جمعہ، 25 اپریل، 2014

تیرا سچ، میرا سچ، اور اصلی سچ

کوئی کھوتے کا پُتر ہی ہوگا جو حامد میرپر قاتلانہ حملے پر بغلیں بجائے، ٹھٹھہ اُڑائے، مذاق بنائے اور دانت دکھائے۔ کوئی بھی شخص اپنے ذہنی توازن میں ایسی کسی حرکت کی حمایت کر ہی نہیں سکتا، تاوقتیکہ وہ اپنے تعصبات میں اتنا راسخ ہو چکا ہو کہ وہ اپنی ذہنیت کے مطابق کسی بھی بات کو سچ جاننے پر مسلسل آمادہ ہو، اور اپنے اس خیال کو ہی آخری سچ مانے۔ آخرکو ہمارے ہی ملک و معاشرے میں آپکو ایسے لوگ کافی اکثریت میں مل جائیں گے جو مذہب، عقیدے، ایمان اور سیاسی طاقت کے توازن کے معاملات میں اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے قتل کرنا اور پھر قتل کرتے ہی رہنا درست گردانتے ہیں۔ بلاشبہ، ایسے نادانوں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر اور بے اثرہی بھلا۔

حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان کی ذہنی آب و ہوا میں، حسبِ معمول، جھکڑ چلنا شروع ہو گئے اور ہر جانب انگشت نمائی کے، خیر سے، ایک نئے سلسلے نے جنم لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ میں چونکہ کھوتے کا پُتر نہیں ہوں، اس لیے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی کوئی خوشی قطعا نہ محسوس کی، نہ کرتا ہوں، اور نہ ہی ایسے کسی واقعے پر کبھی بھی کرونگا، مگر اس واقعے کے فورا بعد جیو نیوز کے ایک خاص زاویہ نے بہرحال مایوس کیا۔ حامد میر کے بھائی، عامر میر کو "بیپر" پر لیا گیا  جو صحافتی نارمز کے عین مطابق تھا۔ انکی رائے کو نشر کیا گیا، جو صحافتی نارمز کے پھر سے عین مطابق تھا مگر پھر انکی رائے میں سے جیونیوز نے اپنی مرضی کے چند حصے نکالے اور انکی اپنی سکرین پر حقیقتا بمبارڈمنٹ کر ڈالی، اور یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا، اس وقت تک کہ جب تک وزیرِ اعظم نے عامر میر کو فون نہ کیا اور بلاشبہ کچھ مزید ڈوریں بھی ہلیں اور جیو نیوز نے اپنی سکرین پر سے اپنے ردعمل کے جذباتی فقرات کو ہٹاڈالا اور پھر معاملات کچھ نارمل روٹین کی جانب چلے کہ جس میں دیگر خبریں اور موضوعات بھی شامل تھے۔

آئی ایس آئی اور فوج نے پاکستان کی سیاست و معاشرت میں بے تحاشا اور بھیانک غلطیاں کی ہیں اور یہ سلسلہ اکتوبر 1947 سے جاری رہا۔ فوجی اداروں نے اپنی مرضی کے نیریٹوز بنائے، بنوائے، خود بھی چلائے اور چلوائے بھی۔ ایک لمبی، بہت لمبی لسٹ ہے کہ جہاں پاکستانی دفاعی اداروں نے پاکستان اور پاکستانیوں کی طرزِمعاشرت کا تیاپانچہ کر ڈالا، زیادہ تر مذہب، نظریہ کے نام پر اور کم تر سیاست کے نام پر۔ مگر بے چارے  پاکستانی ایک معاشرتی و نظریاتی جزیرے سے، دوسرے پر مینڈکوں کی طرح چھلانگیں مارنے میں ہی مصروف رکھے گئے۔ کبھی ایشیا سرخ بنایا، کبھی سبز۔ کبھی دلائی کیمپ آباد کیا، کبھی شاہی قلعہ۔ کبھی  آرمی چیف وزیرِ دفاع بن بیٹھا اور پھر خود کو ہی پروموٹ کر کے فیلڈ مارشل بھی بنا ڈالا۔ کبھی ہائی لیول کے ڈنرز میں جنرل یحییٰ خان آپکو اپنی پتلون میں پیشاب کرتے ہوئے ملے گا، تو کبھی شراب کے نشے میں دھت کمرے سے برہنہ ہے باہر آتے ہوئے۔ پھر جنرل ضیاء نے اسلام کو ایسا رگیدا کہ  پاکستانی معاشرے کی ہیئتِ ترکیبی ہی بد سے بدتر کی طرف بدل ڈالی اور پھر فاتحِ کارگل پاکستان پر چڑھ دوڑے اور ابھی تک چڑھے ہی ہوئے ہیں۔ انہی دفاعی اداروں نے پاکستانی سیاست کی پنیریاں بھی لگائیں، وہ چاہے ذوالفقار علی بھٹو ہوں، یا میاں محمد نواز شریف، یا عمران خان، فوجی ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاست و معاشرت کے گھڑمس میں ملوث ہی رہے۔ جھنگ سے شیعہ سنی فساد کی ابتداء ہو یا کراچی میں مہاجر کے نام کی سیاست، آپ پاکستان کے کسی بھی سیاسی، معاشرتی، مذہبی بحران کو دیکھیں، اکثریت میں آپکو ڈانڈے دفاعی اداروں کی جانب ہی ملیں گے۔

 مگر جو ہے، وہ ہے، اور وہی کہا بھی جائے۔

یہ بھی سچ ہے کہ جنرل پرویز کیانی نے بہرحال کوشش کی کہ ان معاملات میں کم از کم کھلم کھلا دراندازی نہ کی جائے اور کوئی بھلے نہ مانے، حالات بہتر ہوئے اور پاکستانی طرزِ معاشرت میں ریپیوٹیشن کا جو خسارہ فوج کی بابت جنرل پرویز مشرف کے دور میں دیکھا جاتا تھا، اسکے اعشارئیے کافی بہتر ہوئے۔ کمانڈ کی تبدیلی کے بعد بھی دفاعی اداروں نے جنرل کیانی کی بنائی ہوئی روش کو ہی فالو کرنا بہتر جانا، ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جب تک کہ دماغی گرمی کے کچھ مظاہرے نہ کئے گئے اور جواب میں "وقار" کی بات کی گئی۔

سیاست اور ریاست، میرے یارو، انقلابی نہیں ارتقائی عمل پر ہوتے ہیں۔ انقلاب جدید ریاست میں محض ڈھونگ ہی ہے اور پاکستان، جیسی بھی ہے، کم و بیش جدید ریاست کے ہی خدوخال رکھتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر ایک بیان، یا ٹی وی پر بیٹھ کر تین چار بیانوں سے جو کہ اونچی آواز اور جذباتیت پر مبنی ہوں، کوئی بہتری نہیں آسکتی اور نہ ہی آئے گی۔ پاکستانی ریاست میں دفاعی اداروں کا ایک مخصوص سیاسی اور طاقتور کردار رہا ہے اور یہ اگر بڑھک بازی سے ختم ہو سکتا ہے تو ایک بڑھک میری جانب سے بھی قبول کیجیے: ہاااااا بکری ی ی ی !

جیونیوز نے یہی بڑھک ماری اور یار لوگوں نے اسی جمہور و جبر کی جنگ بنا ڈالا۔ کچھ فہم در آیا جنگ گروپ میں اور اسکے بڑے واضح اشارے بھی ملتے ہیں کہ جیونیوز پر بروزہفتہ کیا چل رہا تھا، اور آج کیا چل رہا ہے۔ اس دن محترمی انصار عباسی کیا کہہ اور مطالبہ کر رہے تھے، اور خیر سے آج انکی زبان، اشارے اور لکھائی کیا ہے۔ اس میں کچھ دیر بہرحال ہو گئی مگر کسی نے اگر  انکی ردِ عمل کی بڑھک بازی کو ہی صحافتی آزادی اور جمہور و جبر کی جنگ سمجھنا ہے تو ان سے اتنا ہی سوال ہے کہ: یارو، جیونیوز/جنگ گروپ ہفتہ کی رات کو درست تھا، یا اب ہے؟ ایسا ہو نہیں سکتا کہ بڑھک بازی بھی ٹھیک ہو، اور موجودہ صلح کے اشارے بھی۔ چند کےنزدیک ہوتا ہے تو ہو، مگر مجھے میرے تعصب نے ابھی تک اندھا نہیں کیا۔

اب معاملہ قانون کے کورٹ میں آ چکا اور جیونیوز نے کل حامد میر کا پہلا بیان جاری کیا، جو انکے بھائی عامر میر نے پڑھا۔ اس میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک بار پھر: درست کیا ہے، کل کا بیان یاہفتہ کی رات کی رائے؟ بیان بازی، بار بار کی جذباتیت پر مبنی تشہیر سے قانون کے کورس کو بدلا نہیں جا سکتا کہ قانون "کولڈ لاجک" کے اصول پر چلتا ہے۔ بہتر تو تب بھی یہی تھا، اور اب بھی ہے کہ قانون کا جواب، قانونی ہی ہو،  ردعمل کی تشہیر بازی نہیں مگر لگ یہی رہا ہے کہ یہ روش تبدیل نہیں ہوئی، اور شاید پوری سچائی سے تبدیل بھی نہ ہوگی۔ کہنے دیجیے کہ جیو نیوز/جنگ گروپ کو اپنی جذباتیت کی حماقت کا کچھ ادراک تو ہوا ہے کہ بازؤں پر کالی پٹیاں بھی آگئیں اور مفتیوں سے لے کر سیاستدانوں اور فٹ پاتھ پر بیٹھے عوام سے "جیو نیوز کو بین نہ کیا جائے" کے انٹرویوز چلائے جا رہے ہیں، مگر ایک سوال تو بنتا ہے: اتنا بڑا ادارہ، اور  جذباتی ردعمل کا شکارکیوں؟

 نعرے بازی اور جذباتی ردعمل کے عظیم الشان مظاہرے تو گدھا گاڑی چلانے والے بھی کر سکتے ہیں، نہیں؟

بہت عرصہ قبل ایک ذمہ دار ملازمت  میں ایک غلطی کر ڈالی اور اس غلطی کو اتنا بڑا نہ سمجھا اور اپنا رویہ نارمل اور انفارمل رکھا۔ میرے سینئیر آفیسر، جو کہ بتانے، سمجھانے پر یقین رکھتے تھے، مجھے صرف ایک فقرہ کہا:  "مبشر،  یہ غلطی تم سے دو سٹیپ جونئیر آفیسر کرتا تو کوئی بات نہیں تھی، مگر تم نے اگر اتنے سالوں کے بعد اس سسٹم میں کام کرکے بھی اس غلطی کو غلطی کی طرح ٹریٹ نہ کیا اور درست نہ کیا تو پھر یاتو تم ناکام ہو، یا پھر یہ نظام کہ جو تمھیں درست نہ کرسکےگا۔ " بات کی تفصیل میں کیا جانا، پھر کوشش کی، اور کامیاب ہی رہا، کہ ایک غلطی دوبارہ کبھی نہ ہو، اور جب بھی کبھی معاملات ہاتھ سے نکلے، تو ان سے سبق ہی سیکھا۔

جیونیوز کو بین نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی حکومت اور اسکے اداروں کو اپنی ضد و انا کا مسئلہ بنا کر اس معاملہ کو ہینڈل کرنا چاہیے۔ پہلے قدم پر تو دیکھتے ہیں کہ قانون کیا رستہ لیتا ہے، مگر اسکے لیے جیونیوز کو بالخصوص اور حکومتی اداروں کو بالعموم اپنے دماغی ٹمپریچر نیچے ہی رکھنے چاہئیں اور معاملہ فہمی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ جیونیوز نے اگر وہی جذباتیت کی رٹ جاری رکھی توبھی اسکے نتیجے میں ریاستی اداروں  اور جوابی ردعمل کو کسی بھی انتہا پر نہیں جانا چاہیے کہ ریاستوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اور یہ  کہ ریاستی و حکومتی کام ٹھنڈے دماغوں سے ہی بہتر چلتے ہیں۔ اولین ذمہ داری معاملہ فہمی کی، کوئی بھلے برا مانے، جیونیوز/جنگ گروپ کی ہے  کہ مضروب ہونے کے باوجود وہ حوصلے کا مظاہرہ کریں، جو کہ ابھی تک بہت اچھے لیول پر نہیں دیکھا گیا اور بات کو قانونی نظر سے دیکھیں۔ بڑھکیں بات بگاڑتی اور معاملات خراب کرتی ہیں جسکے نتیجے میں "دل سے احترام" کے بیانات بھی بالآخر عوام کے سامنے آجاتے ہیں۔

آخر میں ابھی کہیں سے واپسی پر اپنی لیز زدہ گاڑی میں جان بون جووی کا ایک پرانا مگر اعلی راک سانگ سنتے ہوئے دفتر واپس آیا تو اس میں گانے کے چار بولوں نے توجہ کھینچ لی، آپ سب کی نذر:

These days it seems like
There's three sides to every story
There's yours, mine
Lately there's the cold hard truth

 جینا ہے تو جذباتیت کی بڑھک بازی، نعرہ زنی اور بلند آواز سے بچ کر جینا سیکھیں، آپ بھلے انسان ہوں یا ادارے۔

 نہیں تو پھر آئیں " ہاااااا بکری ی ی ی" کا ایک نعرہ مستانہ لگائیں، اور پوری دنیا پر چھا جائیں۔

