جمعہ، 29 نومبر، 2013

پاکستانی جوان، نہ بن نادان، جاہل کو پہچان

عمرو بن ہشام کے نام سے بہت سے لوگ واقف نہیں ہونگے، مگر اسکے لقب سے ضرور شناسائی رکھتے ہوں گے۔ عمرو (بالوزن عمر) سرزمین حجاز کا ایک معزز، حیران کردینےوالی حد تک سخی، بہت کم عمری میں بہت عقلمندی دکھانے والے ایک شخص کا نام تھا۔ اسکی فہم و فراست کی وجہ سے لوگ اسے "ابو الحکم" کے نام سے جانتے تھے، یعنی "حکمت کا باپ!"

محض تیس سال کی عمر سے قبل ہی وہ مکہ کی اس شوریٰ کاممبر تھا کہ جسکی اہلیتی عمر کی ابتدا چالیس برس کی عمر سے ہوتی تھی، مگر اپنے سماجی مرتبے، ذہانت، سخاوت، دلیری، خاندان اور ذاتی خصوصیات کی وجہ سے تمام لوگ اسکی دل سے عزت کرتے تھے اور بہت سے مشکل اوقات میں اس سے رہنمائی اور مشورہ چاہتے تھے۔ عمر بن ہشام، دوسرے خلیفہء راشد، حضرت عمرفاروقؑ کا ماموں تھا، اور اسکی سماجی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ حضرت علیؑ نے جنت کی ملکہ حضرت بی بی فاطمہؑ کے ساتھ نکاح میں ہونے کے باوجود، عمر بن ہشام کی بیٹی سےشادی کی خواہش کی تھی اور اسکے ہاں عرب کی سماجی روایات کے تحت رشتہ بھی بھجوایا تھا۔ آقا محمدؐ نے ایک باپ کی حیثیت سے امام علیؑ کو یہ مشورہ دیا کہ بی بی فاطمۃالزھراؑپر دوسری بیوی نہ لائی جائے اور عمر بن ہشام کی بیٹی کا رشتہ ترک کر دیا جائے۔ حضرت علیؑ نے خاتونِ جنتؑ کو فوقیت دی اور یوں ابوطالبؑ کے خاندان کی لڑی بی بی فاطمہؑ سے چلی اور اہلِ بیت کہلائی۔

عمر بن ہشام کا والد، ہشام بن المغیرہ بھی حجاز کا ایک نہایت متمول اور نمایاں شخص تھا اور اس نے اپنے تمام بیٹوں میں سے عمر کی تربیت بہترین انداز میں کی۔ عمر کے پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں اور تمام اپنی اپنی جگہ چھوٹی بڑی حیثیت میں اپنے سماج میں کوئی نہ کوئی مقام رکھتے تھے۔ مگر عمر، عمر تھا!

اسکی اپنے سماج میں عزت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ اپنے قبیلہ میں اپنے ہمعصروں کے ساتھ سخاوت، خیرات کرنے اور روزانہ کی بنیاد پر لنگر جاری کرنے کا مقابلہ کیا کرتا تھا۔ عمر بن ہشام کی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ آقامحمدؐ کو اسلام کی ترویج، ترقی اور حفاظت کےلیے اللہ سے دعا کرنا پڑی کہ  اے اللہ، یا تو عمر بن خطاب کا دل پھیردے اسلام کی طرف یا پھر عمر بن ہشام کا۔

عظمت کا قرعہ عمر بن خطاب کے نام نکل آیا اور وہ عمرِفاروق ؑکے نام سے جانے  گئے اور عمر بن ہشام، ابو جہل کے نام سے بدنام ہوا، تا قیامت۔

دوستو، عمر بن ہشام، یہاں سے آگے اسے ابوجہل ہی لکھوں گا، اپنے معاشرے کا ایک نہایت اہم سردار، رہنما اور نمایاں شخص تھا۔ آقاؐ نے اسے ابوجہل کن وجوہات کی بنا پر کہا، کبھی سوچا ہے آپ نے؟ وہ کیا پرسینلیٹی ٹریٹس تھے کہ جن کی بنیاد پر عمر بن ہشام، ابو جہل قرار پایا، حالانکہ رحمتہ اللعالمینؐ نے اللہ سے "دونوں عمروں" میں سے کسی ایک کو مانگا تھا اپنے اور اسلام کے لیے اور وہ دعا مانگتے وقت آقاؐ کے ذہن میں عمر بن ہشام کی تمام خصوصیات موجود تھیں کہ جن کی بنیاد پر امامؐ النبیاءؑ نے اپنے دل کی خواہش میں اسے بھی شامل کیا؟ کبھی سوچا کہ کن عادات اور برائیوں نے اسے عمر سے ابو جہل بنا دیا؟ کچھ تو تھا نا کہ وہ تاریخِ اسلامی میں تاقیامت ابوجہل کے نام سے ہی جانا جائے گا۔

اس مضمون میں آگے وہ چند گنی چنی عادات اور شخصی  بدعات  درج ہیں کہ جنہوں نے عمر بن ہشام کو ابو جہل بناڈالا اور یہ صرف آپ سب کی نذر اس نیت سے کی جارہی ہیں کہ آپ بھی اپنے ارد گرد اسی قسم کی عادات کے حامل اشخاص کو جان اور پہچان لیں۔ چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں، عام انسان ہوں، تاجر ہوں،لیڈر ہوں یا ورکرز، اگر میرے آقاؐ نے ان وجوہات کی بنا پر عمر بن ہشام کو ابو جہل قرار دیا، تو یارو، اس "معیار" کی صحت میں کوئی/کوئی/کوئی/کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ ملاحظہ کیجیے اور ذہن میں رکھیں کہ یہ "خصوصیات " اسکی اپنے اس وقت کے مخالف عقیدے، اسلام، کے اعلان اور اشاعت کے بعد ہی اس میں نمایاں ہوئیں کیونکہ اس نے حضرت محمدؐ کے ساتھ مقابلے کی ٹھان لی تھی:

1۔  حد سے بڑھا حسد: بنو تمیم کے ایک نمایاں شخص، اوس بن ہجر نے ایک مرتبہ ایک سماجی اکٹھ میں عبد المطلب ؑ کے خاندان کی تعریف کی تو ابوجہل نے اسکو شدید الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ وہ اس سے متاثر نہ ہو بلکہ اسکا (ابوجہل) کا شان و مرتبہ دیکھے۔ دوسرے الفاظ میں ابوجہل "اپنی پِچ" پر کسی دوسرے کا کھیلنا پسند نہیں کرتا تھا۔

2۔ اپنے سماجی و معاشی مفادات کی حد سے زیادہ پیروی: ابوجہل کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ اسلام اسکے اور اسکے خاندان کی نمایاں حیثیت کو یا تو شدید چیلنج کرے گا یا ختم کردے گا۔ لہذا اس نے آقاؐ کے اسلام کے خلاف ہمیشہ اپنے رسوماتی دین کی حمایت اور برتری بیان کی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ کام پاکستان میں موجود اکثریتی فرقہ پرست لوگ نہیں کرتے؟

3۔ حسب، نسب اور حیثیت کا غرور: ابو جہل نے ہمیشہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرنے والے لباس زیب تن کئیے اور عموما آقاؐ کی سادہ پوشاک اور سادگی کا مذاق اڑایا۔ اسکے جُبے، دستار، پوشاک اور زیورات پورے حجاز میں مشہور تھے۔ اپنے آس پاس دیکھئے، میرے دوستو، کہ اپنی سماجی، مذہبی اور سیاسی پوزیشن پر مغرور کون کون ہے اور کس طرح سے طرز طرز کی پوشاکیں پہن کر اپنے آپکو ممتاز کیا جاتا ہے۔ غور کیجیے۔

4۔ سخاوت بے انتہا، مگر ریاکاری بھی بے پایاں: ابو جہل ہمیشہ بنو عبد مناف کے ساتھ سخاوت کا مقابلہ کیا کرتا تھا، مگر اسکے ساتھ ساتھ خودنمائی میں بھی بہت آگے تھا۔ وہ اپنی سخاوت کی ہمیشہ تشہیر چاہتا تھا اور اسکی منادی بھی کرواتا تھا۔ کیا آپکو اردو اخبارات میں سلائی مشینیں بانٹنے، آٹے کی تھیلیاں دیتے  اور تصویریں کھنچواتے"معزز سماجی و سیاسی اور خانقاہی رہنما" یاد آئے یا نہیں؟

