پیر، 24 نومبر، 2014

مائیں - ابتدائیہ

میں اپنی اور اپنے چند دوستوں کی ماؤں پر چند بلاگ تحریر کروں گا۔ اور یہ بلاگ میری طرف سے اپنے ان دوستوں کو تحفہ ہیں۔ اللہ سے کیا گلہ کرنا کہ ہماری معاشرت میں اللہ سےاسکے مجھ سے عام و گناہگار بندے کی گفتگو کو سمجھا اور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، اور مختلف فتاویٰ تیار ملتے ہیں، مگر اپنے رب سے ایک عاجزانہ گلہ تو کر ہی سکتا ہوں کہ مولا، ماں دیتا ہے، تو پھر واپس کیوں لے لیتا ہے؟ رحیم ہے تو کس طرح اپنے بندوں کے سروں سے مائیں اٹھا لیتا ہے؟ 

میری والدہ کا نام نسیم اختر ہے، وہ حیات ہیں، ملکوال میں رہتی ہیں، میرے لیے  ہر وقت دعا کرتی ہیں اور میں جو کہ اب اتنا ناخلف بھی نہیں رہا، انکی دعاؤں کی چھتری عموما محسوس کرتا ہوں تو کسی بھی حال میں ہوں، مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتاہوں۔ شاید جب انکی گود میں تھا تب بھی ایسا ہی کرتا ہوں گا۔ کہتے ہیں کہ بچپن کی ڈلی عادتیں انسان کے ساتھ ساری عمر کسی نہ کسی روپ میں رہتی ہیں، کیا معلوم انکی گود میں جب بھی کبھی ڈرلگتا ہو تو انکی آواز سن کر مسکرا اور آنکھیں بند کرکے، انکے ساتھ چمٹ جاتا تھا۔ معلوم تو نہیں، مگر ایک احساس یہی ہے۔ بس سوچ کر خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ وہ آج میرے پاس ہیں، کل نہیں ہونگی، کہ مالک کائنات کا یہی اصول ہے۔ کہاں سے تلاش کرتا پھروں گا میں کہ جس کی ممتا بھری آواز سن کر مسکرا کر آنکھیں بند کرلیتا تھا؟

میرا یار جعفر کہتا ہے کہ مائیں پاگل ہوتی ہیں انکے لیے کہ جن کو نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیتی ہیں۔ پیٹ میں ہو یا گود میں، اولاد کے دکھ اٹھاتی ہیں، دکھ زیادہ اور سکھ کم۔ عموما بے لوث رہتی ہیں، اور جب کبھی بہت مجبور ہوجاتی ہیں تو بیٹھ کر بے بسی سے آنسو بہا لیتی ہیں اورانکےلیے کہ جن کو جنا ہوتا ہے، سوتے جاگتے، ہر حال میں دعا کی حالت میں ہی ہوتی ہیں۔ جعفر ٹھیک ہی تو کہتا ہے، اتنا ایثار و قربانی اور مسلسل دعائیہ کیفیت، کسی پاگل پر ہی چوبیس گھنٹے طاری رہ سکتی ہے۔ مجھ سے خرد و عقل کے داعی نے تو آج تک شاید کسی کے لیے چوبیس سیکنڈ بھی مسلسل دعا نہ کی ہو۔

ماں اور اولاد کا رشتہ یارو، احساس کا رشتہ ہوتا ہے۔ شعوری الفاظ کافی ہو ہی نہیں سکتے کہ اس رشتے کو شعور کے تحت الفاظ کا لباس اوڑھانا ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ اس رشتے کو احساس کے ذریعہ چھو نہیں سکتے تو آپ جان ہی نہیں سکتے کہ یہ رشتہ ہے کیا۔ احساس کی بات ہی تو ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کی بیماری کے دوران اسے سٹیم-سیلز بھیجتا ہے، اسے اپنے حصے کی خوراک روانہ کرتا ہے، پیٹ میں ہی اپنی ماں کی بھوک کو محسوس کرکے اپنے حصے کی خوراک گھٹا دیتا ہے، اسکی خوشی میں خوش اور اسکے غم میں غمگین ہوتا ہے۔ یہ دعوے نہیں، سائنسی تحقیقات ہیں، اور اگر اسکو احساس کے ہاتھ سے اگر چھوا نہ جا سکے تو اسکو محسوس کرنا ممکن ہی نہیں۔

