منگل، 11 مارچ، 2014

کھڈا، سڑک اور آسمان


کرائے کے گھروں کے اپنے عذاب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کرایہ دار گذارا ہی کر تے ہیں اور میرا تجربہ اسلام آباد میں کرائے کے گھروں میں رہنےکا خیر سے 20 سال پر محیط ہے اور ان گھروں کے مالکان میں سے 90٪کو میں نے بہت سارے عجیب و غریب کمپلیکسز کا مارا ہوا پایا ہے۔ انکی تفصیلات میں کیا جانا، مگر اسلام آباد میں ہونے والی بارش اور پھر شدید تیز آندھی نے میرے کرائے کے گھر کے انجر پنجر ہلا ڈالے اور چار پانچ گھنٹے کی نیند کے بعد سے "ٹھاہ ٹھاہ اور چوں چوں" نے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ سوچا کہ بجائے دوبارہ سونے کے ناکام کوشش کرنے کے، کیوں نہ محترم رانا عبدالطیف مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور ساتھ میں روائیتی "پاکستانی اباؤں" کو بھی انکی وساطت سے کچھ کہہ ڈالا جائے۔

رانا عقیل اختر خان صاحب سے میری ملاقات بنیادی طور پر ایک کاروباری معاملے میں ہوئی۔ میں نے انہیں دوسروں سے بہت مختلف پایا۔ روایات کے حوالے سے کاروباری معاملات طے کرنے کے بعد جب "چا ء مٹھیائی" کی باری آئی تو باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ موصوف کا تعلق بھی میرے آبائی علاقہ، ملکوال سے ہے۔ بلکہ ملکوال کے ایک نواحی گاؤں، چک نمبر 26 سے۔ انکے والد رانا عبدالطیف مرحوم ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے نامعلوم کس طرح ملکوال کے نواح میں آن پہنچے، مگر انکی داستان بہت دلچسپ ہے۔ بڑے رانا صاحب مرحوم کے چھ بیٹھے ہیں، ماشاءاللہ تمام حیات ہیں اور رانا عقیل اختر خان صاحب کا نمبردوسرا ہے۔ اِنہوں نے پی ٹی سی ایل میں قریبا 21 سال ملازمت کرنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا اور پچھلے پانچ چھ سال سے، اپنی محنت اور خدا کی رحمت کی بدولت ترقی ہی کر رہے ہیں۔

رانا عقیل صاحب کے والد صاحب نے میلوں پیدل چل کر، ضلع ہوشیار پور کے کسی دور افتادہ گاؤں میں تعلیم حاصل کی اور پھر کچھ عرصہ برٹش آرمی میں خدمات انجام دیں، جنگ پر بھی گئے اور پاکستان بننے کے بعد گھومتے گھامتے چک 26 آ کر ڈیرہ جمایا۔ ایک بہتر گاؤں اور ماحول سے وہ بالکل پسماندہ علاقہ میں آن پہنچے، مگر زندگی تھی، ہمت نہ ہاری اور ایک ایک کرکے پیدا ہونے والے سارے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں پنجاب کی نہری زمینیں فروخت کرکے اور گروی رکھوا کر اپنے بچوں کو سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی کی سطح تک پہنچایا۔ اپنی ذات، برادری، خاندان، یار دوست، رشتہ داروں، احباب و دشمنوں کی جلی کٹی باتیں بھی سنیں کہ "زمین ماں کی طرح ہوتی ہے اور یہ اپنی ماں کو بیچ ڈالتا ہے۔" مگر رانا صاحب مرحوم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور ایک ایک کرکے انکے تمام بچے پڑھ لکھ گئے اور پھر "افسر" بھی لگ گئے۔ رانا صاحب چند برس قبل اللہ کی طرف لوٹ گئے اور صرف ایک ہی نسل میں وہ لوگ کہ جو انکو گندی زبان میں طعنے مارا کرتے تھے، اب اپنے بچوں، بھتیجوں، نواسوں اور پوتوں کی نوکریوں کےلیے انکی اور انکے بیٹوں کی منتیں کرنے پر مجبور ٹھہرے۔ رانا صاحب مرحوم کی اعلیٰ ظرفی اور کچھ زندگی کی روانگی کے ساتھ بہہ کر اپنا سفر طے کرنے کی عادت کہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق انکی بھی مدد کی کہ جنہوں نے شاید کبھی انہیں "اپنی ماں فروخت" کرنے کے طعنے مارے ہوں گے!

رانا عقیل صاحب نے چار دن قبل بات کرتے ہوئے سنایا اور یہ بتاتے ہوئے انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہتے ہیں کہ:

"1960 کی دہائی کے وسط میں، میں راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کا طالبعلم تھا اور انہی دنوں میرے والد صاحب میرے پاس، بیسیکلی میری حوصلہ افزائی کےلیے آئے ہوئےتھے کہ میں کہیں دل نہ چھوٹا کرڈالوں۔ میری رہائش ان دنوں کوہِ نور ٹیکسٹائل مِل کے بالکل قریب ایک پرانے سے علاقے، نصیر آباد میں تھی اور وہاں سے میں قریبا تین چار میل پیدل چل کر کالج جایا کرتا تھا۔ سنگل روڈ تھی اور روڈ کے آس پاس گہرے گہرے کھڈے تھے۔ آنا جانا بہت دشوار تھا، مگر میں اپنے تئیں اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا تھا۔ انہی دنوں میں سے ایک دن، میرے والد صاحب میرے ساتھ کالج کی طرف روانہ ہوئے کہ اسی بہانے مجھ سے گپ شپ بھی ہو جائے گی، کالج بھی دیکھ لیں گے اور میرا حوصلہ بھی بنا رہے گا۔ جاتے ہوئے، ہمارے سروں سے ایک جہاز گزرا تو والد صاحب نے مجھے روک لیا اور کہا کہ بیٹا، ایک ہم ہیں جو کھڈوں میں ہیں، دوسرے وہ ہیں جو سڑک پر اور تیسرے وہ جو ہم سب کے سروں پر، آسمان پر موجود ہیں۔کھڈے میں ہم بھلے ہیں، مگر محنت کرو اور دل میں عہد بھی کہ ایک دن ان کھڈوں سے نکل کر آسمان پر جا پہنچنا ہے اور یہ ناممکن نہیں۔"

