ہفتہ، 7 دسمبر، 2013

ٹویٹر کے "شِٹرز" سے بچیں، بچیں، بچیں

آپ سب سے اس بلاگ کے ٹائٹل اور موضوعاتی تشریح کی ایڈوانس معافی، دل سے۔ اور ایک درخواست یہ کہ اس موضوع کو صرف ٹویٹر تک ہی محدود نہ رکھا جائے اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم، جیسا کہ فیس بک، گوگل پلس وغیرہ بھی کما حقہُ شامل کر لیے جاویں۔

میرا ٹویٹر پر اکاؤنٹ سنہء 2007 سے ہے، مگر کبھی اسے استعمال نہ کیا تھا۔ سوشل میڈیا ابھی پاکستان میں پیٹ کے بل رینگ رہا تھا لہذا کبھی توجہ ہی نہ دی۔ سوشل میڈیا کے اس پلیٹ فارم پر مسلسل جانے کی عادت 2012 کے وسط میں پڑی کہ اس سے پہلے نوکری کے جھنجٹ کافی تھے، کام بھی کافی تھا مگر اس سال میں، میں اپنی زندگی کے ایک بہت/بہت ڈیفائننگ فیز سے گزر رہا تھا اور زوال کی کیفیت میں شدید جدوجہد کر رہا تھا۔ کام کبھی ہوتا تھا، کبھی نہیں اور جب نہیں، تو پھر ٹویٹر پر جانے کی عادت نے جنم لیا۔ بہت سے دوسروں کی طرح میں بھی اسکا شدید ایڈِکٹ ہو گیا تھا، مگر پچھلے پانچ سے چھ ماہ میں یہ عادت اب بہت میچؤر ہو چکی اور اب اتنا وقت وہاں نہیں گزرتا جتنا کہ پہلے اور جو وقت وہاں گزرتا ہےوہ زیادہ تر اسی کیفیت میں کہ جب کام نہ ہو، تھوڑی فراغت ہو اور جب کسی ایک موضوع پر کوئی احساس اپنے اندر شدت لیے ہو۔

ٹویٹر نے مجھے بہت سے اچھے جگری دوست بھی دیے۔ ان میں سے کئی کے ساتھ ملاقات بھی ہوگئی اور کئی کے ساتھ نہیں۔ مگر زندگی ہے، یاری ہے تو شاید ملاقات بھی ہو جائے، اور اگر نہ بھی ہو تو، ٹویٹر کے وسیلے سے ان کی شخصیات کے بہت سے پہلوؤں سے تعارف ہو چلا اور بعض اوقات اتنا ہی کافی محسوس ہوتا ہے۔

فلسفہ کافی جھاڑ لیا، اب کام کی بات ہو جائے!

2007 سے میں نے کُل بارہ افراد کو بلاک کیا، کیونکہ وہ اسی قابل تھے۔ آج تک کسی کو ان-فالو نہ کیا جب تک کہ کسی دوسرے نے یہ کام خود پہلے نہ کیا ہو۔ جس کسی نے بھی فالو کرنے کا کہا، کبھی انکار نہ کیا، نہ کرونگا اور ہمیشہ اسے اپنی عزت افزائی ہی جانا کہ کسی نے اس قابل سمجھا اور مجھے فالو کرنے کا کہا۔ تمام فالوورز دل سے قابل احترام،مگر خدا گواہ کہ فالوورز کتنے ہیں، کتنے آئے، کتنے گئے، کبھی پرواہ نہ کی ، نہ کرونگا کہ بالکل انسانی زندگی کی طرح، انسان آپکی زندگی میں آتے ہیں، کچھ ساتھ رہتے ہیں، اور کچھ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ چھوڑ کر جانے والوں کے لیے بھی دعا، ساتھ رہنے والوں کے لیے بھی دعا۔ اس پلیٹ فارم سے بہت کچھ سیکھا اور بہت سے معاملات کا مشاہدہ بھی کیا۔ اسی پراسس میں کچھ "ٹویٹری اصول" بھی وضع کیے جو آپ سے شئیر کرنے جا رہا ہوں کہ شاید کسی کا بھلا ہوتا ہو۔

بلاک کر، جان چھڑا: موضوعاتی اختلاف اور ذاتی کمنٹ میں فرق کرنا جانیں۔ موضوعاتی اختلاف بھلے جتنا بھی تلخ اور سخت ہو، اسکو برداشت کریں اور اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ذاتی کمنٹ اور حملے کو اسکی نوعیت کے مطابق برداشت کرسکیں تو کریں، اور اگر ظرف مناسب محسوس نہ کرے، تو جواب میں ایک "ٹکاواں بدبودار" جواب دے کر بلاک کریں، جان چھڑائیں اور آگے بڑھیں۔ ایویں میں ولی اللہ بننے کی کوشش نہ کریں کہ جو لوگ اپنے اندر کا  گند آپ پر گرانے کو بے تاب ہیں، انکی بدبو سے دوری ہی اچھی۔یاد رکھیں کہ یہ آپکو بہت جلد انکے اپنے لیول پر لے آنے کے ماہر ہوتے ہیں اور آپ کا تیا پانچہ ہو جاتا ہے، اسی پراسس میں۔

