بدھ، 26 مارچ، 2014

امریکہ سے نفرت کا فائدہ؟

کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر کچھ مختصر تحریر کروں۔ آج دوستوں کے ساتھ لنچ میں یہ بات کی تو آگے سے منع ہی کیا گیا۔ "چھوڑ یار، کیوں بھِڑوں کے چھتے میں ہاتھ دیتا ہے۔ امریکی یہودی نصاریٰ کا ایجنٹ کہلوائے گا۔"۔

کچھ مزید لکھنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں سنہء1997 سے سیاست، سماج اور معاشرت سے متعلق پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے منسلک ہوں۔ میرے اس تجربہ نے مجھے بہت کچھ بتایا، سکھایا، سمجھایا،  اور ان علوم کے حوالے سےمجھے ایک عمدہ پروفیشنل میں ڈھالا ہے۔  پاکستانی سیاست، معاشرت اور سماج کے دشت کی سیاحی بہت تفصیل سے کی ہے اور اپنے تجربات کے حوالے سے کبھی کبھی کچھ اشاراتی لکھتا بھی رہتا ہوں اور مزید بھی لکھوں گا کہ کیسے کیسے مناظر اور مشاہدات سے پالا پڑا۔ یہاں یہ بتانا اس لیے ضروری سمجھا کہ  پڑھنے والا یہ جان لے کہ یہ مضمون میرے تجربات، مشاہدے، مطالعہ اورایک شعوری کوشش پر مشتمل ہے کہ جس میں ایک نقطہءنظر آپکے حوالے کرنا مقصود ہے کہ شاید آپ ایک نیوٹرل پرسپیکٹِو سے سوچ سکیں۔ مجھے جو کہنا ہے، کہتے رہیں، کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور  اگر آپ نے اپنی نفرت  اور سازشی نظریات کے تیزاب میں ہی جلنا ہے، تو یہ آپکی چوائس ہے۔ اس سے نہ پہلے آپکو کچھ حاصل ہوا ہے، اور نہ ہی آئندہ کچھ حاصل ہوگا۔

 میرا  پوائنٹ آف ویو یہ تھا، اور ہے، کہ امریکہ، اور مغرب، کے خلاف نفرت عموما پاکستانی اشرافیہ، بالادست طبقات اور حکومتی زعما، جن میں سویلین اور ملٹری بیوریوکریسی برابر شریک ہیں، نے اپنے  مفادات کو پاکستانی مفادات بنا کر پاکستانی عوام، اور خصوصا لومڈل/مڈل کلاس کے نوجوانوں میں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی طور پر بیچا ہے۔ اور ابھی تک بیچ رہے ہیں۔ مجھ جیسے سٹرگلنگ مڈل کلاس پروفیشنل کے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ پراسس ابھی بھی جاری ہے، اور اسکا نشانہ زیادہ تر شہری، نیم شہری اور قصباتی مراکز میں رہنے والے نوجوان ہی ہیں اور یہ "سیاسی تزویراتی منجن" کامیابی سے بِک رہا ہے۔

یہاں کہنے کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ امریکی ریاست سے پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ امریکی ریاست اور کئی حکومتوں نے پاکستان سے تعلقات  کے حوالے سےبڑی فاش غلطیاں کیں۔ ریاست کے تمام طبقات تو شاید اس میں کماحقہُ شامل نہ تھے، مگر ریاست کے طاقتور اداروں اور طبقات نے، یوں محسوس ہوتا ہے، کہ پاکستان سے تعلقات کے حوالے سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کو پسِ پشت ڈالا اور اپنے تئیں اپنی ادارہ جاتی پالیسیز اس طریقے سے بنائیں، اور چلائیں کہ جن کا اثرنہ صرف پاکستانی ریاست پر ہوا، بلکہ امریکی ریاست نے بھی قیمت ادا کی۔ حوالہ کے طور پر، سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ، ہیلری کلنٹن کا سینیٹ کی، شاید، خارجہ امور کی کمیٹی میں ایک بیان بھی تھا کہ "ہم نے خود یہ جہادی پیدا کئے اور پھر بعد میں انکو(اور پاکستان) کو انکے حال پر چھوڑ دیا اور اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔" (مفہوم) اسکے علاوہ، پچھلے سال آنے والی، مارک میزاٹی کی کتاب "دی وے آف دی نائف" کا مطالعہ بھی بہت علم افزاء ہے۔ اسکے علاوہ کوئی پانچ چھ سال پہلے آنے والی ، ران سسکنڈ کی "دی وے آف دی ورلڈ" بھی کافی معلومات فراہم کرتی ہے۔

