منگل، 3 دسمبر، 2013

مرجاؤں گا، ہٹوں گا نہیں

پاکستان آرمی نے پاکستانی معاشرے اور لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی کی۔ بہت سیاسی اور معاشرتی ظلم کیے۔ لوگوں کے سوچنے کی ہیئتِ ترکیبی برے کے لیے بدل ڈالی۔ اپنے چمچوں اور "کڑچھوں" کے ساتھ پاکستان پر شب خون مار کر حکمرانی کی۔ اسکے نتیجہ میں پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی جڑیں صرف ہلی ہی نہیں، بلکہ کٹ بھی گئیں۔ آرمی نے بہت سے حوالوں سے سیاسی اور معاشرتی کرپشن کو فروغ دیا۔ پرانے پاکستان میں سیاستدان اقدار اور  وقار کے ساتھ زندہ تھے، 1985 میں جنرل ضیاءالحق نے ایک سیاسی پنیری لگائی اور اسے جی ایچ کیو کے گٹر کاگندا پانی لگایا اور وہی پنیری اب پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں چارسو "لہلہا" رہی ہے۔ اس پنیری پر اگنے والے پھلوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بدبودار، بدذائقہ اور کرہت آمیز ہے۔ اس پنیری کو لگانےوالوں میں چاہے جنرل ضیاء الحق ہو، جنرل مجیب ہو، جنرل اختر عبدالرحمٰن ہو یا جنرل اسلم بیگ، ان سب نے پاکستان کے ساتھ ظلم کیا، ظلم۔ اس سے بڑی اور کیا جہالت کے پی ایم اے میں اٹھایا گیا حلف توڑا اور اپنے ہی حلف سے غداری کرنے والے دلالوں سے ایک پاکستانی کس سیاسی حب الوطنی کی توقع کرسکتا تھا/ہے؟

پھر جنرل مشرف المعروف "بغلی کتے والی سرکار" والے کا دور آیا اور اس میں جنرل احتشام "بے"ضمیر نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کو سیاسی دلالی کا مرکز بنایا اور ایک مرتبہ پھر سے 1985 میں ہی لگائی ہوئی سیاسی پنیری اپنی بغل میں فائلیں دبائے اسلام آباد میں اس دفترِ پراسرار کے سامنے نظر آتی تھی۔ ان میں ویسے کنٹینر انقلاب کے بانی، قبلہ طاہر القادری الکینیڈوی بھی شامل ہوتے تھے جنہوں نے بریلوی اکثریت کے بنیاد پر آئی آیس آئی کے الیکشن سیل سے پورے پاکستان میں سے 86 سیٹیں مانگ لیں۔ آخرمیں ایک ہی نصیب ہوئی جو بعد میں انکی کینیڈین شہریت کی بھنیٹ چڑ گئی۔ شاید سوچا کہ اگر ایک اہلِ حدیث، ڈاکٹر رفعت ہاشمی کینیڈا جا کر اسلام کی "خدمت" کر رہی ہیں تو رہ جانے والے خلاء کو ایک بریلوی ہی پُر کرسکتا ہے، لہذا، احتشام بےضمیر کا لگایا ہوا بریلوی پودا کینیڈا جا پہنچا۔

بغلی کُتے والی سرکار کے ہی دور میں سر پر وہسکی کے گلاس رکھ کر رقص کرنے کے ایک "عظیم "پاکستانی ہنر کی بنیا د رکھی گئی اور  شاید فن کی تو اتنی خدمت اس دور میں نہ ہوئی، مگر مختلف فنکاراؤں نے ایوانِ صدر میں بہت عروج حاصل کیا۔ لسٹ لمبی ہے، پھر کبھی سہی۔ انہی "سید صاحب" کے دور میں فوجی افسران کے لیے ایک تحریری حکم صادر ہوا کہ وردی پہن کر عوام میں جانا منع ہے۔ پاکستانی فوج کے گناہوں کی لسٹ بہت طویل، مگر تحقیق کہ سچ کہا جائے کہ اس پستی کے سفر کو جنرل کیانی نے خاموشی سے روکا اور پھر اسی پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنا خون دے کر دوبارہ بلندی کی طرف گامزن کیا۔

