اتوار، 24 نومبر، 2013

کتے کی طرح ذلیل یا کرنے والے کام؟

اکتوبر 2005 میں مجھے اپنے اس وقت کے دوست، جو بعد میں اسلام آباد کی ایک" مشہور شخصیت" بنے، فیصل سخی بٹ کا فون آیا اور کہنے لگے کہ پی پی پی نے، محترمہ بےنظیر صاحبہ کے حکم کے تحت ایک تھنک ٹینک قائم کیا ہے اور "تُو ایک آزاد اور ذہین آدمی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تُو بھی اسکا حصہ بن جا۔"فیصل کی اس آفر نے مجھے بہرحال کافی "انٹریگ" کیا اور میں نے دو تین دن سوچنے کی مہلت مانگی مگر یہ مانتا ہوں کہ پہلا اس آفر کو مثبت انداز میں قبول کرنے کا ہی تھا۔ 2005 میں، میں 33ویں سال میں تھا اور خواہش تھی کہ "ملک کی خدمت کی جائے!"

میں نے شام کے وقت اپنے والد صاحب، محمد اکرم بٹ صاحب، سے فون پر بات کی، اس آفر کا بتایا اور انکا مشورہ چاہا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا مشورہ تو بعد میں، تو سارے کام چھوڑ، ملکوال آ جا۔ پھر بات کریں گے۔ میں نے اپنی "لیز-زدہ" سوزوکی آلٹو دبائی اور سیدھا ملکوال جا پہنچا۔ رات والدہ محترمہ کے ہاتھ کے کھانے کے بعد، یاروں دوستوں کی محفل، بے فکری اور ایک بھرپور نیند کے بعد، اگلے دن، ابو نے کہا کہ "چل وئی منڈی بول دین چلیئے، اوتھے ای تینوں میں مشورہ دیواں گا۔"

منڈی بہاؤالدین میں ایک جگہ ہے "دھکا کالونی۔" جی، یہی نام ہے: دھکا کالونی اور آپ نے اس کو درست ہی پڑھا۔ علاقے کے غریب غربا ء نے یہاں غیر قانونی آبادکاری کر ڈالی کہ جو بےگھر تھے کہاں جاتے؟ آہستہ آہستہ کالونی بڑھتی چلی گئی اور شروع میں اسکا نام، کہتے ہیں "دھکا شاہی کالونی" ڈالا گیا کہ لوگوں نے یہاں زبردستی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کرڈالے۔ اسی کالونی کی تنگ و تاریک اور بدبودار گلیوں میں سے گزرتے میں اور میرے والد صاحب، ایک نہایت چھوٹے سے مکان کے سامنے جا کھڑے ہوئے کہ جسکا دروازہ بھی نہ تھا اور پٹ سن کی بوری کو کھول کر ایک پردہ سا بنا کر ڈالا ہوا تھا۔

یہاں میری چاچا اطہر شاہ سے ملاقات ہوئی۔

معلوم یہ پڑا کہ یہ اور انکے بھائی منڈی بہاؤالدین کی سبزی اور فروٹ منڈی کے بڑے تاجران میں سے تھے۔ دکانیں، آڑھتیں، سیاسی اثرورسوخ اور سماجی مقام، سب کچھ تھا۔ مگر پھر دونوں بھائیوں کو "بھٹو صاحب لڑ گئے۔" (یہ الفاظ چاچا اطہر شاہ کے تھے۔)

"ملک کی خدمت، جاگیرداری کے خلاف جدوجہد، سماجی و سیاسی تبدیلی اور مِلی غیرت وغیرہ" کو حاصل کرنے کی کوشش میں چاچا اور انکے بھائی نے اپنی آڑھتوں کی بجائے سڑکوں پر احتجاج ، جلسے، جلوس اور نعرہ بازی کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ کاروبار متاثر ہونا شروع ہوا ور پھر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء باقی کسر پوری کر گیا۔

دکانیں گئیں۔ آڑھتیں گئیں۔ بینک کے پیسے گئے۔ صحت گئی۔ بھٹو کو پھانسی لگ گئی۔ اطہر شاہ کا بڑا بھائی، اظہر شاہ بیماری میں خون تھوک تھوک کر مر گیا، ٹھیک اسی سال کے آس پاس جس سال محترمہ بےنظیر بھٹو جنرل ضیاءالحق سے معاہدہ کرکے شاید 1982 میں اپنی والدہ سمیت لندن چلی گئیں۔ اظہر شاہ کا ایک بیٹا، جب میری انکے چھوٹے بھائی اطہر شاہ سے ملاقات ہوئی، بس اسٹینڈ پر بسیں دھوتا، دوسرا چائے کا سٹال لگائے اور بیٹی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں آیا، اور آپ سب سے پوچھنا یہ ہے کہ ٹھیک اس وقت، یعنی 2005 میں بھٹو صاحب کی آل اولاد کہاں تھی؟ اور اب بلاول محترم کدھر ہیں؟

اطہر شاہ کا اپنا ایک بیٹا ہیروئن پر، دوسرا ریڑھی پر، تیسرا جیل میں ، ایک بیٹی مطلقہ اور دوسری گھروں میں کام کرنے والی۔

