جمعہ، 30 مئی، 2014

یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا!



کل، مئی کے 29 تاریخ کو میرے ایک عزیز دوست کے والد کو نمازِ فجر کے بعد تلاوت کرتے ہوئے مسجد میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جب میں نے اپنے دن کا آغاز کیا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ حسن پر کیا قیامت بیت چکی ہے، روزانہ کی روٹینز سے فارغ ہو کر آفس آنے کےلیے جب میں نے موبائل فون اٹھایا تو بہت ساری مسڈ کالز تھیں، حسن کی جانب سے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا، کہ صبح کے وقت اتنی کالز آئی ہوں، اور اوپر سے یہ بھی دیکھا کہ فون بھی سائلینس موڈ پر تھا۔ فورا کال بیک کیا تو معلوم پڑا کہ ماجرا کیا ہوا تھا۔

شہید ہونے والے ایک چھوٹے سے روایتی خاندان سےتعلق رکھنے والے مقامی  رہنما تھے۔ خاندان اور روایات کے امین تھے، لہذا اپنے گاؤں کو چھوڑنا مناسب نہ جانا اور بہت سارے مواقع ہونے کے باوجود یہی بہتر سمجھا کہ خاندان کی روایات اور علاقے کے چند معززین کے کہنے پر اپنے خاندان سے جڑے دربار شریف کا نظام و انصرام سنبھال لیا جائے۔

 ہمارے ہاں، کوئی شک نہیں، کہ درباروں پر ابھی بڑی خرافات ہوتی ہیں، مگر ایک ہی ذہنیت کے فتویٰ کے تحت، تمام درباروں اور انکے والیوں کو بُرا بھلا کہہ دینا بھی، خرافات میں ہی آتا ہے۔ اچھے برے لوگ دنیا کی ہر جگہ، ہر ادارے میں موجود ہوتے ہیں، اور چند ایک کی برائیاں، کمیاں یا خامیاں، ان سب کی نہیں بنا دینی چاہئیں۔ دوسرا یہ بھی کہ درباروں کو ایک ہی وار میں بدعت، شرک اور کفر کے ساتھ جوڑنے والی روایات بھی احمقانہ اور غیر درست ہیں۔ دربار، مدفون ہونے والے شخص کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتے ہیں اور انہوں نے صدیوں سے برصغیر کے معاشرے کو جڑوں سے تھامے رکھا ہوا ہے۔ میری اس بات سے اختلاف کرنے والے بتائیں کہ کیا وہ حساب لگا سکتے ہیں کہ کتنے سینکڑوں لوگوں کو آپ نے کبھی کھانا کھلایا ہوگا ایک ہی وقت میں، اور مسلسل؟ میں آپکو یہ بتا سکتا ہوں کہ اسلام آباد کے دو بڑے اور راولپنڈی کے ایک بڑے دربار پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مساکین و غربا ء کھانا کھاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس پراسس کا حامی نہیں، کہ جو سچ ہے وہی کہوں گا، مگر میں ان درباروں کو "جگہوں" نہیں، بلکہ "اداروں" کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اور یہ بھی کہ وہاں جانے والوں کی مرضی ہوتی ہے، کوئی انکو وہاں زبردستی نہیں نہیں لے کر جاتا۔ اگر آپ کو اور مجھے اپنی مرضی کے مطابق اپنے خیالات رکھنے کا حق حاصل ہے تو صاحبو، یہی حق اسے بھی ہے جو درباروں پر جاتا ہے۔ اس سماجی عمل میں مجھے، آپکو اور اسے، کسی طور بھی متشدد ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں، زبانی، دماغی اور جسمانی، کسی طور بھی۔

بہرحال،  مرحوم نے اپنے خاندان سے زیادہ وقت  اپنی چھوٹی سی خاندانی درگاہ کو دیا۔  یہ درگاہ تھی مگر وہاں ہر مذہب اور فرقہ کے لوگ جاتے تھے اور شاہ صاحب سے عقیدت کے اظہار کے علاوہ، اپنے گھریلو، سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل بھی ڈسکس کرتے تھے۔ طلاقیں بچانا، زمینوں کی تقسیم، شادیوں کے فیصلے، مکانوں کی بانٹ، لڑائیوں کی صلح صفائی، خاندانوں کے باہمی امور کی پردہ پوشی سے مینیجمنٹ، لوگوں کے درمیاں معاملہ فہمی، معاشرتی تشدد سے طرفین کا بچاؤ، یتیم بچیوں کی شادی، تعلیم، علاج وغیرہ کے علاوہ مساکین کے گھروں کا راشن وغیرہ، یہ وہ "چند خدمات" ہیں جو وہ سرانجام دیتے رہے۔

 انہیں قتل کر دیا گیا، تو مجھے بتائیے کہ یہ ساری خدمات اب میں سرانجام دونگا یا آپ؟ ایک شخص کے اس طرح قتل کر دیئے جانے سے انکے خاندان نے جو صدمہ اُٹھایا سو اُٹھایا، دیگر درجنوں خاندانوں اور سینکڑوں لوگوں کی  زندگیوں میں ایک مقامی روایاتی تسلسل کون برقرار رکھے گا، میں یا آپ؟ درگاہ پر پکنے والے روزانہ کی دیگیں، اور ان سے پیٹ بھرنے والوں کے پلیٹوں میں دال چاول کون ڈالے گا، میں یا آپ؟ میرے پاس "میں یا آپ؟" سے سوال اور بھی درجنوں ہیں، مگر آپکی سوچ کو مہمیز ہی لگانا تھی، پس لگا ڈالی۔ سوچئیے اگر مزاجِ یار فرقوی نہیں ہے تو! اور اگر نہیں سوچنا، تو قران کا ہی فیصلہ ہے کہ تفکر نہ کرنے والے چوپائے ہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ اس حوالے سے یارو، آپکی اپنی مرضی ہے۔

آپ میں سے کوئی نہیں جانتا ہوگا کہ کل شہید کیے جانے والے کی سالگرہ بھی تھی۔قسمت اور زندگی کا عجب مذاق کہ انکا خاندان اب انکی سالگرہ کے دن انکی برسی بھی "منایا" کرے گا۔ میرے ذہن سے، میرے کانوں سے حسن کے خاندان کی خواتین کی باتیں نہیں نکلتیں۔ نہیں نکل رہیں، بے تحاشا کوشش کے باوجود بھی۔ انہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ "مبشر، یہ پاکستان ہے،  یہاں کچھ نہیں ہونا، قاتل ایسے ہی پھرتے رہیں گے!"

