منگل، 18 مارچ، 2014

کھڈا، سڑک، آسمان – اور نئے آسمان

آج ایک کانٹریکٹ سے انکار ہو گیا، کہ جس پر شدید محنت کی تھی۔ تقریبا چھ سے سات مہینے لگا کر ایک آئیڈیا تخلیق کیا، مگر نہ ہونا تھا،  نہ ہوا۔ کوئی آدھا گھنٹہ سوچتا رہا کہ وہ پراسس جو کہ اس آئیڈیا سے شروع ہو سکتا تھا، وہ پراسس اب شروع نہ ہو سکے گا، کم از کم  مستقبل قریب میں۔ اُٹھ کر کافی کا ایک کپ بنایا، اپنے پارٹنر اور دوست، علی سے بات شئیر کی۔ اس پر بھی تھوڑا سا اثر ہوا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ آئیڈیا پچھلے سال جولائی سے پرسُو کر رہا تھا میں، اور بہت کمٹڈ تھا، ذاتی اور پروفیشنل حوالوں سے۔ کافی کا کپ ختم کیا، تو میں نے علی کو، اور علی نے مجھے دیکھا۔ ہم دونوں ہنسے اور ایک فقرہ جو ہم پچھلے سوا سال کی رفاقت میں مسلسل بولتے ہیں:

یار، ہم ناکام ہو گئے، کوئی بات نہیں۔ اب ہم زیادہ سخت محنت کریں گے اور کامیاب ہونگے۔

اور میں، اور علی، زندگی میں آگے بڑھ گئے کہ یہ نہ تو اختتام تھا، اور نہ ہی ہوگا۔ بہت زمان و مکان اور مواقع ابھی باقی ہیں۔ آج نہیں تو کل، زیادہ تر محنت مشکل تر کو ممکن تر بنا ڈالے گی۔ ہم دونوں کا تجربہ، اور ذہنی میلان، یہی کہتا ہے۔

پچھلے ہفتے "کھڈا، سڑک اور آسمان" تحریر کیا۔ دوستوں نے پسند کیا۔ بالکل سچی کہانی تھی۔ آج جو لکھنے لگا ہوں، وہ بھی کھڈا، سڑک اور آسمان کا ہی آخری حصہ ہے جو مجھے رانا عقیل صاحب بتانا بھول گئے تھے  ہماری پہلی نشست میں۔ انکی زبانی جب انکے والد، رانا عبدالطیف مرحوم، کا تذکرہ سنا تو اپنی یہ سوچ مزید مضبوط ہوئی کہ انسان اپنے آس پاس اور ہونے والے چھوٹے چھوٹے کام اگر کرتا رہے تو یہی چھوٹے چھوٹے کام اسکی زندگی میں ہی ایک بڑی کامیابی کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اسکے لیے، صاحبو، انتظار اور محنت تو کرنے پڑتے ہیں، مگر انسانی زندگی میں تقریبا 99٪ طریق ارتقائی ہے، انقلابی نہیں۔ انقلاب بھی ہوتے ہیں، انسانوں کی زندگیوں میں، جیسا کہ کسی کی لاٹری وغیرہ نکل آئے، یا کوئی نیول چیف، ملک صاحب کےساتھ "رَل مِل" کے بحریہ کا نام استعمال کرنے کے معاملہ پر خاموش رہے اور ملک صاحب پاکستان کی ایک ہستی بن جائیں، کوئی بیس سال کے عرصہ میں۔ مگر آپ سب سے کہنا یہ ہے کہ لاٹری اور ملک صاحب بننے کے تقریبا سات ارب کی انسانی آبادی میں کیا پرسینٹیج بنتی ہے؟ شاید کوئی کیلکولیٹر بھی اسکا حساب نہیں لگا سکتا۔

واپس آتے ہیں، رانا عبدالطیف مرحوم کی جانب۔

چک نمبر 26، ملکوال، میں آج سے کوئی 40-45 سال قبل نہری زمین فروخت کرتے ہوئے "اپنی ماں کو بیچنے" کے طعنے سننے والا شخص اپنی دُ ھن کا پکا تھا اور شاید وہ راز پا چکا تھا جو بڑے بڑے ڈگری ہولڈر نہیں پا سکتے:

ایک زندگی ہے، محدود انسانی کیپیسیٹی ہے، آس پاس کی ذمہ داریاں/چیلینجز زیادہ اہم،  لوگوں کی باتیں صرف باتیں ہیں قوانین نہیں، اور میرے کرنے والے کام صرف/صرف/صرف وہی ہیں جو کہ میں کر سکتا ہوں۔