5۔ زعم وخبط عظمت:  ابو جہل خود لوگوں کو دعوت دے کر اپنے پاس بلاتا، بہترین تواضع کرتا اور پھر ان سے پوچھتا کہ کیا ایسی دعوت حجاز میں کوئی اور دے سکتا ہے اور یہ بھی کہتا کہ اس دعوت کا چرچا عام کرو کہ مجھ سے بہتر مہمان نواز، راوئت پرست اور اعلیٰ النسل عرب کوئی نہیں ہو سکتا۔

6۔ فرقہ بنانے کا الزام: ابو جہل نے آقاؐ پر ایک نیا فرقہ بنانے کا الزام لگایا اور اپنے آپ کو ، نعوز باللہ، دین حق پر خود ہی سے مبعوث کر ڈالا اپنے تئیں۔ فرقہ واریت کی بحث اور الزام میں، وہ عموما تشدد پر بھی اتر آتا تھا اور اس سلسلہ میں اس نے اپنی آپ کو حق اورسچ ثابت کرنے کی جھنجھلاہٹ میں حضرت ابو بکر صدیقؑ کی صاحبزادی، حضرت اسماء پر اتنا تشدد کیا کہ انکے دانت توڑ ڈالے۔ اور پھر اس پر نازاں بھی ہوا۔ آپ اپنے آس پاس دیکھیں تو آپکو زاہدانِ خشک کی ایک کثیر تعداد، تمام فرقوں میں موجود نظر آئے گی جو مخالف فرقہ کو غلط جانتے ہیں اور ان پر تشدد کو جائز بھی گردانتے ہیں۔

7- اختلاف کرنے والوں پر تشدد:  چاہے کہ لوگوں نے شرک چھوڑ کر اسلام قبول کیا، یا اسکی حرکات پر اسے ٹوکا اور اختلاف کیا، ابوجہل نے جواب میں تشدد کا سہارا ہی لیا۔ اسکی سماجی حیثیت ایسی تھی کہ اس پر جوابی وار کرنا بہت مشکل کام تھا۔

8۔ قریبی ساتھیوں سے دغا بازی: ابو جہل کا بھائی، حضرت سلامہ بن ہشامؑ شروع شروع کے مسلمانوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے بھی اپنے سگے بھائی کی بدسلوکی برداشت کی۔ ابوجہل کا جواز یہ تھا کہ تم نے الگ رستہ چنا، لہذا اب میری جو مرضی آئے میں تمھارے ساتھ کروں گا۔

9۔ تفرقہ بڑھانے والا: ابوجہل ہی ان لوگوں میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے آقاؐ کے ساری قبیلے کا سوشل بائیکاٹ کیا اور ہر اس شخص کو مارا پیٹا، اور کچھ کو تو ہلاک کر ڈالا، کہ جنہوں نے اختلاف کرتے ہوئے بنوہاشمؑ کے ان درماندہ لوگوں کی مدد کی ٹھانی۔

10۔ لوگوں کو تشدد پر ابھارنے والا: ابو جہل نے آقاؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ کئی بار بنایا اور اسی نے آپکے کندھوں پر اونٹ کی غلیظ آنتیں بھی پھینکیں جب آپؐ حالت سجدہ میں تھے۔ بدر کے مقام پر لڑائی کے لیے بھی اسی نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اکثایا اور ساتھ ہوکر لشکر کی کمانڈ بھی کی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھا کہ جنہوں نے ہجرتِ مدینہ کے دوران آقاؐ کے پیچھے گھڑ سوار بھیجے اور انہیں حکم دیا کہ جہاں محمدؐ نظر آئیں، معاذاللہ، انہیں شہید کر دیا جائے۔

کچھ اور بھی ہے، مگر مضمون کی طوالت کے باعث یہاں رک رہا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ اپنے لئے کیا منتخب کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے مذہب کے نام پر فساد میں ملوث لوگوں کو اگر آپ قریب سے دیکھیں، تو دوستو کہنے دیجیے، کہ بھلے وہ کسی بھی فرقہ سے ہوں، ان میں وہ بد عادات جو میں نے اوپر بیان کیں ہیں، آپکو بکثرت ملیں گی۔ زعم عبد، خشکئی تقویٰ، گروہ بندی میں سے اپنی طاقت تلاش کرنا، اپنے فالوورز کو تشدد پر ابھارنا، اختلاف کرنے والے کو کافر، گستاخ اور بدعتی قرار دینا، باقاعدہ منصوبہ سازی سے دوسرے کو ذہنی، جسمانی اور ذاتی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا وغیرہ، یہ سب آپکو تمام فرقوں کے نمایاں رہنماؤں میں نظر آئیں گی۔ وہ پوشاکیں بھی عام عوام سے الگ پہنتے ہیں، اپنی اپنی مرضی کی توجیہات تلاش کرلاتے ہیں قران و احادیث میں سے اور پھر انہی کے اندر سے اپنے آپکو حق پر ثابت بھی کرتے ہیں۔

یہ مضمون قریبا تین ہفتہ کی ریسرچ کے بعد تحریر کررہاہوں پوری نیت کے ساتھ کہ جذباتیت کے مستقل خلجان میں مبتلا پاکستانی نوجوان کو کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ مذہب، سیاست اور معاشرت کے نام پر وہ جن کو فالو کر رہا ہے کیا وہ رستہء محمدیؐ پر ہیں یا جانشینانِ ابو جہل ہیں۔

میں تو ایک نتیجہ پر پہنچ چکا بہت/بہت عرصہ قبل، اب شاید آپکی باری ہے۔


اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپکو اندھی عقیدت کے سراب و عذاب سے بچائے کہ میرے نزدیک یہ طریقِ آقامحمدؐ نہیں ، رویہء ابوجہل ہے۔

اتوار، 24 نومبر، 2013

کتے کی طرح ذلیل یا کرنے والے کام؟

اکتوبر 2005 میں مجھے اپنے اس وقت کے دوست، جو بعد میں اسلام آباد کی ایک" مشہور شخصیت" بنے، فیصل سخی بٹ کا فون آیا اور کہنے لگے کہ پی پی پی نے، محترمہ بےنظیر صاحبہ کے حکم کے تحت ایک تھنک ٹینک قائم کیا ہے اور "تُو ایک آزاد اور ذہین آدمی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تُو بھی اسکا حصہ بن جا۔"فیصل کی اس آفر نے مجھے بہرحال کافی "انٹریگ" کیا اور میں نے دو تین دن سوچنے کی مہلت مانگی مگر یہ مانتا ہوں کہ پہلا اس آفر کو مثبت انداز میں قبول کرنے کا ہی تھا۔ 2005 میں، میں 33ویں سال میں تھا اور خواہش تھی کہ "ملک کی خدمت کی جائے!"

میں نے شام کے وقت اپنے والد صاحب، محمد اکرم بٹ صاحب، سے فون پر بات کی، اس آفر کا بتایا اور انکا مشورہ چاہا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا مشورہ تو بعد میں، تو سارے کام چھوڑ، ملکوال آ جا۔ پھر بات کریں گے۔ میں نے اپنی "لیز-زدہ" سوزوکی آلٹو دبائی اور سیدھا ملکوال جا پہنچا۔ رات والدہ محترمہ کے ہاتھ کے کھانے کے بعد، یاروں دوستوں کی محفل، بے فکری اور ایک بھرپور نیند کے بعد، اگلے دن، ابو نے کہا کہ "چل وئی منڈی بول دین چلیئے، اوتھے ای تینوں میں مشورہ دیواں گا۔"

منڈی بہاؤالدین میں ایک جگہ ہے "دھکا کالونی۔" جی، یہی نام ہے: دھکا کالونی اور آپ نے اس کو درست ہی پڑھا۔ علاقے کے غریب غربا ء نے یہاں غیر قانونی آبادکاری کر ڈالی کہ جو بےگھر تھے کہاں جاتے؟ آہستہ آہستہ کالونی بڑھتی چلی گئی اور شروع میں اسکا نام، کہتے ہیں "دھکا شاہی کالونی" ڈالا گیا کہ لوگوں نے یہاں زبردستی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کرڈالے۔ اسی کالونی کی تنگ و تاریک اور بدبودار گلیوں میں سے گزرتے میں اور میرے والد صاحب، ایک نہایت چھوٹے سے مکان کے سامنے جا کھڑے ہوئے کہ جسکا دروازہ بھی نہ تھا اور پٹ سن کی بوری کو کھول کر ایک پردہ سا بنا کر ڈالا ہوا تھا۔

یہاں میری چاچا اطہر شاہ سے ملاقات ہوئی۔

معلوم یہ پڑا کہ یہ اور انکے بھائی منڈی بہاؤالدین کی سبزی اور فروٹ منڈی کے بڑے تاجران میں سے تھے۔ دکانیں، آڑھتیں، سیاسی اثرورسوخ اور سماجی مقام، سب کچھ تھا۔ مگر پھر دونوں بھائیوں کو "بھٹو صاحب لڑ گئے۔" (یہ الفاظ چاچا اطہر شاہ کے تھے۔)