پاکستان میں، کوئی شک نہیں، کہ ایک عمومی لاقانونیت ہے۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس، بلکہ جسکی بندوق اسکی بھینس بھی اور اسلام آباد بھی، کا ہی قانون لاگو رہا ہے۔ سیاست کرنا مقصود نہیں ادھر مگر یہی ہوتا ہے ان معاشروں میں جہاں بزورِبازو قوانین کو توڑ پھوڑ کر طاقت کے مراکز پر قبضہ کر لیا جائے۔ اگر یہ کام سیاستدان کرسکتےہیں، جنرلز کر سکتے ہیں، تو مقامی سطح پر بندوق یا لاٹھی بردار "مجاہدین" کیوں نہ کریں کہ جب ریاست  کی طاقت کا فقدان ہے اور ان "مجاہدین" کے دماغ میں حورو غلمان کے ڈیرے اور پاکستان میں اسلام کے بول بالا کی ایک متشدد فرقوی خواہش، تو انکے رستے میں  بھی جو دیوار، جو کہ وہ اپنی مرضی سے ہی سمجھتے ہیں، آئے، کیوں نہ گرا ہی ڈالی جائے؟

اللہ شاہد ہے کہ اسکی بھی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جب ظاہری طور پر پڑھے لکھے افراد، کہ جن کے پاس سوشل میڈیا کی پہنچ ہے، وہ اس فرقہ وارانہ تشدد کی تاویلات، توجیہات اور وجوہات  تلاش، تراش اور پیش کر رہے ہوتے ہیں اور اسلام میں سے اپنی مرضی کے معانی تلاش کرکر کے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ انکو یہی کہنا ہے کہ بیٹیوں، بہنوں، ماؤں اور بیویوں کے بین ہی یاد کرلیں جب انکے گھر کے مردوں کی لاشیں آتی ہونگی کہ وہ تو گھر سے زندہ سلامت رخصت کئے گئے تھے۔ قتل ہونے والا احمدی ہو، شیعہ ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو، وہابی ہو، مسیحی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، یا مجھ جیسا  چار سو بیس نمبر مسلمان، خدارا ایک لمحے کیلئے تو سوچ لیا کریں کہ وہ جیتا جاگتا انسان تھا، اور اسکے بھی رشتے تھے۔ مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں کہ آپکے باپ کی لاش آپکے گھر لائی جائے؟ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بھائی کی لاش گھر لائی جائے؟ مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بیٹے کی لاش گھر لائی جائے؟  مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بہنوئی کی لاش گھر لائی جائے؟ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ کوئی بھی شخص اپنے فرقوی تشدد میں آپکی ماں کو بیوہ،  آپکو یتیم، آپکی بہن کو یتیم/بیوہ کر جائے؟

جس تن لاگے، سو تن جانے، یارو۔ اس وقت سے ڈریں کہ جب وہ آوازیں اور بین جو میں نے کل سنے ہیں، آپ بھی اپنے گھروں سے اُٹھتے سن رہے ہوں۔ اس وقت سے ڈریں جب آپکی بہن، آپکی ماں، آپکی بیٹی آپکے کسی دوست سے یہ کہے کہ "مبشر، یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا،  قاتل ایسے ہی پھرتے رہیں گے!"

آخر میں، مجھے یہ کہنے دیجیے کہ معاشرتی منافقت میں عموما مذہب سے جڑی متشدد باتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ مگر سچ ہے کہ کہا جائے کہ دیوبند فرقہ سے تعلق رکھنے والی جماعت، لشکرِ جھنگوی، تشدد میں ملوث تھی، ملوث ہے، اور ملوث رہے گی۔ دیو بند فرقہ ایک بڑی مذہبی اور سماجی حقیقت ہے اور اسکا احترام بھی دل سے ہے۔ اس فرقہ میں بڑے بڑے سلیم العقل، دردِ دل رکھنے اور مثبت اپروچ رکھنے والے زعماء اور علماء موجود ہیں۔ ان میں سے بہت ایک سے میں ذاتی طور پر بھی واقف ہوں، مگر ان علماء زعماء کا دردِ دل اور موجودگی اگر ایک حقیقت ہے، تو صاحبو، لشکرِ جھنگوی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والا تشدد بھی ایک حقیقت ہی ہے۔

اسی قسم کا تشدد اہل تشیع کی سپاہِ محمد نے بھی روا رکھا ہے، اور اب بھی جہاں موقع ملتا ہے، خاص طور پر کراچی میں، حساب برابر کر لیا جاتا ہے۔ بریلوی پہلے اس طرف نہ تھے، مگر اب سُنی تحریک کے "میٹھے میٹھے مجاہدین" اجتماعی زیادتیوں سے لیکر بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی حرکات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اہلِ حدیث، کہ جو اپنا ناطہ مختلف اوقات میں عرب کے مختلف ممالک سے جوڑتے چلے آئے ہیں، انکے تشدد کی شاید مقامی سطح پر کوئی ایسی بڑی حقیقت نہیں ہے،مگر وہ بھی علاقائی تشدد میں ملوث دیکھے گئے ہیں۔

کیا یہ سب حقیقتیں نہیں؟ کیا یہ سب سچ نہیں؟ اگر آپ اور میں اسلام کو امن کا دین سمجھتے ہیں، تو فرقہ وارانہ تشدد کی کیا کوئی تاویل ہو سکتی ہے کبھی؟ کبھی بھی؟

تشدد، ظلم ہے اور کرنے والا ظالم۔ ظلم اور ظالم  کی شرح  اور سزااسلام میں کیا ہے، خود ہی تلاش کر کے پڑھ لیجیے۔

