ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

پاکستان مردہ باد



جی، شکریہ کہ جانتا ہوں کہ آ پ میں سے ایک مناسب اکثریت نے اس بلاگ کا ٹائٹل دیکھتے ہی اسکی ترکیب اور اجزا کے بارے میں ایک اندازہ لگا یا ہوگا۔ چند ایک نے میرے الٹے سیدھے بلاگ کی محبت میں اسے کھولا ہوگا، چند ایک نے رواداری میں کہ مبشر اکرم نے اسے شئیر کیا ہے تو اسکے لنک پر کلک کر ہی دو۔ اپنے ایک ٹویٹری یار، نام نہیں لکھوں گا، نے آج سویرے سویرے ہی اپنے اس حسنِ سلوک کی دھونی دے دی کہ جسے میں "عمومی و میعاری پاکستانی رویہ" کہتا ہوں کہ جو کسی شخص اور اسکے نظریات کی شرح کو جانے بغیر ذات پر بات کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اس میں کوئی صحتمندانہ رویہ یا گفتگو کی لگن نہں ہوتی، بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ "میں چونکہ اگلے بندے کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا، لہذا اسکے خلاف جہاد فی الفیس بک یا جہاد فی الٹویٹر لازم ٹھہرا،" یہ اس لیے بیان کیا کہ شاید ایک اکثریت اس بلاگ کو اسی نیت سے کلک کرے گی تاکہ مبشر اکرم کی شان میں ویسی ہی قصیدہ گوئی کی جائے جو ایک عظیم انقلابی رہنما پچھلے دو ماہ سے میاں نواز شریف کی شان میں تقریبا ہر روز فرماتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ دونوں کی اناؤں کا قد ہی اتنا ہے کہ دونوں کو شاید فرق ہی کوئی نہیں پڑرہا، ملک و قوم کی خیر ہے!

میرے پڑھنے والوں نے تنقید بھی کی مجھ پر، بعض نے عقلِ کل کے شوق میں مبتلا جھوٹا دانشور کہا، بعض نے اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے ماں بہن کی گالیاں نکالیں، بعض نے سیاسی غلامی کے طعنے مارتے ہوئے اپنے عظیم رہنماؤں کی سیاسی غلامی میں اپنی وفاداری ثابت کی، بعض نے میرے دینی فہم پر اعتراض کیا اور ایک اکثریت نے جب رائے زنی کی تو مجھے جانے، اور پڑھے بغیر صرف ایک ہی تحریر کی بنیاد پر میری جانب اپنے تاثرات کے ایٹم بم چلا ڈالے، یہ سمجھے بغیر کہ حسن کلام بھی آقامحمدﷺ کی سنت ہے، مگر کیا کیجیے، عقیدہ شاید صفر ڈگری پر منجمد، عقیدت سو ڈگری پر ابلتی ہوئی ذہنیت کے عظیم پاکستانی نوجوان ایک ایسی، معذرت، عجب حقیقت بنتے جارہے ہیں جو اپنی ذات کے گرداب اور ذہنیت کے کنویں میں چھپاکے مار کر سماجی و دماغی لہریں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور نئے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ان لہروں سے بجلی پیدا کرکے پوری دنیا کو برآمد کریں۔ مفت مشورہ ہے۔