حال میں آنے والی، کونسل آن فارن ریلیشنز، کے  غیرجذباتی مقصدیت اور فوکس رکھنے والے اہلکار، ڈینئل مارکی کی کتاب "نو ایگزٹ فرام پاکستان" میں بھی انہوں نے بہت  ہی غیرجذباتی انداز میں پاکستان اور امریکی تعلقات کے تاریخی پس منظر، موجودہ حالات اور آنے والے مستقبل کے بارے روشنی ڈالی ہے۔ پڑھتے ہوئے ہنسی  بھی نکل گئی کہ ایک "پاکستانی" حسین حقانی صاحب تو امریکہ کو یہ کُھلا مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نقلی ہیں اور  امریکہ کو پاکستان سے تعلقات (تقریبا) کُلی طور پر ختم کرلینے چاہیئں، جبکہ ایک "امریکی" ڈینئل مارکی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست، معاشرت، اداروں اور قوم کے ساتھ امریکہ کو مزید تعلقات بڑھانے چاہئیں، جمہوریت، جمہوری اداروں اور غیرسرکاری اداروں کی استعدادِ کار میں اضافہ اور بہتری کی کوشش کرنی چاہیے اور اسکے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ معاشی تعاون ، جو کہ لمبے عرصے تک محیط ہو، شروع کرے تاکہ پاکستانی ریاست  پاکستانی نوجوانوں کے لیے بہتر اور زیادہ معاشی مواقع پیدا کر سکے۔

ممکن ہے کہ انکی سفارشات اس طریقے سے پوری نہ ہوسکتی ہوں کہ جیسی ظاہری توقع وہ اپنی کتاب میں کررہے ہیں، مگر بہرحال، انکا ایک زاویہ ہے اور اسکی  عدل پر مبنی تعریف نہ کرنا غلط ہوگا۔

آپ اور مجھ جیسے لومڈل/مڈل کلاس نوجوان یہ تو سوچے، کبھی کہ، وہ کیا  پراسس تھا کہ  1980 کی ساری  دہائی اور 1990 کی دہائی کے وسط تک، ہم  جیسے لوگ امریکہ زندہ باد کے نعرے مارتے رہے، اور کم و بیش پچھلے 20 سالوں سے، خصوصا 1994/95 کے بعد سے، ہم جیسے لوگ امریکہ مردہ باد کے نعرے مار رہے  ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی اشرافیہ اور بالا دست طبقات چاہتے ہیں، ایک لولی پاپ پر ایک نعرہ، چاہے امریکہ زندہ باد ہو یا امریکہ مردہ باد، لکھ کر پاکستانی عوام اور نوجوان کے مونہوں میں ڈالتے ہیں اور ہم جیسے اس لولی پاپ کو پورے خشوع و خضوع سے چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ بغیر سوچے اور سمجھے کہ اسکا ہماری زندگیوں، اور ذہنوں،  پر اثر کیا ہو رہا ہے۔

کچھ گزارشات درج ذیل ہیں، پڑھئیے اور ہو سکے تو سوچئیے گا بھی:

1۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے کتنے پاکستانی نوجوان امریکہ گئے ہیں؟
2۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے کتنے پاکستانی نوجوان امریکہ کے بارے میں حقیقی معلومات رکھتے ہیں؟
3۔ امریکہ و مغرب کے خلاف نفرت اور متشددانہ جذبات رکھنے والے کتنے پاکستانی حقیقت میں وہاں کی معاشرت، لوگوں اور ماحول کے بارے میں صحتمندانہ علم کے حامل ہیں؟
4۔ کہیں ایسا تونہیں کہ پاکستانی نوجوان اپنے جذباتی، معاشرتی، معاشی مسائل کو پاکستانی اشرافیہ کے پڑھائے ہوئے سیاسی اسباق میں مِکس کرکے اپنے لیے غیرصحتمندانہ جذباتی ہیجان اور دماغی خلجان کا سامان پیدا کرتا ہے؟
5۔ کبھی سوچا کہ جب آپ سڑکوں پر امریکی جھنڈے جلا رہے تھے، نعرہ زنی کر رہے تھے، اپنے پیچیدہ مسائل کا حل ایک سیاسی/مذہبی رہنما کی مشتعل و جذباتی تقریر میں ڈھونڈ رہے تھے، عین اس وقت آپکے سیاسی، مذہبی، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے اہلکاران، گماشتے اور انکے خاندان، اعزاءواقارب، امریکہ اور مغرب میں کاروبار، تعلیم، روزگار وغیرہ کے مواقع تلاش کر رہے، اور بنا رہے ہوں؟
6۔ اگر آپکو بیک وقت  دو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے پی ایچ ڈی، یا کوئی اور ڈگری کرنے کا موقع ملےتو آپ کس ادارے کا سکالرشپ وصول کرنا چاہیں گے: جارج واشنگٹن یونیورسٹی، واشنگٹن   یا  صومالیہ کی  سٹیٹ یونیورسٹی، موگادیشو؟ (اس سوال کا جواب دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے دیجیے گا کہ اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا!)
7۔ سیرو تفریح کےلئے آپ کہاں جانا چاہیں گے: افغانستان کے پہاڑوں میں یا ڈزنی لینڈ؟
8۔ علاج معالجے کے لیے آپکی انتخاب کیا ہوگا: یمن یا امریکہ/یورپ؟