"ملک کی خدمت، جاگیرداری کے خلاف جدوجہد، سماجی و سیاسی تبدیلی اور مِلی غیرت وغیرہ" کو حاصل کرنے کی کوشش میں چاچا اور انکے بھائی نے اپنی آڑھتوں کی بجائے سڑکوں پر احتجاج ، جلسے، جلوس اور نعرہ بازی کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ کاروبار متاثر ہونا شروع ہوا ور پھر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء باقی کسر پوری کر گیا۔

دکانیں گئیں۔ آڑھتیں گئیں۔ بینک کے پیسے گئے۔ صحت گئی۔ بھٹو کو پھانسی لگ گئی۔ اطہر شاہ کا بڑا بھائی، اظہر شاہ بیماری میں خون تھوک تھوک کر مر گیا، ٹھیک اسی سال کے آس پاس جس سال محترمہ بےنظیر بھٹو جنرل ضیاءالحق سے معاہدہ کرکے شاید 1982 میں اپنی والدہ سمیت لندن چلی گئیں۔ اظہر شاہ کا ایک بیٹا، جب میری انکے چھوٹے بھائی اطہر شاہ سے ملاقات ہوئی، بس اسٹینڈ پر بسیں دھوتا، دوسرا چائے کا سٹال لگائے اور بیٹی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں آیا، اور آپ سب سے پوچھنا یہ ہے کہ ٹھیک اس وقت، یعنی 2005 میں بھٹو صاحب کی آل اولاد کہاں تھی؟ اور اب بلاول محترم کدھر ہیں؟

اطہر شاہ کا اپنا ایک بیٹا ہیروئن پر، دوسرا ریڑھی پر، تیسرا جیل میں ، ایک بیٹی مطلقہ اور دوسری گھروں میں کام کرنے والی۔

"او ئے اکرم، اپنے پتر نوں سمجھا۔ ایہہ ایناں (بہن کی گالی دیتے ہوئے)  دی گلاں وچ نا آئے۔ ایہہ سارے ای حرامدے نیں۔ میرے ول ویخ۔ اپنے ول ویخ۔ اسی ہور کڈا ذلیل ہونا اے؟ تے نالے اسی تے ذلیل ہوگئے، ایس کھوتے دا کیوں دل کردا پئیا اے خجل خراب تے کتے وانگوں ذلیل ہون دا؟" جی یہ سارے الفاظ چاچا اطہر شاہ کے ہی تھے۔

مجھے اپنے والد صاحب کی جانب سے مشورہ نہ صرف ملا بلکہ دِکھ بھی گیا۔ میں نے فیصل کو کہا کہ میں آنے کو تیار ہوں، مگر میرے اکاؤنٹ میں دو کروڑ روپے اور ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ہو تو، صرف تبھی۔ چونکہ مجھے اس بات کے جواب میں انکا جواب معلوم تھا، اسی لیے ہی ایسی بات کی۔ "تینوں میرے تے اعتبار نئیں؟" فیصل نے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ "تیرے اتے تے ہے پر تیری پارٹی اتے نئیں۔"

نہ دو کروڑ آئے، اور نہ ہی میں "کتے وانگوں ذلیل" ہوا۔

آجکل پھر سے احتجاج کا موسم شروع ہے۔ میرے ملک کے نوجوان "ملک کی خدمت، سماجی، سیاسی نظام کی تبدیلی اور اسلام کے نفاذ" وغیرہ کے نام پر اپنی جوانیاں لٹانے کو تیار بیٹھے ہیں۔

نہ کرو۔ نہ کرو۔ نہ کرو۔

تعلیم پر توجہ دو۔ نئے نئے خیالات کو جنم دو اور انکو وجود میں لے کر آؤ۔ جو کام کرنے والے ہیں تمھارے، انہیں کرو۔ معاشرے کا مثبت حصہ بنو۔ اپنی ذات، ماں باپ، بہن بھائیوں، دوست احباب اور معاشرے پر توجہ دو۔ اپنا اخلاق احسن کرو۔ اک دوجے کو دیکھ کر مسکراؤ۔ ایک دوسرے کے مدد کرو۔ نوکری صرف کرو ہی نہیں، اس میں سیکھو اور پھر ایک دن، دوسروں کےلیے روزگار جنریٹ کرو۔ اپنی ذاتی ذمہ داریاں پہلے ادا کرو۔ آگے بڑھو، جان مارو، ہمت کرو، ذہانت بڑھاؤ، سختیاں برداشت کرو، اپنی ذات کی اکائی میں شانداریت کی مثالیں قائم کرو، جو کرنا چاہتے ہو، اس میں اپنے آپ پر یقین کرو، ناکامی سے سیکھو، گھبراؤ نہیں، دل و دماغ تعمیری و مثبت انداز میں استعمال کرو۔

احتجاج بھی کرو، مگر بشرطیکہ سارے کام جو کہ تمھارے کرنے کے ہیں، انکے بعد۔ شائستہ، مہذب اور ذمہ دارانہ احتجاج تمھارا جمہوری حق ہے۔ مجھ سے مردِ بےکار بھی تمھارے ساتھ تمھارے احتجاج میں کھڑا ہوگا اگر تم نے اپنے اصل کام سے عدل و انصاف کیا ہوگا تو۔ اپنا کام چھوڑ کر ملک سنوارنا، تبدیلی لانا، مِلی غیرت کو جگانا، دھرنے دینا، مارچ کرنا، میرے یارو، ذاتی منافقت سے زیادہ کچھ نہیں اور اس سے محض سماجی بگاڑ ہی پیدا ہوگا۔

بار بار بھیس بدل بدل کر موضوعات کے ڈھیر لے کر تمھارے پاس آنے والی جماعتوں کی نیت پر بھلے مجھے شک نہ ہو، مگر میں جانتا ہوں کہ انکی گلوریفیکیشن کے پراسس میں تمھارا وقت، ٹیلنٹ، زندگی اور مستقبل برباد ہوگا۔ اور کچھ نہیں۔

اور اگر پھربھی آپ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر مارچ ، احتجاج اور دھرنے وغیرہ سے آپ کوئی بہت جوہری تبدیلی لا سکتے ہیں، تو دوستو، چاچا اطہر شاہ اور انکے بڑے بھائی چاچا اظہر شاہ نے بھی اپنی جوانی میں یہی سوچا تھا۔ اور پہنچے کہاں؟ آپ  تک ایک سچی ہڈ بیتی پہنچا ڈالی۔


آگے آپکی مرضی۔

(پسِ نوشت: چاچا اطہر شاہ، 2007 میں اپنے بڑے بھائی کی طرح خون تُھوک تُھوک کر ٹی بی کے ہاتھوں اللہ کو پیارے ہوگئے)

بدھ، 20 نومبر، 2013

گمشدہ لوگ، موجود کہانیاں

فرض کیجیے آپ ایک باپ ہیں اور آپکی عمر 70 سال ہے۔ آپکا بیٹا صبح دفتر جانے سے پہلے آپکے پاؤں چُھو کر جاتا ہے اور آپ اسے کہتے ہیں کہ آتے ہوئے دوکلو چِکن لے آنا کہ "شائستہ کے سسرال والے آرہے ہیں۔" ٹھیک ہے بابا، جواب آتا ہے۔ مگر وہ خود پچھلے  تین سالوں سے گھر نہیں آتا۔

یہ بھی فرض کیجیے کہ آپ ایک بہن ہیں اور آپکے والد صاحب کا انتقال کوئی دس برس قبل ہو گیا۔ آپکا بڑا بھائی ہی آپکا واحد کفیل ہے اور آپ اسکی شادی کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ ایک دکاندار ہے اور آپ کہتی ہیں، "بھائی، شام کو جلدی آنا، آپکی شادی کے جوڑے کا ناپ دینا ہے۔" وہ مسکراتا ہوا آپکو دیکھتا ہے اور کہتا ہے  کہ "جس بھابھی کو گھر میں لا رہی ہو، اسکی پھر شکائتیں نہ لگانا۔" آپ بھی جواب میں مسکراتی ہیں۔ مگر آج اسکی راہ تکتے کوئی سات برس بیت چلے۔ اور خود آپکے بالوں میں سفیدی آن چلی۔

آپ ایک بیٹی ہیں اور آپکی عمر ابھی بارہ سال ہے۔ آپکے ابو صبح سکول پڑھانے جاتے ہیں کہ وہ ٹیچر ہیں، مگر یہ واقعہ آج سے آٹھ سال قبل کا ہے۔ آپ نے اپنےابو کی شکل نہیں دیکھی اتنے عرصہ سے۔

اور۔۔۔آپ ایک ماں ہیں۔ دو بیٹوں کو جنم دیا، ایک قتل ہوگیا اور دوسرا غائب۔ آپ پچھلے چھ ماہ سے اپنے شہر کی سڑکوں پر دھکے کھا رہی ہیں اور آپکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

یہ ساری کہانیاں افسانوں کے بازاری رسالوں میں نہیں چھپیں، دوستو، یہ ساری کہانیاں انسانوں کی ہیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کی جو باپ، بیٹے، بہنیں، بیٹیاں، مائیں اور بیویاں ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جوظلم کا شکار ہوئے، ان میں وہ بھی ہیں جو شک کی بنا پر اٹھا لیے گئے، ان میں وہ بھی ہیں جو صوبائیت کے نام پر متشدد جاہلیت کی بھینٹ چڑھا دیے گیے۔ ہزاروں لوگ، ہزاروں کہانیاں، مگر افسانے نہیں، سچی کہانیاں۔

بلوچستان کی سچی کہانیاں جو کانوں کو بھلی نہیں لگتیں، مگر دل چیر دیتی ہیں!