پاکستانی فوج، پاکستان کی ہے اور اسکا سپاہی اور افسر وردی میں ڈٹ کر دفاع میں کھڑا ہی اچھا لگتا ہے۔ اسلام آباد کے سیاسی قصروں میں سیاست کرتا ہوا یہ وردی میں "بھڑوے" سے زیادہ اور کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ دفاع میں کھڑے ماؤں کے بیٹوں، بہنوں کے بھائیوں، بیٹیوں کے باپوں اور سہاگنوں کے سہاگ کو دل سے/دل سے سلام، محبت اور شدید ترین شکریہ کے جذبات اور دعائیں۔ اور وہ جو پاکستانی فوج کے وردی میں پورے "احتشام" کے ساتھ مکمل "بےضمیری" کریں، انکی عزت، دوستو، وہی جو کوئی مہذب معاشرہ ایک بھڑوے کی کرسکتا ہے!

اور یہ بھی سچ ہے کہ اوپر بیان کردہ فلسفہ صوبیدار محمد محفوظ خان کی سمجھ سے بہت اوپر کی بات تھی، مارچ 2009 میں جب وہ کوہاٹ ٹنل پر بیٹھا اپنے گیارہ ساتھیوں کے ساتھ درہ آدم خیل کے جاہلان طالبان کے سامنے ایک ایسی تاریخ رقم کرنے جارہا تھا جو نہ کہیں پڑھی، سنی اور کہی گئی۔

کوہاٹ ٹنل کیا ہے، اس پر آپ گوگل کر لیں اور اسکی اہمیت آپکو معلوم پڑ جائے گی۔ اس پر دھشت گرد بہت مرتبہ پہلے بھی حملے کرچکے تھے اور ایک میں تو یہ بہت زیادہ ڈیمیج بھی ہوگئی تھی، نومبر 2009 کے مہینہ میں۔

محفوظ خان، اپنی اس چھوٹی سی کمپنی کا سربراہ تھا کہ جس کے ذمے کوہاٹ ٹنل کے تحفظ کی ذمہ داری تھی، درہ آدم خیل والی سائیڈ سے۔ حالات نہایت خراب تھے اور جاہلان ہر روز مختلف طریقوں سے اپنی متشدد جاہلیت کا ثبوت دیتے رہتے تھے۔ انہی دنوں میں سے ایک دن، درہ آدم خیل کے طالبان کمانڈر، یٰسین خان نے قریبا 100 سے زائد اپنے دھشتگرد ساتھیوں سمیت کوہاٹ ٹنل پر چڑھائی کرنے کی ٹھانی اور اسکے لیے ایک بڑا ڈمپنگ ٹرک تیار کیا کہ جس کے ذریعہ سے خودکش حملہ کیا جانا تھا۔ طالبان کمانڈر اور پاکستانی فوج کا صوبیدار  قریبی رشتہ دار بھی تھے،اور شاید اسی وجہ سے طالبان نے حملہ کرنے سے قبل ایک "وائٹ فلیگ" میٹنگ کی صوبیدار محفوظ خان سے۔

اس ملاقات میں طالبان کے جاہل کمانڈر نے پاکستانی فوج کے صوبیدار سے کہا کہ وہ اسکا خونی رشتہ دار ہے، پشتون ہے، مسلمان ہے، شادی شدہ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ ہے، مگر ایک   "کافر فوج" کے لیے لڑ رہا ہے۔ "آجاؤ، اور اسلام کے لیے لڑو،" یٰسین خان نے محفوظ کو ساتھ مل جانے کے لیے دعوت دی۔

صوبیدار نے ایک سطری جواب دیا: میں مرجاؤں گا، ہٹوں گا نہیں، تم لڑنے آئے ہو، لڑو!

مارے جاؤ گے، جواب آیا۔

پرواہ نہیں، صوبیدار نے جواب الجواب دیا۔

ہم سو سے زیادہ ہیں، تم صرف بارہ، کتنا لڑ لو گے؟ جاہلان کے کمانڈر نے کہا۔

پشتون ماں کا بیٹا تو بھی ہے، میں بھی۔ تیرا وقار تجھے لڑنے کو کہے، میرا وقار مجھے ڈٹ جانے کو۔ تو اپنی جان لڑا، میں اپنی جان لڑاتا ہوں۔ رشتے دار ہے تو،مگر میرے سامنے آیا، تو مار ڈالوں گا۔ پشتون بن، بندوق لے کر آیا ہے، اسکو استعمال کر، محفوظ خان نے بات ختم کر ڈالی۔

