پیر، 23 جون، 2014

مولوی اور مصیبت

علی حمید میرا یار ہے، جگری۔ کبھی کبھار کہتا ہے: "مبشر بھائی، یہ مذہب و ملا کے حوالے سے زیادہ باتیں نہ کیا کریں۔ ہمارے لوگوں کو سوچنے کی زیادہ عادت نہیں، اور وہ آپکو پھر لیبل بھی کر دیں گے۔" میں اسکی بات اسکے سامنے ہمیشہ مان لیتا ہوں، مگر کیا کروں، آجکل جیسے حالات دیکھتا ہوں تو دل جلتا ہے، دل جلتا ہے تو پھر یارو، زبان بھی جلتی ہے۔ لہذا، علی جانی، بس ایک مرتبہ اور (اور یہی بات میں اگلی مرتبہ لکھنے/بولنے پر بھی کہوں گا، تُو جانتا ہی ہے!)۔

یہ بلاگ میں ان تمام پاکستانی نوجوانوں کے نام کرتا ہوں جو مُلائیت میں اسلام اور  ملاؤں میں شرع اور ان دونوں میں اسلامی نشاۃ ثانیہ اور انقلاب  تلاش کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاؤنگا، بس جلد جلداپنی ذات کے تجربہ اور مشاہدات پر مبنی واقعات آپکی نظر کرونگا۔

میں پانچ یا شاید چھ سال کا تھا جب ملکوال میں سوِل ہسپتال کے آفیسر، ڈاکٹر مبشر احمد کے خلاف مظاہرے ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب چونکہ احمدی تھے، لہذا انکو وہاں سے ہٹایا جائے اور تمام کائنات کا اسلام بچایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں کئی سالوں سے تھے، نہایت ملنسار، اپنے کام سے مخلص اور معاملات میں دیانتدار تھے۔ ملکوال ان دنوں چھوٹا سا خاموش قصبہ تھا اور وہ راتوں کو بھی لوگوں کے گھروں میں جاکر انکو خدمات مہیا کرتے تھے اور اسکا معاوضہ بھی نہ لیتے تھے اور میں اس بات کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔ خیر سے جامع مسجد بزم توحید (دیوبندی)، بڑی جامع مسجد (بریلوی) اکٹھے ہوئے اور پورے قصبہ میں ایک "دماغی آگ" لگا ڈالی۔ لوگ تنی کمان اور دو تین دن میں ہی یہ معلوم پڑا کہ ڈاکٹر صاحب پر شاید حملہ بھی کیا جائے۔ میرے والد صاحب، جو اس وقت اور اب بھی، بھٹو کے ڈسے ہوئے تھے،  ڈاکٹر صاحب کی عزت کرتے تھے اور شاید تیسرے دن کی آدھی رات، ڈاکٹر مبشر احمد اپنے خاندان سمیت ہمارے گھر کے دروازے پر پناہ کے لیے آئے۔ میرے والد صاحب  پی پی پی کے وائس چئیرمین تھے اور علاقے میں انکا کافی نام تھا ۔ انکار نہ کیا اور ڈاکٹر صاحب گھر تشریف لے آئے۔ کوئی  رات دو بجے فدائینِ اسلام ہمارے دروازے پر آن دھمکے اور بدتمیزی کی کوشش کی اور والد صاحب کو دھمکیاں بھی دیں۔ ابُو نے اپنا لائسنسی ریوالور نکال لیا اور کہا کہ جو بھی میرے گھر کی دہلیز پار کرے گا، اسے میری لاش کے اوپر سے ہی جانا پڑے گا۔ میں اس بات کابھی چشم دید گواہ ہوں۔ ان دنوں اسلحہ شاذ ہی تھا کہ یہ بعد میں "شہید غازی ضیاءالحق مدظلہ علیہ رحمہ" کی مہربانی سے پاکستان کا زیور بنا، لہذا تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد، مجاہدین اسلام پسپا ہوئے۔ ابُو نے ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ ملکوال اب انکے رہنے کی جگہ نہ رہا تھا، لہذا وہ یہاں سے روانہ ہوجائیں، ڈاکٹر صاحب نے ایسا ہی کیا اورانکے جانے کے کچھ دنوں بعد، سوِل ہسپتال ملکوال میں جامع مسجد بزم توحید کے خطیب کا سالا وہاں کا ڈاکٹر اور بڑی جامع مسجدکے خطیب کا ان-کوالیفائیڈ بیٹا کمپاؤنڈر تعینات ہو گیا۔ اور یہ یقینا ایک عظیم معجزہ ہی ہوا ہوگا کہ اللہ اپنے نیک بندوں کو یہاں بھی اور اوپر بھی نوازتا ہے، بلاشبہ۔

ملکوال میں ہی صدیقی صاحب تھے۔ فوت ہوگئے ہیں اور انکا پورا نام بھی یاد نہیں۔ انکی منیاری کی دکان تھی اور دو بیٹوں کے ساتھ دکانداری کرتے تھے۔ کٹڑ دیوبندی تھے اور مقامی تبلغی جماعت کے امیر بھی۔ خیر سے سود پر پیسے دیتے تھے اور پیسے کی وصولی میں پوری ایمانداری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ سود پر پیسے دینے کے علاوہ انکا ایک کام یہ بھی تھا کہ بیٹوں کی شادیاں کرتے، جہیز وصول کرتے اور پھر بعد میں طلاق عنایت کروا دیتے کہ اتنے نیک انسانوں میں ان گناہگار عورتوں کا کیا کام تھا بھلا؟ میرا ان سے ٹاکرا ایک مرتبہ جامع مسجد بزم توحید کے مؤذن، فتح محمد کی نوکری ختم کرنے کے حوالے سے ہوا، میں ان دنوں بڑا پکا دیوبندی تھا اور نمازعصر کے بعد اس محفل میں شریک تھا جب اس مسکین کی نوکری ختم کرنے کی بات چیت کی جا رہی تھی۔ میں نے انہیں کنفرنٹ کیا، اپنی نوجوانی کے جنون میں، تو انکا فقرہ ابھی تک یاد ہے:" تم ہم میں سے ہو ہی نہیں، تمھارا باپ شاید بریلوی ہے۔" کچھ بات بڑھی، مگر میں بہرحال فتح محمد کی نوکری نہ بچا سکا۔ موصوف شاید اس وقت حوروغلمان کے ساتھ شراب طہورہ سُڑوکے مار مار کے پی رہے ہونگے اور مجھ کم نصیب کے لیے ستُو بھی مہیا نہیں، آہ!

اللہ بخشے، ماسٹر اکبر شاہ صاحب۔ سر سے لیکر پاؤں تک بھیگے ہوئے بریلوی تھے۔ بھیرہ کے پیر، پیر کرم شاہ صاحب ایک دن ملکوال آئے، تو مجھے یادہے کس طرح لوگوں نے انکی پیجیرو کے ٹائروں پر ہاتھ مل کر اسکی مٹی اپنی آنکھوں میں پھیری تھی، ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ ماسٹر صاحب، نیک اور صالح آدمی تھے مگر سکول کے بعد ٹیوشن پر زیادہ زور دیتے تھے اور سکول کے دوران "مولا بخش" سے ہماری "ڈُھونڈریاں" سرخ کرے یا پھر نماز ٹھیک کرنے کی تلقین بھی کرتے۔ ایک مرتبہ کہا کہ جو شخص دورانِ رکوع گھٹنوں پر ہاتھ ایسے رکھے کہ اسکی انگلیاں گھٹنوں سے آگے نکلی ہوں تو روزِ قیامت، وہ انگلیاں آرے کے ساتھ کاٹ دی جائیں گی۔ وہ دن اور یہ دن، یہ رندِ خراب اپنی انگلیاں ہی بچاتا پھر رہا ہے۔ اپنے تئیں اسلام کی مکمل تصویر تھے، مگر اپنے ہوتے ہوئے کسی جونئیر کی پروموشن نہ ہونے دیتے تھے۔ آخر کو صلہء رحمی کی اپنی تشریح میں خود کو اور اپنے قریبیوں کو ہی سب سے آگے رکھنا فرض تھا شاید۔