میں ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ چودہ ہزار بلوچ جوان اٹھا لیے گئے۔ خود انسانی حقوق کمشن کی رپورٹ کے مطابق تعدا دوہزار سے کم ہے اور ان میں بھی کافی ایسے ہیں جواپنے تئیں سردارزادوں کی سیاسی عیاشی کی نذر ہولیے، مگر بہرحال زیادہ تر تعداد انہی کی ہے جو کہ اٹھا لیے گئے، مار ڈالے گئے، مار کر پھینک دیے گئے۔ اور اس سارے "گھڑمس" میں طرفین نے اپنے اپنے سچ بھی گھڑ لیے اور اپنے سچ کو ہی واحد سچ جانا۔

بلوچ کہتے ہیں، چودہ ہزار۔ حکومت کہتی ہے آٹھ سو—اور دونوں ہی جھوٹ بولتے ہیں، سفید، کالا اور لال جھوٹ۔ اپنے اپنے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے پھیلاتے ہوئے اور دراصل محض اپنے اپنے افسروں کو خوش کرتے ہوئے۔اور انہی اعداد میں موجود ہزاروں انسانی کہانیاں جیسے اپنا وجود ہی نہیں رکھتیں۔ ایک ثابت کرے کہ پاکستانی، اور خاص طور پر پنجابی، دنیا کے ظالم ترین اور  گھٹیا ترین لوگ ہیں۔ دوسرا یہ ثابت کرے کہ غائب ہونے والے سارے بلوچ ہی مسلح دھشتگرد تھے۔ پہلے بھی کہا، اب پھر کہتا ہوں: تم دونوں جھوٹے ہو۔ اور ایک کچا پکا مسلمان ہونے کے باوجود مجھے کہنا ہے کہ جھوٹؤں پراللہ کی لعنت ہے!

ماما قدیر اور اسکے ساتھ چلتی بلوچستان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں، میں آپ سب سے پوچھتا ہوں، کیا فاترالعقل ہیں؟ کیا انکے دماغ خراب ہیں کہ سردی گرمی میں پکی سڑک پر اپنی چپلوں میں آٹھ سو میل کا سفر احتجاجی طور پر کر رہے ہیں؟ کیا انکے بھائی، بچے، باپ، بہنیں اور گھر نہیں کہ یہ باہر سڑک پر اپنے پیاروں کے لیے در بدر ہورہے ہیں؟ کیا انہیں ویسے ہی گھر کا آرام عزیز نہیں جیسے آپکو ہے کہ یہ باہر نکلے ہوئے ہیں؟ کیا یہ بلوچ، انسان نہیں؟ اور کیا یہ پاکستانی نہیں؟

اپنی آواز بلند کیجیے آپ جہاں بھی ہیں۔ انکے لیے کہ یہ درماندہ ہیں آج، کیا معلوم کل آپکی باری ہو۔ اور آپ اگر آج خاموش رہے، تو یارو، آپکے لیے کل کوئی نہ بولے گا۔

بلوچ کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ چند احمق نوجوانوں نے جوابی تشدد کیا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ مارے دونوں طرف سے آپ اور مجھ سے عام لوگ ہی زیادہ گئے، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ اس وقت سڑک پر چلنے والے پر امن اور غیر مسلح بلوچ آپ اور مجھ جیسے عام لوگ ہی ہیں۔ انکی بات سنیئے، پھیلائے اور اپنے تئیں جتنا ہوسکتا ہے، جہاں ہوسکتا ہے انکا دامن پکڑئیے۔ ریاست نے جواب بھلے دیا ہو اپنے تئیں بلوچ نوجوان کے آزادی کے "سرداری سراب" کا مگر، بڑی ذمہ داری، میرے دوستو، ریاست کی ہی بنتی ہے۔ ریاستی جواب اور ایک مسلح بدمعاش کے جواب میں فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق بہتر ہو کہ آپ ابھی سے سمجھ لیں اس سے قبل کہ یہ آپ کے ساتھ ہو۔

میرے نزدیک، ہر اس بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی کا ساتھ دینا آپکا اور میرا سیاسی اور "پاکستانی" فرض بنتا ہے جو مسلح غنڈہ گردی کیئے بغیر اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ آج یہ بچے، بہنیں اور بیٹیاں باہر سڑکوں پر ہیں اور پر امن ہیں، خدارا انکے ساتھ کھڑے ہوں کہ یہ اپنا حق مانگتے ہیں اور اس میں بھی ریاست کا ہی بھلا ہے کہ یہ اٹھا کر غائب کردینے والی عادتِ بد سے شایدایسے ہی چھٹکارا پا لے۔

میرے یارو، یہ گمشدہ لوگوں کی موجود کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں کو سنو، سمجھو اور اس سے پہلے کہ یہ آپکی کہانی بنے، اس کہانی کے دراز ہونے کو روکو۔ ابھی اور یہیں۔


وگرنہ لوگ بھی گمشدہ ہوتے رہیں گے اور انکی کہانیاں بھی موجود رہیں گی۔

اتوار، 17 نومبر، 2013

شیعہ-سُنی، بھائی بھائی یا نری لڑائی، مار کٹائی؟

آج اتوار ہے، یارو، اور بہت سے پاکستانی آج سکون و آرام سے بیٹھے اپنا دن گزار رہے ہوں گے۔ میرا بھی دل کرتا ہے، مگر محنت کے علاوہ، مجھ سے لو-مڈل کلاس لوگوں کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار ہی نہیں ہوتا کہ ہم سے لوگ اگر محنت نہ کریں تو جو تھوڑی بہت ذہانت اللہ نے عطا کی ہوتی ہے، اسکو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ اور اگر ذہانت کو زنگ لگ جائے تو پھر صرف اپنے ہی مقدر نہیں، بلکہ نسلوں کے مقدر زنگ آلود اور وہ پھر یہ زنگ اتارتے اتارتے قبر میں ہی جا اترتے ہیں۔ مگر موضوع یہ نہیں  کہ جس پر آج کچھ لکھنا ہے۔ آج دراصل پھر آپکو اپنی ایک ہڈ بیتی سنانی ہے اور فیصلہ آپ پر ہی چھوڑنا ہے کہ آپ نے کیا بن کر جینا ہے: عمل کرنے والا ایک متوازن شخص یا مذہبی مداریوں، اسلامی دغابازوں اور فرقہ پرست دکانداروں کے زیرِ اثر ایک مستقل ردِعمل کا شکار جذباتی ہیجان اور ذہنی خلجان کا مارا ہوا شخص۔

کہانی میری، مگر فیصلہ آپکا۔

یہ 1996 کی بات ہے، میں اور میرا چھوٹا بھائی،  راولپنڈی کے ایک علاقہ پنڈورہ چونگی کے تنگ و تاریک چھوٹے محلے، چشتیہ آباد میں رہائش پذیر تھے۔ زندگی میں محنت مشقت ویسی ہی تھی جیسی کہ آج کل ہے، مگر صرف یہ کہ اب تجربہ ہنر اور مہارت زیادہ لہذا اسکا معاوضہ بہتر۔ ہم دونوں ایک تین منزلہ مکان میں مقیم تھے کہ جسکا کل رقبہ شاید ڈیڑھ مرلہ سے بھی کچھ کم ہی ہوگا۔ مگر اس مکان میں، میں اور مصدق، ہم ہی ایلیٹ کلاس تھے کہ گراؤنڈ پورشن ہمارے پاس تھا۔ درمیان والی منزل میں ایک افغان فیملی کہ جس کے نو بچے تھے اور شاید ایک  دنیا میں آنے والا تھا، جبکہ سب سے اوپر والے حصہ میں تین طالبعلم مقیم تھے جو کہ اکاؤنٹنسی پڑھ رہے تھے۔

