جمعہ، 25 اپریل، 2014

تیرا سچ، میرا سچ، اور اصلی سچ

کوئی کھوتے کا پُتر ہی ہوگا جو حامد میرپر قاتلانہ حملے پر بغلیں بجائے، ٹھٹھہ اُڑائے، مذاق بنائے اور دانت دکھائے۔ کوئی بھی شخص اپنے ذہنی توازن میں ایسی کسی حرکت کی حمایت کر ہی نہیں سکتا، تاوقتیکہ وہ اپنے تعصبات میں اتنا راسخ ہو چکا ہو کہ وہ اپنی ذہنیت کے مطابق کسی بھی بات کو سچ جاننے پر مسلسل آمادہ ہو، اور اپنے اس خیال کو ہی آخری سچ مانے۔ آخرکو ہمارے ہی ملک و معاشرے میں آپکو ایسے لوگ کافی اکثریت میں مل جائیں گے جو مذہب، عقیدے، ایمان اور سیاسی طاقت کے توازن کے معاملات میں اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے قتل کرنا اور پھر قتل کرتے ہی رہنا درست گردانتے ہیں۔ بلاشبہ، ایسے نادانوں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر اور بے اثرہی بھلا۔

حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان کی ذہنی آب و ہوا میں، حسبِ معمول، جھکڑ چلنا شروع ہو گئے اور ہر جانب انگشت نمائی کے، خیر سے، ایک نئے سلسلے نے جنم لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ میں چونکہ کھوتے کا پُتر نہیں ہوں، اس لیے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی کوئی خوشی قطعا نہ محسوس کی، نہ کرتا ہوں، اور نہ ہی ایسے کسی واقعے پر کبھی بھی کرونگا، مگر اس واقعے کے فورا بعد جیو نیوز کے ایک خاص زاویہ نے بہرحال مایوس کیا۔ حامد میر کے بھائی، عامر میر کو "بیپر" پر لیا گیا  جو صحافتی نارمز کے عین مطابق تھا۔ انکی رائے کو نشر کیا گیا، جو صحافتی نارمز کے پھر سے عین مطابق تھا مگر پھر انکی رائے میں سے جیونیوز نے اپنی مرضی کے چند حصے نکالے اور انکی اپنی سکرین پر حقیقتا بمبارڈمنٹ کر ڈالی، اور یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا، اس وقت تک کہ جب تک وزیرِ اعظم نے عامر میر کو فون نہ کیا اور بلاشبہ کچھ مزید ڈوریں بھی ہلیں اور جیو نیوز نے اپنی سکرین پر سے اپنے ردعمل کے جذباتی فقرات کو ہٹاڈالا اور پھر معاملات کچھ نارمل روٹین کی جانب چلے کہ جس میں دیگر خبریں اور موضوعات بھی شامل تھے۔

آئی ایس آئی اور فوج نے پاکستان کی سیاست و معاشرت میں بے تحاشا اور بھیانک غلطیاں کی ہیں اور یہ سلسلہ اکتوبر 1947 سے جاری رہا۔ فوجی اداروں نے اپنی مرضی کے نیریٹوز بنائے، بنوائے، خود بھی چلائے اور چلوائے بھی۔ ایک لمبی، بہت لمبی لسٹ ہے کہ جہاں پاکستانی دفاعی اداروں نے پاکستان اور پاکستانیوں کی طرزِمعاشرت کا تیاپانچہ کر ڈالا، زیادہ تر مذہب، نظریہ کے نام پر اور کم تر سیاست کے نام پر۔ مگر بے چارے  پاکستانی ایک معاشرتی و نظریاتی جزیرے سے، دوسرے پر مینڈکوں کی طرح چھلانگیں مارنے میں ہی مصروف رکھے گئے۔ کبھی ایشیا سرخ بنایا، کبھی سبز۔ کبھی دلائی کیمپ آباد کیا، کبھی شاہی قلعہ۔ کبھی  آرمی چیف وزیرِ دفاع بن بیٹھا اور پھر خود کو ہی پروموٹ کر کے فیلڈ مارشل بھی بنا ڈالا۔ کبھی ہائی لیول کے ڈنرز میں جنرل یحییٰ خان آپکو اپنی پتلون میں پیشاب کرتے ہوئے ملے گا، تو کبھی شراب کے نشے میں دھت کمرے سے برہنہ ہے باہر آتے ہوئے۔ پھر جنرل ضیاء نے اسلام کو ایسا رگیدا کہ  پاکستانی معاشرے کی ہیئتِ ترکیبی ہی بد سے بدتر کی طرف بدل ڈالی اور پھر فاتحِ کارگل پاکستان پر چڑھ دوڑے اور ابھی تک چڑھے ہی ہوئے ہیں۔ انہی دفاعی اداروں نے پاکستانی سیاست کی پنیریاں بھی لگائیں، وہ چاہے ذوالفقار علی بھٹو ہوں، یا میاں محمد نواز شریف، یا عمران خان، فوجی ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاست و معاشرت کے گھڑمس میں ملوث ہی رہے۔ جھنگ سے شیعہ سنی فساد کی ابتداء ہو یا کراچی میں مہاجر کے نام کی سیاست، آپ پاکستان کے کسی بھی سیاسی، معاشرتی، مذہبی بحران کو دیکھیں، اکثریت میں آپکو ڈانڈے دفاعی اداروں کی جانب ہی ملیں گے۔