تو پھر شروع کریں جناب؟


جمعہ، 18 اپریل، 2014

ایمان بچانے کا صحیح طریقہ؟

یارو، میں پچھلے ایک سال سے ایک ہی روٹ سے اپنے دفتر کی طرف آتا ہوں۔ یہ ایف ٹین مرکز کی جانب جانے والی مین روڈ ہے اور یہ اسلام آباد کے بڑے مراکز میں شامل ہے۔ ایف-سیکٹر میں واقع تقریبا تمام مراکز کی طرح، یہاں بھی ڈیزائنر بوتیکس ہیں اور متمول طبقے کو اپنی پراڈکٹس کی جانب متوجہ کرنے کے لیے، بڑے چھوٹے تجارتی اور صنعتی ادارے سڑک کنارے اپنی اپنی مصنوعات کو مشتہر کرتے ہی رہتے ہیں۔ آج صبح دفتر آتے ہوئے، میں نے رستے میں کیا دیکھا، کچھ نہ لکھوں گا، آپ خود ہی ملاحظہ کرلیجیئے:



آپ نے دیکھا کہ روڈسائڈ ہورڈنگز پر نظر آنے والی تمام خواتین ماڈلز، جو کہ مکمل لباس میں ملبوس تھیں، کے چہرے کالے اور وہ سائن بورڈز پھاڑ دیے گئے ہیں۔

ابھی ایک اور بینر بھی ملاحظہ کیجیے، اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں پائے جانے والی اکثریتی مذہبی رسومات کو سبسکرائب نہ کرنے کے باوجود، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، بھلے میں اس قسم کی تقریبات سے اتفاق نہ کرتا ہوں:

چیزیں، بلاشبہ اپنے دائرے میں ہی اچھی لگتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ مجھے اگر  اسلام کے نام پر عورت کے وجود سے آبسیسڈ "پاکیزہ پاکستانی مجاہدین" کی تقریبات، خیالات اور انکے تصورِ زندگی پر کوئی اعتراض نہیں، تو یہی لوگ مجھ سوں کو آرام و سکون سے پاکستانی، بلکہ جنوبی ایشیائی تہذیب کے معیارات کے مطابق کیوں نہیں زندگی گزارنے دینا چاہتے؟ اب بندہ قسم سے کیا کہے، کیا کرے؟


خدا کا شکر ہے کہ نیچے نظر آنے والا ہورڈنگ ایک عمارت کی چھت پر ہے۔ اور اس میں بھی مجھے تو کپڑوں کا اشتہار ہی نظر آ رہا ہے، اور کچھ نہیں۔ آپکو کیا دِکھتا ہے ویسے؟ 
میں ابھی چالیس کے پیٹے میں ہوں۔ الحمداللہ صحتمند اور ایک سرگرم زندگی گزارتے ہوئے محنت کرتا ہوں۔ مجھے، اور یقینا   پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، کبھی ان روڈ سائیڈ ہورڈنگز سے کوئی خیالِ بد نہ آتا ہوگا۔ مجھ سے دنیا داروں، اور شاید آپ جیسے بھی، اگر روڈسائڈ ہورڈنگ پر ایک ماڈل خاتون دیکھتے ہیں تو شاید شعوری طور پر رجسٹر بھی نہ کرتے ہوں، مگر جن مجاہدینِ عظام نے یہ کارنامہ ہائے عظیم سرانجام دیے، کبھی آپ نے سوچا کہ انکے دماغ میں عورت کا وجود پاکستانی معاشرے میں فحاشی اور جنس کے ساتھ ہی کیوں جُڑا ہوا ہے؟

دماغ شاید میرا بھی خراب ہے، مگر صاحبو، دوجی جانب تو شاید  "افلاطونیت و بقراطی کی انتہا" ہے۔ اسلام کی آڑ میں اپنی دماغی اور جنسی کج رویوں پر تو کبھی کالی سیاہی پھیرنی نہیں، عورت چونکہ ویسے بھی "آدھی انسان" گردانی جاتی ہے اپنے ہاں کی معاشرت میں، چلو سارا بس اور سارا زور اس پر ہی سہی۔

 تو پوچھنا یہی ہے کیا یہی واحد طریقہ بچا ہے اپنے فہم کے  ایمان و اسلام  کو بچانے اور پھیلانے کا؟

بدھ، 16 اپریل، 2014

آدھی انسان؟ --- گزشتہ سے پیوستہ

یہ مضمون اپنے نہایت عزیز ٹویٹری دوست، سمیر علی خان کے نام کرتا ہوں۔ نوجوان ہیں، مگر قرانِ پاک کے حوالہ جات پر اعلیٰ دسترس رکھتے ہیں۔ مجھ سا جاہل جب قرانی حوالہ جات کا متلاشی ہوتا ہے، تو انہی سے رابطہ کرتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی مایوس نہیں کیا، اور امید کہ آئندہ بھی نہ کریں گے۔ ان سے بارہا موضوعاتی اختلاف ہوتا رہتا ہے، مگر کیا خوبصورتی ہے کہ یہ موضوعاتی اختلاف، کبھی ذاتیات تک نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔

 شکریہ سمیر کہ آپکی میل سب سے پہلے میرے پچھلےبلاگ کے بارے میں آئی جس میں قرانی ریفرنسز سے آپ نے ایک بار پھر میری مدد کی۔ آپکی میل کے بعد تو ایک لمبا سلسلہ چلا گالم گلوچ کا کہ جس میں مجھے کس کس لقب سے نہیں نوازا گیا۔ ہنسی اس بات پر کہ یہ سب ان لوگوں نے کیا جو اپنے تئیں اسلام کے دفاع میں بات کررہے تھے اور طرہ یہ کہ ان میں کافی تعداد خواتین کی بھی تھی۔ نامعلوم، ان کی کس شریعت میں اختلاف پر گالی دینا جائز اور کارِ ثواب ہے؟ وہی جانتے ہیں اور وہی بتا بھی سکتے ہیں۔

میرے ایک اور دوست سلمان نے کہا کہ عورت کی آدھی گواہی کے معاملہ پر مزید لکھنے سے پہلے علماء سے رابطہ کر لیا جائے۔ میرےذہن میں جسٹس کیانی اور جسٹس منیر کی عدالتی رپورٹ ہے جو 1953 میں لکھی گئی تھی۔ اس میں دونوں جج صاحبان نے واضح لکھا ہے کہ تمام فرقوں کے رہنما ایک دوسرے کو اپنے فرقوی معیار کے مطابق درست مسلم نہیں سمجھتے۔ لہذا میں نے سلمان سے معذرت کی کہ ہر عالم اپنے اپنے فرقے کی ہی "پِیپنی" بجائے گا۔ اس مضمون میں حوالہ جات صرف اور صرف قرانِ پاک سے ہیں۔ پڑھئیے اور آگے آپکی مرضی کہ کیا کرنا، سمجھنا اور سوچنا ہے۔

تمہید ہی لمبی ہو گئی۔ لہذا، مکمل ٹو-دی-پوائنٹ لکھوں گا۔

- عربی زبان میں مرد کو "رجل" کہتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرد ہوں تو انکی عربی  "الرجال" ہے۔ یہی "مرد" کی اصل عربی ہے۔  دوسرا قریب تر لفظ "المرء" ہے۔

- انسانوں کو، مرد یا مردوں کو نہیں، ایک بار پھر، انسانوں کو، مرد یا مردوں کو نہیں  عربی میں کئی دیگر الفاظ سے لکھا جاتا ہے جس میں  عرف عام میں"الانسان، انسان، شخص، البشر، بشر" شامل ہیں۔

