منگل، 20 مئی، 2014

زندگی کی سپیڈ ہمیشہ آہستہ رکھیں

میرے تین چاچُو ہیں: احمد حسن بٹ،محمدحسن بٹ اور فیض الحسن بٹ۔ یہ بلاگ میں اپنے سب سے چھوٹے چاچُو، فیض الحسن بٹ کے نام کرتا ہوں، جو کہ ہم تمام کزنز میں "چاچا بٹ" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

میں نے آپ میں سے اکثریت کی طرح زندگی میں بہت مرتبہ نماز شروع کی اور اس سےہمیشہ ایک مرتبہ زیادہ چھوڑی۔ شروع کرتا تو پانچ کی پانچ اور بیچ میں نوافل بھی۔ چھوڑتا تو سال سال مسجد کا رخ نہ کرتا۔ میرے کزن، ضیاء الحسن بٹ (گوگا بٹ) کی دکان تھی ملکوال میں مسجد بزمِ توحید کے پاس۔ تقریبا سارا خاندان ہی صوفی اور آسانی سے چلنے والے اسلام کے قریب ہے، مگر میں نے پاکستانی اسلام کے سارے "سواد" لیے ہیں اور اپنے اُسی ایک فیز میں تھا جب میں مغرب کی نماز، دیوبندیوں کی مسجد، بزمِ توحید، سے ادا کرکے بازار میں اپنے کزن گوگے بٹ کی دکان کے قریب تھا جب مجھے وہاں چاچا بٹ بھی مل گئے۔ پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو۔ بڑے فخر سے بتایا کہ نماز پڑھ کر آ رہا ہوں۔ کتنی نمازیں پڑھتے ہو؟ چاچا نے ایک اور سوال داغا۔ ساری، میں نے جواب دیا۔  "ساریاں نا پڑھیا کر۔ دو تِن پڑھ لیا کر تے ہولی ہولی پنج تے اپڑ،" چاچا نے کہا۔ میں نے جب ان دنوں تبلیغی  جماعت کے زیراثر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جوابی وار کیا کہ جناب چاچا جی، پانچ فرض ہیں، تو دو تین کیوں؟ چاچا بٹ مسکرائے، اور کہا، "بٹ صاب، سپیڈ ہولی رکھو، فیدہ جے۔"

بعد میں ایک اور موقع پر یہی بات مجھے گوگے بٹ نے بھی کہی جب میں نے کلاچی سے واپسی پر بس کی چھت پر ہی نمازپڑھنا شروع کر ڈالی۔ آج بھی ہنسی اڑتی ہے، مگر یارو، یہ کہانی پھر کبھی سہی۔

چاچا بٹ، ملکوال کے معاشرے میں رہتے ہوئے وہاں کے زمان و مکاں سے آگے ہی رہے۔ فرائیڈ، نطشے، مارکس، حالی، عبیداللہ سندھی، کرشن چندر، منٹو، انتظار حسین، عبداللہ حسین وغیرہ  کے نام پہلی مرتبہ ان کے ہاں سے ہی سننے کو ملے۔ غربت کے باوجود، گھر اور خاندان کا مزاج نسبتا علمی اور بہت "کُھلا ڈُلا" ہی رہا، آج بھی ہے، اور میری رہتی زندگی تک ایسا ہی رہے گا۔ کیونکہ اس میں زیادتر افراد، زندگی کی سپیڈ آہستہ ہی رکھ کر چلتے ہیں، گو کہ مسئلے مسائل تھے، اور رہیں گے، مگرزندگی ہے،  چلتی رہے گی۔ معاملات ہیں، چلتے رہیں گے۔ بہرحال، بحیثیت مجموعی، آہستہ رفتار کے باوجود ہم آخری حقیقت میں بہت سے ایسے لوگوں سے بہتر ہی رہے، کہ جنکی رفتار بہت تیز تھی، یا کم از کم محسوس ہوتی تھی۔

خاندان کی مدح سرائی مقصود نہ تھی یہاں، کہ جب سارا پاکستان جیوٹی وی کے معاملہ پر اپنے اپنے مورچے سنبھال کر بیٹھا ہوا ہے، میری یہ حماقتیں کون پڑھے گا بھلا، مگر خیال ہے، سوچا کہ لکھ دیا جائے۔