سدا کے سڑیل سے بچیں: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کی تمام باتوں میں اپنے اندر کی جلن ایک بدتمیزی کے لبادے میں چھپے طنز کی شکل میں آپ پر گرا دیتے ہیں۔ خواتین اپنے مسائل بالواسطہ اور مرد اپنی فرسٹریشنز سیدھی سیدھی آپ پر نازل کر ڈالتے ہیں اور آپ ایک موضوعاتی بحث کی نیت سے بیٹھے ہوتے ہیں اور انکے اندر کی سڑن اور اُچھان پندرہ دن کی باسی کڑھی کی طرح آپکی روح کو "معطر" کر جاتی ہے۔ انکو فٹا فٹ سلام کریں، اور دل مضبوط رکھتے ہوئے جان بچائیں۔

مذہبی مامے سے معافی مانگیں:  کہتا چلوں کہ میں ذاتی حیثیت میں تمام پاکستانی فرقوں کے سواد چکھ چکا ہوں اور انہیں صرف کھوکھلی ذاتی سلطنتیں ہی پایا ہے۔ نوجوانوں کے ذہن مذہبی اور فرقہ وارانہ حوالوں سے پراگندہ کرکے اپنی اپنی دکانیں چمکانےوالے اپنے جوان بچوں کو ساؤتھ افریقہ بھیجنے کے لیے سکالر شپ کی سفارشیں بھی کرواتے پھرتے تھے اور پاکستان میں دوسروں کے بچوں کو ناموسِ صحابہ کےلیے قربانی کی ہدایت دیتے تھے۔ دوسرے والے اہلِ بیتؑ کے ٹھیکیدار ، رسوماتی اسلام کے نام پر امام حسینؑ سے محبت  کی اہمیت بتاتے اور اپنے بچوں کو اپنے ساتھ مغربی ممالک کی سیروں پر لے کر چلے جاتے اوران ممالک کےویزوں کیلیئے وزیروں کی سفارشیں بھی کرواتے۔ میں ذاتی طور پر ایک مکمل آزادانہ پوزیشن کی کوشش کرتا ہوں، اور انسان ہوں، کبھی ناکام بھی ہوتا ہوں اس کام میں اور پھر طعنے بھی سنتا ہوں۔ یہ مذہبی مامے عموما وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے نزدیک انسانی ایکسپوژر ایک مخصوص نظریہ تک ہی محدود رہنا چاہیئے اور وہ عموما اسی ایک نظریہ کو ہی درست جانتے ہیں۔ وہ مذہبی تقسیم کی کسی طرف بھی ہوں،  آپکی اس معاملے میں آزادی کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ موضوعاتی گفتگو کرتے ہوئے، وہ آپکو ہمیشہ "ڈیوائڈ" کی دوسری جانب ہی دیکھتے ہیں، چاہے انکی اپنی مذہبی افیلیئشن کوئی بھی ہو۔

انقلابی کارل مارکسوں کو لال سیلوٹ دیں:  یہ بھی ایک مزیدار طبقہ ہے اور یا تو مذہبی جماعتوں سے ہوتے ہیں یا پھر تحریک انصاف سے۔ انکی "زبان دانی" سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی سمجھ بوجھ کے سامنے بابا آئن سٹائن بھی ماند ہے۔ ان انقلابیوں میں کچھ بہت "چج" کے لوگ بھی مل جاتے ہیں، مگر ٹاواں ٹاواں۔ زیادہ تر آپ پر تبرہ تولنے والے، آپکو پٹواری، اسلام دشمن اور سی آئی اے وغیرہ کے ایجنٹ کہنے اور سمجھنے والے۔ انقلاب کے اس جنگل میں سے مناسب لوگ تلاشتے تلاشتے آپ کے کافی بال براؤن ہو جاتے ہیں، اور یہ سودا عموما منافع بخش نہیں ہوتا۔ ان کے انقلاب سے بچیں اور پچیس ہزار میل دور جا کر سانس لیں اور دل سے توبہ کریں کہ آئندہ انقلاب کے رستے میں نہیں آنا، وگرنہ آپکی ایسی تیسی!

