بدھ، 19 مارچ، 2014

جاؤ بابا، بخشو کو معاف کرو

نہ لکھتا، مگر لکھنا ہی پڑا۔

مانا کہ ویسی کاٹ نہیں، کہ لکھنا میرا  پیشہ نہیں، ایک لگن، بہرحال ضرور ہے۔ یہ بھی مانا کہ ویسی فالؤنگ بھی نہیں، مگر اسکی کبھی پرواہ نہ کی، نہ ہے، اور نہ ہی  کبھی ہوگی۔  اور یہ تو مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کرکے مانا کہ کہاں مجھ سے "پینڈو بخشو "  کا ایک تھکا ہوا بلاگ اور کہاں برِ صغیر کے سابقہ آقاؤں کی نشریاتی اُردو۔ اور جناب، یہ تو سر، کندھے، گُھٹنے، ہاتھ اور کمر، سب کچھ ہی جھکا کر مانا کہ کہاں مبشر اکرم  کا تنگ سا تخیل اور کہاں وہ "وسعتیں" اور گہرائیاں۔

میرے سابقہ گاؤں اور حالیہ قصبہ، ملکوال، کی پنجابی میں ایک کہاوت ہے: ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے۔ اسکی اُردو نہیں کرونگا کہ جس کو اسکی چاہ ہو، وہ خود ہی کھوج لے۔ مگر سوچا کہ آج "شہتیر" کو جپھا ڈال ہی لیا جاوے۔

پاکستان میں پچھلے چند روز سے "بخشو بخشو" ہو رہی ہے۔ کبھی لکھا ہوا اور کبھی صوتی کالم آس پاس، دھڑا دھڑ پڑھایا اور سنایا جا رہا ہے۔ شروع کی مزاحمت کے بعد، آج سُن ہی لیا تو معلوم ہوا کہ طنز اور خود ترحمی کے درمیان الجھا ہوا ایک بیان ہے کہ جس میں نشتر زنی محسوس بھلے ہوتی ہو، مگر  ایک احساسِ حظ بھی نمایاں ہے جو عموما ایک خاص بلندی پر اپنے آپ کو خود سے ہی متمکن  کر کے اپنی  مرضی کے زاویہ  کو لِکھ یا نشر کرکے حاصل کیا جاتا ہے کہ بھیا، وطنِ عزیز میں تو کہہ ڈالنے کی روایت ہے، جوابی سننا توشاید منع ہی ٹھہرا۔ اور اگر جوابی سنایا جاوے، اور وہ بھی ایک "ملکوالی کوڑھ کِلی" کے قلم کا تو جواب الجواب میں دھائیں سے ایک جوتا مارنا ہی کافی کیونکہ جسکا بِکتا ہے یارو، اسی کا تو بِکتا ہے۔ اور اپنے وطن میں، اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہونے کے بعد بھی یہ بخشو وہی منظر قریبا روز ہی دیکھتا ہے جو آج سے چونتیس سال قبل دیکھا اور سنا تھا: رگڑ دے استاد!

کہنا یہی ہے کہ خودمتمکنہ بلندی سے عجب طرح کی خودترحمی کو واعظانہ طنز کے ساتھ لکھ/بیان کر ڈالنا تو آسان ٹھہرا کیونکہ "مرے کو مارے شاہ مدار" تو ہمیشہ سے ہی آسان معاملہ رہا ہے۔ گرے ہوئے کو یہ بتانا کہ بھیا، تم تو نیچے گرے ہوئے ہو، جناب، کیا کوئی کرامت ہے؟ نشتر زنی اعلٰی کام ٹھہرا، مگر ترحمی کے بیان کے ساتھ بخشو بنا کراپنے تئیں کپڑے اتار ڈالنا بھی تو صاحب، کوئی معجزہ نہ ہوا۔ یہ کام تو  وہ بھی کرتے اور کرواتے چلے آئے کہ جن کے کسی زمانے میں "کڑاکے کڈھ دئیو" بہت مشہور تھے۔ بخشو کا سوال تو یہ ہے کہ آپ نے بھی اپنے تئیں "کڑاکے کڈھ" ڈالے، کیا کمال کیا؟