- رشتے کے حوالے سے  "زوج قرین" خاوند کو اور "التابع" اسکو کہتے ہیں جو کسی حوالے سے آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہو۔

- عربی میں "زود بالجند" ایک "ورب" کے حوالے سے مستعمل ہے۔

سمیر کی مدد سے، اور کچھ میری ریسرچ کے مطابق، قرانِ پاک میں گواہی کے چار حوالہ جات ہیں:-

1۔  سورۃ المائدہ، آئت نمبر 106
2۔  سورۃ طلاق، آئت نمبر 2
3۔ سورۃ نور، آئت نمبر 4
4۔  سورۃ البقرہ، آئت نمبر 282

نیچے، سورۃ المائدہ کی آئتِ مبارکہ نمبر 106 درج ہے اسے پڑھیئے :


 اب سورۃ طلاق کی آئت ِ مبارکہ نمبر 2 ملاحظہ کیجیے:
 

 اب پڑھیئے سورۃ نور کی  آئتِ مبارکہ نمبر 4:


میں نے بار بار پڑھا ہے اور میرے فہم کے مطابق اوپر کی ان تمام آیاتِ مبارکہ میں عربی کا کوئی لفظ بالوزن "مرد" استعمال نہیں ہوا۔ آپ بھی صرف ایک بار نہیں، بار بار پڑھئیے، پلیز۔

اب آخر میں سورۃ البقرہ کی آئتِ مبارکہ نمبر 282 ملاحظہ کیجیے:
























اس آئتِ مبارکہ میں تقریبا درمیان میں  لفظ  "رجالکم" استعمال ہوا ہے۔ اور یہ آئتِ مبارکہ  مالی معاملات کے حوالے سے ہے۔ اس آئتَ مبارکہ کی اپنی تشریح ہے کہ اس میں ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جو مالی معاملات سے متعلق امور کی انجام دہی کا تجربہ نہ رکھتی ہوں۔ مگر میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ گالیوں کے طوفان سے ڈر تو نہیں لگتا، مگر دماغ کا دلیہ بہرحال بن جاتا ہے۔ اور میرے نزدیک دماغ اور ظرف "عاماں اُتے" ضائع کرنے کی اشیاء ہیں ہی نہیں۔

جلدی سے لکھتا چلوں کہ سورۃ المائدہ کی آئتِ مبارکہ بوقتِ موت وصیت کی گواہی کی بات کرتی ہے۔ سورۃ طلاق کی آئتِ مبارکہ  بوقت طلاق کی گواہی/شہادت کی بات کرتی ہے اور سورۃ النور کی آئتِ مبارکہ زناکاری کے معاملہ پر گواہان کی بات کرتی ہے۔ اور ان تینوں آیات ِ مبارکہ میں قرانِ پاک کی زبان و حروف جب گواہان کی بات کرتے ہیں تو اس میں جنس کی تفریق نہیں رکھتے۔ آپ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، ہزار بار، لاکھ بار پڑھ لیں کہ عربی زبان میں مروج  الفاظ جو "مرد" کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہ ان تین آیات میں نہیں۔ مرد ہونے کی شرط صرف، اور صرف، سورۃ البقرہ میں ہے، اور وہ بھی مالی معاملات میں ایک عام خاتون کی گواہی آدھی متصور ہوگی۔

میں نے چار تراجم سے رجوع کیا ہے۔ صحیح انٹرنیشنل، پکتھال، محمد یوسف اور ڈاکٹر غالی صاحب کا اور آپکو بتاتا چلوں کہ ان مترجمین کے اسلوب بھی  کچھ فرق رکھتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ، مگر محمد یوسف  اور ڈاکٹر غالی صاحب نے متفرق جگہوں پر گواہی حوالے سے بات کرتے ہوئے لفظ "مرد" کو بریکٹس میں لکھا ہے، یعنی (مرد)۔ انکی اجتماعی دانش  پر  میری کیا اوقات کہ کوئی بات کروں، مگر اگر قرانِ پاک کے "لٹرل سینس" کی بات ہے تو یارو، سچ یہی ہے کہ چار میں سے تین آیات میں گواہی کے حوالے سے جنس کی کوئی تفریق نہیں۔ ایک میں ہے، وہ بھی مالی معاملات میں اور اسکے بھی کوالیفائرز ہیں۔ مگر ایک بار پھر، اس پر بات کر کے میں نے اپنے دماغ کا دلیہ نہیں بنوانا۔

آخر میں، میں اپنے محترم والد صاحب کی ایک بات کوٹ کرنا چاہوں گا، اور اس بات کو ان تمام دوستوں کے نام کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے تئیں اسلام کے دفاع میں میری ماں بہن ایک کی۔ نجانے کس اللہ و رسولؐ کو خوش کیا ہوگا یہ سب کہہ اور لکھ کے۔

واقعہ یہ ہے کہ کوئی دو سال قبل چھوٹی عید پر نمازِ عید کی ادائیگی اور قبرستان میں جانے والوں کی قبروں پر حاضری کے بعد گھر واپس آ کر دودھ سویاں کھاتے ہوئے لوکل لیول پر ملائیت کے رویوں پر بات ہوئی۔ میرے والدِمحترم نے کیا کہا، انہی کی زبانی سنیے:

"ساڈے مولوی، سویرے، دوپہر تے شامی اللہ دے رسولؐ دا اک واقعہ بولدے رہندے پئی کس طراں اک  کافر بڈھی آقاؐ تے کوڑا سُٹ دی سی ہر روز۔ جدوں اوہنے تِن چار دن کوڑا نئیں سُٹیا تے آقاؐ اوہدے کار جا اپڑے تے پُچھیا پئی بی بی خیر اے، توں میرے تے کوڑا نئیں سٹیا؟   جدوں اوہنے آقاؐ دا ایہہ اخلاق ویخیا تے اوہنے کلمہ پڑھ لیا، او ایڈی متاثر ہوئی۔

 بٹ ساب، تُسی ذرا پاکستان وچ آقاؐ دے نام لین والے کسی اِک مولوی تے کُوڑا تے سُٹ کے ویخو!"