اپنے ایک شیعہ ذاکر بھی ملکوال میں تھے، عاشق حسین صاحب۔ اعلیٰ ذکر کرتے اور بہترین مرثیات پڑھتے تھے۔ ذاکر ہونے کے علاوہ اسم بامسمیٰ بھی تھے اور ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ عشق فرماتے فرماتے ایک بچے کے باپ بننے کی طرف سفر بھی شروع کر دیا اس خاتون سے شادی کے بغیر۔ منڈی بہاؤالدین کے کسی گندے سے کلینک میں اس بےچاری کو لے گئے اور اسقاط کروانے کے پراسس میں اسکی اور اسکے بچے کی جان گئی۔ چونکہ آقا حسینؑ کے اپنے تئیں سچے عاشق تھے، اور نام بھی عاشق حسین تھا، لہذا، بھاگنے میں عافیت جانی اور کئی سال غائب رہنے کے بعد ہی وارد ہوئے۔ انکے دیگر معاملات بھی ہیں، مگر ذات کے حوالے سے گناہ ثواب پر بات کرنا میرا ظرف نہیں، اور جو بھی تحریر کیا ہے، ان حضرت کی اس منافقت کو بیان کرنے کےلیے کہ شاید کسی کے دل میں بات اترتی ہو۔ خیر سے موصوف اب بھی آقاحسینؑ سے عشق کرتے ہیں اور دس محرم سے چالیسویں تک کوئی بیس سے پچیس لاکھ روپے جمع کرلیتے ہیں اور پھر ان پیسوں میں سے کچھ پیسے خرچ کرکے، تھائی لینڈ اور چین اسلام پھیلانے جاتے ہیں اور بہت سی بدبخت اور جہنم کے جانب روانہ خواتین کو راہِ جنت پر گامزن کروا کر ہی واپس آتے ہیں۔

خان محمد قادری صاحب بڑے جوشیلے بریلوی مقرر تھے ملکوال میں۔ خوب فرقہ واریت بھڑکائی اور ملکوال سے ترقی کرتے ہوئے لاہور جا پہنچے۔ وہاں بھی حسبِ عادت سماج سدھار کا ٹھیکا اٹھا لیا اور ایک مقامی بدمعاش کو ایک خطبے میں رگڑا لگا دیا۔ کچھ رکھ رکھاؤ والے بدمعاش تھے وہ صاحب شاید، وہ شام کو مولانا قادری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ جناب  مجھے اپنی خطابت سے باہر ہی رکھیں کہ یہ لاہور ہے، ملکوال نہیں۔ اور "ایتھے بندہ مر جائے یا کُتا، پُچھدا کوئی نئیں جے!" مولانا صاحب کی ساری حریت بذریعہ "قادری انجلاب" بہہ گئی اور اسکے بعد کبھی انکے مونہہ سے ان بدمعاش صاحب کی شانِ عظیم میں گستاخی نہ ہوئی۔ بلاشبہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے، مگر صرف میری اور آپکی، قادری صاحب اپنی باری پر سیانت فرما گئے۔

اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران مجھے کوئٹہ کے ایک پشتون بھائی، فضل کریم، سے ملاقات کا موقع ملا۔ انکا بیٹا اسلام آباد کی ایک سب سے بڑی اہلحدیث مسجد و مدرسہ میں طالبعلم تھا اور ایک استاد محترم کے منظور نظر بھی جو اس بچے سے موقع کی مناسبت سے "زیادتی فرما لیا کرتے" تھے۔ فضل سے میرا رابطہ بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او کے توسط سے ہوا اور اپنی پیشہ وارانہ اہلیت اور چند دوست ہونے، اور بھرپور کوشش کرنے کے باوجود بھی میں ان استاد ذی احترام کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ کرا سکا، بلکہ فضل کو ان کا اپنا بیٹا بھی کوئی تین ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد ہی اس عظیم مدرسہ سے دلوا سکا اور اس سلسلہ میں میرے ایک اہلحدیث دوست، جو انکے سیاسی رہنما بھی تھے/ہیں، نے مدد کی۔ وگرنہ وہ استاد صاحب تو اس بچے کے ساتھ "شفقت" فرماتے ہی چلے جاتے۔ اس قضیہ میں مدرسہ کی انتظامیہ نے بھی بھرپور طریقے سے اپنے استاد کاساتھ دیا اور عین اس صبح وہ شاید یہ پڑھا کر آتے ہوں کہ کیسے میرے آقا محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر جرم فاطمہؑ بھی کرتیں تو انکا ہاتھ بھی کاٹ دینے کا حکم دیتا! مگر چھوڑیں جی۔ کہاں ایک غریب کوئٹہ وال کا بچہ اور کہاں ایک محترم استاد؟ یہ انصاف وغیرہ تو باتوں میں ہی اچھا لگے ؛ ہیں نا جی؟