لیکچر دینا مقصود کبھی ہوتا ہی نہیں کہ مجھے جو حقیقت میں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میں اپنی ذات کے اختیار سے باہر اور کسی بھی قسم کے بڑبولے کام کو دور سے سلام کرتا ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی یہی کہتا رہتا ہوں کہ ہونے والے، مگر چھوٹے چھوٹے کام کیا کیجیے، کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ایک دن جُڑ کر بہت بڑی کامیابی نظر آتی ہیں اور سوچ کا یہ سلیقہ، میرے دوستو، مجھے اس تنقیدی شعور، جسے انگریزی میں کریٹیکل تھنکنگ، نے دیا جسکی بنیاد میرے دو سینئرز نے رکھی: وجیہ الاسلام عباسی اور شکیل چوہدری صاحبان۔ وگرنہ آج سے کوئی سترہ سال قبل، خادم بھی سو ڈگری پر اُبلتا اور کھولتا، امت مسلمہ اور نشاة ثانیہ کا ایک عظیم کھوجی و مجاہد تھا۔ ہر وقت کے ردعمل میں مبتلا، عباسی صاحب اور شکیل صاحب نے مجھے اپنے ذہن، فکر و سوچ کی لگامیں تھامنا سکھایا۔ ابھی بھی پھسلتا ہوں، مگر کم کم، بہت ہی کم۔ اور جب بھی پھسلتا ہوں اب، سیکھتا ہوں۔ اپنے بارے میں بتائیے اور سوچئے گا؟

تنقیدی شعور، میرے یارو، تصویر کے اگر تمام نہیں تو اکثریتی رخ دیکھنے کی صلاحیت سے ہی ممکن ہوتا ہے اور یہ رخ آپ کو صرف اس وقت ہی سکھا سکتے ہیں کہ جب اس میں سے آپکی سوچ اور آپکی شخصیت کے زاویوں کو ایک شدید چبھن کا احساس ملتا ہو۔ ہم میں سے زیادہ تر اس چبھن کے احساس کے ہاتھوں اپنی ذات کے خول میں مزید گہرائی تک دھنس جاتے ہیں کہ وہی ایک محفوظ رستہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی ذات کو پیاری سوچ کی حفاظت کرتا ہے، مگر اس سے آپ ایک انسان کے طور پر جسمانی طور پر تو بڑھتے ہیں، مگر اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک شخص کے طور پر نہیں بڑھ سکتے۔ جب بھی آپ کی ذات پر کسی بھی معاملہ کی ہمہ جہتی سے شدید چبھن ہوتی ہو، تو صاحبو، وہی تو وقت ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی شخصیت و ذہن میں موجود زنگ کو کھرچنے کے قابل اور قریب تر ہوتے ہیں۔ ہمت کرکے آپ جب اپنی اس سوچ کے زنگ کو کھرچتے ہیں جو ریاست، معاشرہ اور آپکی ذات آپ پر لگا دیتا ہے، تو جناب، اسکے نیچے سے سوائے چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کے کچھ اور برآمد نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چمکتی ہوئی سوچ و ذہنیت کچھ عرصہ کے بعد ایک نئی سوچ کی چبھن کا شکار ہو تو اس وقت بھی نہیں گھبرانا بلکہ اس عمل کو چلاتے ہی چلے جانا ہے، وگرنہ آپ بحیثیت ایک وجود تو بڑھ رہے ہوتے ہیں، بحیثیت ایک ذہن و شخصیت نہیں۔ اور بہتر یہی کہ ذات کے ساتھ دوسرا معاملہ رہے وگرنہ دماغ کا مسل صرف عضو ہی بن کر رہے گا، خیالات و نظریات کے معاملہ میں آپکی ذات اور وجود کا انجن نہ بن پائے گا۔

اسی لیے تو ایک فقرہ ایجاد کیا کہ: "آخری حقیقت میں تشدد، غربت، جہالت اور ترقی، انسان کا اپنا ہی انتخاب ہوتا ہے!" خیال کیجیے کہ آپکے انتخابات کیا ہیں زندگی میں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے محترمی وجاہت مسعود اور ڈاکٹر مبارک حیدر صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک علی نے بہت عمدہ تحاریر پیش کی ہیں، مگر "بیلی پور کے کارل مارکس،" "لالہ موسیٰ کے بِل گیٹس،" "لاہور کے حکیم لقمان،" "رحیم یار خان کے خلیفہ،" "دلربا مقبول جان لیوا" اور "دنیا کے بے۔نذیر پلاٹوی" وغیرہ جیسوں کے شوقین، اپنی رائے سازی روز کی بنیاد پر کی گئی قلم کی مزدوری پر کرنے والے، اوپر بیان کیے گئے تین مصنفین کی کتب و کالمز کو "بورنگ" ہی پائیں گے، مگر کوشش تو کیجیے کہ اس سے آپکی "آخری حقیقت" آپکی "روزانوی حقیقت" سے کہیں بہتر برآمد ہوگی، میں چیلنج کرتا ہوں۔