کیا بہتر نہ تھا کہ بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچنے کی کوشش کی بجائے اسے دو گز ٹاٹ ہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی کہ بھیا ٹھیک ہے، بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا، مرضی سے بھی اور بغیر مرضی کے بھی، مگر باقی لنگوٹی کو بھی غنیمت جانو اور یہ لو دو گز دماغ کا ٹاٹ کہ جس سے کچھ تو ستر پوشی ہو۔ لازمی کہ جو دِکھتا ہے، چونکہ وہی بِکتا بھی ہے، تو یار لوگوں نے بھی یہ جانے بغیر  اس کو آس پاس، اوپر نیچے، دائیں بائیں، غرضیکہ ہر طرف "ٹھوک ڈالا،" کہ خود ترحمی خود کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے کہ اس میں چاہے آپکے بیان کی بےپایاں "وسعت" ہو یا "بخشو کی عزت افزائی،" انسان حوصلہ ہارنے کی جانب کچھ زیادہ رفتار سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ مجھے اسلام کے ہجے بھی صحیح نہیں آتے مگر حضرت علیؑ کا ایک قول دماغ کے پلُو میں باندھ کر رکھا ہمیشہ کہ: مصیبت میں گھبراہٹ، دوسری مصیبت ہوتی ہے۔

مگر چلیں محترم، یہاں کم از کم آپ کی عظمت اور ملکوال کی کوڑھ کِلی میں ایک چیز تو مشترکہ نکلی کہ مرضی کی خودمتمکنہ صحافتِ بلندی کرو یا اپنے مذہب کی چنیدہ تشریح، مقصدیہ کہ"ڈنگ ٹپا" دیا جاوے۔ ویسے بھی اب جسکے ہاتھ میں گاجر نما مائیکروفون ہو، ایک مشہور ویب سائٹ ہو، راکٹ لانچر نما کالا کیمرہ ہو، یا قمیض کی پٹی پر مکھی کی طرح بیٹھا ایک چھوٹا وائرلیس مائیک، اسی کے پاس تو سارے لائسینس ہیں۔ وہ چاہے مردانہ و زنانہ پوشیدہ بیماریوں پر بات کرے، آئین و مذہب کی پیچیدگیاں سلجھائے، دہشتگردی کے معاملات پر ہردم ماہرانہ رائے دے، علاقائی دشمنیوں اور دوستیوں کی گرہیں باندھے/کھولے، بین الاقوامی تعلقات کے نشیب و فراز بیان کرے ، پانی سے ہزار سی سی کار چلائے ، نیوز سٹوڈیو میں جوڈو کراٹے کرے یا بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچ کر اسکے "پوشیدہ اثاثے"  ظاہر کرنے کی کوشش کرے، کس کی مجال ہے کہ پوچھ سکے۔ کوئی پوچھے تو ایک کالم، ایک پروگرام، ایک احتجاج یا  خبطِ عظمت  پر مبنی ایک مسکراہٹ کی ہی تو مار ہے۔

آخر میں یہی کہنا ہے کہ کیمرے، مائیکروفون، اور سٹوڈیو چلانے اور قلم زبانی کرنے والے بڑے آئے، بڑے گئے، مگر کیا کریں کہ بخشو ان سب سے ڈھیٹ ہی نکلا۔ یہ کوئی سڑسٹھ سال قبل آ تو گیا، مگر جا ہی نہیں کہیں رہا۔ ہاں مگر زعم ِ وسعت ِ گفتار  میں نیچے رینگتے انیس کروڑ، ننانوے لاکھ، ننانوے ہزار، نو سو ننانوے بخشوؤں کے دماغوں میں خود ترحمی کے کیل مزید گہرے ٹھونکنا تو آسان تھا، ہے اور رہے گا کیونکہ میری شعوری  زندگی کے پچھلے چونتیس سالوں سے جاری  یہ جنتر منتر ابھی تک نہیں بدلا: رگڑ دے استاد!

آپ بھلے رگڑتے رہیں کہ بیانِ قلم و زباں، کارِ دست و ذہن سے کہیں آسان ہے۔ بخشو بھلے لنگوٹی میں نیم برہنہ کھڑا ہو، مگر بیانِ قلم و زباں سے اسکی لنگوٹی تو پچھلے چونتیس سالوں میں نہیں گری تو امید کہ اب بھی نہ گرے گی۔

اسی لیے تو پہلے ہی کہہ ڈالا کہ "بڑے آئے، بڑے گئے!"


تو آپ کیسے مختلف ہونگے، صاحب؟