بدھ، 16 اپریل، 2014

آدھی انسان؟ --- گزشتہ سے پیوستہ

یہ مضمون اپنے نہایت عزیز ٹویٹری دوست، سمیر علی خان کے نام کرتا ہوں۔ نوجوان ہیں، مگر قرانِ پاک کے حوالہ جات پر اعلیٰ دسترس رکھتے ہیں۔ مجھ سا جاہل جب قرانی حوالہ جات کا متلاشی ہوتا ہے، تو انہی سے رابطہ کرتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی مایوس نہیں کیا، اور امید کہ آئندہ بھی نہ کریں گے۔ ان سے بارہا موضوعاتی اختلاف ہوتا رہتا ہے، مگر کیا خوبصورتی ہے کہ یہ موضوعاتی اختلاف، کبھی ذاتیات تک نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔

 شکریہ سمیر کہ آپکی میل سب سے پہلے میرے پچھلےبلاگ کے بارے میں آئی جس میں قرانی ریفرنسز سے آپ نے ایک بار پھر میری مدد کی۔ آپکی میل کے بعد تو ایک لمبا سلسلہ چلا گالم گلوچ کا کہ جس میں مجھے کس کس لقب سے نہیں نوازا گیا۔ ہنسی اس بات پر کہ یہ سب ان لوگوں نے کیا جو اپنے تئیں اسلام کے دفاع میں بات کررہے تھے اور طرہ یہ کہ ان میں کافی تعداد خواتین کی بھی تھی۔ نامعلوم، ان کی کس شریعت میں اختلاف پر گالی دینا جائز اور کارِ ثواب ہے؟ وہی جانتے ہیں اور وہی بتا بھی سکتے ہیں۔

میرے ایک اور دوست سلمان نے کہا کہ عورت کی آدھی گواہی کے معاملہ پر مزید لکھنے سے پہلے علماء سے رابطہ کر لیا جائے۔ میرےذہن میں جسٹس کیانی اور جسٹس منیر کی عدالتی رپورٹ ہے جو 1953 میں لکھی گئی تھی۔ اس میں دونوں جج صاحبان نے واضح لکھا ہے کہ تمام فرقوں کے رہنما ایک دوسرے کو اپنے فرقوی معیار کے مطابق درست مسلم نہیں سمجھتے۔ لہذا میں نے سلمان سے معذرت کی کہ ہر عالم اپنے اپنے فرقے کی ہی "پِیپنی" بجائے گا۔ اس مضمون میں حوالہ جات صرف اور صرف قرانِ پاک سے ہیں۔ پڑھئیے اور آگے آپکی مرضی کہ کیا کرنا، سمجھنا اور سوچنا ہے۔

تمہید ہی لمبی ہو گئی۔ لہذا، مکمل ٹو-دی-پوائنٹ لکھوں گا۔

- عربی زبان میں مرد کو "رجل" کہتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرد ہوں تو انکی عربی  "الرجال" ہے۔ یہی "مرد" کی اصل عربی ہے۔  دوسرا قریب تر لفظ "المرء" ہے۔

- انسانوں کو، مرد یا مردوں کو نہیں، ایک بار پھر، انسانوں کو، مرد یا مردوں کو نہیں  عربی میں کئی دیگر الفاظ سے لکھا جاتا ہے جس میں  عرف عام میں"الانسان، انسان، شخص، البشر، بشر" شامل ہیں۔

- رشتے کے حوالے سے  "زوج قرین" خاوند کو اور "التابع" اسکو کہتے ہیں جو کسی حوالے سے آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہو۔

- عربی میں "زود بالجند" ایک "ورب" کے حوالے سے مستعمل ہے۔

سمیر کی مدد سے، اور کچھ میری ریسرچ کے مطابق، قرانِ پاک میں گواہی کے چار حوالہ جات ہیں:-

1۔  سورۃ المائدہ، آئت نمبر 106
2۔  سورۃ طلاق، آئت نمبر 2
3۔ سورۃ نور، آئت نمبر 4
4۔  سورۃ البقرہ، آئت نمبر 282

نیچے، سورۃ المائدہ کی آئتِ مبارکہ نمبر 106 درج ہے اسے پڑھیئے :


 اب سورۃ طلاق کی آئت ِ مبارکہ نمبر 2 ملاحظہ کیجیے:
 

 اب پڑھیئے سورۃ نور کی  آئتِ مبارکہ نمبر 4:


میں نے بار بار پڑھا ہے اور میرے فہم کے مطابق اوپر کی ان تمام آیاتِ مبارکہ میں عربی کا کوئی لفظ بالوزن "مرد" استعمال نہیں ہوا۔ آپ بھی صرف ایک بار نہیں، بار بار پڑھئیے، پلیز۔

اب آخر میں سورۃ البقرہ کی آئتِ مبارکہ نمبر 282 ملاحظہ کیجیے:
























اس آئتِ مبارکہ میں تقریبا درمیان میں  لفظ  "رجالکم" استعمال ہوا ہے۔ اور یہ آئتِ مبارکہ  مالی معاملات کے حوالے سے ہے۔ اس آئتَ مبارکہ کی اپنی تشریح ہے کہ اس میں ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جو مالی معاملات سے متعلق امور کی انجام دہی کا تجربہ نہ رکھتی ہوں۔ مگر میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ گالیوں کے طوفان سے ڈر تو نہیں لگتا، مگر دماغ کا دلیہ بہرحال بن جاتا ہے۔ اور میرے نزدیک دماغ اور ظرف "عاماں اُتے" ضائع کرنے کی اشیاء ہیں ہی نہیں۔

جلدی سے لکھتا چلوں کہ سورۃ المائدہ کی آئتِ مبارکہ بوقتِ موت وصیت کی گواہی کی بات کرتی ہے۔ سورۃ طلاق کی آئتِ مبارکہ  بوقت طلاق کی گواہی/شہادت کی بات کرتی ہے اور سورۃ النور کی آئتِ مبارکہ زناکاری کے معاملہ پر گواہان کی بات کرتی ہے۔ اور ان تینوں آیات ِ مبارکہ میں قرانِ پاک کی زبان و حروف جب گواہان کی بات کرتے ہیں تو اس میں جنس کی تفریق نہیں رکھتے۔ آپ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، ہزار بار، لاکھ بار پڑھ لیں کہ عربی زبان میں مروج  الفاظ جو "مرد" کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہ ان تین آیات میں نہیں۔ مرد ہونے کی شرط صرف، اور صرف، سورۃ البقرہ میں ہے، اور وہ بھی مالی معاملات میں ایک عام خاتون کی گواہی آدھی متصور ہوگی۔

میں نے چار تراجم سے رجوع کیا ہے۔ صحیح انٹرنیشنل، پکتھال، محمد یوسف اور ڈاکٹر غالی صاحب کا اور آپکو بتاتا چلوں کہ ان مترجمین کے اسلوب بھی  کچھ فرق رکھتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ، مگر محمد یوسف  اور ڈاکٹر غالی صاحب نے متفرق جگہوں پر گواہی حوالے سے بات کرتے ہوئے لفظ "مرد" کو بریکٹس میں لکھا ہے، یعنی (مرد)۔ انکی اجتماعی دانش  پر  میری کیا اوقات کہ کوئی بات کروں، مگر اگر قرانِ پاک کے "لٹرل سینس" کی بات ہے تو یارو، سچ یہی ہے کہ چار میں سے تین آیات میں گواہی کے حوالے سے جنس کی کوئی تفریق نہیں۔ ایک میں ہے، وہ بھی مالی معاملات میں اور اسکے بھی کوالیفائرز ہیں۔ مگر ایک بار پھر، اس پر بات کر کے میں نے اپنے دماغ کا دلیہ نہیں بنوانا۔

آخر میں، میں اپنے محترم والد صاحب کی ایک بات کوٹ کرنا چاہوں گا، اور اس بات کو ان تمام دوستوں کے نام کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے تئیں اسلام کے دفاع میں میری ماں بہن ایک کی۔ نجانے کس اللہ و رسولؐ کو خوش کیا ہوگا یہ سب کہہ اور لکھ کے۔

واقعہ یہ ہے کہ کوئی دو سال قبل چھوٹی عید پر نمازِ عید کی ادائیگی اور قبرستان میں جانے والوں کی قبروں پر حاضری کے بعد گھر واپس آ کر دودھ سویاں کھاتے ہوئے لوکل لیول پر ملائیت کے رویوں پر بات ہوئی۔ میرے والدِمحترم نے کیا کہا، انہی کی زبانی سنیے:

"ساڈے مولوی، سویرے، دوپہر تے شامی اللہ دے رسولؐ دا اک واقعہ بولدے رہندے پئی کس طراں اک  کافر بڈھی آقاؐ تے کوڑا سُٹ دی سی ہر روز۔ جدوں اوہنے تِن چار دن کوڑا نئیں سُٹیا تے آقاؐ اوہدے کار جا اپڑے تے پُچھیا پئی بی بی خیر اے، توں میرے تے کوڑا نئیں سٹیا؟   جدوں اوہنے آقاؐ دا ایہہ اخلاق ویخیا تے اوہنے کلمہ پڑھ لیا، او ایڈی متاثر ہوئی۔

 بٹ ساب، تُسی ذرا پاکستان وچ آقاؐ دے نام لین والے کسی اِک مولوی تے کُوڑا تے سُٹ کے ویخو!"

 اور اس "سُٹ کے ویخو" کا جواب، صاحبو، آپ بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ 

تالمت بالخیر۔