جمعہ، 2 جنوری، 2015

کرسمس اور اللہ کی ناراضگی



مبین قریشی (قریشی ہی ہیں وہ، مگر نام اصل نہیں) میرے پرانے دوست ہیں۔ مذہبی خیالات کے مالک ہیں۔ میں عموما مذہبی بحث میں "مبتلا" نہیں ہوتا مگر وہ کیا کہ "پرانی یاری، سب پے بھاری" کے مصداق، ان سے اپنے اپنے تاریخی فہم، دینی مطالعہ اور سیاسی شعور کی بنیاد پر کبھی کبھی گفتگو ہو جاتی ہے۔

سال کے آخری ہفتہ میں ان سے ملاقات ہوئی، اور انہیں میں نے اپنی دوستی میں "ہیپی کرسمس" کہا تو ان سے ایک مزیدار گفتگو کا آغاز ہو گیا، جو ہر مذہبی و سیاسی بحث کی طرح بے نتیجہ ہی رہا۔

کل شام ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ کچھ سوچ میں تھے۔ میں نے چھیڑا تو کہنے لگے کہ یار مجھے معلوم پڑ گیا ہے کہ اللہ کی ذات ہم سے ناراض ہے، انکے اصل الفاظ تھے: "وہ ہم سے ناراض ہے، تم سے ناراض ہے، مجھ سے ناراض ہے، سارے پاکستان اور پاکستانیوں سے ناراض ہے۔" میں نے وجہ پوچھی تو ایک معیاری جواب، جو آپ سب بھی لازمی سن چکے ہونگے: "اسکے دین سے دوری اور مختلف خرافات میں الجھاؤ۔" اسکے ساتھ ہی انہوں نے میری، انہیں "ہیپی کرسمس" کہنے کی بات یاد آگئی اور انہوں نے فورا مثال داغ ڈالی، یہ کہتے ہوئے کہ تم جیسے پڑھے لکھے اور "سمجھدار" لوگ بھی اگر دین کی اصل بھول جائیں اور یہود ونصاریٰ کی بنائی ہوئی رسومات کو دل سے قبول کرلیں تو باقی عوام کا کیا حال ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ اسکے دین سے ہم سب دور ہیں کہ خرافات میں الجھ گئے ہیں جو اسکی  (اللہ) ناراضگی کا باعث بن رہا ہے۔

میں نے سب سے پہلے، انہیں مجھکو "سمجھدار" کہنے کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بات ختم کر دی۔ زیادہ بحث کی نہ طبیعت رہ گئی ہے، نہ میلان اور نہ ہی ذہن۔ ظرف دیکھ کر اور اپنا ظرف رکھ کر ہی سیکھنے اورسکھانے کا عمل جاری رکھتا ہوں، آپ بھی ایسا کیجیے، بہت فوکس رہتا ہے اور بہت سے تحفاتی خلجان اور ہیجان سے آپ محفوظ بھی رہتے ہیں۔

انکے جانے کے بعد ذہن میں ایک سوچ آئی۔

میں اپنے بچپن میں، ملکوال میں اپنے گھر میں سانیو کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی، جس کے دروازے بھی تھے، پر کرسمس کے موقع پر رضائی میں لیٹ کر مسیحیوں کے عباداتی پروگرام دیکھا کرتا تھا اور اپنے والدین سے سوال بھی پوچھا کرتا تھا کہ یہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ بھی کہ مسیحی مذہب، اسلام سے الگ کیوں ہے، کیسا ہے، انکا اللہ کون ہے، پیغمبر وغیرہ کون تھے؟ کبھی سوالات کے جوابات ملتے، کبھی نہیں۔ بچپن میں ایک دو بار والد صاحب کے ہمراہ چرچ جانے کا بھی اتفاق ہوا، کرسمس کے موقع پر اور وہاں موجود تمام "انسانوں" کے ساتھ ہم بھی "انسان" ہی اکھٹے تھے۔ مٹھائیاں کھاتے ہوئے، انکے گیتوں سے لطف اٹھاتے ہوئے اور انکی وہ محبت کی چاشنی محسوس کرتے ہوئے جو وہ شاید اس مسلم اکثریتی معاشرے میں بانٹنا چاہتے تھے، مگر اکثریت کی ایک مخصوص سوچ کی وجہ سے اپنے دلوں اور دماغوں میں چھپا کر رکھتے تھے۔ مسیحی مولوی، فادر اسلم جیکب، کا سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان سے دعا لینا بھی یاد ہے اور انکا اس بات کی تاکید کرنا بھی کہ "ابے دی گل منیا کر تے پڑھائی کیتا کر۔" یہ سب موجود تھا۔ امن بھی موجود تھا۔ 

