جمعرات، 3 اپریل، 2014

غربت پر لعنت اور غریب پر؟

صاحبو، دو واقعات  دماغ میں اٹکے ہوئے ہیں، بہت سے سالوں سے اور ایسے ہی میں رہ رہ کر یاد آ جاتے ہیں۔

سنہء1994 میں، میں پاکستان کی شاید دوسری بڑی کنزیومر پراڈکٹس کی ایک کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر تھا اور زندگی میں پہلی بار، اس ادارے کی طرف سے، لاہور میں منعقدہ ایک دن کی ٹریننگ کے لیے جانا تھا۔ وسیلہء سفر یہ تھا کہ فیض آباد (راولپنڈی) سے سکائی ویز کی بس پر بیٹھوں، اور تقریبا چھ/سات گھنٹوں کے مسافت کے بعد لاہور جا اتروں۔ وہاں شاید ٹھوکر نیاز بیگ جانا تھا جہاں اس کمپنی کا ایک وئیرہاؤس تھا اور وہیں پر اپنی ٹریننگ بھی تھی۔ رات قریبا 10 بجے فیض آباد جا پہنچا کیونکہ 11 بجے کے بس پر سیٹ کنفرمڈ تھی۔ وقت گزارنے کے لیے میں بس اڈے سے منسلک ایک تنگ گلی سے ہوتا ہوا، مری روڈ آن پہنچا اور وہاں ایک ریستوران، کہ جہاں کے چپل کباب اور نان بڑے مشہور تھے، چلا گیا۔ جلدی سے کھانا کھایا، اور کھا کر دوسری سمت سے جانے کا ٹھانا کہ تھوڑی واک اور وقت گزاری بھی ہو جائے گی۔ فروری کا مہینہ تھا، اور سخت سردی میں اس ہوٹل سے ذرا آگے میں نے نیم تاریکی میں ایک منظر دیکھا کہ ایک کُتا اور ایک انسان دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اور انسان واضح طور پر سردی سے کپکپا بھی رہا تھا۔ پہلے تو خیال آیا کے آگے ہی جایا جائے، اور میں چند قدم آگے بڑھ بھی گیا، مگر پھر الٹے قدموں پلٹ آیا۔ انکی طرف بڑھا، اور بندے سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اور اسکے پاس رہنے یا سونے کی کوئی جگہ بھی نہیں۔ جو کرسکتا تھا کیا، وہ یہ کہ اسی ریستوران واپس گیا، اور شاید تین نان اور دو کباب لیے اور واپس انکی طرف جلدی سے چل پڑا۔ انکے قریب پہنچا تو دیکھا کہ کُتا بھی جاگ گیا تھا اور جیسے ہی میں نے نان اور کباب انکی طرف بڑھائے، تو کُتے کو بھی خوراک کی خوشبو آئی تو وہ جھپٹ پڑا۔ میں نے گھبراہٹ میں وہ کھانا اس آدمی کی طرف پھینکا اور ذرا آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ منظر، میرے دوستو، یہ دیکھا کہ وہ کُتا اور انسان ان تین نانوں اور دو کبابوں پر لڑ رہے تھے۔ کتے  نے خوراک کے اس پیکٹ میں اپنے دانت گاڑے ہوئے تھے اور وہ شخص اس سے وہ پیکٹ اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ چند ایک سیکنڈز کے بعد، وہ پیکٹ پھٹ گیا اور شاید آدھے نان کُتے اور آدھے انسان کے پاس آئے، مگر کباب اس میں سے زمین پر گِر گئے۔ اور ایک نئی جنگ شروع ہو گئی ان کبابوں پر اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے، اس شخص کو کتے کے مونہہ سے کباب چھین کر جلدی سے اپنے مونہہ میں ڈالتے ہوئے دیکھا۔ اس سے زیادہ نہ دیکھ پایا، اور تقریبا بھاگتا ہوا، سکائی ویز بس اڈے کی طرف ہو لیا۔