 مگر جو ہے، وہ ہے، اور وہی کہا بھی جائے۔

یہ بھی سچ ہے کہ جنرل پرویز کیانی نے بہرحال کوشش کی کہ ان معاملات میں کم از کم کھلم کھلا دراندازی نہ کی جائے اور کوئی بھلے نہ مانے، حالات بہتر ہوئے اور پاکستانی طرزِ معاشرت میں ریپیوٹیشن کا جو خسارہ فوج کی بابت جنرل پرویز مشرف کے دور میں دیکھا جاتا تھا، اسکے اعشارئیے کافی بہتر ہوئے۔ کمانڈ کی تبدیلی کے بعد بھی دفاعی اداروں نے جنرل کیانی کی بنائی ہوئی روش کو ہی فالو کرنا بہتر جانا، ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جب تک کہ دماغی گرمی کے کچھ مظاہرے نہ کئے گئے اور جواب میں "وقار" کی بات کی گئی۔

سیاست اور ریاست، میرے یارو، انقلابی نہیں ارتقائی عمل پر ہوتے ہیں۔ انقلاب جدید ریاست میں محض ڈھونگ ہی ہے اور پاکستان، جیسی بھی ہے، کم و بیش جدید ریاست کے ہی خدوخال رکھتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر ایک بیان، یا ٹی وی پر بیٹھ کر تین چار بیانوں سے جو کہ اونچی آواز اور جذباتیت پر مبنی ہوں، کوئی بہتری نہیں آسکتی اور نہ ہی آئے گی۔ پاکستانی ریاست میں دفاعی اداروں کا ایک مخصوص سیاسی اور طاقتور کردار رہا ہے اور یہ اگر بڑھک بازی سے ختم ہو سکتا ہے تو ایک بڑھک میری جانب سے بھی قبول کیجیے: ہاااااا بکری ی ی ی !

جیونیوز نے یہی بڑھک ماری اور یار لوگوں نے اسی جمہور و جبر کی جنگ بنا ڈالا۔ کچھ فہم در آیا جنگ گروپ میں اور اسکے بڑے واضح اشارے بھی ملتے ہیں کہ جیونیوز پر بروزہفتہ کیا چل رہا تھا، اور آج کیا چل رہا ہے۔ اس دن محترمی انصار عباسی کیا کہہ اور مطالبہ کر رہے تھے، اور خیر سے آج انکی زبان، اشارے اور لکھائی کیا ہے۔ اس میں کچھ دیر بہرحال ہو گئی مگر کسی نے اگر  انکی ردِ عمل کی بڑھک بازی کو ہی صحافتی آزادی اور جمہور و جبر کی جنگ سمجھنا ہے تو ان سے اتنا ہی سوال ہے کہ: یارو، جیونیوز/جنگ گروپ ہفتہ کی رات کو درست تھا، یا اب ہے؟ ایسا ہو نہیں سکتا کہ بڑھک بازی بھی ٹھیک ہو، اور موجودہ صلح کے اشارے بھی۔ چند کےنزدیک ہوتا ہے تو ہو، مگر مجھے میرے تعصب نے ابھی تک اندھا نہیں کیا۔