مختلف خیالات کے لوگ ساتھ ساتھ امن و محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ معاشرے میں برداشت تھی۔ تمام فرقے اپنی اپنی فرقوی تشریحات کے مطابق اپنا حق بندگی ادا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ شیعوں کے دس محرم کے تعزیوں میں سنی اور دیوبندی شریک ہوتے تھے، بریلویوں کی محافل نعت میں دوسرے آتے اور دیوبندیوں کی ختم النبوت وغیرہ کانفرنسز میں بھی بریلوی اور شیعے شامل ہوتے۔ اہل حدیث عموما پرے پرے ہی رہتے مگر انکی آنکھوں اور اذہان میں باقی تمام کے لیے "بدعتی" ہونے کا طعنہ مفقود تھا۔

پھر پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں نے مذہب کے حوالے سے اپنی اپنی شناخت قائم کرنا شروع کر دیں۔ پہلے مسلم، غیر مسلم سے الگ ہوا۔ پھر فرقہ، فرقہ سے الگ ہوا۔ پہلے زبانی نفرت کا رواج چلا، اب گولی اور بم دھماکے فیصلے کرتے ہیں۔ پہلے ایک انسان کے مرنے پر مغرب کے وقت "لال ہنیری" چل جاتی تھی، اب پشاور میں ڈیڑھ سو بچے کو سر میں گولی مار کر قتل اور زبح کرنے پر معاشرے میں توجیہات ملتی ہیں۔

مبین قریشی صاحب، اللہ کی ناراضگی، کہ جس کے اشارے آپ نے بیان کیے، وہ تو میرے بچپن میں بدرجہ اتم موجود تھے، آپکے بقول، خرافات اور دیگر مذاہب کے ساتھ دوستیاں لگانے کے حوالے سے، مگر معاشرے میں میرے رب کی رحمتیں تھیں۔

اب آپ سے، لاکھوں نہیں کروڑوں مجھ سوں کو مسلمان کرنے کے چکروں میں پھرتے ہیں، اور معاشرے پراللہ کی ناراضگی بھی بظاہرا بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ آپکی داڑھی بڑھ رہی ہے، قریشی صاحب، آپکی زوجہ دوپٹے سے شٹل کاک برقعے کا سفر طے کر چکی ہیں، آپ نے اپنے بیٹے کو آٹھویں جماعت سے اٹھا کر دو سال میں حافظ قران بنا دیا، اور بیٹیوں کو  بی اے سے آگے پڑھایا نہیں کہ یونیورسٹیز کو ایجوکیشن ہیں۔ اور آپ واحد نہیں، آپ کروڑوں میں ہیں، تو بھیا، آپ کے دینی فہم کے پیمانے کے حوالے سے تو اللہ کو پاکستان پر رحمت کی بارش برسا دینی چاہیے، اتنی کہ یہاں رحمت کا سیلاب ہوتا، مگر محترمی، رحمت کا سیلاب تو تب تھا، جب آپ کا فہم اسلام کچھ کونے میں تھا، اور مجھ جیسے ہیپی کرسمس کہتے فادر اسلم کی دعائیں لیا کرتے تھے اور انہیں جوابی دعائیں بھی دیا کرتے تھے، کفر، بدعت، شرک اور کسی قسم کے دباؤ کے بغیر۔ اللہ تب ناراض نہ تھا، اللہ اب ناراض ہے۔

مگر جانتا ہوں، آپ کل مجھے کال کریں گے اور کہیں گے کہ "تو بندے دا پُتر بن ای نئیں  سکدا، ہن تینوں نئیں ملنا، تو میرا وی ایمان خراب کر دینا ایں۔" مگر آپکے فہم ایمان کے ساتھ مجھے تو کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا، نہ ہوگا کبھی، مگر مجھ سے کبھی یہ فقرہ نہ سنئے گا کہ میرے ایمان کو ایک مسیحی کو دعا دینے، اسکی دعا لینے، دوسرے انسان کے ساتھ بحیثیت انسان جڑنے، اسکی خوشی اور دکھ میں شامل ہونے سے نہ تو کوئی خطرہ پہلے تھا، نہ اب، نہ ہی کبھی ہوگا۔

آپکو اگر اپنے ایمان کی مضبوطی اور اسکے کمزور ہوجانے کی مسلسل فکر ہے، جو مجھے بالکل بھی نہیں، تو جناب، اللہ تعالیٰ جل جلالہ شانہُ کی رحمت کس پر زیادہ ہوئی؟

تفکر کیجیے گا، یا قران کے فیصلے کے مطابق، تفکر نہ کرکے چوپائیوں سے بدتر ہی رہیے گا؟