جمعرات، 5 جون، 2014

ڈرتے کیوں ہو؟

دو واقعات، آپکی نذر۔

1988 میں، میں گوجرانوالہ کے گِل روڈ پررشتے کے خالو اکرام  کے ہاں رکا ہوا تھا، تو ایک رات، کزنز کے ساتھ اس وقت کی نہایت ہی خوفناک انڈین فلم، جو اب کامیڈی معلوم ہوتی ہے، "تہہ خانہ" دیکھ لی۔ فلم دیکھنے کے بعد کی صورتحال یہ تھی کہ کمرے کے اٹیچڈ واش روم میں جانے کے لیے بھی دو کزنز ساتھ جاتے، ایک باہر کھڑا ہوتا، اور دوسرا ٹائلٹ میں جنرل ضیاء الحق صاحب کو اکیس توپوں کی سلامی دیتا۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد میں کوئی  تین/چار دن مزید وہاں ٹِکا رہا، مگر مغرب کے وقت کے بعد ہم تمام کزنز ایک فوجی کمپنی کی صورت میں ہی ساتھ رہتے۔ خوف یہ تھا کہ اس فلم کا ولن، جو کہ سر تا پا پٹیوں میں ملبوس تھا اور جسکا بہترین مشغلہ لوگوں کو انکے سروں سے دبا کر ہلاک کرنا تھا، کہیں گوجرانوالہ کے گِل روڈ نہ آن نکلے۔ اس وقت تو یہ بھی خیال نہ آیا کہ اگر موصوف وہاں آئے تو شاید انکے تِکے، المشہور شہباز تکہ ہاؤس، میں بِک رہے ہوتے۔ اسی خوف میں، میں وہاں سے روانہ ہوا، اپنے قصبہ ملکوال چلا گیا، اور قریبا ایک سال تک، رات کے اندھیرے میں اس پٹیوں والی بلا کا ہی خوف پیچھا کرتا رہا۔ اس دور کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آیت الکرسی شاید کوئی کروڑ مرتبہ پڑھ لی ہوگی۔ مگر اس بلا نے نہ آنا تھا،  نہ آئی۔ مگر خوف نے کوئی ایک سال تک جان کھائے رکھی۔

دوسرا واقعہ  میرے ساتھ 1995 کے فروری میں پیش آیا۔ میں ان دنوں پاکستان میں کنزیومر پراڈکٹس بنانے والی دوسری کمپنی میں کمپیوٹر اسسٹنٹ تھا۔ زندگی بہت مشکل تھی اور اٹھارہ سو تنخواہ میں گھسٹ گھسٹ کر ہی گزارہ ہوتا تھا۔ ہر ماہ کی آخری تاریخ کو کمپنی کی کلوزنگ ہوتی تھی اور سارے زون کا سیلز سٹاف آتا تھا۔ اس دن بے تحاشا کام ہوتا، مگر میرے لیے کشش یہ ہوتی تھی کہ اس دن کمپنی کے کھاتے سے اچھا کھانے کو مل جاتا تھا۔ کبھی کھانا طباق سے آجاتا، کبھی عثمانیہ سے، کبھی صوفی ریسٹورنٹ سے یا کبھی میلوڈی میں واقع زینوز سے۔ مجھے ایک احساس، بخدا، بھلائے نہیں بھولتا جب میں تمام آپریشن مکمل  کرنے کے بعد سے میں آفس، جو کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی-سکس-تھری کے بازار روڈ پر سراج کوَرڈ مارکیٹ پر واقع تھا، کے ٹیرس پر کھڑا تھا۔ سردی تھی مگر کھلی کھلی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور مارگلہ کی پہاڑیوں کی دلفریبی۔۔۔ کیا کہنے! ایک خیال ایک دم سے جو ذہن سے گزرا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں تھا۔ کچھ مونولاگ تھا اور ایسے تھا: "1،800 تنخواہ ہے تیری، تیرا اپنا گزارا نہیں ہوپاتا۔ تیری تعلیم بھی صفر، تیرا ایکسپوژر بھی صفر، تیرے پاس سفارش  بھی کوئی نہیں،  تیرے باپ کے پاس پیسے بھی کوئی نہیں، تیرا باس (کہ جس کا نام شومئی قسمت سے "الطاف حسین تھا، اور ان پر بھی کبھی تحریر کروں گا) اپنے ذاتی اخلاق کے حوالے سے کوئی بہت مناسب آدمی نہیں اور مزاج میں عمومی بدتمیزی شامل ہے، تیری نوکری کا وارث ہے، تجھ سے زیادہ تو وئیرہاؤس کے لوڈر/ان-لوڈر کماتے ہیں، مبشر، تو ساری عمر کمپیوٹر اسسٹنٹ ہی رہے گا، اور تیرا کوئی مستقبل نہ ہوگا!"