رانا عقیل صاحب کوجب پی ٹی سی ایل (سابقہ ٹی این ٹی) میں جاب مل گئی تو اسکے ساتھ ہی انہیں واپڈا میں بھی اس سے کہیں بہتر  موقع ملا۔ خوش ہوئے کہ اپنا تبادلہ اپنے گاؤں کے آس پاس، ہیڈ فقیریاں، مونہ ڈپو، ملکوال وغیرہ میں کروالوں گا اور ہر روز رات کو اپنے گھر کی روٹی کھایا کرونگا۔ اسی خوشی میں اپنے والد صاحب کے پاس جان پہنچے تو انہوں نے ڈانٹتے ہوے کہا کہ  "میں تمھیں اس ماحول سے اس لیے باہر بھیجنا چاہتا ہوں کہ یہاں تم جو بن سکتے ہو، نہ بن پاؤ گے۔ اپنی زندگی صرف گزارو نہیں، بناؤ!  اور نہ صرف اپنی ہی زندگی، بلکہ دوسروں کی بھی جو تمھارے لیے  کچھ معانی و مطلب رکھتےہیں۔ تمھاری نوکری شاید میرے لیے غیر اہم ہے، مگر تمھاری زندگی، اور میری نسل کی ترقی، بہت اہم۔ بھلے تنخواہ کم، مگر نوکری تم ٹی این ٹی کی ہی کرو گے۔"

رانا عقیل صاحب اسلام آباد واپس چلے آئے۔ کم تنخواہ اور مشکل تر حالات میں اپنے پروفیشنل سفر کا آغاز کیا۔ چک نمبر 26 میں زمینیں بِکتی رہیں، مرحوم رانا صاحب کو "شریکا" کے طعنے ملتے رہے، لوکل "غیرت بریگیڈ"  انہیں غیرت دلانے کی کوشش کرتا رہا، اس پراسس میں مرحوم کے تمام بچے پڑھتے، اور آگے بڑھتے رہے۔ اس سارے پراسس میں مرحوم رانا صاحب کی تقریبا ساری زمین بِک گئی۔ وقت گزرتا رہا، اور کم و بیش زمین کی فروخت ، اور بےغیرتی کے طعنوں کے 35 سال بعد، مرحوم رانا صاحب نے اپنی انوسٹمنٹ، جو کہ انہوں نے تعلیم کی صورت میں اپنے بچوں پر کی تھی، پر منافع بہت/بہت/بہت شاندار طریقہ سے وصول کیا۔

انہوں نے ساری کی ساری زمین، جو کہ انہوں نے فروخت کی تھی، دوبارہ سے اپنے گاؤں میں مونہہ مانگی قیمت پر دوبارہ خرید لی۔ نہ صرف خریدی بلکہ جب پٹوار اور کچہری میں انتقال اور رجسٹری کے معاملات طے پار رہے تھے، تو مرحوم رانا صاحب کو بےغیرتی کے طعنے مارنے والے انکے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، مارکیٹ سے مہنگی قیمت پر زمین بیچتے ہوئے، مگر اپنے ہاتھوں میں اپنے پوتوں، نواسوں و دیگران کی نوکری کی درخواستیں بھی ہاتھوں میں تھامے ہوئے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یارو، اس سارے منظر میں منافع میں کون رہا؟ چک نمبر 26 کا "غیرت بریگیڈ" یار رانا عبدالطیف  مرحوم؟

زندگی میرے دوستو، آپ پر چیلنجز لے کر آتی ہے۔ مجھ پر ابھی کوئی دو گھنٹے پہلے آیا کہ میری مہینوں کی محنت اکارت گئی۔ مگر یہ جان چکا ہوں کہ زندگی ہمیشہ آگے کی طرف ہی سفر کرتی ہے۔ ماضی کی یادوں میں گڑ ے، حال میں جینے والے لوگ، یا قومیں، بہتر مستقبل پر اپنا حق کھو بیٹھتے ہیں۔ کہیں چینی فوک وزڈم میں پڑھا تھا کہ اہم یہ نہیں ہوتا کہ آپ سات مرتبہ گر پڑے، اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ آٹھویں مرتبہ پھر اُٹھ کھڑے ہوں۔

جس وقت مرحوم رانا صاحب آٹھویں مرتبہ اُٹھ کھڑے ہو رہے تھے، اس وقت دیگر کے پہلی مرتبہ گرنے کی ابتدا ہو رہی تھی۔ خود سے فیصلہ کیجیے کہ گزرے ہوئے 35 سالوں میں جو فاصلہ مرحوم رانا صاحب کی نسل دوسروں سے پیدا کر چکی، وہ فاصلہ طے کرتے کرتے کتنا عرصہ لگ جائے گا اور اسی اثناء میں رانا صاحب کا خاندان کہاں سے کہاں جا پہنچے گا؟

اپنے اختیار میں ہونے والے کام کیا کریں۔ اور اگر نہیں، تو آئیے بحث کرتے ہیں کہ مریخ پر بسنے والے مخلوق کا مذہب کیا ہوگا اور وہ اس مذہب کے کونسے فرقہ کی وہاں اکثریت ہوگی۔


موضوع کو چھوڑیں جناب، بحث ہی تو کرنی ہے!