ظالمان کا ظلم شروع ہوا اور صوبیدار محفوظ خان نے ڈٹ کر جواب دیا۔ کمک کا کہہ ڈالا تھا پہلے ہی سے اور شدید ترین حملے اور دباؤ کے باوجود اس دلیری سے جواب دیا کہ طالبان کے تقریبا 27 جاہلوں کو جہنم واصل کیا اور نہایت ہی اہم ٹائم جو کہ 40-50 منٹ تک کا تھا، ٹنل کو بچائے رکھا۔ اسی وقت میں پاکستان آرمی کے مزید دستے اور ہیلی کاپٹرز پہنچ گئے اور ظالمان کے 50-70 لوگ مزید اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس جہنم میں پہنچا ڈالے۔ محفوظ خان اور اس کے دس ساتھی اس معرکہ میں شہید ہوئے، ایک بچ رہا کہ جس نے یہ ساری تفصیل بعد میں اپنے افسران کو بیان کی اور مجھ تک یہ تفصیل چند ہفتے قبل اسلام آباد کے ایک ہائی اینڈ کیفے میں کافی پیتے ہوئے اپنے ایک دوست کےدوست کی زبانی معلوم ہوئی۔ میرے یہ دوست  کے پی حکومت کے انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور انکے دوست ایک لیفٹیننٹ کرنل ہیں جو فرنٹئیر فورس رجمنٹ میں ہیں۔ انہی کرنل صاحب کی زبانی سنا جو بیان کر ڈالا۔ محفوظ خان جیسے دھرتی کے بیٹوں نے ہی مجھ سے سست لوگوں کی اسلام آباد میں کافی پینے کی شامیں محفوظ بنائیں۔ کافی کے ساتھ "ڈیتھ بائی چاکلیٹ"  کیک کھاتے ہوئے مجھے معلوم تھا کہ محفوظ خان نے ساری زندگی "کافی امیریکانو وِد ملک آن دا سائیڈ " نہ پی ہوگی اور نہ ہی یہ کیک کھایا ہوگا۔

سچ کہا، بولا اور سنا جائے کہ یہی بہتر ہے۔ پاکستان کے چار مارشل لاؤں میں دو سو سے زیادہ جنرلز نہ ہونگے۔ انکی وجہ سے پوری فوج کو گالی دینا ایسے ہی ہے کہ "بابا دہ ایزی لوڈ کوہ" کی وجہ سے باچا خان کو گالی دینا۔ ان چند سیاسی  طالع آزماؤں کی وجہ سے پاکستانی فوج کے لڑنے والے جوانوں اور سپاہیوں کی تضحیک کرنا ایسا ہے ہی جیسا کہ راجہ پرویز اشرف کی وجہ سے پوری پیپلز پارٹی پر دشنام تولنا، عبدالعلیم خان کی وجہ سے تحریک انصاف پر انگشت نمائی کرنا، پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 16 میں دیسی شراب پینے والے جماعتی ناظم کی وجہ سے مولانا مودودی کو برا کہنا،  بیکری میں تھپڑ مارنے والے شہباز شریف کی بیٹی کی وجہ سے مسلم لیگ کو برا کہنا وغیرہ۔

پاکستانی فوج کے افسران اور جوان جو دھرتی پر قربان، انکے احسان کا قرض ہے کہ درست بات عدل کے ساتھ کی جائے۔ اور اگر بہت سوں کے لیے وہی ڈھاک کے تین پات ہیں تو بھلے ہوتے رہیں کہ اسکا فرق انکے مقام پر نہیں پڑتا مگر ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس سے ایک ذہنی خلجان ضرور پیدا ہوتا ہے جو زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اسی "بلینکٹ تھنکنگ" کا غلام بن جاتا ہے۔ یہ بہرحال انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ خلجانی رستہ اپنائے، یا پھر "جو ہے، وہ ہے" کی سوچ کو فالو کرے۔


جو سنا، محسوس کیا، کہہ ڈالا۔اب شاید آپکی باری کہ بلینکٹ تھنکنگ کی پیروی کریں یا لوگوں، اداروں اور مختلف کرداروں کے ساتھ انکے حقائق کی روشنی میں انصاف کریں!