افغان فیملی نہایت پرشور مگر سلجھی ہوئی تھی۔ خاتونِ خانہ ایک زندہ دل، مگر نہایت چھوٹی عمر میں ہی بوڑھی ہوجانے والی خاتون تھیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے وہ آج جہاں کہیں بھی ہیں۔ انکے پڑھے لکھے ہونے کا ایک ثبوت ہی کافی تھا کہ شدید بدترین حالات میں بھی انکے سکول جانے کی عمر والے سارے بچے سکول جاتے تھے اور ہم دونوں بھائی سنتے ہی رہتے تھے کہ وہ کس طرح ہر بچے سے سکول جانے کے معاملہ کی بابت پوچھتی رہتی تھیں۔ دو تین ہفتوں میں وہاں رہنے والے تمام لوگوں سے ہماری سلام دعا اچھی ہوگئی اور ہم ایک فیملی کی طرح رہنا شروع ہو گئے۔ انکی ایک چار سال کی بچی کا نام عاطفہ تھا اور پانی والی موٹر کا سوئچ ہمارے پورشن میں تھا۔ جب بھی پانی ختم ہوتا تو اسکی آواز آتی: "اااااااانکللللللل، مَوووتَر چلاااااا دووووو۔" آج بھی کبھی کبھی اپنے گھر میں موٹر کا سوئچ نیچے کرتے ہوئے اس ننھی فرشتہ کی آواز کانوں میں آتی ہے اور میں مسکرا اٹھتا ہوں۔

انکےوالد صاحب، پنڈورہ چونگی میں واقعی ایک تندور میں روٹیاں لفافے میں لپیٹ کر گاہکوں کے حوالے کرنے کی نوکری کرتے تھے اور میں نے انہیں کبھی بھی بولتے ہوئے نہ دیکھا۔ خاموش رہتے، آنکھیں نیچے رکھتے، اپنے کام سے کام اور نہ ہی کوئی دعا، نہ کوئی سلام۔ صبح سویرے سیڑھیاں اترتے اور کام پر، دوپہر میں کچھ دیر آتے، دو گھنٹہ بعد پھر کام پر اور پھر رات گئے واپسی۔ جاتے بھی خاموشی اور آتے بھی خاموشی سے۔

ایک دن اوپر والی خاتون نے ہم بھائیوں کے لیے دہی میں بینگن بنا کر ایک پلیٹ بھیجا، میں انکا شکریہ ادا کرنے کےلیے تنگ درمیانی صحن میں آیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آج چھٹی ہے، بس آرام تو انہوں نے کہا کہ کیا تم "اماری شادی کا فیلَم دیکنا چائے گا؟" میرے پاس بھلا اور کیا جواب ہوتا، میں نے حامی بھرلی اور ایک منٹ سے کم ٹائم میں عاطفہ سے ایک سال بڑی "یلدا" ویڈیو کیسیٹ لے کر نیچے۔

فلم وی سی آر میں لگائی اور میرے ہوش اڑ گئے۔ ساری عمر کے لیے ایک سبق حاصل کیا اور اس سبق کو شئیر کرنا ہی اس مضمون کا مطمئع نظر ٹھہرا۔ سکرین پر نہایت ہی امیر و کبیر خاندان کی جھلکیاں، مکمل مغربی طرز کی شادی کی تقریبات، ایک بہت بڑے ہوٹل میں کہ جسکا لان بھی درمیان میں کبھی کبھی نظر آ رہا تھا، مہمان بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف۔ بہت خوبصورت طریقہ سے ملبوس خواتین و حضرات، متمول، خوش، مطمئن، مسرور، بے فکر اور ہنستے مسکراتے ہوئے۔ اور انہی خواتین و حضرات میں اوپر والی آنٹی اور انکے شوہر بھی۔ شادی کے بہترین سفید مغربی جوڑے میں خاتون اور کالے رنگ کے بہت اعلیٰ مغربی لباس میں صاحب۔ اک عجب ٹرانس کے عالم میں وہ فلم دیکھی اور جب واپس کی تو پوچھا کہ کہاں یہ فلم اور کہاں پنڈورہ چونگی کا محلہ چشتیہ آباد؟

خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور کہا: "جنگ میرے بھائی، جنگ۔ لڑائی میرے بیٹے لڑائی!"

اسی مرحلہ پر معلوم ہوا کہ صاحب ایک بہت بڑے اور کامیاب کاروباری خاندان سے تھے، مگر نسلی، گروہی اور مذہبی لڑائی جو کہ کچھ افغانوں کی اپنی غفلت اور کچھ پاکستانی "مہربانی" سے ان پر مسلط کی گئی۔ ان جیسے ہزاروں خاندان تباہ ، برباد، مہاجر اور در بدر ہوگئے۔ قریباایک کروڑ افغان بین الاقوامی مہاجر بنے، مارے گئے یا اپنے ہی ملک میں ہجرت کی۔ اسکا سبب: لڑائی، لڑائی، لڑائی۔

اور زندگی چلانے، بلکہ گھسیٹنے اور پیٹ کا جہنم ٹھنڈا رکھنے کی خاطر، ایک نہایت کامیاب کاروباری، ایک تندور پر روٹیاں پکڑانے کے کام پر !

مذہبی جذباتیت کے دماغی ہیجان اور ذہنی خلجان میں مبتلا پاکستانی نوجوان نہیں جانتے کہ جب ملک اندر سے خراب ہوں، ٹوٹ جائیں تو انہی نوجوانوں کی مائیں مہاجر، بیویاں، بیٹیاں اور بہنیں ذلیل و خوار ہونگی۔ جو عمر میں بوڑھی ہونگی، وہ پرانے دنوں کی یاد میں آہیں بھرا کریں گی، اور جو نوجوان اور جوان ہونگی وہ طوائفیں، گھروں میں کام کرنے والیاں بنیں گی اور اک نسل کی جدوجہد میں مبتلا اندر سے خالی، ٹوٹی ہوئی شخصیات ہونگی۔ ابھی شیعہ اور دیوبندی بن کر سوچنے اور عمل کرنے والوں کی "انسانی غیرت" اس وقت دیدنی ہوگی جب خالی پیٹ انکے گھروں کی باعفت، با شرم اور تحفظ میں جینے والے بچیاں دوسروں کی ہوس بجھانے پر مامور کہ گھر میں ایک وقت چولہا جل جائے۔ تب شاید ان "شیعوں، دیوبندیوں، بریلویوں، اہلِ حدیثوں" کو سمجھ آئے گی کہ ردِعمل میں لڑائی، مار کٹائی کا اپنا مزہ بھلے ہوتا ہو، مگر وہ بےچارگی بھی کچھ کم "مزیدار" نہ ہوگی۔

اگر معاشرے اور ملک تباہ و برباد ہوں، تو دوستو، سب سے زیادہ متاثر بچے اورخواتین ہوتی ہیں۔ میری عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ ہم پاکستانی افغانوں کو تین نظروں سے ہی دیکھتے جوان ہوئے کہ انہوں نے پاکستان میں: ہیروئین، کلاشنکوف اور طوائفیں پھیلائیں۔ مان لیا کہ پھیلائیں اور وجہ یہ کہ انکے ملک میں لڑائی اور جنگ تھی۔ اور اگر ایسے ہی حالات اگر پاکستان کے ہوئے تو دماغی طور پر شیعہ اور دیوبندی بن کر جینے والے "غیرت مند پاکستانی جوان" جان لیں کہ ہیروئین اور کلاشنکوف تو اب کام ہوئے پرانے، مگر ان کے گھروں کی خواتین بہرحال طوائفیں ضرور بن سکتی ہیں کہ یہ قدیم ترین پیشہ ہے، جو جدید ترین بھی اور تاقیامت جاری رہے گا۔

آخری بات یہ کہ: کیا آپ نے کبھی، دوبارہ کہتا ہوں، کیا آپ نے کبھی کسی بھی افغان مولوی، مذہبی لیڈر اور مُلا کے گھر کے بارے میں وہ سنا جو میں نے اوپر بیان کیا ہے؟ کبھی سنا؟ اور اگر سنا ہوگا تو یہ کہ افغان مُلا امیر، کبیر اور خوشحال ہی ہوا اس جنگ کے کاروبار میں۔ آپ، ہم جیسے لوگ ذلیل و خوار ہوئے کہ افغانستان میں رہنے والے لوگ بھی "انسان" ہی تھے۔ ابھی یہ آپکی مرضی کہ آپ ذلالت (اور دلالت) کا راستہ چنتے ہیں اور شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، فرقہ پرست مُلاؤں کو خوشحال کرتے ہیں، یا اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے، ردِعمل سے انکار کرتے ہیں اور ایک صحتمندانہ زندگی سوچتے، بناتے اور جیتے ہیں۔

کہانی میری تھی، یارو، اور میں نے فیصلہ تو بہت عرصہ قبل ہی کرلیا تھا۔ اب آپکو سنا ڈالی، اور اب شاید فیصلہ کرنے کی باری آپکی ہے۔


ہاں جی، تو پھر ہو جائے شیعہ-دیوبندی لڑائی تاکہ  آپکی بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں۔۔۔۔ آہم! آہم! آہم!!!