"او ئے اکرم، اپنے پتر نوں سمجھا۔ ایہہ ایناں (بہن کی گالی دیتے ہوئے)  دی گلاں وچ نا آئے۔ ایہہ سارے ای حرامدے نیں۔ میرے ول ویخ۔ اپنے ول ویخ۔ اسی ہور کڈا ذلیل ہونا اے؟ تے نالے اسی تے ذلیل ہوگئے، ایس کھوتے دا کیوں دل کردا پئیا اے خجل خراب تے کتے وانگوں ذلیل ہون دا؟" جی یہ سارے الفاظ چاچا اطہر شاہ کے ہی تھے۔

مجھے اپنے والد صاحب کی جانب سے مشورہ نہ صرف ملا بلکہ دِکھ بھی گیا۔ میں نے فیصل کو کہا کہ میں آنے کو تیار ہوں، مگر میرے اکاؤنٹ میں دو کروڑ روپے اور ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ہو تو، صرف تبھی۔ چونکہ مجھے اس بات کے جواب میں انکا جواب معلوم تھا، اسی لیے ہی ایسی بات کی۔ "تینوں میرے تے اعتبار نئیں؟" فیصل نے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ "تیرے اتے تے ہے پر تیری پارٹی اتے نئیں۔"

نہ دو کروڑ آئے، اور نہ ہی میں "کتے وانگوں ذلیل" ہوا۔

آجکل پھر سے احتجاج کا موسم شروع ہے۔ میرے ملک کے نوجوان "ملک کی خدمت، سماجی، سیاسی نظام کی تبدیلی اور اسلام کے نفاذ" وغیرہ کے نام پر اپنی جوانیاں لٹانے کو تیار بیٹھے ہیں۔

نہ کرو۔ نہ کرو۔ نہ کرو۔

تعلیم پر توجہ دو۔ نئے نئے خیالات کو جنم دو اور انکو وجود میں لے کر آؤ۔ جو کام کرنے والے ہیں تمھارے، انہیں کرو۔ معاشرے کا مثبت حصہ بنو۔ اپنی ذات، ماں باپ، بہن بھائیوں، دوست احباب اور معاشرے پر توجہ دو۔ اپنا اخلاق احسن کرو۔ اک دوجے کو دیکھ کر مسکراؤ۔ ایک دوسرے کے مدد کرو۔ نوکری صرف کرو ہی نہیں، اس میں سیکھو اور پھر ایک دن، دوسروں کےلیے روزگار جنریٹ کرو۔ اپنی ذاتی ذمہ داریاں پہلے ادا کرو۔ آگے بڑھو، جان مارو، ہمت کرو، ذہانت بڑھاؤ، سختیاں برداشت کرو، اپنی ذات کی اکائی میں شانداریت کی مثالیں قائم کرو، جو کرنا چاہتے ہو، اس میں اپنے آپ پر یقین کرو، ناکامی سے سیکھو، گھبراؤ نہیں، دل و دماغ تعمیری و مثبت انداز میں استعمال کرو۔

احتجاج بھی کرو، مگر بشرطیکہ سارے کام جو کہ تمھارے کرنے کے ہیں، انکے بعد۔ شائستہ، مہذب اور ذمہ دارانہ احتجاج تمھارا جمہوری حق ہے۔ مجھ سے مردِ بےکار بھی تمھارے ساتھ تمھارے احتجاج میں کھڑا ہوگا اگر تم نے اپنے اصل کام سے عدل و انصاف کیا ہوگا تو۔ اپنا کام چھوڑ کر ملک سنوارنا، تبدیلی لانا، مِلی غیرت کو جگانا، دھرنے دینا، مارچ کرنا، میرے یارو، ذاتی منافقت سے زیادہ کچھ نہیں اور اس سے محض سماجی بگاڑ ہی پیدا ہوگا۔

بار بار بھیس بدل بدل کر موضوعات کے ڈھیر لے کر تمھارے پاس آنے والی جماعتوں کی نیت پر بھلے مجھے شک نہ ہو، مگر میں جانتا ہوں کہ انکی گلوریفیکیشن کے پراسس میں تمھارا وقت، ٹیلنٹ، زندگی اور مستقبل برباد ہوگا۔ اور کچھ نہیں۔

اور اگر پھربھی آپ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر مارچ ، احتجاج اور دھرنے وغیرہ سے آپ کوئی بہت جوہری تبدیلی لا سکتے ہیں، تو دوستو، چاچا اطہر شاہ اور انکے بڑے بھائی چاچا اظہر شاہ نے بھی اپنی جوانی میں یہی سوچا تھا۔ اور پہنچے کہاں؟ آپ  تک ایک سچی ہڈ بیتی پہنچا ڈالی۔


آگے آپکی مرضی۔

(پسِ نوشت: چاچا اطہر شاہ، 2007 میں اپنے بڑے بھائی کی طرح خون تُھوک تُھوک کر ٹی بی کے ہاتھوں اللہ کو پیارے ہوگئے)