اسلام آباد میں ایک مشہور اخبار تھا "مرکز" کے نام سے۔ اسکا دفتر اس وقت کے امریکی معلومات کے دفتر کے سامنے تھا بلیو ایریا میں۔ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف شدید مظاہرہ ہو رہا تھا، اور شیدائینِ اسلام و فدائینِ ناموسِ رسالتؐ ایک برطانوی مصنف کی تصنیف پر عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتی عمارت کے سر چڑھنے جا رہے تھے۔ کیا ہی اعلیٰ فہم پایا ہے میری قوم نے انصاف و عدل کا، یقینا!   قیادت "بطل حریت" مولانا عبدالستار نیازی فرما رہے تھے کہ آنسو گیس کے بعد پولیس نے فائرنگ کر ڈالی۔ آٹھ افراد جان سے گئے اور مولانا صاحب بھاگ کر مرکز کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں کے ان دنوں کے ایڈیٹر، جوبعد میں میرے بزرگ دوست بنے اور اب وفات پا چکے ہیں، نے بتایا کہ مولانا صاحب شدید گھبراہٹ میں تھے اور کہا کہ  معلوم نہ تھا گولی چل جائے گی اور "بڑی مشکل سے جان بچی!" اور وہ جو آٹھ مارے گئے، وہ تو بلاشبہ انسان تھے ہی نہیں۔ اتفاق ہے مولانا صاحب مرحوم، مکمل اتفاق ہے۔

اور بھی بہت کچھ دیکھا بھالا زندگی میں، پھر کبھی تحریر کرونگا۔ مگر اب بہت کوئیکلی، چار واقعات  و مشاہدات جو کینیڈین مداری، قادری شکاری کے انقلاب کی  زینت کی حوالے سے آپکی نذر کر رہا ہوں:

1۔ کل رات، مورخہ 22 جون کو میں نے اپنے دوست کی بیگم، جو ماں بننے والی تھی، کو خون دینے قائدِ اعظم انٹرنیشنل ہسپتال، پشاور روڈ جانا تھا۔ آفس سے نکلا اور وہاں کا رخ کیا تو کوئی ایک گھنٹہ ٹریفک میں الجھا رہا۔ قصہ مختصر کہ میں خون دینے نہ پہنچ سکا، مگر ٹویٹر پر ایک رحمدل دوست نے آرمی کے ٹرانسفیوژن سنٹر رابطہ کرنے کا کہا۔ دوست کو یہ مشورہ دیا تو عین آخر وقت میں خون کی دوبوتلیں ارینج ہوئیں، اور خاتون اور بچے کی جان بچی۔ انقلاب مبارک ہو قادری صاحب۔

2۔ آج صبح، میری ایک رشہ دار، مسرت باجی، نے چکوال سے فون کیا اور پوچھا کہ کیا اسلام آباد کی انٹرنس بند ہے؟ کنفرم کرنے پر بتایا کہ انکی بیٹی اور ساتھ میں گاؤں کی دو بچیوں کے  نسٹ میں انٹری ٹیسٹ تھے، جو وہ اس عظیم انقلاب کی بدولت نہیں دے سکیں گی۔ قادری صاحب نے تین نسلیں برباد کر ڈالیں کہ یہ تین بچیاں اب شاید وہ موقع زندگی میں حاصل نہ کر پائیں اور میاں صاحب کی عظیم فہم و فراست پر بھی "عقیدت کے چار حرف" کہ 2014 میں بھی 1014 جیسی ذہنیت کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ مگر خیر ہے، قائدِ انقلاب کے اپنے بچے تو باہر کی یونیورسٹیز میں پڑھ لیے، اور قائدِ اعظم ثانی کی اولاد تو یہاں ہوتی ہی نہیں، لہذا، انکو بھی کیا فکر؟ "پر یار شباز، ایہہ موٹر وے سمندر وچوں کڈ کے سدھا جدے تیکر تے لے جا!"

