پیر، 11 نومبر، 2013

کاش کہ میں پاکستانی مولوی ہوتا

ایک نظم پیشِ خدمت ہے:

کاش کہ میں پاکستانی مولوی ہوتا
جو دل میں آتا
وہی بولتا
نہ سوچتا
نہ تولتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

مجھ سے سب ڈرتے
میرا دم بھرتے
مجھ سے نہ لڑتے
گر لڑتے، تو میں انکی گردن مروڑتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

تہذیب سے کیا واسطہ رکھنا
سائنس و ترقی سے کیا واسطہ رکھنا
کہ دنیا مسلم کے لیے قید خانہ
اور بس ادھر حلوہ ہی کھانا
اپنا دماغ کبھی نہ ٹٹولتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

جب چاہتااپنا جی
کرتا ہمیش اپنی کرنی
فساد کو بناتا جہاد
اور جہاد کو فساد
جہاد فساد، فساد جہاد
کبھی کوئی نہ مجھے پوچھتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

کتے کو شہید کہتا
ڈیزل کو دوا کہتا
فوجی کو کہتا ہلاک
نہ کرسکتا کوئی میری زبان بلاک
کوئی ایسا کرتا، تو مرتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

شہادت کے بانٹتا سرٹیفیکیٹ
جو مرضی میری
واٹس یؤر پرابلم، میٹ؟
دوجوں کے بچے جہاد پر
اپنے مغرب و دبئی بھیجتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

علم مؤمن کی میراث تو کیا؟
مُسلم دنیا میں ذلیل تو کیا؟
جہالت کے ہوں ڈیرے تو کیا؟
میں تو مسائلِ غسل
اور قصہء حور وغلمٰن چھیڑتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا