جمعہ، 30 مئی، 2014

یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا!



کل، مئی کے 29 تاریخ کو میرے ایک عزیز دوست کے والد کو نمازِ فجر کے بعد تلاوت کرتے ہوئے مسجد میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جب میں نے اپنے دن کا آغاز کیا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ حسن پر کیا قیامت بیت چکی ہے، روزانہ کی روٹینز سے فارغ ہو کر آفس آنے کےلیے جب میں نے موبائل فون اٹھایا تو بہت ساری مسڈ کالز تھیں، حسن کی جانب سے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا، کہ صبح کے وقت اتنی کالز آئی ہوں، اور اوپر سے یہ بھی دیکھا کہ فون بھی سائلینس موڈ پر تھا۔ فورا کال بیک کیا تو معلوم پڑا کہ ماجرا کیا ہوا تھا۔

شہید ہونے والے ایک چھوٹے سے روایتی خاندان سےتعلق رکھنے والے مقامی  رہنما تھے۔ خاندان اور روایات کے امین تھے، لہذا اپنے گاؤں کو چھوڑنا مناسب نہ جانا اور بہت سارے مواقع ہونے کے باوجود یہی بہتر سمجھا کہ خاندان کی روایات اور علاقے کے چند معززین کے کہنے پر اپنے خاندان سے جڑے دربار شریف کا نظام و انصرام سنبھال لیا جائے۔

 ہمارے ہاں، کوئی شک نہیں، کہ درباروں پر ابھی بڑی خرافات ہوتی ہیں، مگر ایک ہی ذہنیت کے فتویٰ کے تحت، تمام درباروں اور انکے والیوں کو بُرا بھلا کہہ دینا بھی، خرافات میں ہی آتا ہے۔ اچھے برے لوگ دنیا کی ہر جگہ، ہر ادارے میں موجود ہوتے ہیں، اور چند ایک کی برائیاں، کمیاں یا خامیاں، ان سب کی نہیں بنا دینی چاہئیں۔ دوسرا یہ بھی کہ درباروں کو ایک ہی وار میں بدعت، شرک اور کفر کے ساتھ جوڑنے والی روایات بھی احمقانہ اور غیر درست ہیں۔ دربار، مدفون ہونے والے شخص کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتے ہیں اور انہوں نے صدیوں سے برصغیر کے معاشرے کو جڑوں سے تھامے رکھا ہوا ہے۔ میری اس بات سے اختلاف کرنے والے بتائیں کہ کیا وہ حساب لگا سکتے ہیں کہ کتنے سینکڑوں لوگوں کو آپ نے کبھی کھانا کھلایا ہوگا ایک ہی وقت میں، اور مسلسل؟ میں آپکو یہ بتا سکتا ہوں کہ اسلام آباد کے دو بڑے اور راولپنڈی کے ایک بڑے دربار پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مساکین و غربا ء کھانا کھاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس پراسس کا حامی نہیں، کہ جو سچ ہے وہی کہوں گا، مگر میں ان درباروں کو "جگہوں" نہیں، بلکہ "اداروں" کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اور یہ بھی کہ وہاں جانے والوں کی مرضی ہوتی ہے، کوئی انکو وہاں زبردستی نہیں نہیں لے کر جاتا۔ اگر آپ کو اور مجھے اپنی مرضی کے مطابق اپنے خیالات رکھنے کا حق حاصل ہے تو صاحبو، یہی حق اسے بھی ہے جو درباروں پر جاتا ہے۔ اس سماجی عمل میں مجھے، آپکو اور اسے، کسی طور بھی متشدد ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں، زبانی، دماغی اور جسمانی، کسی طور بھی۔

بہرحال،  مرحوم نے اپنے خاندان سے زیادہ وقت  اپنی چھوٹی سی خاندانی درگاہ کو دیا۔  یہ درگاہ تھی مگر وہاں ہر مذہب اور فرقہ کے لوگ جاتے تھے اور شاہ صاحب سے عقیدت کے اظہار کے علاوہ، اپنے گھریلو، سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل بھی ڈسکس کرتے تھے۔ طلاقیں بچانا، زمینوں کی تقسیم، شادیوں کے فیصلے، مکانوں کی بانٹ، لڑائیوں کی صلح صفائی، خاندانوں کے باہمی امور کی پردہ پوشی سے مینیجمنٹ، لوگوں کے درمیاں معاملہ فہمی، معاشرتی تشدد سے طرفین کا بچاؤ، یتیم بچیوں کی شادی، تعلیم، علاج وغیرہ کے علاوہ مساکین کے گھروں کا راشن وغیرہ، یہ وہ "چند خدمات" ہیں جو وہ سرانجام دیتے رہے۔

 انہیں قتل کر دیا گیا، تو مجھے بتائیے کہ یہ ساری خدمات اب میں سرانجام دونگا یا آپ؟ ایک شخص کے اس طرح قتل کر دیئے جانے سے انکے خاندان نے جو صدمہ اُٹھایا سو اُٹھایا، دیگر درجنوں خاندانوں اور سینکڑوں لوگوں کی  زندگیوں میں ایک مقامی روایاتی تسلسل کون برقرار رکھے گا، میں یا آپ؟ درگاہ پر پکنے والے روزانہ کی دیگیں، اور ان سے پیٹ بھرنے والوں کے پلیٹوں میں دال چاول کون ڈالے گا، میں یا آپ؟ میرے پاس "میں یا آپ؟" سے سوال اور بھی درجنوں ہیں، مگر آپکی سوچ کو مہمیز ہی لگانا تھی، پس لگا ڈالی۔ سوچئیے اگر مزاجِ یار فرقوی نہیں ہے تو! اور اگر نہیں سوچنا، تو قران کا ہی فیصلہ ہے کہ تفکر نہ کرنے والے چوپائے ہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ اس حوالے سے یارو، آپکی اپنی مرضی ہے۔

آپ میں سے کوئی نہیں جانتا ہوگا کہ کل شہید کیے جانے والے کی سالگرہ بھی تھی۔قسمت اور زندگی کا عجب مذاق کہ انکا خاندان اب انکی سالگرہ کے دن انکی برسی بھی "منایا" کرے گا۔ میرے ذہن سے، میرے کانوں سے حسن کے خاندان کی خواتین کی باتیں نہیں نکلتیں۔ نہیں نکل رہیں، بے تحاشا کوشش کے باوجود بھی۔ انہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ "مبشر، یہ پاکستان ہے،  یہاں کچھ نہیں ہونا، قاتل ایسے ہی پھرتے رہیں گے!"

پاکستان میں، کوئی شک نہیں، کہ ایک عمومی لاقانونیت ہے۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس، بلکہ جسکی بندوق اسکی بھینس بھی اور اسلام آباد بھی، کا ہی قانون لاگو رہا ہے۔ سیاست کرنا مقصود نہیں ادھر مگر یہی ہوتا ہے ان معاشروں میں جہاں بزورِبازو قوانین کو توڑ پھوڑ کر طاقت کے مراکز پر قبضہ کر لیا جائے۔ اگر یہ کام سیاستدان کرسکتےہیں، جنرلز کر سکتے ہیں، تو مقامی سطح پر بندوق یا لاٹھی بردار "مجاہدین" کیوں نہ کریں کہ جب ریاست  کی طاقت کا فقدان ہے اور ان "مجاہدین" کے دماغ میں حورو غلمان کے ڈیرے اور پاکستان میں اسلام کے بول بالا کی ایک متشدد فرقوی خواہش، تو انکے رستے میں  بھی جو دیوار، جو کہ وہ اپنی مرضی سے ہی سمجھتے ہیں، آئے، کیوں نہ گرا ہی ڈالی جائے؟

اللہ شاہد ہے کہ اسکی بھی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جب ظاہری طور پر پڑھے لکھے افراد، کہ جن کے پاس سوشل میڈیا کی پہنچ ہے، وہ اس فرقہ وارانہ تشدد کی تاویلات، توجیہات اور وجوہات  تلاش، تراش اور پیش کر رہے ہوتے ہیں اور اسلام میں سے اپنی مرضی کے معانی تلاش کرکر کے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ انکو یہی کہنا ہے کہ بیٹیوں، بہنوں، ماؤں اور بیویوں کے بین ہی یاد کرلیں جب انکے گھر کے مردوں کی لاشیں آتی ہونگی کہ وہ تو گھر سے زندہ سلامت رخصت کئے گئے تھے۔ قتل ہونے والا احمدی ہو، شیعہ ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو، وہابی ہو، مسیحی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، یا مجھ جیسا  چار سو بیس نمبر مسلمان، خدارا ایک لمحے کیلئے تو سوچ لیا کریں کہ وہ جیتا جاگتا انسان تھا، اور اسکے بھی رشتے تھے۔ مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں کہ آپکے باپ کی لاش آپکے گھر لائی جائے؟ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بھائی کی لاش گھر لائی جائے؟ مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بیٹے کی لاش گھر لائی جائے؟  مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ آپکے بہنوئی کی لاش گھر لائی جائے؟ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کریں گے کہ کوئی بھی شخص اپنے فرقوی تشدد میں آپکی ماں کو بیوہ،  آپکو یتیم، آپکی بہن کو یتیم/بیوہ کر جائے؟

جس تن لاگے، سو تن جانے، یارو۔ اس وقت سے ڈریں کہ جب وہ آوازیں اور بین جو میں نے کل سنے ہیں، آپ بھی اپنے گھروں سے اُٹھتے سن رہے ہوں۔ اس وقت سے ڈریں جب آپکی بہن، آپکی ماں، آپکی بیٹی آپکے کسی دوست سے یہ کہے کہ "مبشر، یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا،  قاتل ایسے ہی پھرتے رہیں گے!"

آخر میں، مجھے یہ کہنے دیجیے کہ معاشرتی منافقت میں عموما مذہب سے جڑی متشدد باتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ مگر سچ ہے کہ کہا جائے کہ دیوبند فرقہ سے تعلق رکھنے والی جماعت، لشکرِ جھنگوی، تشدد میں ملوث تھی، ملوث ہے، اور ملوث رہے گی۔ دیو بند فرقہ ایک بڑی مذہبی اور سماجی حقیقت ہے اور اسکا احترام بھی دل سے ہے۔ اس فرقہ میں بڑے بڑے سلیم العقل، دردِ دل رکھنے اور مثبت اپروچ رکھنے والے زعماء اور علماء موجود ہیں۔ ان میں سے بہت ایک سے میں ذاتی طور پر بھی واقف ہوں، مگر ان علماء زعماء کا دردِ دل اور موجودگی اگر ایک حقیقت ہے، تو صاحبو، لشکرِ جھنگوی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والا تشدد بھی ایک حقیقت ہی ہے۔

اسی قسم کا تشدد اہل تشیع کی سپاہِ محمد نے بھی روا رکھا ہے، اور اب بھی جہاں موقع ملتا ہے، خاص طور پر کراچی میں، حساب برابر کر لیا جاتا ہے۔ بریلوی پہلے اس طرف نہ تھے، مگر اب سُنی تحریک کے "میٹھے میٹھے مجاہدین" اجتماعی زیادتیوں سے لیکر بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی حرکات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اہلِ حدیث، کہ جو اپنا ناطہ مختلف اوقات میں عرب کے مختلف ممالک سے جوڑتے چلے آئے ہیں، انکے تشدد کی شاید مقامی سطح پر کوئی ایسی بڑی حقیقت نہیں ہے،مگر وہ بھی علاقائی تشدد میں ملوث دیکھے گئے ہیں۔

کیا یہ سب حقیقتیں نہیں؟ کیا یہ سب سچ نہیں؟ اگر آپ اور میں اسلام کو امن کا دین سمجھتے ہیں، تو فرقہ وارانہ تشدد کی کیا کوئی تاویل ہو سکتی ہے کبھی؟ کبھی بھی؟

تشدد، ظلم ہے اور کرنے والا ظالم۔ ظلم اور ظالم  کی شرح  اور سزااسلام میں کیا ہے، خود ہی تلاش کر کے پڑھ لیجیے۔

 مجھے ابھی اپنے آنسو روکنے ہیں۔