منگل، 4 مارچ، 2014

دس سال کی بے غیرتی

یارو، دل شدید دکھی ہے ایف-ایٹ کے واقعہ پر۔ ریاست کا ایک اہم اہلکار، سیشن جج، جاہلان کی خودساختہ "شری جدوجہد" کی نذر ہوگیا، اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی، فضہ ملک، شہید ہوگئی اور دیگر کوئی درجن بھر عام پاکستانی اس جاہلیت اور درندگی کا شکار ہوئے کہ جس کو ابھی تک چند پاکستانی مذہبی اور سیاسی  رہنما "یہ ہماری جنگ نہیں" کہتے نہیں تھکتے۔ ارادہ تھا کہ اللہ میاں کے نام ایک کھلا خط تحریر کرتا، مگر مزاح دیکھ لیں کہ ایک دو دوستوں سے بات کی تو انہوں نے قریبا ایک جیسے ہی الفاظ میں منع کیا: بندے دا پُتر بن، ایویں کوئی مولوی سرے چڑھ جاوی گا۔

اسلام، جو کئی حوالوں سے امن و آشتی کا پیغام لے کر آیا تھا، اسی کے نام لیواؤں نے اس مذہب کو کہاں سے کہاں پہنچا ڈالا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایف-ایٹ حملہ کے تمام حملہ آوروں نے "کافر پاکستانی" قتل کرنے سے پہلے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور پھر اندھا دھند گولیاں چلیں، اور لاشیں گریں۔

جی بالکل، یہ ہماری نہیں، مریخ پر بسنے والی قوم کی جنگ ہے اور وہی آکر لڑے گی۔ آپکی سیاست اور آپکی مذہبی مفادات  کی صراحی بھری رہے، بس، آپ بنے رہیں ساقی،  آپکے پیروکار، مے خور اور پاکستان خوار۔

جس موضوع پر تحریر کرنا ہے وہ انسان کے اندر "غیرت" کے نتیجے میں ابھرنے والے متشدد رویے کے بارے میں ہے۔ ابھی تک ریسرچ نہیں کر پایا، مگر غیرت کے روائتی تصور کو میں ردعملانہ متشدد جہالت کے پرسپیکٹو میں زیادہ دیکھتا ہوں کہ جس  میں پاکستانی مرد سماج کی بُنتی پر اپنی طاقت، گروہ بندی اور جسمانی طاقت کی بنا پر قابو رکھنا چاہتا ہے۔ آپ بھی بھلے اپنے ایکسپوژر کے حساب سے دنیا میں دیکھ لیں،غیرت کا متشدد تصور آپکو قبائلی اور نیم قبائلی معاشروں میں سر چڑھ کر بولتا نظر آئے گا۔ جن باتوں پر ایسے معاشروں میں قتل و غارت ہوتی ہے، مہذب اور پڑھے لکھے، اور موسٹ امپورٹنٹلی، کام میں مصروف معاشروں میں وہ معاملات زندگی کی رو میں لیے جاتے ہیں۔ دو سچے واقعات ہیں، اور بھی ہیں، مگر مضمون کہیں بہت طویل نہ ہوجائے، لہذا آج کی "ڈوز" دو واقعات پر ہی مشتمل ہے۔ یہ واقعات میرے کزن، جو کہ محکمہ جیل پنجاب کے ایک افسر ہیں، کے ساتھ پیش آئے اور انہی کی زبانی ہی سنے۔ میرا چھوٹا بھائی ہے، اور موضوع  کی خاطر اسے ذیشان  کا نام دے دیتے ہیں۔ ذیشان مولانا عزیز (المعروف برقعے والی سرکار) کے بھی بہت/بہت سے رازوں کا امین ہیں۔ کبھی اسکی اجازت ہوئی تو وہ بھی تحریر کر ڈالوں گا۔

پہلا واقعہ ذیشان یا " شانی،"  کی اڈیالہ جیل میں پوسٹنگ کا ہے۔

جبران کیانی (فرسٹ نیم تبدیل کیا ہے) ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ جیل میں بھی انکا رویہ دوسرے قیدیوں سے بہت مختلف تھا۔ کتب بینی کرتے، مہذب گفتگو کے مالک اور بہت اچھے سلوک کا مظاہرہ کرنے والے شخص تھے۔ شانی کی پہلی بڑی پوسٹنگ اسی جیل میں تھی اور چونکہ خود بھی شانی کتابوں کا بہت بڑا "ٹھرکی" ہے، لہذا، کیانی صاحب سے اسکی دوستی ہوگئی۔ ایک دن باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ محترم، آپ جیسا مہذب، ہلکی آواز میں گفتگو کرنے اور کتب بینی کا شوقین، کہ جس نے دنیا بھی گھومی ہوئی ہے، جیل میں کیسے آن پہنچا؟ جواب ملا کہ: "جھوٹی اور نقلی غیرت!"