پچھلے دو تین ماہ سے زندگی کافی چیلنجز لے کر آئی۔ چند ایک کاروباری معاملات تھے کہ جن کی کچھ سمجھ نہ آئی اور و ہ ہاتھ سے جاتے رہے اور ایک معاشی دھچکہ دے گئے کہ جس سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا۔ پھر پچھلے تقریبا چھ سات دنوں میں اپنے چند دوستوں کی زندگیوں میں ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا، انکی مدد کی، انکے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی تو بالآخر معلوم پڑا یہ انکی بنیاد میں اصل خرابی انکی زندگی کی سپیڈ کا تیز ہونا تھا، ایک دو معاملات میں تو اتنا تیز کہ "نہ پاؤں ہےرکاب میں ، نہ ہاتھ میں لگام" سی کیفیت تھی۔

یارو، یاد رکھیں کہ ایک آپکی رفتار ہوتی ہے، اور ایک  رفتار "دیگر عوامل"  کی ہوتی ہے۔ آپکی  رفتار بھی اہم ہوتی ہے، مگر یقین کیجیے اس سے زیادہ اہم ان عوامل کی رفتار ہوتی ہے کہ جن پر ہم بہت سے حوالوں سے انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ زندگی میں کامیابیوں اور مایوسیوں کی رولرکوسٹر میں ہم عموما بہت سے ردعمل کا صرف اس لیے شکار ہوتے ہیں کہ ہم اپنی رفتار، اپنے فہم ، اپنے خیال اور اپنی خواہشات کے مطابق ہی ان "دیگر عوامل" کا حال ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے  الفاظ میں یہ چاہتے ہیں کہ جو ہماری مرضی ہے، ویسے ہی نتائج بھی نکلیں۔

ایسا شاذ ہی ہوتا ہے، مگر ہم میں سے اکثریت بھی شاذ ہی سیکھتی ہے!۔ 

میرے ایک دوست ہیں، ناصر۔ انکے ساتھ زندگی نے بڑی ٹریجیڈی کی۔ وہ جہاں شادی کرنا چاہتے تھے، وہاں انکا معاملہ نہ بن سکا اور تقریبا آٹھ سال کے تعلق اور بے تحاشا رکاوٹوں کے بعد، خاتون نے انہیں بتایا بھی نہیں اور پیا گھر سدھار گئیں، حالانکہ ظاہرا دونوں خاندانوں میں معاملات تقریبا طے پا چکے تھے، مگر اکیسویں صدی کے پاکستان میں ابھی بھی سید، اور غیر سید کا جھگڑا موجود ہے، اور رہے گا، بدقسمتی سے۔  دو ہفتے قبل ناصر صاحب مارا ماری پر آمادہ تھے، آمادہ تھے کہ رگڑا نکا ل دیا جائے اور پوری کائنات اتھل پتھل کر ڈالی جائے۔

 انکی باتیں سن کر میں ہنستا رہا اور انکو کھری کھری بھی سناتا رہا کہ  میرے مطابق یہ، ایٹ دی ویری بیسٹ یا ایٹ دی ویری ورسٹ،  زندگی کا ایک باب تھا، کھلا رہا آٹھ سال، پھر بند ہو گیا۔ بی بی آگے بڑھ گئی، تُو بھی بڑھ جا، میں نے مفت مشورہ نوازا۔ دو ہفتوں سے یہ معاملات جاری ہیں، مگر میرے دوست کا "زخم"  تھوڑا بہت سِلنا شروع ہو چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، معاملات مزید بہتر ہونگے، گو کہ جانتا ہوں کہ دل میں اک ٹیس کبھی کبھی اٹھتی بھی رہے گی، مگر دو ہفتے قبل جیسی جذباتیت نہ ہوگی۔ میں پچھلے دو ہفتوں میں کئی مرتبہ انہیں مل چکا ہوں، اور آئندہ بھی ملتا رہونگا کہ دل سے انکی پرواہ ہے، اور کِیا میں نے صرف یہ کہ انکی زندگی کی سپیڈ ذرا ہلکی کروا دی کہ کہیں انکی بریکس فیل نہ ہو جائیں۔ رفتار انکی ابھی بھی، میرے معیار کے مطابق، تیز ہے، مگر انہیں، آہستہ  آہستہ انکی شخصیت کے مدار میں کامیابی سے واپس لے ہی آؤں گا، جانتا ہوں۔