اب معاملہ قانون کے کورٹ میں آ چکا اور جیونیوز نے کل حامد میر کا پہلا بیان جاری کیا، جو انکے بھائی عامر میر نے پڑھا۔ اس میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک بار پھر: درست کیا ہے، کل کا بیان یاہفتہ کی رات کی رائے؟ بیان بازی، بار بار کی جذباتیت پر مبنی تشہیر سے قانون کے کورس کو بدلا نہیں جا سکتا کہ قانون "کولڈ لاجک" کے اصول پر چلتا ہے۔ بہتر تو تب بھی یہی تھا، اور اب بھی ہے کہ قانون کا جواب، قانونی ہی ہو،  ردعمل کی تشہیر بازی نہیں مگر لگ یہی رہا ہے کہ یہ روش تبدیل نہیں ہوئی، اور شاید پوری سچائی سے تبدیل بھی نہ ہوگی۔ کہنے دیجیے کہ جیو نیوز/جنگ گروپ کو اپنی جذباتیت کی حماقت کا کچھ ادراک تو ہوا ہے کہ بازؤں پر کالی پٹیاں بھی آگئیں اور مفتیوں سے لے کر سیاستدانوں اور فٹ پاتھ پر بیٹھے عوام سے "جیو نیوز کو بین نہ کیا جائے" کے انٹرویوز چلائے جا رہے ہیں، مگر ایک سوال تو بنتا ہے: اتنا بڑا ادارہ، اور  جذباتی ردعمل کا شکارکیوں؟

 نعرے بازی اور جذباتی ردعمل کے عظیم الشان مظاہرے تو گدھا گاڑی چلانے والے بھی کر سکتے ہیں، نہیں؟

بہت عرصہ قبل ایک ذمہ دار ملازمت  میں ایک غلطی کر ڈالی اور اس غلطی کو اتنا بڑا نہ سمجھا اور اپنا رویہ نارمل اور انفارمل رکھا۔ میرے سینئیر آفیسر، جو کہ بتانے، سمجھانے پر یقین رکھتے تھے، مجھے صرف ایک فقرہ کہا:  "مبشر،  یہ غلطی تم سے دو سٹیپ جونئیر آفیسر کرتا تو کوئی بات نہیں تھی، مگر تم نے اگر اتنے سالوں کے بعد اس سسٹم میں کام کرکے بھی اس غلطی کو غلطی کی طرح ٹریٹ نہ کیا اور درست نہ کیا تو پھر یاتو تم ناکام ہو، یا پھر یہ نظام کہ جو تمھیں درست نہ کرسکےگا۔ " بات کی تفصیل میں کیا جانا، پھر کوشش کی، اور کامیاب ہی رہا، کہ ایک غلطی دوبارہ کبھی نہ ہو، اور جب بھی کبھی معاملات ہاتھ سے نکلے، تو ان سے سبق ہی سیکھا۔

جیونیوز کو بین نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی حکومت اور اسکے اداروں کو اپنی ضد و انا کا مسئلہ بنا کر اس معاملہ کو ہینڈل کرنا چاہیے۔ پہلے قدم پر تو دیکھتے ہیں کہ قانون کیا رستہ لیتا ہے، مگر اسکے لیے جیونیوز کو بالخصوص اور حکومتی اداروں کو بالعموم اپنے دماغی ٹمپریچر نیچے ہی رکھنے چاہئیں اور معاملہ فہمی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ جیونیوز نے اگر وہی جذباتیت کی رٹ جاری رکھی توبھی اسکے نتیجے میں ریاستی اداروں  اور جوابی ردعمل کو کسی بھی انتہا پر نہیں جانا چاہیے کہ ریاستوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اور یہ  کہ ریاستی و حکومتی کام ٹھنڈے دماغوں سے ہی بہتر چلتے ہیں۔ اولین ذمہ داری معاملہ فہمی کی، کوئی بھلے برا مانے، جیونیوز/جنگ گروپ کی ہے  کہ مضروب ہونے کے باوجود وہ حوصلے کا مظاہرہ کریں، جو کہ ابھی تک بہت اچھے لیول پر نہیں دیکھا گیا اور بات کو قانونی نظر سے دیکھیں۔ بڑھکیں بات بگاڑتی اور معاملات خراب کرتی ہیں جسکے نتیجے میں "دل سے احترام" کے بیانات بھی بالآخر عوام کے سامنے آجاتے ہیں۔

آخر میں ابھی کہیں سے واپسی پر اپنی لیز زدہ گاڑی میں جان بون جووی کا ایک پرانا مگر اعلی راک سانگ سنتے ہوئے دفتر واپس آیا تو اس میں گانے کے چار بولوں نے توجہ کھینچ لی، آپ سب کی نذر:

These days it seems like
There's three sides to every story
There's yours, mine
Lately there's the cold hard truth

 جینا ہے تو جذباتیت کی بڑھک بازی، نعرہ زنی اور بلند آواز سے بچ کر جینا سیکھیں، آپ بھلے انسان ہوں یا ادارے۔

 نہیں تو پھر آئیں " ہاااااا بکری ی ی ی" کا ایک نعرہ مستانہ لگائیں، اور پوری دنیا پر چھا جائیں۔

تو پھر شروع کریں جناب؟