منگل، 17 دسمبر، 2013

اس کُتے کو باہر نکال دو ( بسلسلہ "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کہانی نمبر1)



 یارو، لکھنے کا دل تو بنگلہ دیشں پر تھا کہ یہ 16 دسمبر بڑے مزے کا دن ہوتا ہے۔ اس دن پاکستان میں پائے جانی والی دو "مخلوقات،" جعلی لبرلز اور نقلی (دیوبندی) ملا، ایک دوسرے کو سلامِ محبت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جعلی لبرل کہتے ہیں کہ: آہ، پاکستان کا بننا ایک غلطی تھا۔ جبکہ انکے ایک دن کے بھائی، نقلی (دیوبندی) ملا ارشاد فرماتے ہیں: دیکھا، ہمارے بزرگوں کے مطابق علمائے دیوبند پاکستان بنانے کے "گناہ" میں شریک نہ تھے۔ یہ الگ بات کہ دونوں ہی سال کے باقی 364 دن ایک دوجے کو "پھکڑ تولتے" نظر آئیں گے، مگر پاکستان کے قائم ہونے اور قائم رہنے کی چِڑ ان دونوں مخلوقات کو اس ایک  دن ایک دوسرے کی جھولی میں لے آ تی ہے۔

مگر ایک بات یاد رہے کہ میری مراد یہاں جعلی لبرلز اور نقلی دیوبندی ملاؤں سے ہے، وگرنہ اصلی ترقی پسند لوگ تو پاکستان کے قیام کو جمہوری عمل گردانتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کے حکم پر پاکستان چلے آئے اور یہاں اپنی جدوجہد کی اور علامہ سلمان ندوی اور علامہ شبیر عثمانی رحمتہ اللہ علیہان جیسے دیوبند زعماء پاکستان کے قیام کے حق میں تھے اور اسکے لیے اپنی بساط کے مطابق ہمت و کوشش بھی کی۔ مگر چننے والے کی مرضی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو چُنے اور اس ملک میں رہے ہوئے، یہاں کا کھاتے، پیتے اور یہیں اینٹھتے ہوئے، اس ملک، پاکستان، کے قیام میں کیڑے نکالیں۔ ایسوں کے لیے خبر یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت کے ایک نئے "ابُو" نریندرا مودی وہاں الیکشن لڑ رہے ہیں، اور ایسے سارے انکی سیاسی ولدیت میں جا سکتے ہیں کہ ابھی موقع بہت مناسب ہے۔ اس سے یہ جعلی لبرلز اور نقلی دیوبندی ملا بھی خوش رہیں گے، اور مجھ سے جاہل پاکستانیوں کی جان بھی ان سے چھوٹ جائے گی۔

چند دن قبل ایک بہت اعلیٰ روحانی تجربہ سے گزرا تھا اور وہ بھی شئیر کرونگا کہ اللہ، جو کہ مالک جہانانِ کُل ہے، سب کا ہے اور اسکی ذاتِ اکبر پر صرف مسلمانوں کے ہی کاپی رائٹس نہیں مگر چند ایک دوستوں کی فرمائش پر "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کے سلسلہ میں چند ایک مضامین تحریر کرونگا۔ خاص طور پر ان پاکستانی نوجوانوں کے لیے جو اپنی بیس کی دہائی میں زندگی گزار رہے ہیں اور عام طور پر ہر کسی کے لیے کہ زندگی میں، صاحبو، حقیقت میں کچھ بھی واقعی ہی حتمی نہیں ہوتا۔ جس معاملات اور نتائج کو ہم "حتمی" جان بیٹھتے ہیں، وہ دراصل ایک اور، اچھی یا بری" صورتحال کی طرف لے کر جانے کای ایک راستہ ہی ثابت ہوتا ہے مگر تقریبا نہ ہونے کے برابر لوگ اس پراسس کو شعوری طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں اور اپنے اوپر آنے والے اچھے یا برے واقعات کو اس پراسس میں اپنا  آخر جان لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہوتا۔

جان لیجیے کہ کائنات کے اس نظام میں انسانی حوالے سے عالمِ اسباب میں حتمی صرف "موت" ہے، موت۔ اور کیا دلچسپ معاملہ ہے موت کا کہ اسکے حتمی ہونے کا تو معلوم ہے، مگر اسکے آنے کا وقت انسانوں کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا۔ لہذا، جو چیز انسانی زندگی کے معاملہ میں حتمی ہے، ہم اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور یہ بھی کہ اگر موت کو روحانی پہلو کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بھی حتمی مرحلہ نہیں کہ اسکے ذریعہ سے ہم عالم الاسباب سے عالم الارواح میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں کی زندگی لافانی ہے۔ یہی عقیدہ ہے دنیا کے زیادہ تر مذاہب کا اور پھر ہر مذہب کی اپنی اپنی تشریح ہے، مگر  اس پر پھر کبھی سہی۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔

1993 کے دسمبر کی بات ہے اور میں اسلام آباد میں اپنے "جگری چاچُو" محمد حسن بٹ صاحب کے گھر مقیم تھا۔ اور اسلام آباد کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چاچُو نے خود اپنی زندگی میں بہت/بہت/بہت شدید محنت کی اور مجھے بھی مصروف ہی رکھتے تھے کہ کام کاج میں لگا رہوں۔ کچھ ٹائیپنگ میں نے سیکھی تھی ملکوال سے مگر اس کو "کمال" تک چاچُو نے ہی میرے پیچھے پڑ پڑ کے ہی پہنچایا۔ انہی دنوں روزنامہ جنگ کے اشتہارات کے صفحہ پر ایک مترجم کی نوکری آئی اور میں نے اپنا نہایت ہی دیہاتی سٹائل کا بنا ہوا "سی-وی" روانہ کر دیا۔ چند دن بعد مجھے وہاں سے کال آ گئی اور میں، اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ایک پلازہ، گنزہ سنٹر، کے چوتھے فلور پر  انٹرویو اور ٹیسٹ کے لیے چلا گیا۔ سارے معاملات ٹھیک ہوئے اور دو دن بعد مجھے چاچُو کے گھر کے فون نمبر پر دوبارہ کال آئی کہ آپکو سیلیکٹ کر لیا گیا ہے، اور آپ سوموار والے دن آ جائیں، اور کام شروع کر دیں۔

غربت سے مسلسل جنگ کرنے والے وہ جو کہ میرا یہ مضمون پڑ ھ رہے ہونگے، انکو اندازہ ہوگا کہ میں نے اس وقت کیسا محسوس کیا ہوگا۔ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے میں نے سوچا کہ اب میرے تمام مسائل ختم، میں امیر  اور زندگی میں بہت آگے بڑھ جاؤں گا، افسری کرونگا، میرے پاس نوکر چاکر، گاڑی بنگلہ اور تمام نعمتیں ہونگی اور میں اپنے قصبہ، ملکوال، کا سب سے کامیاب ترین آدمی کہلاؤں گا۔ جی 21 سال کی عمر میں 900 روپے ماہانہ کی نوکری پر یہی جذبات ہوتے ہیں جب آپ نے غربت اور مسلسل کوشش کی زندگی گزاری ہوتو۔

سوموار والے دن میں اپنی واحد جینز پہن کر نوکری پر پہنچا تو جس کرسی پر مجھے بیٹھنا تھا، وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی کام کر رہی تھیں۔ میں انکے سامنے بیٹھ گیا اور تقریبا ایک گھنٹہ انتظار کے بعد، اس آفس کے مالک جن کا نام مجھے آج بھی یاد ہے، ظفر راٹھور، تشریف لائے۔ وہ اس وقت آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم، ممتاز راٹھور کے کزن تھے اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو دونوں کا ہی معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ میں نے انکو کھڑا ہو کر سلام کیا تو انہوں نے ایک نگاہِ بےپرواہ ڈال کر اندر جانا مناسب سمجھا۔ کچھ دیر بعد بلاوا آیا تو جا کر کہا کہ جناب مجھے آپ نے نوکری کے لیے بلایا ہے اور میں حاضر ہوں۔

مگر ہم نے آپکی جگہ وہ لڑکی رکھ لی ہے، اب ہمیں آپکی کوئی ضرورت نہیں، جوا ب آیا۔

مجھے پہلے پہل تو کوئی سمجھ نہ آئی، مگر پانچ چھ سیکنڈ کے بعد جب ادراک بحال ہوا تو میں نے تھوڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ جناب مجھے تو آج نوکری پر آنے کے لیے کہا گیا تھا اور اگر آپ نے انکار کرنا تھا تو مجھے پہلے بتا دیتے۔ اس گفتگو کے درمیان انکے مینیجر، تنویر صاحب، آفس میں آ گئے اور وہی بات دہرائی، مگر زیادہ درشتگی سے۔ میں کنکھیوں سے دیکھا کہ وہ خاتون اس صورتحال پر زیرِلب مسکرا رہی تھیں اور توہین کا ایک شدید احساس، جی 21 سال کے دیہاتی سے آپ کیا توقع کرسکتے تھے اس وقت، میرے اوپر طاری اور میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا کہ یہ تو زیادتی ہے اور یہ بہت غلط ہے۔ انکے مینیجر تنویر نے میری کلائی زور سے پکڑی اور شاید راٹھور صاحب کے اشارے پر مجھےانکے دفتر سے ایک دم باہر کی طرف کھینچا۔ میں نے جھٹکے سے کلائی چھڑائی اور کہا کہ ایسی بدتمیزی نہ کریں اور انکے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔ تنویر صاحب نے اپنے آفس کے دو گارڈز اور چپڑاسی کو اشارہ کہا اور انہوں نے مجھے دو تین مکے لاتیں جڑنے کے بعد زبردستی پکڑ کر دفترسے باہر دھکیلنا شروع کیا۔ اسی مزاحمت میں مجھے چوٹیں بھی آئیں اور  میرے کانوں نے تنویر صاحب کے یہ الفاظ سنے: "اس کتے کو باہر نکال دو!"