جیو نیوز کا معاملہ ہو، یا ان سید خاتون کا، میرے بزنس کی ٹوٹ جانے والے ڈیل ہو، یا ہوناصر صاحب کی جذباتیت، ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ معاشرہ اور دنیا ایک بڑی اکائی ہے، آپ، میں اور ہمارے آس پاس پائے جانے والے کروڑوں لوگ چھوٹی چھوٹی اکائیاں ہیں۔ فطرت میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو کہ بڑی اکائی، چھوٹی پر انحصار کرے، مگر زیادہ تر چھوٹی اکائیاں ہی بڑی اکائیوں پر منحصر ہوتی ہیں۔ آپکی، میری اور ہماری زندگیاں، انکی رفتار بلاشبہ اہم ہیں، مگر ان سے زیادہ اہم اس بات کا ادراک ہے کہ ہم خلا میں یا ایک دوسرے سے مکمل کٹ کر زندہ نہیں رہتے۔ ہم معاشرے، مختلف نظاموں، اور اپنی ذات سے کہیں بڑی اکائیوں کے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں، اور ہماری رفتار، ہماری سمجھ، ہمارے پلان اور ہم خود ہی آخری حقیقت نہیں۔ فلسفیانہ طور پر یہ کہنا بھی درست ہو کہ شاید آخری حقیقت وہ بڑی اکائیاں بھی نہیں، مگر عملی طور پر  انکی موجودہ سچائیاں، آپکی اور میری سچائیوں سے بڑی ہوتی ہیں۔ اسکو شعوری طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہی بہتری ہے۔

زندگی آپکو بہت رنگ دکھاتی ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ زیادہ تر رنگ خوشگوار نہیں ہوتے۔ زندگی آپکو بہت زخم دیتی ہے، بھر بھی جاتے ہیں، مگر نشان، اور کبھی کبھی ٹیسیں، بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، مگر کیا ہی معجزہ کہ آپ زندہ بھی رہتے ہیں۔ زندگی آپکو بارہا، پنجابی زبان میں "سجی وکھا کے کھبی مارتی" ہے، مگر ہر بار دھوکہ کھا کر آپ گرنے کے باوجود اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کامیاب ہوتے ہیں، کبھی ناکام، مگر یہ بھی زندگی کے پراسس کا حصہ ہی ہے۔

دلی معذرت کہ بات لمبی ہو گئی، مگر حاصلِ کلام یہی کرنا ہے کہ آپ پر بھلے زندگی کے جتنے بھی پریشرز ہوں، آپ اپنے آپکو جتنا بھی گرا ہوا محسوس کر رہے ہوں، آپ کے ساتھ بھلے بڑا دھوکہ ہو گیا ہو، آپ کی خواہش، آپکی زندگی کی حقیقت نہ بنی ہو، آپ بہت سے مسائل میں اپنے آپ کو گھرا ہوا پا رہےہوں، باوجود سرتوڑ کوشش، خلوص، سچائی، جذبات اور ہمت کے وہ نہ مل سک رہا ہو، جو کہ آپ چاہتے ہوں، تو اس کے باوجود بھی صاحبو،  زندگی کے چلتے رہنے پر یقین ہمیشہ رکھیے اور اپنے اس گھیراؤ کو ختم کرنے کا میرا آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ اپنی رفتار آہستہ کرلیں۔ بہت سارے کام کرنے کی بجائےصرف گنتی کے دو تین کام کریں۔ بہت کچھ حاصل کرنے کی بجائے صرف "کچھ" حاصل کرنے کی فکر کریں۔ بڑے کو چھوڑیں، چھوٹے چھوٹے مقاصد کو مکمل کریں۔

آپکو اس سے زندگی کا ایندھن ملے گا اور آپکی زندگی کی رفتار دوبارہ واپس آ جائے گی۔ مگر جب یہ واپس آئے، تو رفتار آہستہ ہی رکھیں، تاکہ موجود ایندھن جلد ختم نہ ہو۔

وگرنہ پانچ نمازیں میں نے بہت مرتبہ شروع کیں، اور چھوڑیں۔ عمر کی چوتھی دھائی میں آکر اب جان ہی لیا ہےچاچا بٹ ٹھیک ہی کہتے تھے۔

بٹ صاب، سپیڈ ہولی رکھو، فیدہ جے!"۔ -"