 اور اس "سُٹ کے ویخو" کا جواب، صاحبو، آپ بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ 

تالمت بالخیر۔

ہفتہ، 12 اپریل، 2014

آدھی عورت، اور در فٹے مونہہ

 اپنی اپنی مرضی کےاسلام، شریعت، فرقوی خیالات، خلافت اور نشاۃ ثانیہ کے مامے یہ مضمون بھلے نہ پڑھیں۔ اپنے آپ پر بھی مہربانی کریں، اور مجھ پر بھی کہ میرے بلاگ کا کمنٹ سیکشن سب کے لیے کھُلا ہے اور اس میں تبلیغ سے لیکر دھمکی تک، سب لکھا جا سکتا ہے۔

میرے نزدیک کوزے میں بند ہوئے اذہان نے حضرت آدمؑ سے لیکر، اب سے ایک سیکنڈ پہلے تک انسانوں، اور انسانیت کے لیے کوئی مثبت کانٹریبیوشن نہیں کیا۔ بلکہ زیادہ تر عقیدتی جذباتیت میں منفیت کو ہی ابھارا اور معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے عمل میں ڈالے رکھا۔ یہ عمل تقریبا تمام مذاہب میں، الوہی یا انسانی،   مشترکہ رہا ہے، چاہے یہودیت، مسیحیت ہو، یا ہو اسلام۔

اپنے تئیں خدا اور اپنے اپنے فہم کے مطابق جنت کماتے ہوئے افراد، بالواسطہ یا بلاواسطہ، تشدد کے ایسے ایسے واقعات میں ملوث رہے ہیں کہ جن کا مقابلہ کسی اور مخلوق سے ممکن ہی نہیں۔ یہودی زندہ انسانوں کو کیلیں ٹھونک کر اور پتھر مار مار کر مارتے رہے اور بھوک کا شکار رکھ کر انہی انسانوں کے وجود کا گوشت کاٹ کر انہیں کھلاتے رہے۔ مسیحی انسانوں کو زندہ جلاتے، اور زندہ انسانوں کی کھالیں اتار کر انہیں ٹکڑوں ٹکڑوں میں کاٹ کر مارتے رہے۔ انکے گلے آدھے کاٹ کر انہیں تڑپتا رکھ کر آہستہ آہستہ موت میں دھکیلتے رہے۔ مسلمانوں نے قبروں میں سے میتیں نکال کر چوراہوں میں لٹکائیں، مذہبی آئمہ کو مونہہ کالا کرکے گدھے پر الٹے مونہہ بٹھا کر معاشرے میں ذلیل کیا، مخالفین کی لاشوں کو ہفتوں گلیوں میں سڑنے دیا اور آجکل خیر سے گلے کاٹ کر ان سے فُٹ بال  کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس رفتار سے دنیا میں مسلمان گلے کاٹ رہے ہیں، لگ رہا ہے کہ شاید اسکا بھی جلد ہی کوئی ورلڈ کپ کھیلا جاوے گا۔

اور یہ سب خدا کے نام پر ہوا۔

میں پیدا پاکستان میں ہوا، اور رہنا بھی یہیں ہی ہے، لہذا پوائنٹ آ ف ریفرنس ہمیشہ پاکستان ہی رہا، اور رہے گا۔ مسلم امہ ، نشاۃ ثانیہ، خلافت، اپنے تئیں دین میں پیوریٹی، مذہبی رسومات وغیرہ کے جتنے مامے میں نے پاکستان میں دیکھے ہیں، اپنی محدود سی زندگی کے تجربہ میں کہیں اور نہیں دیکھے۔ نجانے یہ اسلام کی خوش قسمتی ہے، یا ہے بدقسمتی کہ اس میں اپنے فرقہ اور اپنی سمجھ کے اسلام کو درست ثابت کرنے کے لیے ریفرنسز ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ کچھ علم اور مطالعہ مذہب کا کر لیتے ہیں، وہ پھر بہت سختی سے اسکو پروپیگیٹ کرنا اپنا پیدائشی حق اور فرضِ منصبی سمجھ لیتے ہیں۔ مجھ سے "نہ اِدھر کے، نہ اُدھرکے" مسلمان ہر طرف سے ہی عتاب کا نشانہ بنتے ہیں اور ہر ایک کی تبلیغ اور تنقید کا نشانہ بھی۔ اللہ کی قسم، ایسے پاکستان کی امید کبھی نہ تھی، مگر یہ ہو چکا اور شاید معاملات مزید دگرگوں بھی ہوں۔ اِدھر اُدھر بات چیت کرنے، لکھنے پڑھنے کا مقصد، یارو، یہ بھی ہوتا ہے کہ جہاں ہو سکے، ایک مہذب مزاحمت کرنا لازمی ٹھہرا۔ نہیں تو آج کسی اور کے گلے کٹ رہیں ہیں، ہم چپ ہیں۔ کل میرا کٹے گا، ہم پھر بھی چپ رہیں گے۔ مگر پرسوں جب خیر سے آپ کے گلے پر چھُری پھر رہی ہوگی، تو آپ کے لیے بھی کوئی نہ بولے گا۔ لہذا بلاگ، ٹویٹر اور آس پاس، کوئی نہ کوئی ٹیں پٹاس لگی ہی رہتی ہے، اور جب تک مجھ رندِ خراب کی باری نہیں آتی، یہ ٹیں پٹاس لگائی ہی رکھنی۔

اپنے انداز کی تبلیغ  پر دلی معذرت قبول کریں اور اب  دو واقعات، آپکی نذر۔ یہ واقعات پچھلے چار دنوں میں پیش آئے۔

مجھے اپنے بینک اکاؤنٹ میں سے زکوٰۃ دینے کا کوئی شوق نہیں۔ اللہ نے دیا ہے، اور ہاتھ بھی کھلا ہے۔ اور جنرل ضیاء کے اس قانون کی عملداری اسکے اپنے گھر پر نہ تھی۔ میرے ایک رشتہ دار حبیب بینک، جی ایچ کیو برانچ، میں اس وقت مینیجر تھے جب بیگم شفیقہ ضیاء رمضان سے قبل آ کر سارے پیسے نکلوا لیا کرتی تھیں۔ جب اسلام کے اُس وقت کے مامے کا اپنا کردار یہ تھا، تو میں تو ٹھہرا ہی ایک گناہ گار انسان۔ لہذا اپنے بینک میں، میں نے سٹیمپ پیپرپر ایک ڈیکلیریشن دینا تھا، سپریم کورٹ  کے فیصلے کے مطابق، کہ میرے سیونگ اکاؤنٹ سے زکوٰۃ نہ کاٹی جائے۔ کچہری سے ڈیکلیریشن بنوایا اور بینک جا پہنچا۔ گواہان کے طور پر میں نے اپنے پارٹنر، علی حمید، اور اسکی بیگم، وردہ علی کے دستخط کروائے۔ بینک میں میرے دوست، سلمان، نے کہا کہ یار وردہ کی "گواہی قبول نہیں" کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مذاق کر رہا ہے، "چل اوئے" میں نے کہا مگر اس نے سنجیدگی سے کہا کہ "ہاں بٹ صاحب، یہ قبول نہیں اور یہ قانون ہے۔" میں سڑ کے رہ گیا اور کہا کہ یار اب اسکا طریقہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ کسی مرد دوست سے یا کسی ایک اور خاتون سے دستخط کروا کے لائیں۔ ٹائم کم تھا، لہذا اسی سے درخواست کی تو کہنے لگا کہ بینک آفیسر اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کا گواہ نہیں ہو سکتا۔ آس پاس دیکھا تو اس نے اپنے "ٹی بوائے" سے درخواست کی اور اس ٹی بوائے نے آکر اپنے پورے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دستخط کئے اور یوں میرا کام ہوا۔ ٹی بوائے، رشید،  کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے اسکی تعلیم وغیرہ کے بارے میں معلوم کیا تو جانا کہ وہ آٹھ جماعت پاس ہے، راولپنڈی میں پیدا ہوا، اور ابھی تک زندگی میں صرف لاہور وہ دوسرا شہر ہے جہاں وہ چند دن جا سکا اور اسکے علاوہ اسکا نہ کوئی ایکسپوژر ہے اور نہ ہی کوئی لرننگ۔