3۔ آپ میں سے کسی کو یاد بھی ہے ان بارہ مرنے والوں کے نام جو 12 ستمبر 2012 کو یوٹیوب پر ویڈیوکے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد میں مارے گئے تھے؟ وہ بھی اسلام کے نام پر مرے، اور اب ذرا انکی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، اور بوڑھے باپوں کے حالات کے بارے میں ایک لمحہ تو سوچیے؟ ان بارہ کو تو اپنی جہالت کی سزا مل گئی، انکی رہنمائی کرنے والے "شاہینِ شریعت، رہنمائے طریقت، مجاہد ناموس و ختم رسالت  و نبوت وغیرہ وغیرہ" خودیا انکے اپنے بیٹے رتبہء شہادت پر فائز نہ ہوئے؟ سوچیے کہ سوچنا اور تفکر کرنا ہی قرانی فیصلے کے مطابق آپکو چوپاؤں سے ممتاز کرتا ہے۔

4۔  آخر میں دل سے سوچئیے گا کبھی کہ آپ مسلمان زیادہ ہیں یا بریلوی، دیوبندی، شیعہ یا  سلفی وغیرہ؟ آپکا جذبہ، فہم اور ادراک کیا اسلامی ہے یا اپنے فرقہ کی بنیاد پر محض جذباتیت کے ہی شکار ہیں؟ آپکا بھلا مطالعہ وسیع ہو ان معاملات میں، مگر کیا اس مطالعہ نے آپکا ذہن کشادہ کیا یا آپکو مزید سخت کر ڈالا اپنے خیالات، نظریات اور تصورات میں؟ میں اپنے تجربہ، مطالعہ اور مشاہدہ سے یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر کوئی علم آپکی طبیعت میں سختی اور زعم پیدا کردے، تو وہ علم نہیں، آپکی  انا اور ضد کا چارہ ہے، اور کچھ نہیں!

آخر میں یہ کہ فتویٰ سے پرہیز کیجیے گا کہ مجھ سا رندِ خراب خان محمد قادری کو زندہ رہنے کے معاملہ میں اپنا پِیر مانتا ہے۔ 

حق حق حق!۔

پس تحریر: آپ میں سے کتنے ہیں جو اس بلاگ کی تصویر میں موجود بیان کی حقیقت میں رہنا چاہیں گے؟ خاص طور پر میرے لو/مڈل کلاس پنجابی دوست کہ جن کا طالبان کے ساتھ رومانس ہی ختم نہیں ہوچُکتا۔ "ویخ لیا جے فیر انڈین فلماں وی نئیں ویخن نوں لبھنیاں، آہو!"۔

جمعرات، 5 جون، 2014

ڈرتے کیوں ہو؟

دو واقعات، آپکی نذر۔

1988 میں، میں گوجرانوالہ کے گِل روڈ پررشتے کے خالو اکرام  کے ہاں رکا ہوا تھا، تو ایک رات، کزنز کے ساتھ اس وقت کی نہایت ہی خوفناک انڈین فلم، جو اب کامیڈی معلوم ہوتی ہے، "تہہ خانہ" دیکھ لی۔ فلم دیکھنے کے بعد کی صورتحال یہ تھی کہ کمرے کے اٹیچڈ واش روم میں جانے کے لیے بھی دو کزنز ساتھ جاتے، ایک باہر کھڑا ہوتا، اور دوسرا ٹائلٹ میں جنرل ضیاء الحق صاحب کو اکیس توپوں کی سلامی دیتا۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد میں کوئی  تین/چار دن مزید وہاں ٹِکا رہا، مگر مغرب کے وقت کے بعد ہم تمام کزنز ایک فوجی کمپنی کی صورت میں ہی ساتھ رہتے۔ خوف یہ تھا کہ اس فلم کا ولن، جو کہ سر تا پا پٹیوں میں ملبوس تھا اور جسکا بہترین مشغلہ لوگوں کو انکے سروں سے دبا کر ہلاک کرنا تھا، کہیں گوجرانوالہ کے گِل روڈ نہ آن نکلے۔ اس وقت تو یہ بھی خیال نہ آیا کہ اگر موصوف وہاں آئے تو شاید انکے تِکے، المشہور شہباز تکہ ہاؤس، میں بِک رہے ہوتے۔ اسی خوف میں، میں وہاں سے روانہ ہوا، اپنے قصبہ ملکوال چلا گیا، اور قریبا ایک سال تک، رات کے اندھیرے میں اس پٹیوں والی بلا کا ہی خوف پیچھا کرتا رہا۔ اس دور کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آیت الکرسی شاید کوئی کروڑ مرتبہ پڑھ لی ہوگی۔ مگر اس بلا نے نہ آنا تھا،  نہ آئی۔ مگر خوف نے کوئی ایک سال تک جان کھائے رکھی۔