 مجھے ابھی اپنے آنسو روکنے ہیں۔

منگل، 20 مئی، 2014

زندگی کی سپیڈ ہمیشہ آہستہ رکھیں

میرے تین چاچُو ہیں: احمد حسن بٹ،محمدحسن بٹ اور فیض الحسن بٹ۔ یہ بلاگ میں اپنے سب سے چھوٹے چاچُو، فیض الحسن بٹ کے نام کرتا ہوں، جو کہ ہم تمام کزنز میں "چاچا بٹ" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

میں نے آپ میں سے اکثریت کی طرح زندگی میں بہت مرتبہ نماز شروع کی اور اس سےہمیشہ ایک مرتبہ زیادہ چھوڑی۔ شروع کرتا تو پانچ کی پانچ اور بیچ میں نوافل بھی۔ چھوڑتا تو سال سال مسجد کا رخ نہ کرتا۔ میرے کزن، ضیاء الحسن بٹ (گوگا بٹ) کی دکان تھی ملکوال میں مسجد بزمِ توحید کے پاس۔ تقریبا سارا خاندان ہی صوفی اور آسانی سے چلنے والے اسلام کے قریب ہے، مگر میں نے پاکستانی اسلام کے سارے "سواد" لیے ہیں اور اپنے اُسی ایک فیز میں تھا جب میں مغرب کی نماز، دیوبندیوں کی مسجد، بزمِ توحید، سے ادا کرکے بازار میں اپنے کزن گوگے بٹ کی دکان کے قریب تھا جب مجھے وہاں چاچا بٹ بھی مل گئے۔ پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو۔ بڑے فخر سے بتایا کہ نماز پڑھ کر آ رہا ہوں۔ کتنی نمازیں پڑھتے ہو؟ چاچا نے ایک اور سوال داغا۔ ساری، میں نے جواب دیا۔  "ساریاں نا پڑھیا کر۔ دو تِن پڑھ لیا کر تے ہولی ہولی پنج تے اپڑ،" چاچا نے کہا۔ میں نے جب ان دنوں تبلیغی  جماعت کے زیراثر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جوابی وار کیا کہ جناب چاچا جی، پانچ فرض ہیں، تو دو تین کیوں؟ چاچا بٹ مسکرائے، اور کہا، "بٹ صاب، سپیڈ ہولی رکھو، فیدہ جے۔"

بعد میں ایک اور موقع پر یہی بات مجھے گوگے بٹ نے بھی کہی جب میں نے کلاچی سے واپسی پر بس کی چھت پر ہی نمازپڑھنا شروع کر ڈالی۔ آج بھی ہنسی اڑتی ہے، مگر یارو، یہ کہانی پھر کبھی سہی۔

چاچا بٹ، ملکوال کے معاشرے میں رہتے ہوئے وہاں کے زمان و مکاں سے آگے ہی رہے۔ فرائیڈ، نطشے، مارکس، حالی، عبیداللہ سندھی، کرشن چندر، منٹو، انتظار حسین، عبداللہ حسین وغیرہ  کے نام پہلی مرتبہ ان کے ہاں سے ہی سننے کو ملے۔ غربت کے باوجود، گھر اور خاندان کا مزاج نسبتا علمی اور بہت "کُھلا ڈُلا" ہی رہا، آج بھی ہے، اور میری رہتی زندگی تک ایسا ہی رہے گا۔ کیونکہ اس میں زیادتر افراد، زندگی کی سپیڈ آہستہ ہی رکھ کر چلتے ہیں، گو کہ مسئلے مسائل تھے، اور رہیں گے، مگرزندگی ہے،  چلتی رہے گی۔ معاملات ہیں، چلتے رہیں گے۔ بہرحال، بحیثیت مجموعی، آہستہ رفتار کے باوجود ہم آخری حقیقت میں بہت سے ایسے لوگوں سے بہتر ہی رہے، کہ جنکی رفتار بہت تیز تھی، یا کم از کم محسوس ہوتی تھی۔

خاندان کی مدح سرائی مقصود نہ تھی یہاں، کہ جب سارا پاکستان جیوٹی وی کے معاملہ پر اپنے اپنے مورچے سنبھال کر بیٹھا ہوا ہے، میری یہ حماقتیں کون پڑھے گا بھلا، مگر خیال ہے، سوچا کہ لکھ دیا جائے۔

پچھلے دو تین ماہ سے زندگی کافی چیلنجز لے کر آئی۔ چند ایک کاروباری معاملات تھے کہ جن کی کچھ سمجھ نہ آئی اور و ہ ہاتھ سے جاتے رہے اور ایک معاشی دھچکہ دے گئے کہ جس سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا۔ پھر پچھلے تقریبا چھ سات دنوں میں اپنے چند دوستوں کی زندگیوں میں ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا، انکی مدد کی، انکے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی تو بالآخر معلوم پڑا یہ انکی بنیاد میں اصل خرابی انکی زندگی کی سپیڈ کا تیز ہونا تھا، ایک دو معاملات میں تو اتنا تیز کہ "نہ پاؤں ہےرکاب میں ، نہ ہاتھ میں لگام" سی کیفیت تھی۔

یارو، یاد رکھیں کہ ایک آپکی رفتار ہوتی ہے، اور ایک  رفتار "دیگر عوامل"  کی ہوتی ہے۔ آپکی  رفتار بھی اہم ہوتی ہے، مگر یقین کیجیے اس سے زیادہ اہم ان عوامل کی رفتار ہوتی ہے کہ جن پر ہم بہت سے حوالوں سے انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ زندگی میں کامیابیوں اور مایوسیوں کی رولرکوسٹر میں ہم عموما بہت سے ردعمل کا صرف اس لیے شکار ہوتے ہیں کہ ہم اپنی رفتار، اپنے فہم ، اپنے خیال اور اپنی خواہشات کے مطابق ہی ان "دیگر عوامل" کا حال ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے  الفاظ میں یہ چاہتے ہیں کہ جو ہماری مرضی ہے، ویسے ہی نتائج بھی نکلیں۔