دوسرا واقعہ شور کوٹ کے قریب پیش آیا۔ سنہء1998 میں، میں سلسلہ سروری قادری میں بیعت ہوا کہ جس کے تانے بانے حضرت سلطان باہوؒ سے جا ملتے ہیں۔ میرے مرشد،  فقیر عبدالحمید صاحب، تحصیل کلاچی، ڈیرہ اسمٰعیل خان، میں رہتے ہیں، حیات ہیں، اور سچ کہوں گا کہ شعوری، حالتِ بیداری اور اپنےہوش وحواس میں بہت سے اعلیٰ روحانی تجربات و مشاہدات سے گزر چکا ہوں اس دور میں۔ روحانیت کے اس سفر کو بہت مشکل پایا اور اپنی متلون مزاجی کو سلام کہ قریبا چھ سال گزارنے کے بعد اس میں سے فرار اختیا ر کیا، مگر درست یہی کہ میں آج بھی اس سلسلہ میں ہوں، کم از کم سمجھتا ہوں کہ میں ہوں، اور اپنے اس سفر پر قائم نہ رہنے کو اپنا نقصان ہی تصور کرتا ہوں۔

بہرحال، بیعت ہونے کے بعد، دربار سلطان باہوؒ جانے کی ٹھانی اور روایت کے مطابق، وہاں "سلام" کی غرض سے جانے سے پہلے انکی والدہ اور والد صاحب کے مزار، جو کہ شورکوٹ میں وہاں کے مین چوک کے بالکل پاس ہے، پر سلام کرنا لازمی جانا جاتا ہے۔ جا پہنچا اور وہاں ایک اور خوبصورت روایت کا مشاہدہ کیا کہ مردوں کو بی بی مائی صاحبہ کی لحد کی طرف جانے کی اجازت نہیں، کہ پردہ ہے۔ میں ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتا، مگر  سلسلہ کی روحانی روایات کے حوالے سے اس میں بہرحال ایک خوبصورتی محسوس کی، بھلے اتفاق نہ کیا۔ دربار مائی باپ، کہ اسی نام سے جانا جاتا ہے یہ، کے پاس ہی دربار کی سرائے ہے۔ وہاں رات گزارنے کا مناسب بندوبست بھی موجود تھا۔ وہاں  رات گزاری، اگلی صبح دریائے چناب کے "پدھ" کو کراس کر کے میں گڑھ بغداد، جو پہلے گڑھ مہاراجہ کہلاتا تھا، کی طرف جانکلا۔ سخت سردی میں دریائے چناب کو کراس کرتے ہوئے بھی کشتی کے ملاح کی ایک دعا اور اسکی یاد ساری عمر رہے گی، مگر یہ واقعہ پھر کبھی سہی۔ ٹویوٹا ہائی لکس کے "ڈالے" میں بیٹھ کر دربار سلطان باہوؒ جا پہنچا۔ اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری کے لیے لائین میں بیٹھ گیا۔ سخت سردی تھی اور پیر صاحب کے حجرہ میں بجلی کی موٹی موٹی تاریں جا رہی تھیں۔ واضح طور پر اندر وہ "گرم ماحول میں چِل کر رہے تھے!" باری باری پر لوگ اندر جا کر "سلام" کر رہے تھے، مجھ سے آگے ایک شخص نے اپنی بات چھیڑ دی۔ معاشی بدحالی کا شکار تھے، مگر پیر کے لیے ایک چھوٹا کالا بکرا لے کر آئے تھے۔ تین بیٹیاں تھیں اور دو بیٹے۔ ایک بیٹا معذور دوسرا مزدور اور تینوں بیٹیاں بن بیاہی گھر اور خود وہ چیچہ وطنی کے کسی گاؤں سے تھے اور ایک وہاں ایک بڑھئی کے پاس مزدور تھے۔ ایک کالا بکرا، جیب میں چند روپے لے کر اور دماغ میں، معذرت، اپنی عقیدت کی جہالت لے کر، وہ پیر صاحب کے پاس اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے آئے تھے۔ بات لمبی نہ کرونگا یہاں، مگر ان سے گفتگو کا حاصل ایک فقرہ یہ تھا: "پائی جی، اپنے ملک وچ لوگ کُتے نوں روٹی پا دیندے، غریب نوں کوئی نئیں پُچھدا!"  انکی بات سنی، اور انہیں کہا کہ "ایہہ بکرا تے پیسے لے جاوو، پیرصاب نوں ایہناں دی کوئی لوڑ نئیں جے۔ تواڈے کسی کم آ جاون گے۔" جواب میں انہوں نے ایک نعرہ بلند کیا: حق باہو، بے شک باہو – اک نظر کرم دی تک باہو۔