"بٹ صاب، ہُن اسی اپنے پِنڈ جاوی دا تے آسے پاسے دے لوگ پشاندے ای نئیں کہ جناں دے نال مِلدے پئے او، او تواڈے رشتے دار ای نیں۔ ایتھے سلاماباد وی لوکی نئیں جے مندے پر ویخ لوو، ایہناں وِیاں، تیاں سالاں وچ ساڈی دنیا کتھے جا اپڑی تے او جیہڑے گالاں تے طانے معنے دیندے سن، او اوتھے دے اوتھے ای، سغوں ہور وی پِچھے!"

رانا صاحب کی آواز رندھ گئی اور آنکھوںمیں اس بات، اور یقینی طور پر ایسی بہت سی باتوں کی یادیں لیے وہ  اپنے مرحوم باپ کی یاد میں آئے چند آنسو پونچھتے خاموش ہو گئے۔ میں بھی کچھ نہ کہہ پایا، "کم چینی اور تیز پتی" والی چائے پیتے ہوئے اپنے آپ سے یہ حروف لکھنے کا وعدہ کیا اور آپ سب کی نذر کر ڈالے۔

رانا عبدالطیف صاحب مرحوم کی زندگی کی جدوجہد میں کئی ایک سبق ہیں، مگر ایک بنیادی سبق یہ ہے کہ روایات کے نام پر معاشرے نے جو جہالت انسانوں کے آس پاس بُنی ہوتی ہے، ان میں جکڑے لوگ  نہ صرف اپنی اپنی جہالت کے اسیر ہوتے ہیں بلکہ اس جہل میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گھسیٹنا چاہتے ہیں اور یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت و حالات کے مطابق زندگی جینے کے تلخ فیصلے کرے یا پھر "زمین ماں ہوتی ہے" جیسے الفاظ کی نذر ،اپنی ذاتی حیثیت میں، اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل جہالت کی نذر کر دے اور پھر بعد میں صرف پچھتائے۔

میں کئی ایسے "اباؤں" کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے حال میں زندگی جینے اور مستقبل  کی روشن امید کی قیمت پر اپنی  ماضی کی روایات میں جینے کو ترجیح دی اور ایسا کرتے ہوئے بنیادی طور پر اپنی انا کی تسکین کی اور اسے اپنے معاشرتی مقام کے ساتھ جوڑا اور  نہ صرف اپنی زندگی کو ماضی کا غلام بنا کر رکھا بلکہ اپنے خاندان اور بچوں کے لیے بھی بہت سارے آنے والے چانسز کا گلا گھونٹ ڈالا۔ میرے تجربے میں آنے والے ان تمام "اباؤں" کو میں نے اپنی اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے بھی پایا، مگر جب یہ موقع آیا، وقت و حالات بہت آگے جا چکے تھے اور وہ محض کفِ افسوس ہی ملتے رہ گئے۔

حضرت علیؑ سے منسوب ایک روایت ہے کہ "زندگی کو اسکی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جیو" مگر جنوبی ایشیائی خطے اور خاص طور پر پاکستان، کہ جسکا مجھے تجربہ بھی ہے، میں الٹا زندگی نے انسانوں کو انکی پیشانیوں کے بالوں سے پکڑا ہوتا ہے اور آس پاس گھسیٹ رہی ہوتی ہے۔

دماغی مٹی میں لتھڑے، ماضی کے مزاروں میں زندہ، غلط سلط روایات کی جہالت میں زندہ، اپنے آپ اور اپنے سے متصل لوگوں کے حال اور مستقبل سے کھیلتے اور زندگی میں آگے آنے والے چیلنجز اور مواقع سے پہلو تہی کرتے لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ دراصل کھڈوں کی تہہ میں زندہ ہیں اور انکے لیے ذرا بلندی پر نظر آنے والی سڑک، انکی دماغی اپروچ کے مطابق، شاید آسمان ہی ہے۔ آسمان میں پرواز کاتوشاید وہ سوچ سکتے بھی نہیں۔

اپنے آس پاس دیکھیے تو آپکو بہت سی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ ایسے لوگوں کے اثرات سے شعوری طور پر بچا کریں اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اپنے دل میں جھانکیں کہ کہیں آپ بھی تو روایات کے نام پر جہالت کے اسیر نہیں؟ یہ لازمی کیجئے کہ آپ اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔

اور اگر بولا تو میری بات لکھ لیں کہ ایک ہی نسل کے فرق میں آپ ان صاحب سے اپنے بچوں، نواسوں اور پوتوں کی نوکریوں کی درخواست کر رہے ہوں گے کہ جنکا آپ ابھی مذاق اڑا رہے ہیں۔

لکھ لیں بے شک کہ زندگی آگے چلتی ہے، پچھلے پاؤں تو  صرف بلائیں چلتی ہیں، انسان نہیں۔