ایسا شاذ ہی ہوتا ہے، مگر ہم میں سے اکثریت بھی شاذ ہی سیکھتی ہے!۔ 

میرے ایک دوست ہیں، ناصر۔ انکے ساتھ زندگی نے بڑی ٹریجیڈی کی۔ وہ جہاں شادی کرنا چاہتے تھے، وہاں انکا معاملہ نہ بن سکا اور تقریبا آٹھ سال کے تعلق اور بے تحاشا رکاوٹوں کے بعد، خاتون نے انہیں بتایا بھی نہیں اور پیا گھر سدھار گئیں، حالانکہ ظاہرا دونوں خاندانوں میں معاملات تقریبا طے پا چکے تھے، مگر اکیسویں صدی کے پاکستان میں ابھی بھی سید، اور غیر سید کا جھگڑا موجود ہے، اور رہے گا، بدقسمتی سے۔  دو ہفتے قبل ناصر صاحب مارا ماری پر آمادہ تھے، آمادہ تھے کہ رگڑا نکا ل دیا جائے اور پوری کائنات اتھل پتھل کر ڈالی جائے۔

 انکی باتیں سن کر میں ہنستا رہا اور انکو کھری کھری بھی سناتا رہا کہ  میرے مطابق یہ، ایٹ دی ویری بیسٹ یا ایٹ دی ویری ورسٹ،  زندگی کا ایک باب تھا، کھلا رہا آٹھ سال، پھر بند ہو گیا۔ بی بی آگے بڑھ گئی، تُو بھی بڑھ جا، میں نے مفت مشورہ نوازا۔ دو ہفتوں سے یہ معاملات جاری ہیں، مگر میرے دوست کا "زخم"  تھوڑا بہت سِلنا شروع ہو چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، معاملات مزید بہتر ہونگے، گو کہ جانتا ہوں کہ دل میں اک ٹیس کبھی کبھی اٹھتی بھی رہے گی، مگر دو ہفتے قبل جیسی جذباتیت نہ ہوگی۔ میں پچھلے دو ہفتوں میں کئی مرتبہ انہیں مل چکا ہوں، اور آئندہ بھی ملتا رہونگا کہ دل سے انکی پرواہ ہے، اور کِیا میں نے صرف یہ کہ انکی زندگی کی سپیڈ ذرا ہلکی کروا دی کہ کہیں انکی بریکس فیل نہ ہو جائیں۔ رفتار انکی ابھی بھی، میرے معیار کے مطابق، تیز ہے، مگر انہیں، آہستہ  آہستہ انکی شخصیت کے مدار میں کامیابی سے واپس لے ہی آؤں گا، جانتا ہوں۔

جیو نیوز کا معاملہ ہو، یا ان سید خاتون کا، میرے بزنس کی ٹوٹ جانے والے ڈیل ہو، یا ہوناصر صاحب کی جذباتیت، ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ معاشرہ اور دنیا ایک بڑی اکائی ہے، آپ، میں اور ہمارے آس پاس پائے جانے والے کروڑوں لوگ چھوٹی چھوٹی اکائیاں ہیں۔ فطرت میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو کہ بڑی اکائی، چھوٹی پر انحصار کرے، مگر زیادہ تر چھوٹی اکائیاں ہی بڑی اکائیوں پر منحصر ہوتی ہیں۔ آپکی، میری اور ہماری زندگیاں، انکی رفتار بلاشبہ اہم ہیں، مگر ان سے زیادہ اہم اس بات کا ادراک ہے کہ ہم خلا میں یا ایک دوسرے سے مکمل کٹ کر زندہ نہیں رہتے۔ ہم معاشرے، مختلف نظاموں، اور اپنی ذات سے کہیں بڑی اکائیوں کے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں، اور ہماری رفتار، ہماری سمجھ، ہمارے پلان اور ہم خود ہی آخری حقیقت نہیں۔ فلسفیانہ طور پر یہ کہنا بھی درست ہو کہ شاید آخری حقیقت وہ بڑی اکائیاں بھی نہیں، مگر عملی طور پر  انکی موجودہ سچائیاں، آپکی اور میری سچائیوں سے بڑی ہوتی ہیں۔ اسکو شعوری طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہی بہتری ہے۔

زندگی آپکو بہت رنگ دکھاتی ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ زیادہ تر رنگ خوشگوار نہیں ہوتے۔ زندگی آپکو بہت زخم دیتی ہے، بھر بھی جاتے ہیں، مگر نشان، اور کبھی کبھی ٹیسیں، بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، مگر کیا ہی معجزہ کہ آپ زندہ بھی رہتے ہیں۔ زندگی آپکو بارہا، پنجابی زبان میں "سجی وکھا کے کھبی مارتی" ہے، مگر ہر بار دھوکہ کھا کر آپ گرنے کے باوجود اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کامیاب ہوتے ہیں، کبھی ناکام، مگر یہ بھی زندگی کے پراسس کا حصہ ہی ہے۔

دلی معذرت کہ بات لمبی ہو گئی، مگر حاصلِ کلام یہی کرنا ہے کہ آپ پر بھلے زندگی کے جتنے بھی پریشرز ہوں، آپ اپنے آپکو جتنا بھی گرا ہوا محسوس کر رہے ہوں، آپ کے ساتھ بھلے بڑا دھوکہ ہو گیا ہو، آپ کی خواہش، آپکی زندگی کی حقیقت نہ بنی ہو، آپ بہت سے مسائل میں اپنے آپ کو گھرا ہوا پا رہےہوں، باوجود سرتوڑ کوشش، خلوص، سچائی، جذبات اور ہمت کے وہ نہ مل سک رہا ہو، جو کہ آپ چاہتے ہوں، تو اس کے باوجود بھی صاحبو،  زندگی کے چلتے رہنے پر یقین ہمیشہ رکھیے اور اپنے اس گھیراؤ کو ختم کرنے کا میرا آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ اپنی رفتار آہستہ کرلیں۔ بہت سارے کام کرنے کی بجائےصرف گنتی کے دو تین کام کریں۔ بہت کچھ حاصل کرنے کی بجائے صرف "کچھ" حاصل کرنے کی فکر کریں۔ بڑے کو چھوڑیں، چھوٹے چھوٹے مقاصد کو مکمل کریں۔

