوں کے دین و ایمان کو جو اس دن کو جمعہ  نہیں، بلکہ ویلینٹائن سمجھ کر منا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح عیدمیلاد النبیؐ، محرم یا ناموس صحابہؑ کانفرنسز نہ منانے والوں کے ایمان و دین کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ویلینٹائن ہو، مذہب کے نام پر کوئی تہوار، یا پھر  کوئی انٹرنیشنل ڈے، انکا مذہب کے ساتھ کیا تعلق، اور انکا مجھ رندِ خراب کے دین و ایمان کی صحت کے ساتھ کیا واسطہ، جبکہ در حقیقت ان سب کے پیچھے مارکیٹ اکانومی کی فورسز اپنا اپنا کام کر رہی ہوتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ویلینٹائن کے دن پر ملٹی نیشنل چاکلیٹ کمپینیز خوب پیسہ کماتی ہیں، جبکہ  دیگر مذہبی تہواروں پر "نیشنل مذہبی فیکٹریاں" اپنی اپنی جیبیں بھرتی ہیں۔ چند دن قبل ایک شیعہ دوست نے بتایا کہ محرم کی "برکت" سے پاکستان میں قریبا سات ارب روپے کی گردش ہوتی ہے، کہ یہ "نواسہء رسولؐ کی قربانی کی فضیلت ہے۔" میں نے جوابی سوال داغا کہ یار یہ سات ارب روپے میں سے تیرے پاس کتنے آتے ہیں، اور یہ تو بتا کہ جاتے کدھر ہیں؟ جواب کوئی نہ تھا، مگر آپ یہ تو سوچیں کہ یہ سات ارب روپے کسی نہ کسی کے پاس تو جاتے ہی ہونگے کہ نہیں؟

کچھ یہی حال عید میلاد النبیؐ کا بھی ہے۔ ان بارہ دنوں میں کم وبیش بارہ سے تیرہ ارب روپے پاکستانی مارکیٹس میں آتے ہیں، گردش کرتے ہیں اور واپس کسی کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ کیا آپ سوچیں گے کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جو ان بارہ اور دس دنوں میں پاکستانی عوام کو "اسلامی مارکیٹنگ" کرکے کوئی بیس/اکیس ارب روپے کا "ایمانوی انجیکشن" لگا ڈالتے ہیں؟  اور اسکو لِنک کر ڈالتے ہیں "برکاتِ ناناؐ و نواسہؑ" کے ساتھ۔ واہ بھئی واہ!

یقین کریں کہ اس سوال پر غور کرنے سے آپکا ایمان، دین اور شادی شدہ لوگوں کا نکاح بالکل خطرہ میں نہ ہوگا۔

ویلینٹائن ڈے پر پاکستانی مارکیٹ، میرے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے دوست کے مطابق، مارکیٹ ایکٹیویٹی نو /دس فروری سے شروع ہوتی ہے اور تقریبا چھ دنوں میں ڈیڑھ سے ڈھائی ارب کے درمیان کی گردش ہوتی ہے۔

تو یارو، چاہے وہ ویلنٹائن ڈے پر لال رنگ کا "گیسی پُکانا" ہو، کیک ہو، چاکلیٹ ہو یا    ہو پھولوں کا گلدستہ۔۔۔ یا ہو عید میلاد النبی پر سبز رنگ کا جھنڈہ، بیجز، سٹکرز۔۔۔ یا ہو محرم پر شبیہاتِ معصومانؑ، کالے جھنڈے، نذر نیاز۔۔۔ یا ہوں ناموسِ صحابہؑ کانفرنسز پر سی ڈیز،  کتب، دیگیں، بیجز یا سٹکرز۔۔۔ یہ سب کے سب مارکیٹ اکانومی کے نظارے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

مگر ہاں، ویلینٹائن ڈے پر "گیسی پُکانا" آتا ہے کل تیس روپے کا، جبکہ عیدِ میلاد کا ایک  چھوٹے سائز کا سبز جھنڈا اس سال کوئی اسی روپے کا تھا۔

لہذا جس نے حیا ڈے منانا ہے، منائے، جس نے ویلنٹائن ڈے منانا ہے، منائے، جس نے جمعہ پڑھنا ہے، پڑھے، جس نے شام کو کینڈل لِٹ ڈنر کرنا ہے، کرے۔

 بس اپنے اپنے مدار میں ہی رہیے اور دوسروں پر مرضی مت ٹھونسئیے کہ مرضی ٹھونسنے سے ہی اگر اسلام یا  مغربی تہذیب نے چھانا ہوتا تو اس وقت کم از کم پنجاب یونیورسٹی تو پوری دنیا میں اسلام کی ایک اعلیٰ مثال پیش کر رہی ہوتی۔ کیا حالات ہیں وہاں پر، اسکی بابت آپ محترم عمران خان انقلابی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں، ویسے دو ایک تجربات تو مجھے بھی ہیں۔

تو ہاں جی، پھر کریں گفتگو شروع کہ "دیکھیں جی، پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اور اسلام میں تمام مسائل کا حال ہے، ہمارے سارے مسائل دین سے دوری کی وجہ سے ہیں، کیونکہ حکمران امریکی غلام ہیں۔۔۔۔۔"


یا وہ رستے میں پڑھا آوارہ شاپنگ بیگ اٹھایا جاوے؟