اس خیال کے پراسس میں سے گزرتے ہوئے میں نے، یقین کیجیے، ایسا خالی پن محسوس کیا، ایسی بےسمتی محسوس کی، ایسی بےبسی اور  تاریکی محسوس کی کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے، بخدا، مجھ پر کم و بیش ویسی ہی کیفیت طاری ہے۔

اپنی اپنی نوعیت کے ان دو واقعات میں ایک چیز مشترکہ ہے: خوف، انہونی کا خوف، زندگی میں  "اچانکیت" کا خوف، اپنی کم مائگی کا خوف، اپنی بےبسی کا خوف، اپنی بےسمتی کا خوف،  اپنی شکست کا خوف، اپنی ناکامی کا خوف۔ خوف، صرف خوف، اور کچھ نہیں!

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، صاحبو۔ 1995 کے بعد زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوتی چلی گئی اور حالات  سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے۔ انہی چند سالوں میں سے گزرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کے چند ایک فلسفے ایجاد کیے اور ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ زندگی چلتے ہی رہنے کا نام ہے، ٹھہر جانے کا نہیں اور اسی چلتے رہنے میں ہی عافیت ہے، تنوع اور ترقی بھی۔ سچ یہ بھی ہے کہ 1995 کے صرف آٹھ سال بعد، مشکل ترین حالات کے باوجود میں نے زندگی کی پہلی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لی اور 1995 کے قریبا بیس سال بعد، میں اسلام آباد میں، پاکستانی معیار کے مطابق، ایک کمفرٹیبل مڈل کلاس زندگی گزار رہا ہوں، اور زندگی کے اس رگڑے کے بعد، اسے اللہ کی رحمت کے ساتھ ساتھ، کچھ کچھ اپنا حق بھی سمجھتا ہوں۔

یارو، ہماری زندگی پٹری پر ایک مستقل رفتار سے چلنے والی مشین نہیں ہوتی۔یہ بلکہ ملکوال-تا-منڈی بہاؤالدین کی پرانی اور کچی سڑک پر چلنے والی بس ہوتی ہے کہ جس میں 60 لوگوں کی گنجائش کے باوجود 120 لوگ سوار ہوتے ہیں، اور وہ کچے پکے راستوں پر اپنی "کمانیاں" اور ایکسل بچاتے ہوئے بڑی احتیاط سے ہلکورے لیتے ہوئے چل رہی ہوتی ہے۔ اس  میں آپکو جابجا بریکس لگانا پڑتی ہیں،انجن گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات "سِیز" بھی۔ بے تحاشا زور لگانے اور کوشش کرنے کے باوجود بھی آپ سپیڈ نہیں پکڑ پا رہے ہوتے، بلکہ جیسے ہی آپ سپیڈ پکڑتے ہیں، سامنے کوئی کھڈا، کوئی "گاں،" کوئی "مجھ" یا اپنی ٹوٹی سائیکل پر "سوپر، سب توں اوپر" برانڈ کا سگریٹ پیتے ہوئے ایک جاٹ جا رہا ہوتا ہے اور آپکی زندگی کی بس کو نہ صرف رستہ نہیں دیتا، بلکہ آپکے رستے کی مستقل رکاوٹ بن کر آپکے سامنے سامنے چلتا ہی جا رہا ہوتا ہے۔   یہ ہے زندگی، مجھ سے، اور آپ میں سے پڑھنے والے، لو-مڈل یا مڈل کلاس لوگوں کی۔ اور ایسی صورتحال کا سامنا ہم عمومی طور پر اپنی ذاتی، سماجی، خاندانی، معاشرتی اور پیشہ وارانہ زندگیوں میں کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس پراسس میں، دوستو، میں آپکو اپنے تجربہ سے بتا سکتا ہوں کہ جادو صرف ایک چیز میں ہے: ہلکورے لیتے، کچی پکی سڑک پر ڈولتے ڈالتے، مگر چلتے ہی رہیں۔ یقین کیجیے کہ بسا اوقات سپیڈ سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ چل رہے ہیں اور آپ اگر چلتے ہی رہیں گے تو بھلے کچھ دیر سے ہی، مگر منڈی بہاؤالدین کے قریب تر پہنچتے ہی جائیں گے۔