آپکو اس سے زندگی کا ایندھن ملے گا اور آپکی زندگی کی رفتار دوبارہ واپس آ جائے گی۔ مگر جب یہ واپس آئے، تو رفتار آہستہ ہی رکھیں، تاکہ موجود ایندھن جلد ختم نہ ہو۔

وگرنہ پانچ نمازیں میں نے بہت مرتبہ شروع کیں، اور چھوڑیں۔ عمر کی چوتھی دھائی میں آکر اب جان ہی لیا ہےچاچا بٹ ٹھیک ہی کہتے تھے۔

بٹ صاب، سپیڈ ہولی رکھو، فیدہ جے!"۔ -"

منگل، 13 مئی، 2014

ہم بڑے عام لوگ ہیں، یارو

میرے آفس کی عمارت کے بالکل ساتھ ایک نیا ٹاور بن رہا ہے، مارگلہ ٹاورز کی جگہ کہ جو 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ خاندان کے خاندان اُجڑ گئے ، لاشیں کم اور یادیں زیادہ چھوڑ گئے۔ سی ڈی اے، رمضان پٹواری اور ایک بریگیڈئیر صاحب، کہ جن کا نام ذہن میں نہیں آ رہا، اس ٹاور کے گرنے کے بڑے ملزمان ٹھہرائے گئے جو بعد میں پی پی پی کی عوامی حکومت کے عوامی وزیرِ اعظم کے ایک  اسلاما آبادی دست راست کے دستِ شفقت کی بدولت عدالتی مقدمے میں سے بری ہوئے، یہ الگ بات کہ متاثرین ان دو بڑے ملزمان کی بریت کے بعد بھی اپنے مالی معاملات کے لیے ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ ذرا ریاست کا کردار تو ملاحظہ کیجیے کہ بیٹیاں، بیٹے بھی مریں، والد اور والدہ بھی معذور ہوں، گاڑی بھی تباہ، اثاثہ بھی ضائع، اور متاثرہ ہونے کے باوجود آپ عدالتوں اور سی ڈی اے میں دھکے کھاتے پھریں۔ بلاشبہ ریاست ماں کے جیسی ہی ہے، مگر کلاسیکی سوتیلی ماں کے جیسی!۔

بہرحال، میرے ساتھ والے زیرِتعمیر پلازہ میں کوئی پانچ ہفتے قبل ملتان کا ایک مزدور ایک حادثہ کا شکار ہو گیا۔ ایک بڑی کرین جو زمین میں کھدائی کر رہی تھی، اس نے بھاری وزن اٹھایا ہوا تھا، مزدور نیچے کھڑا  اس وزن کی سمت اشاروں سے کرین چلانے والے کو بتا رہا تھا کہ لوہے کا رسہ ٹوٹا، سارا وزن اس مزدور کے اوپر، اور اس مزدور کا اپنی زندگی سے ناطہ ٹوٹا۔ ہاہا کاری کے بعد، اسکی کچلی ہوئی لاش اس بھاری فولادی وزن کے نیچے سے نکالی گئی اور پھر ملتان اسکے غریب والدین کے گھر بھجوا دی گئی جہاں اب اس گھر میں فاقے ہونگے اور اسکی بیوہ اور بچے، اب معاشرے کے رحم و کرم پر۔ مولوی کے نزدیک یہ تقدیر کا کھیل ٹھہرا، کمیونسٹ/سوشلسٹ/لبرل وغیرہ  کے قریب یہ معاشرتی ناہمواری کی بات رہی، اور مجھ خراب کے لیے یہ آپکے، میرے اور ہم جیسے سارے انسانوں کے نہایت، بلکہ نہایت ہی عام ہونے کا اک ثبوت رہا۔

مادھوری ڈکشٹ کی سب سے پہلی فلم، کہ جس میں انکا ایک سپورٹنگ رول تھا، کا ایک ڈائیلاگ یاد ہے۔ نانا پاٹیکر کے ساتھ وہ ایک اعلیٰ آرٹ  فلم تھی، نام تھا "پرہار۔" ڈائیلاگ ایک اینگری ینگ مین کے مونہہ سے ادا ہوا ہے کہ جسکا مسیحی باپ گاندھی جی کے ساتھ آزادی کے ہراول دستے میں تھا، مگر آزادی کے بعد وہ آپ/مجھ سے عامی-پن کی مجبوری کا شکار بن چکا تھا، جبکہ "چُوری کھانے والے مجنوں" کہیں کے کہیں جا نکلے تھے۔  سین کچھ ایسا ہے کہ باپ اپنے جوان بیٹے کی سگریٹ اورنشہ کرنے کی عادت کو تنقید کا سامنا بنا رہا ہے تو آگے سےوہ کہتا ہے کہ: "کیا کروں، جب دل جلتا ہے تو زبان بھی جلتی ہے۔" یہ فقرہ ، میرے یارو، آپ سب کی نذر کرتا ہوں۔

پرہار، میں نے اپنے ملکوالی مُرشد اقبال حیدر بٹ کے ساتھ شاید 1993 میں دیکھی تھی۔ اعلیٰ موضوعاتی فلم ہے، ملے تو دیکھئے گا۔

ہم سب کو اپنے بارے میں بڑے بڑے وہم ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات، خیالات اور جذبات کی دُھونی مچا کر ہم اس دُھونی کی دُھند کے بالکل درمیان میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے آپ، اور اپنے خیالات کو اس کائنات کا مرکز جاننا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی ذات کے اس سراب میں، ہم ہی ہم ہوتے ہیں، دوسرا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسرے کی نفوذ پذیری یا اسکے خیالات کی انٹری صرف اور صرف ہماری ہی مرضی پر منحصر ہونی چاہیے، کہ ہم ایسا سوچتےہیں اور بسااوقات اس پر بہت مضبوطی، بلکہ کہنے دیجیے کہ جاہلیت، کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ اپنی اپنی ذات اور اپنے اپنے نظریات کے گہرے گڑھوں میں ہم گردن گردن گڑے ہوتے ہیں اور حقیقت میں اپنی اصلیت صرف اس وقت تک ہی ہوتی ہے کہ جب تک آپ زمین کے اوپر ہیں، کرسی پر بیٹھے ہیں یا کسی بھی معاشرتی، سماجی، سیاسی اور معاشی حوالے سے کچھ اہمیت کے حامل ہیں۔