مُسلم معذرت خواہوں سے بھاگیں:  یہ معززینِ ٹویٹر وہ لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک مذہب اور اس سے جڑے دیگر معاملات کو دیکھنے کا صرف ایک ہی محدب عدسہ ہے: انکے فہم کا اسلام۔ دنیا میں قریبا ساڑھے سات ارب لوگوں میں سے سوا سے ڈیڑھ ارب لوگ مسلمان ہیں، لہذا انکے نزدیک باقی چھ ارب تو گئے کام سے۔ اللہ، رسولؐ اور کتابِ حیات (قرانِ مجید) کو یہ صرف مسلمانوں کی ہی میراث سمجھتے ہیں اور اس پر اپنی ایک حاسدانہ ملکیت بھی جتلاتے ہیں۔ آپ اللہ، رسولؐ اور کتابِ حیات کو انسانیت کے نام کرکے دیکھئے – اور پھر بھگتئیے بھی ٹکا کے! ان خواتین و صاحبان کے نزدیک دنیا ایک قید خانہ، یہود و نصاریٰ مسلم کے ازلی دشمن اور اس ضمن میں قرانِ پاک سے کوالیفائرز کے بغیر مرضی کی چُنی ہوئی آیات لے کر آجانا اسلام و مُسلم کا بہترین دفاع ٹھہرتا ہے، مگر بھلے اپنے بند دل کی شریانوں کا علاج عجوہ کھجور سے نہ کریں اور کلونجی سے کینسر کا علاج نہ کریں۔ اس معاملے میں انہی یہود و نصاریٰ کی بنائی ہوئی "حرام اور دشمنانہ ٹیکنالوجیز" سے مکمل استفادہ حاصل کرنا فرض ٹھہرا اور ابھی تک ایسا ہوا تو نہیں، مگر یقین ہے کہ وہ اس ضمن میں بھی کوئی نہ کوئی قرانی یا حدیثی ریفرنس نکال ہی لائیں گے۔

تبلیغی شاہینوں کی تبلیغ سے جان چھڑائیں: جی نہیں، میری مراد تبلیغی جماعت سے نہیں بلکہ ان سے ہے جو اپنے اپنے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو، نعوذباللہ، پیغمبران کی نظر سے دیکھیں اور ان پر کسی قسم کی تنقید برداشت نہ کریں۔ انکو بھی دور سے سلام کیجیے اور جان بچائیے۔

طنز و مزاح کے جاہلوں کو 420 توپوں کی سلامی دیں: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپکے لطیف پیرائے میں کہے گئے فقروں پر ویسے اچھل کود شروع کردیتے ہیں کہ جیسے بندر اپنی ننگی پیٹھ سے گرم توے پر بیٹھ گیا ہو۔ آپ کے طنز کا جواب ایک سیدھے تیر کی شکل میں آپ پر نافذ کرتے ہیں  جو عام طور پر  آپ پر ذاتی کمنٹ کی شکل میں ہی ہوتا ہے۔ آپ اندر تک  جلنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے بھی بچیں اور سلام کرکے آگے جائیں۔ اور اگر سلام سے کام نہ چلے تو، ایک بار پھر معذرت کہ آپ ولی اللہ نہیں، جواب دیں اور جان چھڑائیں۔

میں بھی شاید اوپر والی کسی کیٹگری میں آتا ہوں، شاید یہ تمام "اوصاف" مجھ میں بدرجہ اتم موجود ہیں، مگر اپنے یار محسن حجازی سے اسکا فقرہ ادھار لیتے ہوئے کہ جو اس نے ایک مرتبہ میرے دفاع میں  کسی کو کہا تھا: جناب، ٹویٹر پر بیٹھے لوگ بھی انسان ہی ہوتےہیں،اپنی اپنی کہانیوں کےساتھ۔باہمی احترام نقصان نہ دےگا۔شکریہ

میرے لیے یہ فقرہ عرصہ ہوا ایک گائیڈنگ پرنسپل بن چکا۔ آپ بھی یاد کر لیجیے۔ اور یہ بھی کہ محسن سے میری یاری بھی ٹویٹر کے ذریعہ سے ہی ہوئی اور روزبروز مضبوط ہی ہوئی ہے۔ اس سے بھی بہت مرتبہ موضوعاتی اختلاف اور  بہت شدت کے ساتھ ہوا، مگر بات کبھی ذات تک نہ پہنچی اور نہ پہنچے گی۔

ٹویٹر پر آپ اور آپکا مخاطب انسان ہی ہے۔ اس پلیٹ  فارم پر ویسے ہی انٹرایکٹ کریں کہ جیسا آپ اپنی عام زندگی میں کسی سے بھی شائستگی سے کریں گے۔ عام زندگی میں اگر بدتمیزی کریں گے تو شاید دو تین چانسز کے بعد ٹھکائی ہو جائے، ٹویٹر پر یہ کام، میں آپ سب سے کہوں گا، کہ اپنے ظرف کے مطابق خود فیصلہ کر کے کر لیجیے۔ جو آپکا احترام کرنے سے قاصر ہو، موضوع کو  ذات میں مِکس کرتا ہو تو یارو، مناسب سے مواقع کے بعد، اپنی ذہنی صحت کو عزیز جانئیے۔ ایک سو چالیس حروف آپکا دن بھی خراب کر سکتے ہیں، اور آپکا دن بنا بھی سکتے ہیں۔بہتر کہ آپ کا دن بنے، خراب نہ ہو۔

لہذا "ٹویٹر شِٹرز" سے بچیں، بچیں، بچیں۔

یہ گذارشات میرے تجربات پر مبنی تھیں۔ اور بھی ہیں، مگر طوالت کے سبب، ختم کر رہا ہوں۔ آپکا مجھ سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔ مگر یاد رکھئیے کہ بھلے اختلاف کریں، مگر موضوع پر۔ ذات کو بیچ میں گھسیٹنا کمزور دلیل کی علامت ہوتا ہے۔

آپ سب سلامت رہیں۔