جمعرات، 20 فروری، 2014

فوجی آپریشن، طالبانی شریعت اور معاشرتی چیاؤں چیاؤں

ارادہ تو لکھنے کا تھا کہ پاکستانی کس طرح اپنے اوپر مسلط کردہ خودساختہ سازشی نظریات اور تیزابی نفرت کو رد کرکے امریکیوں  اور امریکہ سے سیکھ سکتے ہیں مگر کل شام دوستوں کے ساتھ ایک محفل میں چند ایک روائتی باتوں نے توجہ اس طرف دلا دی۔ ابھی پاکستانیوں کی تقریبا تمام محافل میں آپکو لوگ کتابوں، موسیقی، موسم، راگ، سیاحت، نئے خیالات وغیرہ پر بات کرتے نہ ملیں گے۔ بات اگر ہو رہی ہوتی ہے تو سیاست، فوج، طالبان اور حالیہ آنےوالے انقلاب کے بارے میں۔  انقلاب؟ عقلمند را اشارہ کافی است!

کل کی محفل میں ایک صاحب بڑھ چڑھ کر فوج پر تبرے بھیج رہے تھے۔ کام کے وہ اکاؤنٹیٹ ہیں اور پچھلے نو سالوں سے وہ اپنے سی-اے کے درمیان میں کہیں اٹکے ہوے ہیں اور اگلے نو سال تک انکا ارادہ تو یہی لگتا ہے کہ سی-اے ان سے ہونا نہیں، کیونکہ ملک کے بڑے بڑے مسائل جو حل کرنے ہوتے ہیں۔ انکی چار پانچ منٹ کی زبردست تقریر کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ یار فہیم (یہ انکا اصلی نام نہیں)، ذرا یہ تو بتا کہ اگر کھاریاں سے ایک ٹینک کوئٹہ بھیجنا ہوتو اسکا پروسیجر اور پراسس کیا ہے اور یہ کہ پاکستانی فوج کی کتنی کورز اور کمانڈز ہیں؟ موصوف نے پلکیں جھپکیں اور کہا کہ میں کوئی فوجی سپیشلسٹ ہوں؟ میں نے جواب دیا کہ محترم، آپ پچھلے کتنے ہی منٹوں سے فوج، ایجنسیوں، سیاست وغیرہ پر بحث کر رہے ہیں، تو میں نے سوچا کہ شاید آپکے پاس بہت علم ہے، مگر اب معلوم ہوا ہے کہ آپکے پاس علم نہیں،صرف  رائے ہے اور وہ بھی اپنے جذبات پر مبنی سنی سنائی باتوں پر۔ کچھ اور بھی گفتگو ہوئی، مگر بنیادی جزو یہی تھا۔

دوستو، ذرا اپنے دل کو ٹٹولیے اور اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ پاکستانی فوج، سیاست، ریاست، ریاستی اداروں اور دیگر قومی امور پر آپکی گفتگو میں "علم اور رائےزنی" کا تناسب کیا ہے؟ آپ سے اپنے دل کو ٹٹولنے کو اس لیے کہا کہ انسان اپنے تئیں شاید خدا سے تو جھوٹ بول سکتا ہو، مگر اپنی ذات سے جھوٹ بولنا ناممکن ہوتا ہے، لہذا، دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچیں کہ آپ کی ایسے موضوعات پر گفتگو میں علم اور رائے کا تناسب کیا ہے؟ اور کیا وہ تناسب صحتمندانہ ہے، جذباتی ہے، علمی ہے یا جاہلانہ ہے؟ یاد یہ بھی رکھیں کہ، میرے سمیت، ہم سب میں کہیں نہ کہیں ایک جاہل چھپا بیٹھا ہوتا ہے اور دوسرے بھلے اسکو نہ جانیں، ہم اچھی طرح سے جانتے ہوتے ہیں۔