ٹالسٹائی نے اپنے عظیم ناول "وار اینڈ پیس" کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ دنیا میں تمام خوش لوگ ایک ہی طرح سے خوش ہوتے ہیں جبکہ افسردہ لوگ اپنی اپنی طرح و طرز پر ہی ناخوش ہوتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان خوشی اور افسردگی کی تقسیم سے قطع نظر، ماں ان تمام خوش یا افسردہ لوگوں میں شاید ایک ہی  طرح سے خوش اور افسردہ ہوتی ہے کہ جب اسکی اولاد خوش یا افسردہ ہو۔ 

اولاد اپنی ماں کی قدر جان ہی نہیں سکتی، اور یہ میرا حتمی خیال ہے، اور اگر کسی کو اختلاف ہوتو ان سے پوچھ لے کہ جن کے سروں پر یہ سایہ اب موجود نہیں۔ پاس موجود ہوتی ہے تو اولاد کے لیے عموما گھر کے ایک فرد سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھ پا سک رہی ہوتی، بیمار ہوتو دوسرے سے تیسرے دن اولاد کو اپنے کاموں سے فرست ملنا مشکل ہو جاتی ہے، سر سے چلی جائے تو میں نے بڑے بڑے مضبوط انسانوں کو اپنی ماؤں کی قبر پر لیٹے، مٹی میں لپٹے روتے دیکھا ہے۔ شاید تب ہی احساس ہوتا ہے کہ جس نے جنم دیا تھا، آج اسکی چھتر چھاؤں سر پر باقی نہیں رہی۔ کوئی نہیں رہا باقی جو راتوں جاگ کر دعا کرتا ہوں، عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد، مغرب تک مصلیٰ پر بیٹھ کر مسلسل دعائیں کرتا ہو، رات جاگتا ہوکہ اولاد گھر آئے تو اسکا کھانا گرم اسکو ملے، بیمار ہوتو اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھے، سرھانے بیٹھ کر پڑھ پڑھ کر پھونکیں مارے، اپنی سادگی میں علاج کی تمام کوشش کرے کہ کسی طرح اس کے پیٹ کا جنا ٹھیک ہو جائے۔ اور اولاد؟ لکھ چکا کہ دوسرے سے تیسرا دن، اور فرست ملنا مشکل!۔

انسانوں کو جوڑنے والی باتیں، انکو آپس میں توڑنے والی باتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ صرف یہ کہ اپنے اپنے انتخاب کی بات ہوتی ہے۔ ماں کی مشترکہ قدر اس لیے کہ ماں ہم تمام کے لیے صرف ماں ہی تھی، ہے، اور رہے گی۔ میرا آپ سے جھگڑا ہوتا ہو تو بھلے ہو، آپکی ماں کے سامنے میں بھی جھک کرمؤدب ہی کھڑا ہونگا۔ مجھ سے آپ اگر نہ جڑ سکیں تو نہ جڑیں، ماؤں کی مشترکہ اقدار کے حوالے سے، جو وہ اپنے بچوں کے لیے محسوس کرتی ہیں، میرے دوستو، میں بھی ویسا ہی ہوں، جیسا کہ آپ ہیں۔

جڑنا ہے یا ٹوٹنا ہے، آپکی مرضی ہے، مگر ماں جوڑنے والی ہے، توڑنے والے ہم اور آپ ہیں۔

بڑی بڑی باتیں تو میں نجانے کب سے لکھ اور کر رہا ہوں، اب ماؤں پر ہی کچھ کہ انکی موجودگی میں اور انکے جانے کے بعد انکی یاد اپنے اور آپ سب کے لیے موجود رہے۔

یہاں بات ختم کرونگا اور اس جمعہ، یعنی 28 نومبر بلوچ ماں کا دکھ تحریر کروں گا۔ اس سے اگلے جمعہ کو ایک سندھی ماں کی مجبوری، پھر ایک پشتون ماں کی بےبسی، اور پھر ایک پنجابی ماں کی افسردگی۔ آخر میں، میں اپنی ماں کے بارے میں لکھوں گا۔ یہ سارے خاکے حقائق پر مبنی ہونگے، سچ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

 اس جمعہ کو۔۔۔انشاءاللہ۔