دوسرا واقعہ  میرے ساتھ 1995 کے فروری میں پیش آیا۔ میں ان دنوں پاکستان میں کنزیومر پراڈکٹس بنانے والی دوسری کمپنی میں کمپیوٹر اسسٹنٹ تھا۔ زندگی بہت مشکل تھی اور اٹھارہ سو تنخواہ میں گھسٹ گھسٹ کر ہی گزارہ ہوتا تھا۔ ہر ماہ کی آخری تاریخ کو کمپنی کی کلوزنگ ہوتی تھی اور سارے زون کا سیلز سٹاف آتا تھا۔ اس دن بے تحاشا کام ہوتا، مگر میرے لیے کشش یہ ہوتی تھی کہ اس دن کمپنی کے کھاتے سے اچھا کھانے کو مل جاتا تھا۔ کبھی کھانا طباق سے آجاتا، کبھی عثمانیہ سے، کبھی صوفی ریسٹورنٹ سے یا کبھی میلوڈی میں واقع زینوز سے۔ مجھے ایک احساس، بخدا، بھلائے نہیں بھولتا جب میں تمام آپریشن مکمل  کرنے کے بعد سے میں آفس، جو کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی-سکس-تھری کے بازار روڈ پر سراج کوَرڈ مارکیٹ پر واقع تھا، کے ٹیرس پر کھڑا تھا۔ سردی تھی مگر کھلی کھلی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور مارگلہ کی پہاڑیوں کی دلفریبی۔۔۔ کیا کہنے! ایک خیال ایک دم سے جو ذہن سے گزرا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں تھا۔ کچھ مونولاگ تھا اور ایسے تھا: "1،800 تنخواہ ہے تیری، تیرا اپنا گزارا نہیں ہوپاتا۔ تیری تعلیم بھی صفر، تیرا ایکسپوژر بھی صفر، تیرے پاس سفارش  بھی کوئی نہیں،  تیرے باپ کے پاس پیسے بھی کوئی نہیں، تیرا باس (کہ جس کا نام شومئی قسمت سے "الطاف حسین تھا، اور ان پر بھی کبھی تحریر کروں گا) اپنے ذاتی اخلاق کے حوالے سے کوئی بہت مناسب آدمی نہیں اور مزاج میں عمومی بدتمیزی شامل ہے، تیری نوکری کا وارث ہے، تجھ سے زیادہ تو وئیرہاؤس کے لوڈر/ان-لوڈر کماتے ہیں، مبشر، تو ساری عمر کمپیوٹر اسسٹنٹ ہی رہے گا، اور تیرا کوئی مستقبل نہ ہوگا!"

اس خیال کے پراسس میں سے گزرتے ہوئے میں نے، یقین کیجیے، ایسا خالی پن محسوس کیا، ایسی بےسمتی محسوس کی، ایسی بےبسی اور  تاریکی محسوس کی کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے، بخدا، مجھ پر کم و بیش ویسی ہی کیفیت طاری ہے۔

اپنی اپنی نوعیت کے ان دو واقعات میں ایک چیز مشترکہ ہے: خوف، انہونی کا خوف، زندگی میں  "اچانکیت" کا خوف، اپنی کم مائگی کا خوف، اپنی بےبسی کا خوف، اپنی بےسمتی کا خوف،  اپنی شکست کا خوف، اپنی ناکامی کا خوف۔ خوف، صرف خوف، اور کچھ نہیں!

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، صاحبو۔ 1995 کے بعد زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوتی چلی گئی اور حالات  سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے۔ انہی چند سالوں میں سے گزرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کے چند ایک فلسفے ایجاد کیے اور ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ زندگی چلتے ہی رہنے کا نام ہے، ٹھہر جانے کا نہیں اور اسی چلتے رہنے میں ہی عافیت ہے، تنوع اور ترقی بھی۔ سچ یہ بھی ہے کہ 1995 کے صرف آٹھ سال بعد، مشکل ترین حالات کے باوجود میں نے زندگی کی پہلی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لی اور 1995 کے قریبا بیس سال بعد، میں اسلام آباد میں، پاکستانی معیار کے مطابق، ایک کمفرٹیبل مڈل کلاس زندگی گزار رہا ہوں، اور زندگی کے اس رگڑے کے بعد، اسے اللہ کی رحمت کے ساتھ ساتھ، کچھ کچھ اپنا حق بھی سمجھتا ہوں۔

یارو، ہماری زندگی پٹری پر ایک مستقل رفتار سے چلنے والی مشین نہیں ہوتی۔یہ بلکہ ملکوال-تا-منڈی بہاؤالدین کی پرانی اور کچی سڑک پر چلنے والی بس ہوتی ہے کہ جس میں 60 لوگوں کی گنجائش کے باوجود 120 لوگ سوار ہوتے ہیں، اور وہ کچے پکے راستوں پر اپنی "کمانیاں" اور ایکسل بچاتے ہوئے بڑی احتیاط سے ہلکورے لیتے ہوئے چل رہی ہوتی ہے۔ اس  میں آپکو جابجا بریکس لگانا پڑتی ہیں،انجن گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات "سِیز" بھی۔ بے تحاشا زور لگانے اور کوشش کرنے کے باوجود بھی آپ سپیڈ نہیں پکڑ پا رہے ہوتے، بلکہ جیسے ہی آپ سپیڈ پکڑتے ہیں، سامنے کوئی کھڈا، کوئی "گاں،" کوئی "مجھ" یا اپنی ٹوٹی سائیکل پر "سوپر، سب توں اوپر" برانڈ کا سگریٹ پیتے ہوئے ایک جاٹ جا رہا ہوتا ہے اور آپکی زندگی کی بس کو نہ صرف رستہ نہیں دیتا، بلکہ آپکے رستے کی مستقل رکاوٹ بن کر آپکے سامنے سامنے چلتا ہی جا رہا ہوتا ہے۔   یہ ہے زندگی، مجھ سے، اور آپ میں سے پڑھنے والے، لو-مڈل یا مڈل کلاس لوگوں کی۔ اور ایسی صورتحال کا سامنا ہم عمومی طور پر اپنی ذاتی، سماجی، خاندانی، معاشرتی اور پیشہ وارانہ زندگیوں میں کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس پراسس میں، دوستو، میں آپکو اپنے تجربہ سے بتا سکتا ہوں کہ جادو صرف ایک چیز میں ہے: ہلکورے لیتے، کچی پکی سڑک پر ڈولتے ڈالتے، مگر چلتے ہی رہیں۔ یقین کیجیے کہ بسا اوقات سپیڈ سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ چل رہے ہیں اور آپ اگر چلتے ہی رہیں گے تو بھلے کچھ دیر سے ہی، مگر منڈی بہاؤالدین کے قریب تر پہنچتے ہی جائیں گے۔

میں ذاتی زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جنکی  سیٹلڈ زندگیوں میں ایک بڑے واقعہ نے بھونچال برپا کر ڈالا۔ اور اسکے بعد زندگی سنبھالنے کی کوشش بہت/بہت/بہت مشکل رہی۔ چند ایک واقعات کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے بھنور میں موجود اپنے دوست و احباب اور دیگر لوگوں کو حتی الوسع اپنے فہم کے مطابق گفت وشنید کے ذریعہ سے معاملہ سازی اور معاملہ فہمی  کی تلقین بھی کی۔ زندگی کا سیٹلڈ ہونا، ہماری کلاس میں صاحبو، صرف ایک ڈھکوسلا  ہوتا ہے جو ایک بڑے دھکے، یا بڑھے واقعے/سانحے سے بکھر جاتا ہے۔ اس سیٹلڈ پیٹرن کے ایک دم ڈسٹرب ہو جانے سے، ہم اپنے آپکو اس انہونی کے خوف میں مبتلا پاتے ہیں جسکا ذکر میں اوپر اپنے 1995 والے واقعہ میں کر آیا۔ اپنی زندگی کے چلنے والے روٹین کے سلسلہ کے خراب ہو جانے پر ہم اپنے آپکو ہمت کے اعتبار سے برہنہ محسوس کرتے ہیں، اور ایسی صورتحال میں سب سے پہلا متاثر، ہم خود ہی ہوتے ہیں۔ اس سے بچیں، بلکہ کوشش کیا کریں کہ جب بھی کبھی ایسی صورتحال ہو، اپنی ذات اور اپنے شعور کو اپنی گرفت میں رکھیں، اور یہ ناممکن نہیں ہوتا۔ ہم انسانوں کی یہ شاید فطرتِ ثانیہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی بڑے واقعہ کو اسکے اثرات کے سمیت بہت بڑھا چڑھا کر اپنے اوپر لاگو کر لیتے ہیں، مگر یاد رکھیے کہ ایسا کرنے سے سب سے زیادہ متاثر بھی آپ خود ہی ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے ٹوٹے پھوٹے تجربہ سے ایک بات جو سیکھی، اسکا ایک اہم جزو یہ ہے کہ جب بھی کبھی ایسا واقعہ ہو، جو آپکی زندگی کو اتھل پتھل کر ڈالے، بالکل متوازی اور متوازن ذہن کے ساتھ ایک بات سمجھ کر رکھیے کہ اس واقعہ کی شدت گزر جائے گی، اور آپکی زندگی کی ایک بہت بڑی حقیت یہ ہے کہ اس نے آگے بڑھنا ہے، لہذا اسکو آگے ہی لے کر جایا جائے۔

