منگل، 13 مئی، 2014

ہم بڑے عام لوگ ہیں، یارو

میرے آفس کی عمارت کے بالکل ساتھ ایک نیا ٹاور بن رہا ہے، مارگلہ ٹاورز کی جگہ کہ جو 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ خاندان کے خاندان اُجڑ گئے ، لاشیں کم اور یادیں زیادہ چھوڑ گئے۔ سی ڈی اے، رمضان پٹواری اور ایک بریگیڈئیر صاحب، کہ جن کا نام ذہن میں نہیں آ رہا، اس ٹاور کے گرنے کے بڑے ملزمان ٹھہرائے گئے جو بعد میں پی پی پی کی عوامی حکومت کے عوامی وزیرِ اعظم کے ایک  اسلاما آبادی دست راست کے دستِ شفقت کی بدولت عدالتی مقدمے میں سے بری ہوئے، یہ الگ بات کہ متاثرین ان دو بڑے ملزمان کی بریت کے بعد بھی اپنے مالی معاملات کے لیے ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ ذرا ریاست کا کردار تو ملاحظہ کیجیے کہ بیٹیاں، بیٹے بھی مریں، والد اور والدہ بھی معذور ہوں، گاڑی بھی تباہ، اثاثہ بھی ضائع، اور متاثرہ ہونے کے باوجود آپ عدالتوں اور سی ڈی اے میں دھکے کھاتے پھریں۔ بلاشبہ ریاست ماں کے جیسی ہی ہے، مگر کلاسیکی سوتیلی ماں کے جیسی!۔

بہرحال، میرے ساتھ والے زیرِتعمیر پلازہ میں کوئی پانچ ہفتے قبل ملتان کا ایک مزدور ایک حادثہ کا شکار ہو گیا۔ ایک بڑی کرین جو زمین میں کھدائی کر رہی تھی، اس نے بھاری وزن اٹھایا ہوا تھا، مزدور نیچے کھڑا  اس وزن کی سمت اشاروں سے کرین چلانے والے کو بتا رہا تھا کہ لوہے کا رسہ ٹوٹا، سارا وزن اس مزدور کے اوپر، اور اس مزدور کا اپنی زندگی سے ناطہ ٹوٹا۔ ہاہا کاری کے بعد، اسکی کچلی ہوئی لاش اس بھاری فولادی وزن کے نیچے سے نکالی گئی اور پھر ملتان اسکے غریب والدین کے گھر بھجوا دی گئی جہاں اب اس گھر میں فاقے ہونگے اور اسکی بیوہ اور بچے، اب معاشرے کے رحم و کرم پر۔ مولوی کے نزدیک یہ تقدیر کا کھیل ٹھہرا، کمیونسٹ/سوشلسٹ/لبرل وغیرہ  کے قریب یہ معاشرتی ناہمواری کی بات رہی، اور مجھ خراب کے لیے یہ آپکے، میرے اور ہم جیسے سارے انسانوں کے نہایت، بلکہ نہایت ہی عام ہونے کا اک ثبوت رہا۔

مادھوری ڈکشٹ کی سب سے پہلی فلم، کہ جس میں انکا ایک سپورٹنگ رول تھا، کا ایک ڈائیلاگ یاد ہے۔ نانا پاٹیکر کے ساتھ وہ ایک اعلیٰ آرٹ  فلم تھی، نام تھا "پرہار۔" ڈائیلاگ ایک اینگری ینگ مین کے مونہہ سے ادا ہوا ہے کہ جسکا مسیحی باپ گاندھی جی کے ساتھ آزادی کے ہراول دستے میں تھا، مگر آزادی کے بعد وہ آپ/مجھ سے عامی-پن کی مجبوری کا شکار بن چکا تھا، جبکہ "چُوری کھانے والے مجنوں" کہیں کے کہیں جا نکلے تھے۔  سین کچھ ایسا ہے کہ باپ اپنے جوان بیٹے کی سگریٹ اورنشہ کرنے کی عادت کو تنقید کا سامنا بنا رہا ہے تو آگے سےوہ کہتا ہے کہ: "کیا کروں، جب دل جلتا ہے تو زبان بھی جلتی ہے۔" یہ فقرہ ، میرے یارو، آپ سب کی نذر کرتا ہوں۔

پرہار، میں نے اپنے ملکوالی مُرشد اقبال حیدر بٹ کے ساتھ شاید 1993 میں دیکھی تھی۔ اعلیٰ موضوعاتی فلم ہے، ملے تو دیکھئے گا۔

ہم سب کو اپنے بارے میں بڑے بڑے وہم ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات، خیالات اور جذبات کی دُھونی مچا کر ہم اس دُھونی کی دُھند کے بالکل درمیان میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے آپ، اور اپنے خیالات کو اس کائنات کا مرکز جاننا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی ذات کے اس سراب میں، ہم ہی ہم ہوتے ہیں، دوسرا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسرے کی نفوذ پذیری یا اسکے خیالات کی انٹری صرف اور صرف ہماری ہی مرضی پر منحصر ہونی چاہیے، کہ ہم ایسا سوچتےہیں اور بسااوقات اس پر بہت مضبوطی، بلکہ کہنے دیجیے کہ جاہلیت، کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ اپنی اپنی ذات اور اپنے اپنے نظریات کے گہرے گڑھوں میں ہم گردن گردن گڑے ہوتے ہیں اور حقیقت میں اپنی اصلیت صرف اس وقت تک ہی ہوتی ہے کہ جب تک آپ زمین کے اوپر ہیں، کرسی پر بیٹھے ہیں یا کسی بھی معاشرتی، سماجی، سیاسی اور معاشی حوالے سے کچھ اہمیت کے حامل ہیں۔

کچھ نام لوں گا ابھی ادھر، جو شاید اپنے وقت کے "بڑے بڑے لوگ" تھے، اب کسی کو یاد بھی نہیں آتے، اور نظامِ ہستی، دنیا اورمعاشرہ، ریاست، لوگ اور ملک، اپنی ڈگر پر چلتے ہی جار ہے ہیں۔ پڑھئیے:

سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، غلام محمد، آئی آئی چندریگر، قدرت اللہ شہاب، جنرل کے ایم عارف، جنرل ضیاء الحق، جنرل مجیب،  شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، شیخ رشید احمد (بابائے سوشلزم، پنڈی والے شیخ صاحب کی گُڈی تحریکِ انصاف کی ہوا سے بلند ہے، سوائے نام کے، جناب کی کوئی دوجی بات بابائے سوشلزم سے نہیں ملتی)، زاہد سرفراز (جنہوں نے 1992 میں میاں صاحب کی حکومت گرانے میں اسٹیبلشمنٹ  کے چمچے کے طور پر کام کیا اور پھر خود الیکشن ہارنے کے بعد رات تین بجے غلام مصطفےٰ کھر کو  "پروازی حالت" میں یہ کہتے رہے کہ: یار کھر، یہ ملک اور نظام میرے بغیر کیسے چلے گا؟)، نوابزادہ نصراللہ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، ملک امیر محمد، ڈاکٹر شیر افگن نیازی، جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، غلام اسحاق خان ، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین،  دیوان شمیم، سجاد حسین قریشی وغیرہ۔

یہ لسٹ اور بھی طویل ہو سکتی تھی، مگر آگے ہی موضوع سے کہیں ادھر اُدھر ہو چکا تو اسی پر اکتفا کیا۔ یہ سارے، ان میں سے کچھ حیات بھی ہیں، وہ لوگ ہیں جو اقتدارِ اعلیٰ کے آس پاس رہے اور اپنی ذات میں کُل تھے۔ آج آپکو انکے نام بھی نہایت مشکل سے یاد آتے ہونگے۔ ایک لمحے کے لیے یاررو، صرف ایک لمحے کے لیے، ذرا سوچئیے کہ یہ سارے لوگ اپنے بامِ عروج پر کس قسم کے کروفر کے مالک ہوں گے اور آج؟

یہ انکا حال ٹھہرا کہ جو اپنی ذات میں کسی نہ کسی حوالے سے "بڑے" اور "اہم" تھے، آپ اور میں کیا ہیں؟

معاشرے میں اور سائبرسپیس میں، میں بڑی بڑی گرم بحثیں ہوتا ہوا دیکھتا ہوں۔ کوئی عمران خان کو گود میں اٹھائے، مونہہ میں انقلابی چوسنی دئے پھر رہا ہے، تو کوئی نواز شریف کو سر پر بٹھائے نئے بال اُگانے کے فوائد گنا رہا ہے۔ کوئی پاکستان میں خلافتی نظام کا باجا بجا رہا ہے، تو کوئی شریعت ایکسپریس بذریعہ طالبان کے ڈھول مار رہاہے۔  کچھ بقراط پیپلز پارٹی میں بایاں بازو تلاش کرتے رہتے ہیں تو کچھ منصورہ برانڈ کی اسلامی جمہوریت کے عَلم اٹھائے سرکس میں موت کے کنویں میں چلنے والی موٹرسائیکلوں کی طرح گھمن گھیریاں کھا رہے ہیں۔ کوئی دیوبندی اسلام کو اسلام کی واحد شکل گردانتا ہے تو کوئی صوفیا کے نام پر حلوے مانڈے چلا رہا ہے۔ کوئی اہلِ بیت کے نام کا منجن بیچ رہا ہے تو کوئی سلفیت کی فیرنی۔ کسی کے ہاتھ میں پشتون قوم پرستی کا ڈنڈا ہے تو کوئی بلوچ قوم پرستی کی سردائی گھوٹ رہا ہے۔ ایک مہاجر بنا ہوا ہے تو دوجا سندھی حقوق  کا چیمپئن۔ ایک  امن کی آشا کا اُسترا تیز کر رہا ہے تو دوجا "تیز تر" کے برش سے خبروں کے صابن کا جھاگ بنا رہا ہے۔ کوئی سربکف سربلند کی سرفرازیاں گنوا رہا ہے تو کوئی  راہِ حق میں شہادت کی راگنیاں بجاتا ہوا قُم ، شیراز اور مشہد میں مدفون ہونے کو سعادت جانتا ہے۔ کسی کے لیے دنیا میں تمام مسائل کی وجہ پاکستان ہےتو کوئی یہود و نصاریٰ، ہنود اور مجھ سے خرابوں کی سازشیں تلاش کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔

ہر کوئی، ہر کام کر رہا ہے، ماسوائے اپنے عام ہونے کا علم رکھنے کے۔ بڑی بڑی باتیں، ستاروں پہ کمندیں، ذات کی دھونی میں گم، خیالات کی دھند میں اپنےآپ کو صحیح جانتے/ثابت کرتے ہوئے، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی ایک کرین کے نیچے کھڑے ہیں۔ وزن گرے گا، اور کہانی ختم ہو جائے گی۔

ملتان کے مر جانے والے اُس مزدور کے خاندان کی زندگی بھی گئی اسکے ساتھ ہی۔ غربت و عسرت کو تقدیر کا لکھا بتانے والا مولوی خود کبھی بھوکا نہیں سوتا، اس مزدور کے بچے، والدین، بہنیں اور بھائی سوئیں گے۔ غربت و عسرت کو معاشرتی فلسفوں کی نذر کرنے والے اپنے تئیں جدیدیت کے حامی مفکرین و دانشور اپنے یا اپنے دوستوں کے ڈرائنگ رومز میں انقلاب کے کلاسیکی ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے اس کی موت  کے بعد کے واقعات کی توجیحات نکال لیں گے۔ نظام چلتا رہے گا، اوپر بیٹھا خدا اس دنیا کے بڑے تماشے پر مسکراتا رہے گا اور اس سارے تماشے میں ، مجھ سے اپنی اپنی ذات کے مرکزِ کائنات ہونے کا بربط بجاتے رہیں گے، مگر صاحبو، آخری حقیقت میں، ہم سب کے سب، بڑے ہی عام سے لوگ ہیں۔

عام سے، مگر ہو جانے والے، چھوٹے چھوٹے کام کیا کریں۔ اور اگر نہیں تو محترمین، لگے رہیں، کہ اگر اوپر دیئے گئے بڑے بڑے ناموں کا منجن بِکنا بند ہو گیا، تو آپکا نام تو آپکے گھر سے تیسرا گھر بھی نہیں جانتا۔ 

یا اس کا بھی زعم ہے کہ تیسرا گھر آپکا نام جانتا ہے؟