کچھ نام لوں گا ابھی ادھر، جو شاید اپنے وقت کے "بڑے بڑے لوگ" تھے، اب کسی کو یاد بھی نہیں آتے، اور نظامِ ہستی، دنیا اورمعاشرہ، ریاست، لوگ اور ملک، اپنی ڈگر پر چلتے ہی جار ہے ہیں۔ پڑھئیے:

سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، غلام محمد، آئی آئی چندریگر، قدرت اللہ شہاب، جنرل کے ایم عارف، جنرل ضیاء الحق، جنرل مجیب،  شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، شیخ رشید احمد (بابائے سوشلزم، پنڈی والے شیخ صاحب کی گُڈی تحریکِ انصاف کی ہوا سے بلند ہے، سوائے نام کے، جناب کی کوئی دوجی بات بابائے سوشلزم سے نہیں ملتی)، زاہد سرفراز (جنہوں نے 1992 میں میاں صاحب کی حکومت گرانے میں اسٹیبلشمنٹ  کے چمچے کے طور پر کام کیا اور پھر خود الیکشن ہارنے کے بعد رات تین بجے غلام مصطفےٰ کھر کو  "پروازی حالت" میں یہ کہتے رہے کہ: یار کھر، یہ ملک اور نظام میرے بغیر کیسے چلے گا؟)، نوابزادہ نصراللہ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، ملک امیر محمد، ڈاکٹر شیر افگن نیازی، جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، غلام اسحاق خان ، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین،  دیوان شمیم، سجاد حسین قریشی وغیرہ۔

یہ لسٹ اور بھی طویل ہو سکتی تھی، مگر آگے ہی موضوع سے کہیں ادھر اُدھر ہو چکا تو اسی پر اکتفا کیا۔ یہ سارے، ان میں سے کچھ حیات بھی ہیں، وہ لوگ ہیں جو اقتدارِ اعلیٰ کے آس پاس رہے اور اپنی ذات میں کُل تھے۔ آج آپکو انکے نام بھی نہایت مشکل سے یاد آتے ہونگے۔ ایک لمحے کے لیے یاررو، صرف ایک لمحے کے لیے، ذرا سوچئیے کہ یہ سارے لوگ اپنے بامِ عروج پر کس قسم کے کروفر کے مالک ہوں گے اور آج؟

یہ انکا حال ٹھہرا کہ جو اپنی ذات میں کسی نہ کسی حوالے سے "بڑے" اور "اہم" تھے، آپ اور میں کیا ہیں؟

معاشرے میں اور سائبرسپیس میں، میں بڑی بڑی گرم بحثیں ہوتا ہوا دیکھتا ہوں۔ کوئی عمران خان کو گود میں اٹھائے، مونہہ میں انقلابی چوسنی دئے پھر رہا ہے، تو کوئی نواز شریف کو سر پر بٹھائے نئے بال اُگانے کے فوائد گنا رہا ہے۔ کوئی پاکستان میں خلافتی نظام کا باجا بجا رہا ہے، تو کوئی شریعت ایکسپریس بذریعہ طالبان کے ڈھول مار رہاہے۔  کچھ بقراط پیپلز پارٹی میں بایاں بازو تلاش کرتے رہتے ہیں تو کچھ منصورہ برانڈ کی اسلامی جمہوریت کے عَلم اٹھائے سرکس میں موت کے کنویں میں چلنے والی موٹرسائیکلوں کی طرح گھمن گھیریاں کھا رہے ہیں۔ کوئی دیوبندی اسلام کو اسلام کی واحد شکل گردانتا ہے تو کوئی صوفیا کے نام پر حلوے مانڈے چلا رہا ہے۔ کوئی اہلِ بیت کے نام کا منجن بیچ رہا ہے تو کوئی سلفیت کی فیرنی۔ کسی کے ہاتھ میں پشتون قوم پرستی کا ڈنڈا ہے تو کوئی بلوچ قوم پرستی کی سردائی گھوٹ رہا ہے۔ ایک مہاجر بنا ہوا ہے تو دوجا سندھی حقوق  کا چیمپئن۔ ایک  امن کی آشا کا اُسترا تیز کر رہا ہے تو دوجا "تیز تر" کے برش سے خبروں کے صابن کا جھاگ بنا رہا ہے۔ کوئی سربکف سربلند کی سرفرازیاں گنوا رہا ہے تو کوئی  راہِ حق میں شہادت کی راگنیاں بجاتا ہوا قُم ، شیراز اور مشہد میں مدفون ہونے کو سعادت جانتا ہے۔ کسی کے لیے دنیا میں تمام مسائل کی وجہ پاکستان ہےتو کوئی یہود و نصاریٰ، ہنود اور مجھ سے خرابوں کی سازشیں تلاش کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔

ہر کوئی، ہر کام کر رہا ہے، ماسوائے اپنے عام ہونے کا علم رکھنے کے۔ بڑی بڑی باتیں، ستاروں پہ کمندیں، ذات کی دھونی میں گم، خیالات کی دھند میں اپنےآپ کو صحیح جانتے/ثابت کرتے ہوئے، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی ایک کرین کے نیچے کھڑے ہیں۔ وزن گرے گا، اور کہانی ختم ہو جائے گی۔

ملتان کے مر جانے والے اُس مزدور کے خاندان کی زندگی بھی گئی اسکے ساتھ ہی۔ غربت و عسرت کو تقدیر کا لکھا بتانے والا مولوی خود کبھی بھوکا نہیں سوتا، اس مزدور کے بچے، والدین، بہنیں اور بھائی سوئیں گے۔ غربت و عسرت کو معاشرتی فلسفوں کی نذر کرنے والے اپنے تئیں جدیدیت کے حامی مفکرین و دانشور اپنے یا اپنے دوستوں کے ڈرائنگ رومز میں انقلاب کے کلاسیکی ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے اس کی موت  کے بعد کے واقعات کی توجیحات نکال لیں گے۔ نظام چلتا رہے گا، اوپر بیٹھا خدا اس دنیا کے بڑے تماشے پر مسکراتا رہے گا اور اس سارے تماشے میں ، مجھ سے اپنی اپنی ذات کے مرکزِ کائنات ہونے کا بربط بجاتے رہیں گے، مگر صاحبو، آخری حقیقت میں، ہم سب کے سب، بڑے ہی عام سے لوگ ہیں۔

عام سے، مگر ہو جانے والے، چھوٹے چھوٹے کام کیا کریں۔ اور اگر نہیں تو محترمین، لگے رہیں، کہ اگر اوپر دیئے گئے بڑے بڑے ناموں کا منجن بِکنا بند ہو گیا، تو آپکا نام تو آپکے گھر سے تیسرا گھر بھی نہیں جانتا۔ 

یا اس کا بھی زعم ہے کہ تیسرا گھر آپکا نام جانتا ہے؟   

جمعرات، 8 مئی، 2014

میں غریب نہیں مروں گا

دوستو ارادہ ایک خیالیہ تحریر کرنے کا تھا، محبت کی ایک خواہش پر جو جانتی ہے کہ چاہے جانے والے کا آخری حقیقت میں شاید  بھلا نہ ہو۔  چاہے جانے والے عموما یہ سمجھتے ہیں کہ انکی مہر دوجے پر احسان ہے، نہیں جانتے کہ چاہنے والا شاید اپنے آپ پرہی احسان کر رہا ہوتا ہے اور جوابی احسان کا منتظر بھی نہیں ہوتا۔ ظرف والے جاننے کے باوجود بھی بہرحال آخری حقیقت کے منتظر ہوتے ہیں، خاموشی میں، ضبط کے ساتھ کہ یہی  اس خود-احسانیت کا طُرہ بھی ہے۔ چاہت کسی بھی حوالے سے ہو، دوستو، خود غرض ہی ہوتی ہے۔ بےلوث چاہت کا ڈھول پیٹنے والے یا تو اسکے مطلب سے واقف نہیں ہوتے، یا شاید دکھاوے کی منافقت کر رہے ہوتے ہیں۔

 مگر یہ قرض پھر کبھی ادا ہوگا۔

یہ تحریر جو آپ پڑھ رہے ہیں، سچا واقعہ ہے، اور ایک پرانا قرض۔ پرانا قرض سوچا کہ پہلے اتار لوں، خیالیہ بعد میں تحریر ہوتا رہے گا۔ محبتوں پر ہزاروں لکھتے چلے آئے، محنتوں پر کم ہی لکھا گیا ہے۔ اور یہ خیالیہ نہیں، حققیت ہے۔ اور خاص طور پر اپنے ان دوستوں کے نام جو واقعاتی معاملات و مشاہدات میں جلد حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جان کر رکھیے کہ واقعاتی معاملات و مشاہدات آپکی زندگی کی بڑی ٹرین میں ایک چھوٹی سی بوگی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ حتمی سچ آپکی زندگی کے آگے بڑھنے سے متعلق ہی ہوتا ہے اور زندگی کی اس گاڑی کو کبھی بھی ایک واقعہ، مشاہدہ یا معاملہ کا یرغمال بنانا محض بزدلانہ حماقت ہے، دلیری نہیں۔ اور زندگی دلیری اور حوصلےسے جینے کا ہی نام ہے، جبلاتی جذباتیت میں نہیں۔

یہ سنہء1985 کی بات ہے۔ عمر کوٹ ، سندھ، کا ایک دور افتادہ ضلع ہے اور اسکے ایک ملحقہ گوٹھ سے بھی آگے کے چند کچے مکانوں کی ایک آبادی میں عمرکوٹ کی مقامی سبزی منڈی میں کام کرنے والا ایک مزدور، عبدالقادر، اپنے چھ بچوں سمیت رہتے تھے۔ سب سے بڑے بچے کی عمر 12 سال تھی اور سب سے چھوٹی بیٹی 4 سال کی۔ پورے دن میں کمائی بمشکل 5 سے 15 روپےاور اوپر سے مقامی وڈیرے کی دست درازیاں کہ محنت کروا لی، کام کروالیا مگر معاوضہ و مزدوری  کے معاملہ میں ظلم اور ڈنڈی۔ پچھلی سات نسلوں سے عبدالقادر کا خاندان اسی آبادی میں مقیم تھا اور عمر کوٹ میں اور مقامی وڈیروں کی مزدوری کرتے ہوئے مٹی  سے مل کر مٹی بن چکے تھے۔آگے بڑھنے کے تمام رستے بند، غربت و عسرت کے ڈیرے اور زندگی ایک مکمل مایوسی میں دفن۔

پھر عیدالفطر قریب آئی اور اس امید پر کہ عید پر گھر کچھ بہتر پکایا کھایا جائے، بچوں کے کپڑے جوتے اور دیگر اشیاء  فراہم ہو سکیں، عبدالقادر نے دن میں بیس بیس گھنٹے کام کیا۔ شدید جان ماری کہ ماہانہ آمدنی میں تین گنا اضافہ اگر ہو سکا تو عید مناسب  طریقہ سے گزر جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ عمرکوٹ سبزی منڈی کے آڑہتی نے معاوضہ نہ دیا اور مقامی وڈیرے نے بھی حسبِ وعدہ گندم نہ دی۔ عید والے دن گھر میں فاقہ، بچوں کی سسکیاں اور چھوٹی بیٹیوں کی فرمائشیں اور انکی ماں کی ڈانٹ کہ باپ پریشان ہے، مزید پریشان نہ کرو۔

عبدالقادر کے لیے شاید فیصلہ کا یہ لمحہ قدرت کے اس بے رحم کھیل کی حتمی پیداوار تھا جسکی قیمت غربت کے گڑھے میں جینے والے لوگ ساری زندگی نہیں، کئی نسلیں ادا کرتے رہتے ہیں۔ "سکینہ، ہم مزید یہاں نہیں رہیں گے۔ یہاں  مجھ سے پہلے میرے  باپ، دادا، اسکے باپ اور اس سے پہلے اسکے باپ نے وہی کیا جو میں کر رہا ہوں۔ بے فائدہ۔ میرے بچے یہ سب نہیں کریں گے۔"

"کب جانا ہے؟" سدا کی وفاشعار بیوی نے سوال کیا۔

"آج ہی۔"

شدید حیرت میں سکینہ پہلے نہ جان پائی، کچھ نرم گرم بحث کے بعد عبدالقادر نے سختی سے اپنا فیصلہ دہرایا، اور دہراتا رہا۔ گھر آنے جانے والے گنتی کے چند ایک رشتہ داروں کو بھی بتا دیا کہ وہ، اسکی بیوی اور چھ بچے آج ہی گاؤں چھوڑ دیں گے۔ رشتہ داروں اور گاؤں والوں نے مذاق اڑایا، بھوکامرنے سے ڈرایا، بزرگوں کی قبروں کے واسطے دئیے اور عبدالقادر کے نہ ماننے پر اس پر طنز کے نشتر برسائے۔

"تجھ سے بڑے آئے، بڑے گئے۔ تو بھی شہر کی ہوا کھا آ۔ ناکام ہوگا، واپس آئے گا اور جو موجود ہے تیرے پاس، وہ بھی نہ ہوگا۔ سمجھتا کیا ہے تو اپنے آپ کو؟"

"تم سارے جو مرضی کہو، میں پُرکھوں کا غریب ہوں، مگر میں غریب نہیں مروں گا،" عبدالقادر نے جواب دیا۔

شدید مشکلات سے، پیدل چلتا ہوے، منتیں کرکے بسوں میں کرائے کے بغیر، وہ اپنے کچے مکان سے بہت دور حیدرآباد شہر میں آگئے۔

 شہر کی زندگی، یارو، پوری دنیا میں سخت ہوتی ہے۔ بہت خالی کرتی ہے انسان کو اندر سےمگر یہ بھی سچ ہے کہ جیب اور معدہ بھرنے کا بندوبست بھی شہر ہی کرتے ہیں جہاں بھانت بھانت کے معاشی مہاجر آکر اپنی اپنی زندگی بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ عبدالقادر نے بھی اپنی ذات کو ایک مکمل فراموشی کی نذر کر ڈالا۔ تین تین نوکریاں کیں، سبزی منڈی میں، بس سٹینڈ پر اور ایک ہوٹل  پر۔ تقریبا 18 سے 20 گھنٹے کی مشقت، اور مسلسل۔

تمام بچوں کو پڑھایا، لکھایا۔ بچوں نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔  اس وقت جب یہ سطریں تحریر کی جارہی ہیں، عبدالقادرکے سارے بچے اپنے باپ کے گاؤں کی زندگی سے سینکڑوں نوری سال کے فاصلےپر ہیں۔ بڑا بیٹا واپڈا میں اس وقت ایس ڈی او ہے، اس سے چھوٹا، دبئی میں گرافکس کے کام میں ہےاور کامیاب ہے، تیسرے نمبر کا بیٹا اس وقت ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک کمپنی  میں مڈل لیول کے مینیجر ہے، اور سب سے چھوٹا بیٹااسلام آبا د میں ایک اعلیٰ سرکاری ادارے میں ایک ذمہ دارانہ ملازمت کر رہاہے، اور میرا جگری یار ہے ۔ بہنوں میں سے بڑی نے ڈاکٹری پڑھی مگر پڑھانے کو اپنا پیشہ بنایا، اور چھوٹی بہن بھی اس وقت اپنی بڑی بہن کے ساتھ حیدرآباد میں ایک مقامی سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔ دونوں نے مقابلے کا صوبائی امتحان پاس کیا، مگر انتظامیہ میں جانے کی بجائے نسلیں سنوارنے کا بیڑہ اٹھایا۔

اب عبدالقادر کے آبائی گاؤں کے لوگ ان کے پاس اپنے بچوں کی ملازمتوں کی درخواستیں لےکر آتے ہیں۔ اور عبدالقادر سے جو بن پڑتا ہے، کرتے ہیں۔ وہ اور انکی زوجہ، سکینہ، ماشاءاللہ دونوں حیات ہیں اور اسلام آباد اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے پاس آتے جاتے رہتےہیں۔

 عید کے دن پر آنے والےایک  شدید جذباتی دھچکے نے عبدالقادر کواپنی "طے شدہ زندگی"کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور ان کے ایک دلیرانہ فیصلے نے، کہ جسکی انہوں نے بلاشبہ ایک بڑی قیمت بھی ادا کی، مگر ہمت اور حوصلے کے ساتھ ڈٹ کر ایک لمبے عرصے کی مسلسل محنت  نے قریبا 25 سال میں عبدالقادر کی نسل بدل ڈالی۔ وہ نسل جو شاید 25 نسلوں سے ایک ہی طرح کی زندگی گزار رہی تھی۔

وعظ مقصود نہیں، مگر حضرت علیؑ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ زندگی کو اسکی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جیو۔ اور یہ کام دلیر انسان ہی کرسکتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جذباتیت، اونچی آواز اور جلدبازی کی کیفیات میں دلیری اور حوصلہ مکمل ناپید ہوتا ہے۔ زندگی ہر انسان کو  توڑتی ہے۔ اپنےآپکو جوڑنے کا کام انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور یہ خاموشی سے مسلسل آگے بڑھنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ آج ہی کہیں پڑھا کہ آدھا بھرا ہوا گھڑا چھلکتا ہے، جب کہ بھرا ہوا، مضبوطی کےساتھ اپنی جگہ پر جما رہتا ہے۔

ویسے آپ ایک لمحہ کےلیے اس خیال کے وقت کے بارے میں تو سوچیں کہ جب عبدالقادر نے کہا ہوگا کہ "میں غریب نہیں مروں گا!"