جمعہ، 18 اپریل، 2014

ایمان بچانے کا صحیح طریقہ؟

یارو، میں پچھلے ایک سال سے ایک ہی روٹ سے اپنے دفتر کی طرف آتا ہوں۔ یہ ایف ٹین مرکز کی جانب جانے والی مین روڈ ہے اور یہ اسلام آباد کے بڑے مراکز میں شامل ہے۔ ایف-سیکٹر میں واقع تقریبا تمام مراکز کی طرح، یہاں بھی ڈیزائنر بوتیکس ہیں اور متمول طبقے کو اپنی پراڈکٹس کی جانب متوجہ کرنے کے لیے، بڑے چھوٹے تجارتی اور صنعتی ادارے سڑک کنارے اپنی اپنی مصنوعات کو مشتہر کرتے ہی رہتے ہیں۔ آج صبح دفتر آتے ہوئے، میں نے رستے میں کیا دیکھا، کچھ نہ لکھوں گا، آپ خود ہی ملاحظہ کرلیجیئے:



آپ نے دیکھا کہ روڈسائڈ ہورڈنگز پر نظر آنے والی تمام خواتین ماڈلز، جو کہ مکمل لباس میں ملبوس تھیں، کے چہرے کالے اور وہ سائن بورڈز پھاڑ دیے گئے ہیں۔

ابھی ایک اور بینر بھی ملاحظہ کیجیے، اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں پائے جانے والی اکثریتی مذہبی رسومات کو سبسکرائب نہ کرنے کے باوجود، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، بھلے میں اس قسم کی تقریبات سے اتفاق نہ کرتا ہوں:

چیزیں، بلاشبہ اپنے دائرے میں ہی اچھی لگتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ مجھے اگر  اسلام کے نام پر عورت کے وجود سے آبسیسڈ "پاکیزہ پاکستانی مجاہدین" کی تقریبات، خیالات اور انکے تصورِ زندگی پر کوئی اعتراض نہیں، تو یہی لوگ مجھ سوں کو آرام و سکون سے پاکستانی، بلکہ جنوبی ایشیائی تہذیب کے معیارات کے مطابق کیوں نہیں زندگی گزارنے دینا چاہتے؟ اب بندہ قسم سے کیا کہے، کیا کرے؟


خدا کا شکر ہے کہ نیچے نظر آنے والا ہورڈنگ ایک عمارت کی چھت پر ہے۔ اور اس میں بھی مجھے تو کپڑوں کا اشتہار ہی نظر آ رہا ہے، اور کچھ نہیں۔ آپکو کیا دِکھتا ہے ویسے؟ 
میں ابھی چالیس کے پیٹے میں ہوں۔ الحمداللہ صحتمند اور ایک سرگرم زندگی گزارتے ہوئے محنت کرتا ہوں۔ مجھے، اور یقینا   پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، کبھی ان روڈ سائیڈ ہورڈنگز سے کوئی خیالِ بد نہ آتا ہوگا۔ مجھ سے دنیا داروں، اور شاید آپ جیسے بھی، اگر روڈسائڈ ہورڈنگ پر ایک ماڈل خاتون دیکھتے ہیں تو شاید شعوری طور پر رجسٹر بھی نہ کرتے ہوں، مگر جن مجاہدینِ عظام نے یہ کارنامہ ہائے عظیم سرانجام دیے، کبھی آپ نے سوچا کہ انکے دماغ میں عورت کا وجود پاکستانی معاشرے میں فحاشی اور جنس کے ساتھ ہی کیوں جُڑا ہوا ہے؟

دماغ شاید میرا بھی خراب ہے، مگر صاحبو، دوجی جانب تو شاید  "افلاطونیت و بقراطی کی انتہا" ہے۔ اسلام کی آڑ میں اپنی دماغی اور جنسی کج رویوں پر تو کبھی کالی سیاہی پھیرنی نہیں، عورت چونکہ ویسے بھی "آدھی انسان" گردانی جاتی ہے اپنے ہاں کی معاشرت میں، چلو سارا بس اور سارا زور اس پر ہی سہی۔

 تو پوچھنا یہی ہے کیا یہی واحد طریقہ بچا ہے اپنے فہم کے  ایمان و اسلام  کو بچانے اور پھیلانے کا؟