وردہ، صاحبو، دو ماسٹرز ڈگریاں رکھتی ہے، ان میں سے ایک ٹیلی کام انجنیئرنگ میں ہے  اور دوسری ڈیولپمنٹ سٹڈیز میں، اور پاکستان کی تیسری بڑی موبائل فون کمپنی میں نہایت مشکل اور ٹیکنیکل موضوع پر کام کر تی ہے۔ نہایت مناسب، اور مڈل کلاس پروفیشنل گھرانے سے اسکا تعلق ہے، کتب بینی، سفر اور  نئے علوم سیکھنے کا ذہنی میلان بھی رکھتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ میں جرمنی جا رہی ہے ایڈوانس پروفیشنل کورس کرنے، مگر اسے مبارک ہو، کہ وہ پاکستانی اسلام کی تشریح کے مطابق "آدھا انسان" ہے اور رہے گی۔ رشید اس سےپاکستانی اسلام  کی معاشرتی تشریح کے مطابق برتر ہے، اور رہے گا۔

اگر اس موقع پر میرے پڑھنے والے کسی اسلام کے مامے کا خون کھول رہا ہے تو اس سے سوال یہ ہے کہ اگر اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور تمام معاشروں اور تمام جہانوں کے لئے ہے تو، ذرا بتائیں کہ مغربی ممالک میں رہنے والی مسلمان عورتیں آدھی انسان ہیں، یا پوری؟ انکے لیے افسوس کی بات ہو شاید، مگر وہاں انکی گواہیاں پوری ہیں اور مجھے   پاکستانی اسلام کے ماموں سے پوری ہمدردی ہے کہ وہاں اسلام خطرے میں ہے اور یقینی طور پر یہ بھی یہودی، مسیحی، ہندوی، دہروی اور  اب"بٹوی" سازش ہو گی۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے جی-ففٹین میں گھر تعمیر کیا اور اس میں "برکت" کے لیے اپنے ایک پیر صاحب کو بلوایا کہ وہ آ کر دعا کریں۔ چھوٹی سی تقریب تھی اور مجھے بھی وہاں مدعو کیا گیا۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ پیر صاحب کی آمد کے وقت کے گزرنے کے بعد ہی جاؤں، مگر پیر صاحب مجھ سے زیادہ ہوشیار نکلے۔ وہ "صرف" ڈیڑھ گھنٹا لیٹ آئے اور جب میں ڈیڑھ گھنٹے کی "سیانت" کے بعد وہاں پہنچا تو پیر صاحب بھی وہاں تشریف لا رہے تھے۔ اپنا ماتھا پیٹا کہ آنے سے پہلے نفیس کو کال کر لیتا، مگر اب جال میں پھنس چکا تھا۔ پیر صاحب اسلام آباد کی ایک بہت بڑی گدی سے ہیں، اور کوئی پانچ سال قبل میں نے انکواپنے کمرے میں، جو اس گدی کے احاطے میں ہی واقع ہے، ایک "مشہور " مغربی سیٹلائٹ چینل "ہسلر" دیکھتے ہوئے بھی ملاحظہ کیا ہوا ہے، مگر وہ دن کچھ اور تھے، اور اب میں  اس اہمیت کا حامل نہیں ہوں، اور اسی میں زیادہ خوش بھی ہوں۔

خیر پیر صاحب اپنے پورے کروفر کے ساتھ وارد ہوئے اور پورے زاہدانہ زعم اور پروٹوکول کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ اپنے ساتھ "دم کیا ہوا عرقِ گلاب" بھی لے کر آئے ہوئے تھے۔ نشست ہوئی اور نفیس سے کہا کہ سب سے پہلے اپنے گھر کے ٹائلٹس دکھاؤ۔ نفیس نے ہاتھ باندھ کر حکم کی تعمیل کی اور چاروں ٹائلٹس کی انسپیکشن کے بعد پیر صاحب نے فرمایا کہ وہ اس گھر میں دعا نہیں کروائیں گے کیونکہ اس گھر کی ٹائلٹ سیٹس کی سمت "مشرق اور مغرب"  ہے اور یہ اسلام کے خلاف ہے۔ جب یہ "پیرانہ و عالمانہ خرافات" فرما ئی گئیں، میں بھی وہاں ہی موجود تھا۔ اگلا حکم یہ صادر کیا کہ اس گھر کی تمام ٹائلٹ سیٹس توڑ کر انکی سمت "جنوب سے شمال" کی جانب کی جائیں، اور اسکے بعد ہی پیر صاحب دعا کروانے تشریف لائیں گے۔

عقیدتی اسلام کی اس نشست میں، میں خاموش رہا کہ معلوم ہے پیر صاحب خود اور انکے جانثاران مجھ چھ-فٹے انسان کو شاید چھ منٹ میں چھ-چھ سینٹی میٹر کی چھ سو بوٹیوں میں تبدیل کر سکتے تھے، لہذا زبانی جہاد سے گریز کیا۔ انکے جانے کے بعد، میں کچھ دیر نفیس کے پاس بیٹھا رہا اور اسے مجبور کرتا رہا کہ یار، اس سے فرق کیا پڑتا ہے، اور خدا کا واسطہ ہے کہ زندگی کو آسان بنا کر جیئو اور اس بک بک میں نہ پڑو۔ مگر یارو، آج بارہ اپریل ہے اور نفیس پچھلے چار دن سے اپنے بالکل نئے گھر میں شفٹ ہوئے بغیر کرائے پر بارہ کہو رہتے ہوئے ان چار ٹائلٹس کو تڑوا رہا ہے اور نیا بنا رہا ہے۔ میں اسے روز فون کرتا ہوں اور "دُر فِٹے مونہہ" کہتا ہوں۔

 میری اس سے پرانی دوستی ہے، اور میں اسکا مذاق بھی بناتا رہتا ہوں، مگر اسکی اس جاہلانہ عقیدت کو صرف اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ وہ  بڑا ہیرا آدمی ہے، مخلص، محبت میں بھیگا ہوا، بیگم سے ڈرا ہوا اور مجھ سے یار باشی میں ملوث۔ رات کے دو ہوں یا دوپہر کے دو، میں اسکے اور وہ میرے لیے حاضر۔ مگر اس تمام یاری دوستی کے باوجود میں اسکے نئے گھر کو دوبارہ توڑ پھوڑ سے نہ بچا پایا۔

اب اسے کیا بتاؤں کہ یار، جب تُو ایف سِکس-تھری  سیکٹر میں واقع اپنے دفتر سے اٹھ کر اور بتیس کلومیٹر کا سفر طے کر کے ہر روز جی ففٹین اپنے ٹائلٹس کو تڑوانے جا رہا ہوتا ہے، عین اسی وقت، تیرے پِیر صاحب، نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد گدی کے احاطہ  میں موجود اپنے کمرے میں وہی "مشہور مغربی چینل، ہسلر" دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی، دل گرم اور دنیا کی "بدبوداری" سے مکمل مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہرروز ٹائلٹس کی سپر وژن کے بعد، نفیس پچاس کلومیٹر سے زائد سفر کرکے بارہ کہو، اسلام آباد کی نواحی آبادی، جاتا ہے، اور گھر پہنچتے پہنچتے اسے رات کے ساڑھے نو/دس بج جاتے ہیں، اور اگلی صبح اسے پھر سات بجے گھر سے نکلنا ہوتا ہے، دفتر کے لیے۔ اور اسی وقت میں اسکے پیر صاحب شاید "ہسلر " کی فیوض و برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ حق، حق، حق!

میرا مقصد ایویں کی تنقید کبھی نہیں رہا مگر سچ یہ ہے کہ دنیا  میں آگے بڑھنے، اللہ کی بنائی ہوئی نعمتوں، کہ جن میں انسانی دماغ بھی ایک ہے، سے استفادہ حاصل کرنے، معاملاتِ معاشرت میں کھلے دماغ سے جینے اور "کرنے والے کام کرنے" کے حوالے سے اپنے معاشرے اور لوگوں میں میں نے اپنی شعوری عمر میں زوال ہی دیکھا ہے۔ میں چونکہ "دنیا دار کُتا" ہوں، لہذا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس ملک و معاشرت کا بنا کیا ڈالا ہے اس سوچ، اس اپروچ اور اس رویہ نے کہ یہ ملک، معاشرہ اور لوگ گھٹن کے ایک ایسے سلسلہ میں گرفتار ہو چکے ہیں کہ جس سے اختلاف کا مطلب آپ کی گردن پر "اللہُ اکبر" بھی ہو سکتا ہے، مگر جان کے  ٹوٹو، یہ ملک میرا بھی تو ہے، اسکے نقصان پر نہ بولوں تو کیا خاموش تماشائی بنا رہوں؟ کیا زمانے میں پنپنے کی ہی باتیں ہیں؟

اور میں تو کوئی پیر بھی نہیں کہ "ہسلر "دیکھ کر اپنے اور دنیا کے غم بھلاتا رہوں، آہ!

جمعرات، 3 اپریل، 2014

غربت پر لعنت اور غریب پر؟

صاحبو، دو واقعات  دماغ میں اٹکے ہوئے ہیں، بہت سے سالوں سے اور ایسے ہی میں رہ رہ کر یاد آ جاتے ہیں۔

سنہء1994 میں، میں پاکستان کی شاید دوسری بڑی کنزیومر پراڈکٹس کی ایک کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر تھا اور زندگی میں پہلی بار، اس ادارے کی طرف سے، لاہور میں منعقدہ ایک دن کی ٹریننگ کے لیے جانا تھا۔ وسیلہء سفر یہ تھا کہ فیض آباد (راولپنڈی) سے سکائی ویز کی بس پر بیٹھوں، اور تقریبا چھ/سات گھنٹوں کے مسافت کے بعد لاہور جا اتروں۔ وہاں شاید ٹھوکر نیاز بیگ جانا تھا جہاں اس کمپنی کا ایک وئیرہاؤس تھا اور وہیں پر اپنی ٹریننگ بھی تھی۔ رات قریبا 10 بجے فیض آباد جا پہنچا کیونکہ 11 بجے کے بس پر سیٹ کنفرمڈ تھی۔ وقت گزارنے کے لیے میں بس اڈے سے منسلک ایک تنگ گلی سے ہوتا ہوا، مری روڈ آن پہنچا اور وہاں ایک ریستوران، کہ جہاں کے چپل کباب اور نان بڑے مشہور تھے، چلا گیا۔ جلدی سے کھانا کھایا، اور کھا کر دوسری سمت سے جانے کا ٹھانا کہ تھوڑی واک اور وقت گزاری بھی ہو جائے گی۔ فروری کا مہینہ تھا، اور سخت سردی میں اس ہوٹل سے ذرا آگے میں نے نیم تاریکی میں ایک منظر دیکھا کہ ایک کُتا اور ایک انسان دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اور انسان واضح طور پر سردی سے کپکپا بھی رہا تھا۔ پہلے تو خیال آیا کے آگے ہی جایا جائے، اور میں چند قدم آگے بڑھ بھی گیا، مگر پھر الٹے قدموں پلٹ آیا۔ انکی طرف بڑھا، اور بندے سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اور اسکے پاس رہنے یا سونے کی کوئی جگہ بھی نہیں۔ جو کرسکتا تھا کیا، وہ یہ کہ اسی ریستوران واپس گیا، اور شاید تین نان اور دو کباب لیے اور واپس انکی طرف جلدی سے چل پڑا۔ انکے قریب پہنچا تو دیکھا کہ کُتا بھی جاگ گیا تھا اور جیسے ہی میں نے نان اور کباب انکی طرف بڑھائے، تو کُتے کو بھی خوراک کی خوشبو آئی تو وہ جھپٹ پڑا۔ میں نے گھبراہٹ میں وہ کھانا اس آدمی کی طرف پھینکا اور ذرا آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ منظر، میرے دوستو، یہ دیکھا کہ وہ کُتا اور انسان ان تین نانوں اور دو کبابوں پر لڑ رہے تھے۔ کتے  نے خوراک کے اس پیکٹ میں اپنے دانت گاڑے ہوئے تھے اور وہ شخص اس سے وہ پیکٹ اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ چند ایک سیکنڈز کے بعد، وہ پیکٹ پھٹ گیا اور شاید آدھے نان کُتے اور آدھے انسان کے پاس آئے، مگر کباب اس میں سے زمین پر گِر گئے۔ اور ایک نئی جنگ شروع ہو گئی ان کبابوں پر اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے، اس شخص کو کتے کے مونہہ سے کباب چھین کر جلدی سے اپنے مونہہ میں ڈالتے ہوئے دیکھا۔ اس سے زیادہ نہ دیکھ پایا، اور تقریبا بھاگتا ہوا، سکائی ویز بس اڈے کی طرف ہو لیا۔

دوسرا واقعہ شور کوٹ کے قریب پیش آیا۔ سنہء1998 میں، میں سلسلہ سروری قادری میں بیعت ہوا کہ جس کے تانے بانے حضرت سلطان باہوؒ سے جا ملتے ہیں۔ میرے مرشد،  فقیر عبدالحمید صاحب، تحصیل کلاچی، ڈیرہ اسمٰعیل خان، میں رہتے ہیں، حیات ہیں، اور سچ کہوں گا کہ شعوری، حالتِ بیداری اور اپنےہوش وحواس میں بہت سے اعلیٰ روحانی تجربات و مشاہدات سے گزر چکا ہوں اس دور میں۔ روحانیت کے اس سفر کو بہت مشکل پایا اور اپنی متلون مزاجی کو سلام کہ قریبا چھ سال گزارنے کے بعد اس میں سے فرار اختیا ر کیا، مگر درست یہی کہ میں آج بھی اس سلسلہ میں ہوں، کم از کم سمجھتا ہوں کہ میں ہوں، اور اپنے اس سفر پر قائم نہ رہنے کو اپنا نقصان ہی تصور کرتا ہوں۔