جمعرات، 14 نومبر، 2013

لالہ موسیٰ کاولی

چار ہفتے قبل مجھےمیرے ایک دوست، خرم، نے کہا کہ بےچینی بہت ہے، مالی و دنیاوی کامیابی کے باوجود اور مجھے "کسی ولی کا پتا بتاؤ کہ میں جاؤں اورجاکر اپنی بےچینی کا علاج کرواؤں۔" میں نے جو مشورہ اسے دیا، وہ ورزش، واک، کتب بینی اور اپنے آس پاس کے ماحول کی تبدیلی کا تھا کہ میں ذاتی حیثیت میں ماں باپ اور آپکی اور آس پاس کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے والوں کو  ہی فی زمانہ اللہ کا ولی سمجھتا ہوں۔ 

ہم میں سے بہت سارے اولیاء کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور ایک خاص ذہنی خاکہ بنائے انسانوں میں روحانی اور میٹافزیکل معجزات تلاشتے رہتےہیں۔ ملتا کچھ نہیں کہ انسانوں سے معجزات کی کیا توقع؟ بلکہ "اسٹیبلشڈ اولیاء" سے معجزات کی توقع رکھنے والے اپنا وقت ہی ضائع کررہے ہوتے ہیں جبکہ انکے آس پاس روزانہ بہت سارے انسان ایسے بےشمار معجزات کر رہے ہوتے ہیں، مگر مجھ سے عامی انہیں دیکھ ہی نہیں پاتے۔

میں اسی لیے آپکو آج لالہ موسیٰ کے ایک سچے ولی کی داستان سناتاہوں، مگر یاد رہے کہ اسکا تعلق ایک مشہور کالم نگار سے نہیں، آہو!

1999 کی بات ہے، میں جاپانی سفارتخانے کے شعبہ سیاسیات میں ایک اسسٹنٹ تھا۔ ستمبر کے مہینہ میں ایک پبلک اشتہار کے ذریعہ میں نے امریکن سفارتحانہ میں شعبہء سیاسیات میں اسسٹنٹ کی ملازمت کےلیے اپلائی کیا۔ تین ماہ کے بعد، نومبر کے مہینہ میں مجھے اس ملازمت کے لیے چن لیا گیا اور چنوتی کے اس عمل میں میرے حوالے ایک فارم کیا گیا کہ اسکو بھرنا ہے۔ یہ ایک سٹینڈرڈ فارم تھا جو کہ آپکا نام، تجربہ، شناختی کارڈ نمبر وغیرہ کی معلومات کو اکٹھا کرتا ہے، اور بس۔ میری تنخواہ، دس ہزار سے چودہ ہزار مقرر ہوئی اور میں خوشی سے پاگل کہ اب میں ایک بڑا افسر بن گیا ہوں تو کیوں نہ اپنے قصبہ، ملکوال، جا کر والدین کو یہ اطلاع دوں کہ "اماں، تیرے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے، اماں۔ اب ہمارے سارے مسئلے حل ہو جاویں گے۔" اسی فیصلے نے مجھے رات بارہ بجے والی پشاوری جی ٹی ایس نیلی ہینو بس پر فیض آباد سے سوار کرایا کہ میں چار یا پانچ بجےکے آس پاس لالہ موسیٰ اترکر چھ سے سات کے درمیان آنے والی چناب ایکسپریس پر بیٹھ کر ملکوال جا نکلوں گا۔

ڈرائیور صاحب نے شاید مردان میں بنی  ڈبل چونے والی ایف سولہ نسوار کھائی ہوئی تھی تو میرے اندازے سے قبل ہی لالہ موسیٰ پہنچ گئی بس۔ میرے لالہ موسیٰ پہنچنے سے قبل ایک واقعہ اور بھی مگر وہ پھر کسی دن سہی کہ اس سے یہ تحریر کافی طویل ہو جائے گی۔

ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر میں نے بنچ پر بیٹھ کر آس پاس ایک نگاہ تکبرانہ ڈالی کہ ان عامیوں میں اب ایک افسر بھی بیٹھا ہے۔ ہا! اور دو کپ چائے پینے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ طویل فارم ہی بھر لیا جائے۔ اپنے بنچ کے سامنے پڑے ایک سٹُول کو میں نے اپنی طرف کھینچا اور اس پر اپنے بیگ سے نکال کر فارم رکھا اور اسے بھرنا شروع کر دیا۔ کویئ دس منٹ بعد میرے سامنے ایک عام انسان آیا   (یاد رہے کہ میں ان عامیوں میں ایک افسر تھا) اور اسکے گلے میں ایک لکڑی کے تختہ میں سگریٹ، پان، چھالیہ، عام بازاری ٹافیاں وغیرہ پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے دیکھا اور کہا کہ "بابا، میربانی، مینوں کج نئیں چاہی دا۔" مجھے دیکھ کر وہ ان پڑھ بوڑھا اور بدبودارعام مزدور مسکرایا اور کہنے لگا "خیر اے پتر،" مگر کھڑا میرے سامنے ہی رہا۔ میں نے سوچا کہ یار اس ملک کے یہ عام لوگ کبھی "انسان" نہیں بن سکتے اور اس بابے کو مکمل طور پر اگنور کر کے اپنے فارم میں ڈوب گیا۔

فارم بھرنے میں مجھے کوئی دو سے ڈھائی گھنٹے لگ گئے جس دوران وہ بدبودار بابا زیادہ تر میرے آس پاس اور سامنے ہی رہا۔ شدید چڑچڑاہٹ کے احساس کے باوجود توجہ سے اپنی افسرانہ ملازمت کا فارم بھرا اور پھر پورے سلیقے سے تہہ کرکے اپنے بیگ میں ڈالنے کے بعد میں نے اس بابے پر پھر چار حرف بھیجے اور پورے سلیقے سے وہ سٹُول اپنے سے پرے دھکیل دیا۔

جیسے ہی وہ سٹوُل میں نے پرے دھکیلا، اس عام جاہل اور بدبودار بابے نے وہ سٹول اپنی طرف کھینچا اور میں نے محض اسی وقت دیکھا  کہ وہ سٹول اس نے اپنی بائیں کٹی ہوئی ٹانگ کے نیچے رکھا اور اس سٹُول کی اونچائی بالکل اتنی کہ جس کے اوپر وہ اپنی کٹی ٹانگ رکھ کر آرام سے کھڑا ہو سکے۔

اس پراسس نے جس نے کہ بمشکل 15 سیکنڈز لیے، اس بابے کو  خوشبودار اور مجھے اس پلیٹ فارم پر موجود سب سے زیادہ بدبودار مخلوق بنا ڈالا۔ احساس شرمندگی اور ندامت ایسا کہ جیسے گھڑوں پانی میرے اوپر۔

خدا شاہد کہ بہت مشکل سے اپنے حواس سنبھالے اس ایک آدھ منٹ میں اور کہا "چاچا، جے کر ایہہ سٹُول تواڈا سی تے دس دینا سی، میں توانوں اوسے ویلے ای دے دیندا۔"

جواب آیا  "لے دس پُتر، جے میں تیرے کولوں سٹُو ل لے لیندا تے رب دیاں رحمتاں جیڑیاں میرے اتے ہویاں، اوہ   ولا  فیر ہونیاں سن؟"

یارو، میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ مگر  یہ کہ ایک سبق سیکھ لیا، ساری عمر کے لیے، وہ یہ کہ جو بدبو آپ کو دوسروں میں سے آ رہی ہو، ممکن ہے کہ وہ آپ کے اندر ڈھیروں اور بےشمار ہو۔ اور ایک سگریٹ بیچنے والا بابا آپ سے کہیں بہتر انسان ہو۔