تنقیدی شعور کے حوالے سے سب سے زیادہ ضروری تین الفاظ سے دوستی اور انکی دل و جان سے قبولیت ہے۔ وہ تین الفاظ ہیں: لیکن، مگر، اگر۔ کیسے؟ چند ایک فقرات آپکی سوچ کو مہمیز لگانے کے لیے اور پھر اجازت:

۱۔ پاکستان امت مسلمہ کا عظیم ملک ہے لیکن اس ملک میں کوئی دو کروڑ بچے سکول نہیں جاسکتے۔
۲۔ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہوگا، مگر اس کے ساتھ جنگوں میں شہید و ہلاک ہونے والے لوگوں سے زیادہ لوگ پاکستان کے اندرونی تشدد میں مارے گئے۔
۳۔ تمام مسلم ممالک عظیم اقوام ہیں، مگر ان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین پچاس یونیورسٹیز میں شامل نہیں۔
۴۔ عمران خان بہترین انسان ہونگے، لیکن انکی سیاست میں تضادات بھی ہیں۔
۵۔ جماعتِ اسلامی اپنے آپکو پاکستان کی فکری اساس کی محافظ گردانتی ہے، مگر پاکستان کی اندرونی سیاسی و معاشرتی آزادیوں کے معاملہ میں اسکا کردار ایک جائزہ چاہتا ہے۔
۶۔ بھٹو ایک عظیم رہنما ہونگے، مگر وہ اپنی ذات کی انانیت کے بھی بڑے وکٹم تھے۔
۷۔ نواز شریف کی حکومت اچھے کام کررہی ہوگی، لیکن بہت سے معاملات میں یہ بنیادی ریاستی تبدیلیاں ممکن نہ بنا سکی ہے ابھی تک۔
۸۔ زرداری صاحب زیرک سیاستدان ہیں، مگر سودے بازی کی ہی سیاست کی۔
۹۔ حمزہ شہباز و مریم نواز میں قابلیت ہوگی شاید، لیکن وہ اگر حکمران گھروں کے چشم و چراغ نہ ہوتے تو انکا سیاسی کردار کیا اس اونچائی کا ممکن تھا؟
۱۰۔ پاکستان اور بھی بہتر طریقہ سے چلایا جا سکتا ہے، اگر اس میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا کردیں۔
۱۱۔ پاکستان آج ایک کہیں بہتر ریاست اور معاشرہ ہوتا، اگر پاکستانی ریاستی ادارے جمہوریت، گورننس اور شہری حقوق کے سیاسی خیالات پر عمل کرنے والے ہوتے۔
۱۲۔ کرسٹینا لیمب لکھتی ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کا ڈرائنگ روم عالیشان تھا، لیکن اس میں بُک شیلف نہ تھی۔

مثالیں اور بھی ہیں، مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔

اور سب سے اہم تنقیدی و شعوری مہمیز آپکی نظر کہ:

اس بلاگ کا عنوان تو "پاکستان مردہ باد" ہے، لیکن اس میں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں۔

اور محترمین پھر دیکھ لیجیے کہ بلاگ کے عنوان پر اگر آپ نے ایک رائے قائم کرلی ہوتی تو شاید یہ فقرہ پڑھ ہی نہ رہے ہوتے۔ پھر بھی کسی عظیم مجاہد کی عظیم مجاہدانہ سوچ سے بچنے کےلیے اپنے بلاگ کے ٹائٹل کے "گناہ" کو دھوتے ہوئے اختتام ایک نعرے پر ہی کرونگا: پاکستان زندہ باد!