جمعرات، 8 مئی، 2014

میں غریب نہیں مروں گا

دوستو ارادہ ایک خیالیہ تحریر کرنے کا تھا، محبت کی ایک خواہش پر جو جانتی ہے کہ چاہے جانے والے کا آخری حقیقت میں شاید  بھلا نہ ہو۔  چاہے جانے والے عموما یہ سمجھتے ہیں کہ انکی مہر دوجے پر احسان ہے، نہیں جانتے کہ چاہنے والا شاید اپنے آپ پرہی احسان کر رہا ہوتا ہے اور جوابی احسان کا منتظر بھی نہیں ہوتا۔ ظرف والے جاننے کے باوجود بھی بہرحال آخری حقیقت کے منتظر ہوتے ہیں، خاموشی میں، ضبط کے ساتھ کہ یہی  اس خود-احسانیت کا طُرہ بھی ہے۔ چاہت کسی بھی حوالے سے ہو، دوستو، خود غرض ہی ہوتی ہے۔ بےلوث چاہت کا ڈھول پیٹنے والے یا تو اسکے مطلب سے واقف نہیں ہوتے، یا شاید دکھاوے کی منافقت کر رہے ہوتے ہیں۔

 مگر یہ قرض پھر کبھی ادا ہوگا۔

یہ تحریر جو آپ پڑھ رہے ہیں، سچا واقعہ ہے، اور ایک پرانا قرض۔ پرانا قرض سوچا کہ پہلے اتار لوں، خیالیہ بعد میں تحریر ہوتا رہے گا۔ محبتوں پر ہزاروں لکھتے چلے آئے، محنتوں پر کم ہی لکھا گیا ہے۔ اور یہ خیالیہ نہیں، حققیت ہے۔ اور خاص طور پر اپنے ان دوستوں کے نام جو واقعاتی معاملات و مشاہدات میں جلد حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جان کر رکھیے کہ واقعاتی معاملات و مشاہدات آپکی زندگی کی بڑی ٹرین میں ایک چھوٹی سی بوگی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ حتمی سچ آپکی زندگی کے آگے بڑھنے سے متعلق ہی ہوتا ہے اور زندگی کی اس گاڑی کو کبھی بھی ایک واقعہ، مشاہدہ یا معاملہ کا یرغمال بنانا محض بزدلانہ حماقت ہے، دلیری نہیں۔ اور زندگی دلیری اور حوصلےسے جینے کا ہی نام ہے، جبلاتی جذباتیت میں نہیں۔

یہ سنہء1985 کی بات ہے۔ عمر کوٹ ، سندھ، کا ایک دور افتادہ ضلع ہے اور اسکے ایک ملحقہ گوٹھ سے بھی آگے کے چند کچے مکانوں کی ایک آبادی میں عمرکوٹ کی مقامی سبزی منڈی میں کام کرنے والا ایک مزدور، عبدالقادر، اپنے چھ بچوں سمیت رہتے تھے۔ سب سے بڑے بچے کی عمر 12 سال تھی اور سب سے چھوٹی بیٹی 4 سال کی۔ پورے دن میں کمائی بمشکل 5 سے 15 روپےاور اوپر سے مقامی وڈیرے کی دست درازیاں کہ محنت کروا لی، کام کروالیا مگر معاوضہ و مزدوری  کے معاملہ میں ظلم اور ڈنڈی۔ پچھلی سات نسلوں سے عبدالقادر کا خاندان اسی آبادی میں مقیم تھا اور عمر کوٹ میں اور مقامی وڈیروں کی مزدوری کرتے ہوئے مٹی  سے مل کر مٹی بن چکے تھے۔آگے بڑھنے کے تمام رستے بند، غربت و عسرت کے ڈیرے اور زندگی ایک مکمل مایوسی میں دفن۔

پھر عیدالفطر قریب آئی اور اس امید پر کہ عید پر گھر کچھ بہتر پکایا کھایا جائے، بچوں کے کپڑے جوتے اور دیگر اشیاء  فراہم ہو سکیں، عبدالقادر نے دن میں بیس بیس گھنٹے کام کیا۔ شدید جان ماری کہ ماہانہ آمدنی میں تین گنا اضافہ اگر ہو سکا تو عید مناسب  طریقہ سے گزر جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ عمرکوٹ سبزی منڈی کے آڑہتی نے معاوضہ نہ دیا اور مقامی وڈیرے نے بھی حسبِ وعدہ گندم نہ دی۔ عید والے دن گھر میں فاقہ، بچوں کی سسکیاں اور چھوٹی بیٹیوں کی فرمائشیں اور انکی ماں کی ڈانٹ کہ باپ پریشان ہے، مزید پریشان نہ کرو۔

عبدالقادر کے لیے شاید فیصلہ کا یہ لمحہ قدرت کے اس بے رحم کھیل کی حتمی پیداوار تھا جسکی قیمت غربت کے گڑھے میں جینے والے لوگ ساری زندگی نہیں، کئی نسلیں ادا کرتے رہتے ہیں۔ "سکینہ، ہم مزید یہاں نہیں رہیں گے۔ یہاں  مجھ سے پہلے میرے  باپ، دادا، اسکے باپ اور اس سے پہلے اسکے باپ نے وہی کیا جو میں کر رہا ہوں۔ بے فائدہ۔ میرے بچے یہ سب نہیں کریں گے۔"

"کب جانا ہے؟" سدا کی وفاشعار بیوی نے سوال کیا۔

"آج ہی۔"

شدید حیرت میں سکینہ پہلے نہ جان پائی، کچھ نرم گرم بحث کے بعد عبدالقادر نے سختی سے اپنا فیصلہ دہرایا، اور دہراتا رہا۔ گھر آنے جانے والے گنتی کے چند ایک رشتہ داروں کو بھی بتا دیا کہ وہ، اسکی بیوی اور چھ بچے آج ہی گاؤں چھوڑ دیں گے۔ رشتہ داروں اور گاؤں والوں نے مذاق اڑایا، بھوکامرنے سے ڈرایا، بزرگوں کی قبروں کے واسطے دئیے اور عبدالقادر کے نہ ماننے پر اس پر طنز کے نشتر برسائے۔

"تجھ سے بڑے آئے، بڑے گئے۔ تو بھی شہر کی ہوا کھا آ۔ ناکام ہوگا، واپس آئے گا اور جو موجود ہے تیرے پاس، وہ بھی نہ ہوگا۔ سمجھتا کیا ہے تو اپنے آپ کو؟"

"تم سارے جو مرضی کہو، میں پُرکھوں کا غریب ہوں، مگر میں غریب نہیں مروں گا،" عبدالقادر نے جواب دیا۔

شدید مشکلات سے، پیدل چلتا ہوے، منتیں کرکے بسوں میں کرائے کے بغیر، وہ اپنے کچے مکان سے بہت دور حیدرآباد شہر میں آگئے۔

 شہر کی زندگی، یارو، پوری دنیا میں سخت ہوتی ہے۔ بہت خالی کرتی ہے انسان کو اندر سےمگر یہ بھی سچ ہے کہ جیب اور معدہ بھرنے کا بندوبست بھی شہر ہی کرتے ہیں جہاں بھانت بھانت کے معاشی مہاجر آکر اپنی اپنی زندگی بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ عبدالقادر نے بھی اپنی ذات کو ایک مکمل فراموشی کی نذر کر ڈالا۔ تین تین نوکریاں کیں، سبزی منڈی میں، بس سٹینڈ پر اور ایک ہوٹل  پر۔ تقریبا 18 سے 20 گھنٹے کی مشقت، اور مسلسل۔

تمام بچوں کو پڑھایا، لکھایا۔ بچوں نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔  اس وقت جب یہ سطریں تحریر کی جارہی ہیں، عبدالقادرکے سارے بچے اپنے باپ کے گاؤں کی زندگی سے سینکڑوں نوری سال کے فاصلےپر ہیں۔ بڑا بیٹا واپڈا میں اس وقت ایس ڈی او ہے، اس سے چھوٹا، دبئی میں گرافکس کے کام میں ہےاور کامیاب ہے، تیسرے نمبر کا بیٹا اس وقت ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک کمپنی  میں مڈل لیول کے مینیجر ہے، اور سب سے چھوٹا بیٹااسلام آبا د میں ایک اعلیٰ سرکاری ادارے میں ایک ذمہ دارانہ ملازمت کر رہاہے، اور میرا جگری یار ہے ۔ بہنوں میں سے بڑی نے ڈاکٹری پڑھی مگر پڑھانے کو اپنا پیشہ بنایا، اور چھوٹی بہن بھی اس وقت اپنی بڑی بہن کے ساتھ حیدرآباد میں ایک مقامی سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔ دونوں نے مقابلے کا صوبائی امتحان پاس کیا، مگر انتظامیہ میں جانے کی بجائے نسلیں سنوارنے کا بیڑہ اٹھایا۔

اب عبدالقادر کے آبائی گاؤں کے لوگ ان کے پاس اپنے بچوں کی ملازمتوں کی درخواستیں لےکر آتے ہیں۔ اور عبدالقادر سے جو بن پڑتا ہے، کرتے ہیں۔ وہ اور انکی زوجہ، سکینہ، ماشاءاللہ دونوں حیات ہیں اور اسلام آباد اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے پاس آتے جاتے رہتےہیں۔

 عید کے دن پر آنے والےایک  شدید جذباتی دھچکے نے عبدالقادر کواپنی "طے شدہ زندگی"کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور ان کے ایک دلیرانہ فیصلے نے، کہ جسکی انہوں نے بلاشبہ ایک بڑی قیمت بھی ادا کی، مگر ہمت اور حوصلے کے ساتھ ڈٹ کر ایک لمبے عرصے کی مسلسل محنت  نے قریبا 25 سال میں عبدالقادر کی نسل بدل ڈالی۔ وہ نسل جو شاید 25 نسلوں سے ایک ہی طرح کی زندگی گزار رہی تھی۔

وعظ مقصود نہیں، مگر حضرت علیؑ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ زندگی کو اسکی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جیو۔ اور یہ کام دلیر انسان ہی کرسکتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جذباتیت، اونچی آواز اور جلدبازی کی کیفیات میں دلیری اور حوصلہ مکمل ناپید ہوتا ہے۔ زندگی ہر انسان کو  توڑتی ہے۔ اپنےآپکو جوڑنے کا کام انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور یہ خاموشی سے مسلسل آگے بڑھنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ آج ہی کہیں پڑھا کہ آدھا بھرا ہوا گھڑا چھلکتا ہے، جب کہ بھرا ہوا، مضبوطی کےساتھ اپنی جگہ پر جما رہتا ہے۔

ویسے آپ ایک لمحہ کےلیے اس خیال کے وقت کے بارے میں تو سوچیں کہ جب عبدالقادر نے کہا ہوگا کہ "میں غریب نہیں مروں گا!"