شانی کے پوچھنے پر کیانی صاحب نے بتایا کہ وہ ایک خاتون سے محبت کرتے تھے اور ان سے شادی کا ارادہ بھی تھا۔ مگر چونکہ برادری مختلف تھی (جہالت  کا ایک اور جنوبی ایشیائی میڈل!) لہذا بات رکی ہوئی تھی۔ ایک دن ان خاتون نے شکایت لگائی کہ انہیں کوئی شخص موبائل پر تنگ کرتا ہے تو کیانی صاحب نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان صاحب کا اتا پتا دریافت کروا لیا اور  ان سے رابطہ کیا۔ ان صاحب نے ان خاتون سے اپنی محبت کے بارے میں انکار نہ کیا بلکہ پڑھے لکھے رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیانی صاحب کو اس معاملہ پر گفتگو کرنے کی پیش کش کی۔ کیانی صاحب نے بھی حامی بھری اور ان سے ملنے سے قبل اس خاتون کو فون کیا اور دوسرےشخص سے ملنے کا بتایا تو  باتوں باتوں میں آگے سے ان خاتون نے کیانی صاحب کو "بےغیرت" ہونے کا طعنہ سنا ڈالا اور کہا  "تم مرد ہی نہیں ہو جو اپنی عورت کی حفاظت نہیں کرسکتا۔" یقینا اور بات بھی ہوئی ہوگی، مگر جو ڈسکشن ان دونوں کے درمیان ہوئی، اس نے کیانی صاحب کا پارہ چڑھا دیا اور اسلام آباد، بلیو ایریا کے ایک ریستوران میں ان صاحب کو، کہ جہاں انکو مدعو کیا ہوا تھا، چھ گولیاں ماریں۔ وہ موقع پر قتل ہوئے، کیانی صاحب چند دن روپوش رہنے کے بعد گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، قتل ثابت ہوا اور وہ یوں اڈیالہ کی چکی میں جا پہنچے اور عمر قید کے بعد پھانسی چڑھنے کا انتظار کرنے لگے۔

شانی نے کیانی صاحب سے اس خاتون کی بابت پوچھا تو معلوم ہوا کہ قتل کے چھ ماہ بعد انہوں نے شادی کی اور امریکہ جا بسیں اور "ادھر میں روز جیتا اور روز مرتا ہوں۔"

ابھی سب سے زیادہ کیا خیال آتا ہے، شانی نے دریافت کیا تو جواب ملا کہ "بٹ صاحب، میری دس منٹ کی غیرت تھی اور اب دس سال کی بےغیرتی برداشت کرتا ہوں کہ میری ماں، بہنیں مجھ سے ملنے جیل آتی ہیں۔ ان سے بدتمیزی تو کوئی نہیں کرتا، مگر وہ گھر کی عورتیں ہیں اور ادھر تمام مردوں میں سے گزر کر وہ مجھ تک پہنچتی ہیں۔ میری ماں کئی مرتبہ مجھ سے اس بے بسی کا اظہار کر چکی ہے، مگر ماں ہے نا، چلی آ تی ہے پھر۔"

موقع جو بھی ہو، کوشش کریں کہ زندگی کے ساتھ ساتھ چلیں، آپکو تو گلوری مل جاتی ہے، مگر اسکی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور بعد میں آپ خود تو  خجل خراب ہوتے ہی ہیں، آپکے گھروالے بھی ہوتے ہیں، کیانی صاحب نے کہا۔

دوسرا واقعہ شانی کی فیصل آباد میں پوسٹنگ کا ہے۔

شانی کا ایک آفیسر ٹرانسفر ہو کر فیصل آباد آیا تو صبح کی ایک تقریب میں اسکے سامنے حاضری ہو رہی تھی۔ جبار چیمہ (فرسٹ نیم تبدیل کیا ہے) نامی ایک قیدی کے سامنے سے گزرے پر، اس آفیسر نے آواز لگائی: چیمیا، مینوں پشانیا ای؟ توں تے اُکا ای رہ گیا ایں!

چیمہ صاحب نے سر اوپر اٹھایا، کمزور سی آواز میں بولا: مائی باپ، پشان لیا اے، بس قید مار گئی مینوں۔

کریدنے پر آفیسر نے شانی کو بتایا کہ جبار چیمہ قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ قیدی تھا۔ جھاوریاں، سرگودھا کے پاس ایک گاؤں، سے اسکا تعلق تھا۔ نہایت کھاتا پیتا اور علاقے کا معزز آدمی تھا۔ زمینوں کو پانی لگانے کے جھگڑے کے معاملہ پر ایک قتل کیا۔ "مخالف پارٹی بھی تگڑی تھی اور وہ بھی مقدمہ پورے زور سے لے کر چلے اور سزا دلوا کر ہی دم لیا۔"

زمین بکی، گھر گئے، باپ فوت ہو گیا، ماں بھی کچھ عرصہ بعد چل بسی، تین بیٹے اور ایک بیٹی پیچھے تھے، بیٹی کی شادی کر دی ایک کریانہ فروش دکاندار کے ساتھ، جبکہ تینوں بیٹے، جو کہ سرگودھا کے اچھے سکول میں تھے، تعلیم سے محروم ہوئے اور اب مزدوری کرکے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتے ہیں۔ آفیسر نے شانی کو یہ بھی بتایا کہ چیمہ صاحب نے انہیں خود بتایا تھا کہ: افسر صاب، جے کر میرے وس ہووے، تے میں مقتول دی تھاں، اپنے آپ نوں ای مار دیندا۔ ایہہ روز روز دی بےغیرتی تے بےوسی تے نا ویخن نوں ملدی!

جبار چیمہ ابھی تک فیصل آباد جیل میں ہے۔ قید کے ساتویں سال میں۔ آٹھ ابھی باقی ہیں، اور پھر پھانسی!۔

زندگی، میرے دوستو، یک طرفہ ٹریفک ہے۔ اس میں انسانوں کے ساتھ بہت عجب حادثات و واقعات پیش آتےہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے تیئں خواہمخواہی کا ہیرو بن رہا ہوتا ہے، مگر اس ایک لمحے کی لغزش کا نتیجہ "دس سال کی بےغیرتی" بھگتنے میں نکلتا ہے۔

آخری کمنٹ یہ کرنا ہے کہ چونکہ پاکستان میں آجکل شریعت اور آزادی کا موسم ہے اور اس موسم کی سب سے مرغوب خوراک نوجوان خون اور جسم ہوتے ہیں۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک کھلا چیلینج دیتا ہوں کہ وہ بھلے گہری سے گہری تحقیق کرلیں، شریعت اور آزادی کے خواب دکھانے والے بڑے بڑے سرخیلوں میں سے 99فیصد اپنی اپنی جگہوں پر آرام اور سکون سے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ کوئی لاہور میں بیٹھ کر آزادی کا ماما بنا ہوتا ہے تو کوئی اسلام آباد میں بیٹھ کر آزادی کی ملکہ۔ بحریہ ٹاؤن میں مسلح گارڈز کے ہجوم میں کوئی شریعت نافذ کروا رہا ہوتا ہے تو کوئی جھنگ و رحیم یار خان میں براجمان ہو کر پاکستان کو پاک کرنے کے چکروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف کالے چوغے پہن کر لوگ زبردستی کی شادیاں رچا کر سیٹلائٹ ٹاؤن پنڈی سے اہلِ بیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں توکوئی ہیروں کی تجارت سے سواداعظم کے چسکے لے رہے ہوتے ہیں۔ آپ، میں اور ہم جیسوں کے بچے بھلے مریں، مگر لندن میں ہر ویک اینڈ ایک ہائی اینڈ کلب میں جا کر آزادی کی خدمت ہو رہی ہوتی ہے یا مونچھیں داڑھی منڈوا کر جنیوا سے ایک پارٹی چلائی اور دھشتگردی کروائی جا رہی ہوتی ہے۔

بلا شبہ معاشرے اور ریاست کی حماقتیں ہیں، مگر اوپر بیان کردہ تضادات کی جڑ میں،اگر ایک چیز مشترک ہے تو میرے یارو وہ یہ ہے کہ یہ 99فیصدی مذہب اور سیاسی حقوق کے نام پر دراصل اس "غیرت" کو ہی مہمیز لگا رہے ہوتے ہیں جوکہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کا ایک خاص وطیرہ بن چکا ہے۔

مگر یاد رکھیں کہ آخری چوائس آپکی ہی ہوتی ہے کہ یاتو زندگی کی ندی میں آگے بہتے چلے جائیں، بہتر سے بہتر کرتے چلے جائیں، اپنے اور دوسروں کے لیے، یا پھران مذہبی اور سیاسی شعبدہ بازوں کی باتوں میں آ کر  دس منٹ کی غیرت دکھائیں اور پھربعد میں  دس سال کی۔۔۔!

مرضی کے مالک ہو یارو۔


شانی کی زبانی کے چند دیگر واقعات پھر کبھی سہی۔