سوال اور بھی ہیں جو کہ میں یہاں لکھ  اور پوچھ سکتا ہوں، مگر مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر آپ سے آخری بات یہ کرونگا کہ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ امریکہ و مغرب کی ہر بات کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ انکی قومی، ریاستی اور حکومتی پالیسیز پر تنقید نہ کریں۔ یہ آپکا جمہوری اور سیاسی حق ہے کہ آپ انکی پالیسیز کے حوالے سے ایک رائے قائم کریں، مگر اس میں سے تشدد، نفرت اور غصے کے عناصر نکال کر۔ ایک صحتمندانہ انداز سے اگر آپ انکی اپروچ کو سمجھیں اور جاننے کی کوشش کریں گے تو آپکے لیے انکو سمجھنا بھی آسان ہوگا، اور اپنی پوزیشن سمجھانا بھی۔

میرے خیال میں پاکستانی لومڈل/مڈل کلاس کو اپنے لیے امریکہ و مغرب میں ایک مثبت اور صحتمندانہ طریقے سے مواقع تلاش کرنے چاہئیں۔ تعلیم، روزگار، کاروبار، ٹیکنالوجی، ذراعت، معاشی/سیاسی/معاشرتی/عمرانی علوم، سیکھنے سکھانے کے حوالے سے اپنے لیے اپنے ذہن کے کینوس کو وسیع کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک پاکستانی نوجوان کئی دہائیوں سے اپنے لیے امریکہ و مغرب میں  مثبت مواقع پیدا کرنے، اور ان سے فائدہ اٹھانے، کے  تاریخی عمل پر "پورے جذباتی مگر منفی خلوص" سے آرا اور کلہاڑی چلاتا  رہا ہےاور اسکا  نہ پہلے کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ اب ہو رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا۔ اپنے لیے مواقع تلاش اور تخلیق کرنا بعض اوقات آپکی اپنی شرائط پر ممکن نہیں ہوتا، مگر ایک مثبت اور عملی اپروچ کے تحت یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ گلا پھاڑ کر نعرہ زنی کی جائے، جذباتیت کے ہیجان میں ایک دماغی خلجان کے ساتھ سینہ کوبی کی جائے، اپنے نفرت اور، معذرت، جہالت کےتیزاب میں زندہ رہا جائے۔ اس سے آپکا وقت، جوانی اور آنے والے کئی مواقع تو ضائع ہوتے ہی ہیں، جن کے خلاف آپ جذباتی احتجاج کررہے ہوتے ہیں، ان پر قطعی کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ وہ شاید اپنے ٹی وی سکرینز پر یہ سب دیکھ کر ہنس رہے ہوتے ہیں۔

آپکی مرضی ہے یارو، کہ "توپوں میں کیڑے پڑنے" کی بددعائیں کرنا ہیں، ماتم زاری کرنا ہے، بلند آواز میں نعرے مارنے ہیں یا پرسکون رہ کر اپنے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مثبت، تعمیری اور لانگ ٹرم مواقع تلاش کرنے ہیں۔ یاد صرف یہ رہے کہ "بددعاؤں" کی صورت میں اگر کچھ حاصل ہونا ہوتا تو 1857 میں دہلی کے مسلمانوں کو حاصل ہوچکا ہوتا اور بہادر شاہ ظفر، جو صرف نام کے ہی بہادر، شاہ اور ظفر تھے، برما میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنا حُقہ پیتے کسمپرسی کی حالت میں فوت نہ ہوتے۔

زندگی تعمیر کرو اپنی اور دوسروں کی۔ تعمیری انداز سے جیو۔ پورے خلوص سے دعا اور درخواست ہے۔


جیتے اور سلامت رہیں۔