بہرحال، بیعت ہونے کے بعد، دربار سلطان باہوؒ جانے کی ٹھانی اور روایت کے مطابق، وہاں "سلام" کی غرض سے جانے سے پہلے انکی والدہ اور والد صاحب کے مزار، جو کہ شورکوٹ میں وہاں کے مین چوک کے بالکل پاس ہے، پر سلام کرنا لازمی جانا جاتا ہے۔ جا پہنچا اور وہاں ایک اور خوبصورت روایت کا مشاہدہ کیا کہ مردوں کو بی بی مائی صاحبہ کی لحد کی طرف جانے کی اجازت نہیں، کہ پردہ ہے۔ میں ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتا، مگر  سلسلہ کی روحانی روایات کے حوالے سے اس میں بہرحال ایک خوبصورتی محسوس کی، بھلے اتفاق نہ کیا۔ دربار مائی باپ، کہ اسی نام سے جانا جاتا ہے یہ، کے پاس ہی دربار کی سرائے ہے۔ وہاں رات گزارنے کا مناسب بندوبست بھی موجود تھا۔ وہاں  رات گزاری، اگلی صبح دریائے چناب کے "پدھ" کو کراس کر کے میں گڑھ بغداد، جو پہلے گڑھ مہاراجہ کہلاتا تھا، کی طرف جانکلا۔ سخت سردی میں دریائے چناب کو کراس کرتے ہوئے بھی کشتی کے ملاح کی ایک دعا اور اسکی یاد ساری عمر رہے گی، مگر یہ واقعہ پھر کبھی سہی۔ ٹویوٹا ہائی لکس کے "ڈالے" میں بیٹھ کر دربار سلطان باہوؒ جا پہنچا۔ اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری کے لیے لائین میں بیٹھ گیا۔ سخت سردی تھی اور پیر صاحب کے حجرہ میں بجلی کی موٹی موٹی تاریں جا رہی تھیں۔ واضح طور پر اندر وہ "گرم ماحول میں چِل کر رہے تھے!" باری باری پر لوگ اندر جا کر "سلام" کر رہے تھے، مجھ سے آگے ایک شخص نے اپنی بات چھیڑ دی۔ معاشی بدحالی کا شکار تھے، مگر پیر کے لیے ایک چھوٹا کالا بکرا لے کر آئے تھے۔ تین بیٹیاں تھیں اور دو بیٹے۔ ایک بیٹا معذور دوسرا مزدور اور تینوں بیٹیاں بن بیاہی گھر اور خود وہ چیچہ وطنی کے کسی گاؤں سے تھے اور ایک وہاں ایک بڑھئی کے پاس مزدور تھے۔ ایک کالا بکرا، جیب میں چند روپے لے کر اور دماغ میں، معذرت، اپنی عقیدت کی جہالت لے کر، وہ پیر صاحب کے پاس اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے آئے تھے۔ بات لمبی نہ کرونگا یہاں، مگر ان سے گفتگو کا حاصل ایک فقرہ یہ تھا: "پائی جی، اپنے ملک وچ لوگ کُتے نوں روٹی پا دیندے، غریب نوں کوئی نئیں پُچھدا!"  انکی بات سنی، اور انہیں کہا کہ "ایہہ بکرا تے پیسے لے جاوو، پیرصاب نوں ایہناں دی کوئی لوڑ نئیں جے۔ تواڈے کسی کم آ جاون گے۔" جواب میں انہوں نے ایک نعرہ بلند کیا: حق باہو، بے شک باہو – اک نظر کرم دی تک باہو۔

میں نے انہیں انکے حال پر چھوڑا۔ دل میں شدید الجھن لیے وہاں سے اٹھ آیا تو ایک دوسرے صاحب نے پوچھا کہ کیوں اٹھ رہے ہو۔ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے دربار سے بلاوا آیا ہے، ادھر ہی جا رہا ہوں، ابھی آتا ہوں۔ اصل یہ تھا کہ میں نے سخت سردی میں، اپنے آس پاس کے لوگوں کے رویے میں شدید الجھن محسوس کی، اور اس بات پر شدید کرہت بھی آئی کہ درجنوں لوگ باہر کھڑے/بیٹھے ہیں، مگرپیر صاحب اندر بہترین ہیٹر میں کاجو اور چلغوزے کھا کر مزید گرم ہو رہے ہونگے اور ادھر لوگ اپنی اپنی جہالت میں اپنے اردگرد غربت کا گڑھا مزید گہرا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ زیادہ نہ رکا، گیا، حضرت سلطان باہوؒ کی لحد پر فاتحہ خوانی کی اور واپس راولپنڈی کی طرف روانہ ہو گیا۔

شکر کہ سوال کرنے کی عادت شروع میں ہی ڈال لی تھی، وگرنہ شاید آج میں بھی اپنے مستقبل کا کالا بکرا ہاتھ میں تھامے، اپنی مجبوریوں میں گھِرا، اپنی جہالت لیے اُدھر، یا کسی اور پیر کے در بیٹھا ہوتا۔

باتیں اور بھی ہیں، مگر اختتامِ کلام اس بات پر کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مشاہدہ، غلط بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ ہے کہ غریب لوگ جنوبی ایشائی خطے میں بڑے ہی مشکل رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اپنے تئیں اپنی روایات میں گڑے، اپنی زمین اور معاشرت  سے جڑے، یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنی جڑیں بلکہ عموما انکی بھی جو کہ شاید انکے کسی کام آنا چاہتے ہیں۔ میں یہ بلینکٹ اصول نہیں بنا رہا، مگر سچ کہہ رہا ہوں کہ میں نے شاید 80٪ یا اس سے بھی زیادہ معاملات میں غریب کو اپنے رویوں میں پتھر کا ہی پایا، اور پتھر کی چیز یا تو ٹوٹتی ہے، بوسیدہ ہوتی ہے، جامد ہوتی ہے، اور سال کے سال گزرنے کے بعد بھی وہیں کی وہیں ہی رہتی ہے۔


ایک مرتبہ پھر کہ یہ بلینکٹ اصول نہیں، مگر میری بات سے اگر سے اتفاق نہیں، تو بسم اللہ کیجیے، اور اپنا کوئی تجربہ کیجیے کہ جس میں آپ کسی غریب شخص پر تھوڑا ترس کھا کر اس کو کوئی کام دیں، اور پھر دیکھیں۔ مزید یہ کہ اگر معاشرتی اور انسانی علوم کے حوالے سے کوئی دلچسپی ہے تو، پاکستان میں موجود کسی بھی کمیونٹی میں جا کر انکی طرزِ معاشرت کا بغور مطالعہ کریں۔ انکے معاشرتی رویے آپکا "رغڑا کڈھ دیں گے!"