انسان اپنی زندگی کے سفر میں بےشمار تجربات سے گزرتا ہے۔ میں بھی گزرا ہوں۔ آپ بھی گزرے ہوں گے۔ مگر اپنے ان تمام دوستوں سے کہ جو پیروں، فقیروں، سجادہ نشینگان، علما، فقیہان و دیگر میں سے اپنے لیے اولیاء تلاش کرتے ہیں، گذارش یہ کرتا ہوں کہ اپنے آس پاس دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا اور آپ بہت سارے ایسے زندہ انسانوں کو پہچان پائیں گے کہ جو اللہ کے ولی ہوں گے۔ اپنی تکلیف سے بےنیاز، اپنے اوپر جبر کرڈالنے والے، کار میں یا گفتار میں، مگر آپکو آسانی دینے والے۔ اور اسکی ابتدا ہوتی ہے آپکی ماں، پھر باپ اور پھر یہ چلتے پھرتے کردار۔

میرے تجربے کے مطابق "اسٹیبلشڈ صحافیوں"  کی طرح،  "اسٹیبلشڈ اولیاء"  بھی زیادہ تر، میرے دوستو، نرا ڈھکوسلا ہی ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات، انفلوئنس، کارپوریٹ اکانومی،  اور سماج میں اثریت وغیرہ کے غلام۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اپنی خواہشات کے غلام، بھلا آپکو کیا آزادی، سکون اور اصلیت دیں گے؟ خود سوچیں۔

مگر بہرحال، کسی بھی حوالے سے میرا اشارہ ایک مشہور لالہ موسوی صحافی کی طرف نہیں۔ لہذا انکے "جانثار" میری جان بخشی کریں، ایک مستقبل بینوی درخواست ہے۔

پیر، 11 نومبر، 2013

کاش کہ میں پاکستانی مولوی ہوتا

ایک نظم پیشِ خدمت ہے:

کاش کہ میں پاکستانی مولوی ہوتا
جو دل میں آتا
وہی بولتا
نہ سوچتا
نہ تولتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

مجھ سے سب ڈرتے
میرا دم بھرتے
مجھ سے نہ لڑتے
گر لڑتے، تو میں انکی گردن مروڑتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

تہذیب سے کیا واسطہ رکھنا
سائنس و ترقی سے کیا واسطہ رکھنا
کہ دنیا مسلم کے لیے قید خانہ
اور بس ادھر حلوہ ہی کھانا
اپنا دماغ کبھی نہ ٹٹولتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

جب چاہتااپنا جی
کرتا ہمیش اپنی کرنی
فساد کو بناتا جہاد
اور جہاد کو فساد
جہاد فساد، فساد جہاد
کبھی کوئی نہ مجھے پوچھتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

کتے کو شہید کہتا
ڈیزل کو دوا کہتا
فوجی کو کہتا ہلاک
نہ کرسکتا کوئی میری زبان بلاک
کوئی ایسا کرتا، تو مرتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

شہادت کے بانٹتا سرٹیفیکیٹ
جو مرضی میری
واٹس یؤر پرابلم، میٹ؟
دوجوں کے بچے جہاد پر
اپنے مغرب و دبئی بھیجتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

علم مؤمن کی میراث تو کیا؟
مُسلم دنیا میں ذلیل تو کیا؟
جہالت کے ہوں ڈیرے تو کیا؟
میں تو مسائلِ غسل
اور قصہء حور وغلمٰن چھیڑتا
کاش میں پاکستانی مولوی ہوتا

اتوار، 10 نومبر، 2013

منور حسن صاحب کے نام ایک کھلا خط – ڈرتے ڈرتے

:محترم جناب منور حسن صاحب

آپ سے ڈرتے ڈرتے مخاطب اس لیے ہوں کہ زندگی میں، میں دو مرتبہ اسلامی جمیعت طلبہ کی "پرامن اسلامی تبلیغ" کا بےپایاں مزہ چکھ چکا۔ اور میرا چھوٹا بھائی، مدثر بھی جو کہ اسی "پرامن اسلامی تبلیغ" کے ہاتھوں محض اٹھارہ سال کہ عمر میں پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے خیرباد کہہ گیا۔ اب میری عمر اکتالیس سال ہے اور سُنا ہے کہ اس عمر میں ٹوٹی ہڈیاں اور پھٹا گوشت بہت تکلیف بھی دیتے ہیں، اور بہت دیر بعد ہی بھرتے ہیں۔ لہذا ڈرتے ڈرتے، محترم۔

آپ نے چند دن قبل فرمایا کہ طالبان سے لڑنے والے پاکستانی سپاہی شہید نہیں۔ بالکل ٹھیک فرمایا، آپکی دلیل کو اگر انگلش زبان میں "اِنورس" کر کے دیکھا جائے تو بلاشبہ پھر پاکستانی سپاہی سے لڑنے والے طالبان، جو کہ شاید آپکے نزدیک مجاہدینِ اسلام ہیں اور وہی اسلامی نشاۃ ثانیہ کا سبب بھی بنیں گے، ہی شہید ہیں۔ آپ بہت مضبوط لہجے میں بات کرنے والے محترم شخص ہیں، لہذا آپ سے اختلاف رائے کرنے کے لیے مجھ سے ڈرپوک انسان یا تو پھر سے اسلامی جمیعت طلبہ کی "پرامن اسلامی تبلیغ" کے ہاتھوں خاموش رہے گا یا پھر آپ سے دوبدو بات کی بجائے، یہود و نصاریٰ کی یہ کلموہی ایجاد، کہ جسکو بلاگ کہتے ہیں، کا سہارا لے گا۔ آخر کو ا ب اس عمر میں میں نیلی آنکھ، کالی گردن، سرخ کمر اور پیلے رنگ کے ساتھ کہا ں جاؤنگا؟

آپ کبھی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے روحِ رواں بھی تھے اور کمیونزم کے قریب تر۔ پھر آپ پر اللہ کی رحمت ہوئی اور آپ نے کارل مارکس پر چار حرف بھیجے اور مشرف بہ مودودی صاحب ہو گئے۔ معاف کیجیے گا کہ میں لفظ "مودودی" پر رحمتہ اللہ علیہ کا محفف ڈالنا چاہتا تھا، مگر مجھےابھی اردو ٹائپنگ میں اتنی مہارت نہیں۔ یہ صفائی دینا اس لیے بھی ضروری جانا کہ کہیں میری صفائی نہ ہو جاوے۔

کارل مارکس سے ایک لمبی چھلانگ دوسری جانب بلاشبہ آپکا ذاتی معاشرتی و سیاسی حق تھا اور اس پر کسی قسم کی کوئی دو رائے نہیں۔ جس قسم کا انقلاب آپ کے من کو بھایا، آپ نے اس طرف ہی آنا مناسب جانا اور آپکی اس چوائس کا دل سے مکمل احترام بھی ہے۔ مگر یہ کیا کہ وہ سختیء گفتار جو شاید آپکو آپکے کامریڈ کے دنوں میں عطا ہوئی ہوگی وہ رحمت اللعالمینؐ کے لائے ہوئے دینِ حق کے گروپ میں شامل ہونے کے بعد بھی قائم رہی؟

  میری خواہش کہ کاش اللہ تعالیٰ مجھے آقاؐ کے وقت میں پیدا کرتے یا کوئی یہودی ٹائم مشین ایجاد کرے اور میں ماضی میں واپس جاؤں تو مجھے ایک بات کا مکمل یقین ہے کہ میں اپنے آقاؐ کو کم از کم آپکے لہجہ میں بات کرتے ہوئے نہیں سنوں گا۔ آپکے لہجہ و گفتار کی "غیر متزلزل ٹون" میرے یقین کے مطابق آقاؐ اور صحابہءکرام کے گروپ میں تو مجھے نہ ملےگی، مگر شاید "زمین جنبد نہ جنبد گل محمد" کے مصداق، دوجے کیمپ میں شاید سن لوں۔ میرا مقصد آپکو قطعی طور پر کچھ اور قرار دینا نہیں، اللہ شاہد ہے، مگر اپنی دلیل پر مکمل طور پر اڑ جانا اور آوازِ خلق کی مخالف سمت میں چلنے کی فطرت تو بہرحال صحابہء کرام میں موجود نہ تھی۔ اگر ہوتی تو صحابہءکرام، اسلام سے دور دور اور پرے ہی رہتے اور اپنے باپ دادا کے "دین" کو ترک کرکے آقاؐ کے کیمپ میں نہ آتے۔ انہوں نے تبدیل ہونے کو مقدم جانا اور آقاؐ کے زیرِ سایہ آکر انسانی تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کےلیے رقم کروایا۔ اور وہ جو کہ اپنی پرانی دلیل پر اڑے رہے، "عُمرو" (بالوزن عُمر) نام ہونے کے باوجود، ابوجہل کہلائے۔