زندگی آپکی مرضی سے بھی چلتی ہے، مگر زیادہ تر آپکی مرضی کے خلاف۔ یہ آپکی مرضی کے خلاف چلنے والے ہی مواقع ہوتے ہیں کہ جب آپ زیادہ شدت سے کوشش کرتے ہیں، اور اس کوشش کے نتیجہ میں ہی آپکے لیے مزید مواقع، اور آخری حقیقت میں، مزید بہتری بھی پیدا ہوتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مصائب میں گھرے آپ میں سے میرے وہ دوست جو اپنی زندگیوں کی شدید جنگ لڑ رہے ہیں، انکو یہ بات محض پندونصائح کا ٹوکرا ہی معلوم ہوگی، مگر یاد رکھیں کہ جنگ لڑتے ہوئے جینے کا یہ وقت بھی گزر جائے گا، اور اس دوران آپکی زندگی کے حوالے سے جو بہتری کی گنجائش بنے گی، وہ عین اسی وقت کے دوران کے کیے ہوئے کام اور فیصلے ہی متعین کریں گے

انہونی کے خوف سے نجات ممکن نہیں، مگر خوف کے ساتھ ساتھ مگر حوصلہ کے ساتھ جینا عین ممکن ہے اور یقین کیجیے کہ یہ کام دلیر انسان ہی کرتا ہے، جو آپ سب میں موجود ہے۔ کچھ تو ٹٹولیے اپنے اندر تو آپ جانیں گے کہ آپکی زندگیوں میں کئی ایسے واقعات و حادثات ہوئے ہونگے کہ جن کے رونما ہوتے ہی شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ "استاد، گیم مُک گئی اے،" مگر انہی حالات کے جبر میں اگر آپ نے شدید سے شدید تر کوشش کی ہو تو آپ انہی حالات سے گزر بھی آئے ہونگے۔ اگر یہ کام آپ نے پہلے کر ڈالا ہے تو دوبارہ کرنے سے آپکو کون روک سکتا ہے بھلا؟

مضمون کی طوالت کی دلی معافی، مگر انہونی کے خوف میں ناکامی  کا ڈر، اس سٹوپڈ انڈین ڈراؤنی فلم، تہہ خانہ، کا وہ پٹیوں میں ملبوس ولن ہے، جو 1988سے ابھی تک تو زندگی میں ٹکرایا نہیں، اور اب اس خوف پر ہنسی آتی ہے۔ آپ بھی اپنے خوف میں سے جب گزر جائیں گے، تو یارو، ایک دن زندگی کے سفر میں ہی، آپکو اپنے خوف پر ہنسی آئے گی۔


زندگی اگر کٹھن اور محال ہے۔ زندگی میں اگر اس وقت بےسمتی کا  دورہ ہے۔ زندگی میں اگر اس وقت خالی پن اور ناکامی کا خوف ہے، آپ کو صرف تین لفظ کہنے ہیں: "ڈرتے کیوں ہو؟"