میں ذاتی زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جنکی  سیٹلڈ زندگیوں میں ایک بڑے واقعہ نے بھونچال برپا کر ڈالا۔ اور اسکے بعد زندگی سنبھالنے کی کوشش بہت/بہت/بہت مشکل رہی۔ چند ایک واقعات کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے بھنور میں موجود اپنے دوست و احباب اور دیگر لوگوں کو حتی الوسع اپنے فہم کے مطابق گفت وشنید کے ذریعہ سے معاملہ سازی اور معاملہ فہمی  کی تلقین بھی کی۔ زندگی کا سیٹلڈ ہونا، ہماری کلاس میں صاحبو، صرف ایک ڈھکوسلا  ہوتا ہے جو ایک بڑے دھکے، یا بڑھے واقعے/سانحے سے بکھر جاتا ہے۔ اس سیٹلڈ پیٹرن کے ایک دم ڈسٹرب ہو جانے سے، ہم اپنے آپکو اس انہونی کے خوف میں مبتلا پاتے ہیں جسکا ذکر میں اوپر اپنے 1995 والے واقعہ میں کر آیا۔ اپنی زندگی کے چلنے والے روٹین کے سلسلہ کے خراب ہو جانے پر ہم اپنے آپکو ہمت کے اعتبار سے برہنہ محسوس کرتے ہیں، اور ایسی صورتحال میں سب سے پہلا متاثر، ہم خود ہی ہوتے ہیں۔ اس سے بچیں، بلکہ کوشش کیا کریں کہ جب بھی کبھی ایسی صورتحال ہو، اپنی ذات اور اپنے شعور کو اپنی گرفت میں رکھیں، اور یہ ناممکن نہیں ہوتا۔ ہم انسانوں کی یہ شاید فطرتِ ثانیہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی بڑے واقعہ کو اسکے اثرات کے سمیت بہت بڑھا چڑھا کر اپنے اوپر لاگو کر لیتے ہیں، مگر یاد رکھیے کہ ایسا کرنے سے سب سے زیادہ متاثر بھی آپ خود ہی ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے ٹوٹے پھوٹے تجربہ سے ایک بات جو سیکھی، اسکا ایک اہم جزو یہ ہے کہ جب بھی کبھی ایسا واقعہ ہو، جو آپکی زندگی کو اتھل پتھل کر ڈالے، بالکل متوازی اور متوازن ذہن کے ساتھ ایک بات سمجھ کر رکھیے کہ اس واقعہ کی شدت گزر جائے گی، اور آپکی زندگی کی ایک بہت بڑی حقیت یہ ہے کہ اس نے آگے بڑھنا ہے، لہذا اسکو آگے ہی لے کر جایا جائے۔

زندگی آپکی مرضی سے بھی چلتی ہے، مگر زیادہ تر آپکی مرضی کے خلاف۔ یہ آپکی مرضی کے خلاف چلنے والے ہی مواقع ہوتے ہیں کہ جب آپ زیادہ شدت سے کوشش کرتے ہیں، اور اس کوشش کے نتیجہ میں ہی آپکے لیے مزید مواقع، اور آخری حقیقت میں، مزید بہتری بھی پیدا ہوتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مصائب میں گھرے آپ میں سے میرے وہ دوست جو اپنی زندگیوں کی شدید جنگ لڑ رہے ہیں، انکو یہ بات محض پندونصائح کا ٹوکرا ہی معلوم ہوگی، مگر یاد رکھیں کہ جنگ لڑتے ہوئے جینے کا یہ وقت بھی گزر جائے گا، اور اس دوران آپکی زندگی کے حوالے سے جو بہتری کی گنجائش بنے گی، وہ عین اسی وقت کے دوران کے کیے ہوئے کام اور فیصلے ہی متعین کریں گے

انہونی کے خوف سے نجات ممکن نہیں، مگر خوف کے ساتھ ساتھ مگر حوصلہ کے ساتھ جینا عین ممکن ہے اور یقین کیجیے کہ یہ کام دلیر انسان ہی کرتا ہے، جو آپ سب میں موجود ہے۔ کچھ تو ٹٹولیے اپنے اندر تو آپ جانیں گے کہ آپکی زندگیوں میں کئی ایسے واقعات و حادثات ہوئے ہونگے کہ جن کے رونما ہوتے ہی شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ "استاد، گیم مُک گئی اے،" مگر انہی حالات کے جبر میں اگر آپ نے شدید سے شدید تر کوشش کی ہو تو آپ انہی حالات سے گزر بھی آئے ہونگے۔ اگر یہ کام آپ نے پہلے کر ڈالا ہے تو دوبارہ کرنے سے آپکو کون روک سکتا ہے بھلا؟

مضمون کی طوالت کی دلی معافی، مگر انہونی کے خوف میں ناکامی  کا ڈر، اس سٹوپڈ انڈین ڈراؤنی فلم، تہہ خانہ، کا وہ پٹیوں میں ملبوس ولن ہے، جو 1988سے ابھی تک تو زندگی میں ٹکرایا نہیں، اور اب اس خوف پر ہنسی آتی ہے۔ آپ بھی اپنے خوف میں سے جب گزر جائیں گے، تو یارو، ایک دن زندگی کے سفر میں ہی، آپکو اپنے خوف پر ہنسی آئے گی۔


زندگی اگر کٹھن اور محال ہے۔ زندگی میں اگر اس وقت بےسمتی کا  دورہ ہے۔ زندگی میں اگر اس وقت خالی پن اور ناکامی کا خوف ہے، آپ کو صرف تین لفظ کہنے ہیں: "ڈرتے کیوں ہو؟"