میں آپکی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ اگر افغانستان میں طالبان سے لڑنے والے امریکی فوجی شہید نہیں، تو اسلام کے عظیم سپوتوں، تحریک طالبان پاکستان، سے لڑنے والے مردود پاکستانی فوجی کس طرح شہید ہوسکتے ہیں۔ میرے نزدیک تو شہادت کی تعریف آقاؐ اپنی شریعت میں چودہ سو سال قبل کرگئے مگر آپ پر یہ پہیلی، محترمی، آج ہی کیوں کھُلی؟ یہ پہیلی آپ پر ستر اور اسی کی دہائی میں کیوں نہ کھلی جب آج کے ہلاک، اس وقت کے شہید تھے؟ نعوذ باللہ من ذالک، کیا اسلام جنرل ضیاءالحق کے مرنے کے بعد تبدیل ہوا اور لہذا اس میں شہید کی تعریف بھی؟ آپکی طرح جید عالم اور  واقفِ اسلام نہیں، اس لیے سوچا کہ آپ سے اس کے بارے میں پوچھ لیا جائے۔

آخر میں یہ کہ میری گود میں کھیلنے والا میرا چچا کا ایک بیٹا میری ذاتی مخالفت کے باوجود فوج میں چلا گیا۔ مخالفت اس لیے کی کہ وہ بہت "ظالم" مصور، مصنف اور موسیقار بن سکتا تھا، مگر اس اُلو کو فوج میں افسری کا شوق تھا۔ ابھی وہ کیپٹین ہے اور سوات میں اسکی عمر کے اسکے چار کورس میٹس شہید ہوئے اور جب اسکی باری آئی تو اسکی ماں، میری چچی نے قران کے سائے میں اسکو رخصت کرنا مناسب جانا کہ بیٹے پر فخر تھا اور ہے۔ مجھے بھی اس پر پیار اور فخر ہے۔ چلیں وہ تو زندہ سلامت ہے، اور آگے سے کافی موٹا بھی ہوگیا ہے، مگر اسکے چار "مرنے" والے ساتھیوں کے علاوہ قریبا 4،996 دوسرے پاکستانی فوجیوں کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کےلیے آپکے پاس کیا کوئی دعا نہیں کہ آپ نے یہ کہہ ڈالا کہ سارے "مرنے " والے پاکستانی سپاہی شہید نہیں؟

اب آپ سے اجازت چاہوں گا مگر ایک سوال پھر بھی چھوڑے جاؤں گا:

آپکا بیان کیا ہوتا اگر آپکا اپنا بیٹا بھی فوج میں ہوتا، اور اللہ نے اسے شہادت کے مرتبہ پر فائز کیا ہوتا؟ کیا آپکی سختیء گفتار تب بھی یہی ہوتی جو دوسروں کے "ہلاک" ہونے والے بچوں کے بارے میں ہے؟

آخر میں میری طرف سے ایک اور ڈرا ہوا  سلام قبول کیجیے۔

آپکا مخلص،


مبشر اکرم بٹ
(شہر کا نام نہیں لکھوں گا کہ اکتالیس سالہ ہڈیاں عزیز ہیں)

ہفتہ، 9 نومبر، 2013

کتا شہید

مولوی صاحب نے فرمایا کہ امریکہ کے ڈرون کے ہاتھوں مرنے والا کتا بھی انکے نزدیک شہید ہے۔ اور یہ بات انہوں نے تسلیم کی کہ امریکہ کی نفرت میں کی۔

بہرحال یہ الگ بحث ٹھہری کہ جناب کے دل کا آپریشن ایک پاکستانی امریکی ڈاکٹر، ڈاکٹر مبشر نے کیا۔ ڈاکٹر مبشر ایک پاکستانی احمدی ہیں۔ دوسروں کی زندگیوں کا سوال ہو تو موصوف چنیوٹ جا کر بڑی بڑی تقاریر فرماتے رہے ہیں فتنہء احمدیت کے بارے میں، مگر اپنی جان کسے عزیز نہیں؟ اور بلاشک ایسے مشکل مراحل میں امریکی نفرت کو تھپکیاں دے کر سلانا ہی بہتر تھا، سو کر ڈالا۔

یہاں یہ بحث بھی لاحاصل کہ جب 2002 میں ایم ایم اے، جو کہ  فوج کی چھتر چھاؤں تلے بنائی گئی، نے 68 نشستیں حاصل کیں تو ایکدم سے جناب کو خیال آیا کہ یہ موقع ہے وزیرِ اعظم بننے کا، تو جن کی نفرت میں کتے کو شہید کہا گیا، انہی سے اور انکے دیگر "حواریوں" سے ملاقات بھی کی گئی جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ ہم امن کے پجاری ہیں، اور جو بھی کہا، وہ الیکشن کے بخار میں کہا۔ وزارتِ عظمیٰ بہرحال پھر بھی نہ ملی کہ اس وقت کے سپہ سالار، اور آج کے ملزم، جنرل پرویز مشرف نے کچھ اور ہی سوچا ہوا تھا۔ ایک صوبے کی حکومت ملی اور ان پانچ سالوں میں بہت "ترقی" ہوئی۔ سب سے زیادہ یہ ترقی ہوئی کہ رشوت کو ہدیہ کا نام دے دیا گیا اور مغربی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد، اسلامی صوبائی وزراء مختلف دعوتوں میں سیون اپ بھی ڈکارتے نظر آئے۔ ڈی آئی خان سے سینیٹر بننے والے ایک ارب پتی نے اپنے چھوٹے بھائی اور باپ کو بھی سینیٹ میں گھسیڑنے کی ٹھانی تو اس عظیم مشکل میں بھی صوبائی اسمبلی کے پاک اور پوِتر ایم پی ایز ہی کام آئے۔

مولانا صاحب، کتے تو شہید نہیں ہوتے، مگر شہیدوں کو اب کتا تو نہ کیجیے۔ آپ حسنِ کرشمہ ساز کے ماہر ہیں۔ پی پی پی کو ووٹ ڈالنے والوں کے نکاح بھی آپ نے باطل قرار دلوائے ڈالے اور بعد میں اسی حکومت میں کشمیر کاز کی عظیم خدمت بھی سر انجا م دی۔ کس کی مجال کہ آپ سے کوئی آپکے اپنے نکاح کی بابت کچھ پوچھ پاتا؟ آخر کو زندہ بھی تو رہنا تھا نا جی لوگوں نے، اور کیوں کوئی آپ سے آپکی ازدواجی زندگی کی حلالیت اور اسلامیت کے بارے میں آپکے ارشاد کی روشنی میں ہی سوال کرتا؟

انسان ہوں عام سا، سوچ بھی تو آتی ہے نا۔ اگر ایک عام سے انسان نے کسی کی بھی نفرت میں کتے کو شہید کہا ہوتا، تو اسکا حال تو اسکے علاقے کے مجاہدین ہی پوچھ پاچھ لیتے، آپ بڑی سرکار ہیں۔ آپکےاور آپکے بھائیوں کے ناموں کا ڈنکا بجتا ہے ڈی آئی خان میں اور آپکے جانثار اور ہمدرد لاکھوں میں ہیں، کیا پتا کوئی ایک آدھا اس عامی کے سر چڑھ جاتا اور اس بےچاری کی بیوہ ساری عمر کبھی کسی کتے کو شہید نہ کہتی۔ مگر آپ، آپ ہیں، خاص الخاص۔ کسی کی مجال کہ آپکے ارشاد کو بھلے وہ نکاح کی باطلیت کے بارے میں ہو یا کتے کو شہید کہنے کے بار ے میں، چیلینج کرے۔ نہ پہلے کبھی کسی نے کیا، نہ ہی کوئی آئندہ کرے گا۔

اب تو لوگ اس انتظار میں ہیں کہ آپ جناب کب گدھے، خچر، گھوڑے، کبوتر، بلی، اونٹ وغیرہ کو بھی مرتبہء شہادت پر فائز کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ آخر کو یہ مخلوقات بھی تو ڈرون حملوں میں مرتی ہونگی۔

باقی رہ گئے انسان جو پاکستان نے کوئی 50،000 گنوا دیے، تو جناب انکی خیر ہے۔ خاک تھے، خاک نشین ہولیے، آپکی باتیں، سیاستیں، وزارتیں، خاندانی کنٹرول چلتارہا، چلتا رہے گا۔ مگر ایک چھوٹا سا سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ آپکی دہنِ مبارکہ سے کبھی ان خاک نشینوں کے بارے میں وہ نہ نکلا جو ایک کتے کے بارے میں فرمایا گیا۔


مرنے والے انسان کیا مرنے والے شہید کتے سے بھی بدتر تھے؟