میں روپڑا اور روتے روتے گنزہ سنٹر کی سیڑھیاں اترا اور پھر دسمبر کی اس بادلوں بھری قریب-دوپہر کو بلیو ایریا سارا پیدل اور روتے ہوئے طے کیا۔ اللہ سے شدید شکوہ کیا، مقدر کو کوسنے دئیے، اپنی غربت اور بےچارگی کے شدید احساس میں ناقابلِ بیان توہین محسوس کی – اور روتا رہا۔ حساس دل کے مناسب سے ذہین افراد، یارو، میری اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ بہت/بہت اچھی طرح سے کہ جانتا ہوں کہ میری کلاس سے تعلق رکھنے والے اپنے حالات بدلنے کی دھن میں ایسے تجربات سے لازمی گزرتے ہونگے، لازمی۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا، صاحبو، میں جاپان ایمبیسی میں شعبہء سیاسیات میں اسسٹنٹ بھرتی ہوگیا، یہ بھی ایک پوری کہانی، مگر پھر سہی۔ اور اسی نوکری کےدوران ایک دن، وہی تنویر صاحب کہ جن کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں، میرے سامنے ایک پیکنگ اور شِپنگ کمپنی کے سیلزمین بن کر بیٹھے ہوئے میری منتیں کر رہے تھے کہ ایک حوالے سے انکو ایک  کانٹریکٹ  لے کردے دوں وگرنہ انکے مالکان انکو نوکری سے نکال دیں گے۔ میں انکے سامنے بیٹھا مسکراتا رہا اور سچی بات کرونگا، کہ انکی اس حالت میں بہت لطف بھی آیا۔ وہ میرے لیے ڈائری، کیلنڈر، بال پین اور پیپر ویٹ بھی لے کر آئے، جو کہ میں نے وصول کر لیے اور پھر ان سے چند ایک دن کی مہلت چاہی۔ میرا اس کانٹریکٹ سے کوئی تعلق نہ تھا مگر ٹی-سی-ایس میں کام کرنے والے ایک دوست کے حوالے سے ان سے ملاقات کرنا پڑی۔ میں چاہتا تو انکے خلاف بات تو بہرحال کر سکتا تھا لیاقت صاحب سے، جو ان دنوں جاپان ایمبیسی میں ایڈمن کے انچارج تھے، مگر میں نے، سچی بات ہے کہ تنویر صاحب کے خلاف کوئی بات نہ کی مگر انکے حق میں بھی کوئی بات نہ کی کہ میں مجاز نہ تھا۔ انکو کانٹریکٹ مل گیا اور وہ اپنے تئیں میرا شکریہ ادا کرنے آئے اور مجھے کھانے کی دعوت بھی دی۔ عین اس لمحہ میں نے ان سے صرف پانچ سال قبل اپنے ساتھ انکے سلوک کی بابت بات کی اور کہا کہ محترم، میرے لیے بھی آپکو کتے کی طرح نکالنا ممکن تھا، مگر ایسا نہ کیا۔ اور اب آپکو اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ ایسا رویہ دوسروں کے ساتھ کبھی نہ روا رکھیں۔ انکی حالت دیدنی تھی، بہرحال، مگر انہوں نے اس واقعہ سے انکار کیا اور میں نے ان سے بحث کرنا مناسب نہ جانی۔ میری اسکے بعد ان سے کبھی دوبارہ ملاقات نہ ہوئی، مگر کہنا یہ ہے کہ مجھے تو کُتا کر کے انہوں نے اپنی طاقت کے زعم میں نکال باہر پھنکوایا، اور خود پانچ سال بعد میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

مضمون طویل ہوگیا، معذرت، مگر ذرا سوچئیے کہ کیا میری زندگی گنزہ سنٹر سے اترتے وقت اس توہین کے احساس کے وزن تلے دب کر ختم ہوگئی؟ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ایسا ہی محسوس کیا تھا کہ اب میری زندگی میں آگے کچھ باقی نہیں رہا، مگر آہا، میں آج زندہ ہوں، صحتمند ہوں، ترقی کر رہا ہوں، کاروبار، بھلے چھوٹا سا ہی سہی، چلا رہا ہوں، زندگی نے مجھے بہت/بہت/بہت نوازا ہے۔ تکالیف بھی اٹھائیں، اور اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، مگر دوستو، میں نے 1993کے دسمبر میں جس معاملہ کو اپنی زندگی میں "حتمی" جانا تھا، آج وہ میرے لیے ایک یاد اور سبق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اور یہی آپ سے ہی کہنا ہے کہ:

کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا!