جمعرات، 12 دسمبر، 2013

عمران خان صاحب کے نام کھلا خط



محترم جناب عمران خان صاحب:

تحقیق کہ سچ کہا جائے۔

آپکی زندگی میں پاکستانی نوجوانوں کے لیے بہت سارے مثبت سبق ہیں، بلاشبہ۔ آپ کے اکثریتی ووٹر شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ زندگی میں ایک مرتبہ ایک ڈاکٹر نے آپکے کندھے کا  غلط آپریشن کردیا جسکی وجہ سے آپکا کرکٹ کھیلنا تقریبا ختم ہوا چاہتا تھا، مگر آپ نے صرف اور صرف اپنی قوتِ ارادی سے اپنی جسمانی پرابلم کو شکست دی اور  جیسا کہ انگلش میں کہتے ہیں، "ان دی سکیم آف تھنگز" پاکستان کو دنیائے کرکٹ کی چوٹی پر ورلڈ چیمپیئن کی شکل میں لے گئے۔ آپکے بہت سارے ووٹر یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ آپ پاکستان، شاید دنیا، کے واحد کرکٹر ہیں کہ جنہوں نے ریٹائرمنٹ لی اور پھر مملکتِ پاکستان کے صدر نے آپ سے ذاتی درخواست کی کہ آپ اپنا فیصلہ واپس لیں۔ یقینا دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی درست ہے کہ آپ نے زندگی میں جس کام کی ٹھانی، کر ڈالا اور  بہت سارے حوالوں سے معاشرے میں پائی جانے والی معاشرتی اور سیاسی منافقت سے کام نہ لیا، بلکہ اپنی جوانی کے واقعات سے لیکر اپنی ذات کی ہیئتِ ترکیبی میں آنے والی تبدیلی، سب اپنے چاہنے والوں سے شئیر کیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ذات کی حیثیت میں اتنا سچ کسی پاکستانی نے لوگوں کے سامنے نہ بولا، اور شاید آنے والے بہت/بہت/بہت سالوں تک نہ بولیں، کہ جتنا آپ نے کہا۔

تحقیق، کہ جو ہے، وہی کہا جائے۔

آپ نے اپنی والدہ مرحوم و مغفور ،محترمہ شوکت خانم سے اپنی محبت کا بےپایاں ثبوت پاکستان کو پہلا کینسر ہسپتال دے کر دیا۔ تعلیم کے میدان میں نمل یونیورسٹی جیسی درسگاہ قائم کر ڈالی کہ جسکے ساتھ ندی کے کنارے بیتی ہوئی ایک شام میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر مجھے شاید کبھی نہ بھولے۔ آپ نے اپنی سیاسی جماعت قائم کی اور لوگوں کے شدید مذاق اڑانے، ٹھٹھہ کرنے اور ہمت توڑنے کے باوجود ڈٹے رہے۔ مجھے آپکے 1997 کے ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات ابھی تک یاد ہیں کہ جس میں آپ نے پاکستان میں قائم سیاسی بھیڑ چال کو چیلنج کیا اور لوگوں کو باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کا کہا۔ مجھے وہ فضا بھی یاد ہے جب بہت سارے "پاکستانی دانشوران" کا ایک جمِ غفیر آپکے آس پاس اکٹھا ہوا اور جیسے آیا، ویسے ہی آپکو تنہا چھوڑ کر اپنی اپنی ذات، اور دماغی دکانوں کے ڈربوں میں جا گھسا۔ آپکو بھی اس وقت احساس ہوا ہو گا کہ وہ لڑنے نہیں، صرف "بانگیں" دینے والے مرغے، اور مرغیاں، تھے۔ مگر آپ ڈٹ کر کھڑے رہے، اور آگے بڑھتے رہے اور آپکی سیاست بھی ہچکولے کھاتے ہمراہ رہی۔ آپ پاکستان کے وہ واحد سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر نیشل/سیٹلائٹ میڈیا پر قوم سے معافی مانگی اور اپنے اس قدم کا کبھی دفاع نہ کیا۔ اسی ملک میں دوسرے بھی تھے، اور ہیں، جو جنرلز کو ڈیڈی کہتے رہے اور جن کو جنرلز نے اپنی زندگی بھی لگ جانے کی دعا دی، مگر انکے ظرف میں قوم سے معافی مانگنا شاید توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

آپکی جماعت اکتوبر 2011 کے لاہور جلسے کے بعد، انگریزی زبان کے مطابق "اِز برسٹنگ ایٹ دا دسِیمز" کے دور سے گزری اور آپ سے بہت سارے غلط اور کچھ درست فیصلے بھی ہوئے۔ بہت سے لوگ آپکے ساتھ آن ملے اور انہی میں سے بہت سارے فورا فرار بھی ہوئے۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں نے آپکی پارٹی سے رابطہ کیئے بغیر، خود ہی سے پریس کانفرنسز میں تحریکِ انصاف  میں شمولیت کا اعلان کیا اور پھر خود ہی سے باہر ہو لیے۔ آپ نے اس شدید دباؤ کے دور میں بھی کبھی اپنی عزتِ نفس اور پارٹی کے وقار پر، اپنے تئیں، کوئی حرف نہ آنے دیا۔

یہی سچ ہے۔ جس نے جو کہنا ہے کہتا پھرے، مگر اوپر جو کچھ بھی تحریر کیا گیا، وہ سچ کے علاوہ کچھ نہیں۔

2013 کے الیکشنز میں، بے شک آپکی اور آپکے ووٹرز کی بہت امیدیں تھیں کہ تحریکِ انصاف پاکستان میں کوئی بہت بنیادی جوہری تبدیلی لےکر اکثریت حاصل کر لے گی۔ میں جانتا تھا کہ ایسا اس لیے نہ ہوگا کہ یہ سیاسی حکمت اور سوچ کے خلاف بات ہےکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور اقوام اپنے مزاج میں مل جانے والی عادات جلدی میں نہیں بدلتیں۔ یہ ممکن نہ تھا شروع سے ہی مگر ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے ووٹرز کی امیدیں قائم رکھنا بھی آپ پر فرض تھا اور آپ نے یہ فرض بخوبی سرانجام دیا۔ 2013 کے الیکشنز نے آپکو، 2002 میں ایک  سیٹ  والی پارٹی سے پاکستان کی ووٹ حاصل کرنے والی دوسری بڑی جماعت بنا ڈالا، خیبر پختونخواہ میں آپکی حکومت قائم ہوئی، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں اپوزیشن کی سیٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے کورٹس سے باہر نکلی، کراچی میں آپکی جماعت نے ایم کیو ایم کا ڈٹ کر سیاسی مقابلہ کیا اور یہ کام جماعت اسلامی بھی ویسے نہ کرپائی کہ جیسے آپکی تحریک نے کر ڈالا۔ آپ واحد وفاقی سیاسی  رہنما ہیں کہ جو بلوچستان میں کھلے عام سیاسی جلسہ کرتے ہیں، فاٹا جانے کی کوشش کرتے ہیں، کے پی کے شورش زدہ علاقوں میں بےخوف جاتے ہیں۔ آپ کے سیاسی کردار نے پاکستان کے وفاق میں نئی امیدیں جگائیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپکی جماعت کا فوکس ابھی بہت ہٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور آپکی جماعت ابھی ایک مستقل ردِعمل کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے

آپ کی جماعت کے پاس کےپی کی حکومت ہے۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ڈرون کے ردِعمل میں طالبان اپنا جاہلانہ تشدد پاکستانی شہریوں کےخلاف کرتے ہیں کہ انکی ترکیب ہی متشدد، مجرمانہ اور حرام کے ذریعے سے پیسے حاصل کرکے اپنی کارروائیوں کو چلانے والی ہے، ان سے کیا، کِس اور کیسی شریعت کی توقع کرنا کہ انکے کسی امیر میں کوئی مذہبی قابلیت نہ تھی اور نہ ہوگی کہ اسلام کو سمجھنے اور جاننے والا کسی زندہ انسان کا گلا کبھی نہیں کاٹتا! آپ نے مارچ کیا ڈرون کے خلاف اور دھرنا دے ڈالا۔ معذرت مگر اگر آپکا سٹانس ڈرونز کے خلاف عوامی جذبات کا مظہر ہوتا تو، آپکے احتجانی کیمپ جو پشاور رنگ روڈ پر ہے، پر جمِ غفیر ہوتا جبکہ وہاں گن کے بارہ لوگ بھی شاید نہ ہوتے ہوں اور ان چند ایک میں اکثریتی فارغ اور بےکار لوگوں کی ہی ہوگی۔ اس رنگ روڈ کے پیچھے لاکھوں کی آبادی والا پشاور شہر اس کیمپ کو نظرانداز کرکے اپنےکاموں میں مصروف رہتا ہے۔

طالبان کے ظلم اور تشدد نے کے پی میں صنعتوں کو تباہ کر ڈالا، درست ہے، مگر محترم، کے پی کی معیشت کا  شاید 83٪ تو زراعت پر مبنی ہے اور بجائے آپ 17٪ یا کم پر توجہ دیں، پوچھنا یہ ہے کہ کے پی میں روز روز کے احتجاج سے 83٪ معیشت کی کیا خدمت ہو رہی ہے؟ نہ صرف یہ بلکہ یہ مسلسل احتجاجی رویہ آپکی پارٹی، اسکے رہنماؤں اور کارکنان میں ہر وقت "تنی کمانوں" والا رویہ موجود رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کرنے والے کام وہیں کے وہیں جہاں وہ پچھلے دور میں تھے۔ آپکی کے پی حکومت کے پاس کروڑوں کی آبادی والا ایک صوبہ اور اس صوبے میں چلنے والے ہزاروں معاملات ہیں۔ زراعت، سڑکیں، پولیس، لوکل گورنمنٹس، آبپاشی، لوکل ٹیکسز، تعلیم، خواتین کی مین-سٹریمنگ، پولیو، بچوں کےلیے معیاری تعلیمی ماحول، کھیل، تفریح، ثقافت، موسیقی، ادب، شاعری، پینے کا پانی، سِوِک سروسز، رہداریاں، آبی ذخائر، بجلی، سیاحت، بنیادی و اجتماعی صحت، معاشرتی ترقی، دیہی ترقی، گھریلو صنعتوں کی ترویج، لوکل ثقافی آرٹس اور کرافٹس و دیگر امور شامل ہیں۔

مگر آپ نے ڈرون حملے کو ہی مشقِ ستمِ سیاسی ہی کیوں بنا ڈالا؟ آپ نے احتجاج کا حق ہی کیوں استعمال کرنا جانا اور اوپری درج معاملات میں ترقی اور بہتری کیوں بظاہر پسِ پشت ڈال دی؟ آپ نے گورننس کے معاملات میں بہتری اور اعلیٰ معیار دکھانے کی بجائے سیاست میں شدت کے عنصر کو ہی کیوں اپنا "ریزن ڈی ایٹرا" بنایا ہوا ہے؟ آپکے مسلسل احتجاج سے، کیا پوچھنا میرا حق نہیں، کہ اوپری درج اور بہت سے دیگر شعبات میں کیا ترقی ہوئی؟ چلیں چار چھ ماہ میں ترقی کا  پوچھنا شاید مناسب معلوم  نہ ہو، مگر کیا پالیسی معاملات طے پائے ؟ کیا غوروفکر ہوا اور فہم و فراست کے ساتھ ان سماجی و سیاسی معاملات کوترقی کی جانب گامزن کرنے کا کیا روڈ-میپ طے پایا؟ اور اگر ان معاملات پر درست سمت میں کوئی پیش قدمی ہوئی ہے تو آپکی حکومت کی کمیونیکیشن کہاں ہے اور لوگ کیا جانتے ہیں اس حکومت کی پرفارمنس کے بارے میں؟