میں نے انہیں انکے حال پر چھوڑا۔ دل میں شدید الجھن لیے وہاں سے اٹھ آیا تو ایک دوسرے صاحب نے پوچھا کہ کیوں اٹھ رہے ہو۔ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے دربار سے بلاوا آیا ہے، ادھر ہی جا رہا ہوں، ابھی آتا ہوں۔ اصل یہ تھا کہ میں نے سخت سردی میں، اپنے آس پاس کے لوگوں کے رویے میں شدید الجھن محسوس کی، اور اس بات پر شدید کرہت بھی آئی کہ درجنوں لوگ باہر کھڑے/بیٹھے ہیں، مگرپیر صاحب اندر بہترین ہیٹر میں کاجو اور چلغوزے کھا کر مزید گرم ہو رہے ہونگے اور ادھر لوگ اپنی اپنی جہالت میں اپنے اردگرد غربت کا گڑھا مزید گہرا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ زیادہ نہ رکا، گیا، حضرت سلطان باہوؒ کی لحد پر فاتحہ خوانی کی اور واپس راولپنڈی کی طرف روانہ ہو گیا۔

شکر کہ سوال کرنے کی عادت شروع میں ہی ڈال لی تھی، وگرنہ شاید آج میں بھی اپنے مستقبل کا کالا بکرا ہاتھ میں تھامے، اپنی مجبوریوں میں گھِرا، اپنی جہالت لیے اُدھر، یا کسی اور پیر کے در بیٹھا ہوتا۔

باتیں اور بھی ہیں، مگر اختتامِ کلام اس بات پر کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مشاہدہ، غلط بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ ہے کہ غریب لوگ جنوبی ایشائی خطے میں بڑے ہی مشکل رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اپنے تئیں اپنی روایات میں گڑے، اپنی زمین اور معاشرت  سے جڑے، یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنی جڑیں بلکہ عموما انکی بھی جو کہ شاید انکے کسی کام آنا چاہتے ہیں۔ میں یہ بلینکٹ اصول نہیں بنا رہا، مگر سچ کہہ رہا ہوں کہ میں نے شاید 80٪ یا اس سے بھی زیادہ معاملات میں غریب کو اپنے رویوں میں پتھر کا ہی پایا، اور پتھر کی چیز یا تو ٹوٹتی ہے، بوسیدہ ہوتی ہے، جامد ہوتی ہے، اور سال کے سال گزرنے کے بعد بھی وہیں کی وہیں ہی رہتی ہے۔


ایک مرتبہ پھر کہ یہ بلینکٹ اصول نہیں، مگر میری بات سے اگر سے اتفاق نہیں، تو بسم اللہ کیجیے، اور اپنا کوئی تجربہ کیجیے کہ جس میں آپ کسی غریب شخص پر تھوڑا ترس کھا کر اس کو کوئی کام دیں، اور پھر دیکھیں۔ مزید یہ کہ اگر معاشرتی اور انسانی علوم کے حوالے سے کوئی دلچسپی ہے تو، پاکستان میں موجود کسی بھی کمیونٹی میں جا کر انکی طرزِ معاشرت کا بغور مطالعہ کریں۔ انکے معاشرتی رویے آپکا "رغڑا کڈھ دیں گے!"