آپ اور آپکی جماعت سے اکثر اوقات کے سیاسی احتجاج نے، معذرت کہ بہت سے مجھ جیسے آپکے ووٹرز کو بددلی اور مایوسی کی سڑک پر ڈال دیا ہے۔ اگر احتجاج کرنا اور بلند آواز سے بولنا ہی تبدیلی کی سیاست تھی تو یہ کام محترم لیاقت بلوچ، طاہر القادری اور الطاف حسین صاحب تو پہلے سے ہی کر رہے تھے، آپ کے اتنی محنت کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی پھر؟ ابھی سنا ہے کہ آپ لاہور میں شاید 22 دسمبر کو غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ آپکا احتجاج قیمتیں کم کرنے میں کیا جادوگری دکھائے گا اوراس کے بعد چک نمبر 13 گ-ب میں منیرے نائی کی زندگی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور پھر اسکی اور اسکے خاندان کی زندگی میں بہار آ جائے گی؟ بہت ہوا، محترم، تو آپکے احتجاج سے لاہور کے اس علاقے میں منرل واٹر کی بوتل ذرا مہنگی ہوجائے گی اور اس دن برگر کافی بکیں گے آپکے احتجاجی جلسے کے آس پاس کے علاقوں میں۔ تبدیلی بہرحال نہ آئے گی۔

مجھے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ 22 دسمبر کے احتجاج سے پہلے ہی آپکی جماعت اگلے احتجاج کا اعلان نہ کر ڈالے اور رفتہ رفتہ آپکی جماعت کا دوسرا نام "پاکستان تحریکِ احتجاج" پڑ جائے۔ یقین کیجیئے کہ طنز مقصود نہیں، مگر جو لکھا ہے وہ ایک سچے اور ٹیکس گزار پاکستانی کی حیثیت سے لکھا ہے۔ میں ریاست کو ٹیکس دیتا ہوں تواسکے بدلے مجھے زندگی میں سکون، ترقی، امن اور امان چاہیے نہ کہ پشاور رنگ روڈ پر غریب ڈرائیورز کے پٹائی کرنے اور کپڑے اتارنے والے جوشیلے سیاسی کارکن جو جذباتی ہیجان میں اپنی زندگی میں فراغت اور ناکامیوں کا بدلہ غریب ڈرائیوروں کی داڑھیاں کھینچنے میں لے رہے ہیں۔

آپکی جماعت پر کروڑوں پاکستانیوں نے اعتماد احتجاج نہیں، بہتریں مثالیں قائم کرنے کے لیے کیا تھا۔ آپ سیاستدان ہیں، سیاسی تدبر کی امید ہے آپ سے اور وہ بھی مشکل ترین حالات میں۔ اگر حالات آئیڈیل اور مثالی ہوں تو صاحب، حکومت تو میں بھی کر اور چلا سکتا ہوں اور شاید منیرا نائی بھی کہ مثالی حالات میں حکومت چلانا بھی بھلے کیا کمال ہو گا؟

مضمون طویل ہوگیا، آپ سے معذرت خواہ ہوں اور آخر میں آپکے پرجوش کارکنان کی اکثریت سے یہ کہتا چلوں کہ میں 1993 سے پاکستانی ووٹر ہوں اور آپ کے شاید 90٪ ووٹر اس وقت عالمِ ارواح میں اپنے کروموسومز کے جوڑے بننے کا انتظار کر رہے تھے جب میں  ملکوال میں ووٹرز کی لائن میں لگا ہوا تھا۔ 1993 میں پی پی کو ووٹ دیا کہ خاندانی رجحان تھا، 1997 میں پھر پی پی کو کہ فاروق لغاری زیادتی کر گئے، 2002 میں پی ایم ایل این کو کہ مشرف نے حماقت کا ارتکاب کیا اس پارٹی کے خلاف، 2008 میں پھر پی ایم ایل این اور آخر میں ابھی، 2013 میں آپکی پارٹی کو۔ ابھی یہ آپکی پارٹی کی چوائس ہے کہ مجھ سے غیرتقلیدی رویہ کے حامل ووٹرز کو آپ اپنے احتجاج سے "متاثر" کرتے ہیں یا اپنی حکومت کی "حکمت" دکھاتے ہیں۔ پاکستانی ووٹر آپکے حق میں بدلا ہے، یہ آپکے خلاف بھی بدل سکتا ہے۔ آخری فیصلہ بہرحال، آپکے اپنے ہاتھ میں ہے۔

اللہ تعالیٰ آپکو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

آپکا مخلص،

مبشر اکرم
اسلام آباد