فوجی آپریشن کے معاملہ پر میں بھی کوئی ایکسپرٹ نہیں، یہ سچ ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ کچھ ڈائنامک سے واقفیت ہے۔ آجکل سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر آرمی پر ہر قسم کی طنزآرائی ہو رہی ہے اور ایک سیاسی شور برپا ہے کہ جس میں ریاست، سیاست اور معاشرت طالبان کی جاہلیت کی بابت کوئی یکسو فیصلہ یا حکمتِ عملی بنانے سے قطعا قاصر نظر آ رہے ہیں۔ وہ بھی کہ جو اصل میں اپنے سی-اے کے نویں سال میں ہیں، آرمی، اسکے آپریشنز اور اسکے آس پاس کی سیاست کے بزرجمہر بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کے سانحے کے بعد کوئی کلاسیکی انداز کا آرمی آپریشن نہیں ہوا ۔ ابھی تک۔ 1973-74 میں ہونے والا بلوچستانی آپریشن بھی ایک بھرپور سکیل کا آپریشن نہ تھا (جانتا ہوں کہ کئی دوست اختلاف کریں گے) کہ ایک بہت بڑے علاقہ میں آرمی نے کارروائی نہ کی، بلکہ چند محدود علاقوں میں آپریشن کیا گیا۔ آپ سب کے اپنے اپنے اذہان ہیں اور اس رائے سے اختلاف بھی آپکا بالکل حق ہے، مگر میری نظر میں ایک بھرپور آرمی ایکشن کہ جس میں ریاست فوجی تشدد استعمال کرنے کا مکمل حق اپنے فوجی بازو کو دے دیتی ہے ابھی تک اپنی پوری طاقت سے 1971 کے بعد پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہوا۔

سوات آپریشن کے بعد، جب سویلین اور عدالتی اہلکاران نے گرفتار شدہ دھشتگردوں کے ساتھ  قانون کے مطابق سلوک میں دیر کی تو، چند ایک لِیک ہونے والے واقعات کو چھوڑ کر، فوج نے محدود پیمانے پرکلاسیکی فوجی آپریشن کیا اور اس پر یار لوگوں نے بھی کافی ژالہ و سنگ باری کی اس بات کو سمجھے اور جانے بغیر کہ ایسے معاملات کوئی خلاء میں واقع نہیں ہوتے اور سویلین اور عدالتی اہلکاران کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ فوجی آپریشن حل نہیں پیدا کرتا، بلکہ ایک حل کےلیے ریاست کے حق میں زمین ہموار کرتا ہے اور ایک خاص مرحلے کے بعد سویلین قیادت، اجتماعی سیاسی شعور اور سویلین ادارے آگے بڑھ کر اس صورتحال کی باگ دوڑ سنبھال لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوا اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ زارداری صاحب نے پانچ سال فاٹا کادورہ  نہ کیا، کے پی کے وزیراعلیٰ ہوتی صاحب پشاور اپنے گھر سے ہی سوات کے پراجیکٹس کا افتتاح کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

آپ بھلے جو مرضی کہیں، مگر فوج نے کچھ سپیس بہرحال فراہم کیا ہے سویلین قیادت کوکہ معاملہ سازی کرکے پاکستان کا سیاسی اور معاشرتی کلچر بہتری کی طرف لے کر جایا جائے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ دنیا بھر میں سیاستدان ڈنڈے یا طاقت نہیں بلکہ اپنے فہم، وژن، سیاست، گورننس اور ان سے پھوٹنے والی جمہوری روایات کی بنیاد پر ہی فوج کو طاقت کے مراکز سے دور رکھتے ہیں اور پاکستانی فوج کے سیاسی گناہ بے شک بہت زیاد ہ ہیں، مگر پاکستانی سیاست ابھی اس طرف چلنا شروع ہوچکی ہے اور اسکو آہستہ آہستہ ہی چلنا ہے کہ فوج کو صرف اس کام تک ہی محدود رکھا جاسکے کہ جسکے لیے اس کا وجود موجود ہوتا ہے۔ اس میں ابھی وقت ہے، بہت وقت اور یہ قطعی طور پر ایک انقلابی طرز پر نہ ہوگا، بلکہ اسکا رستہ ارتقائی تھا، ہے اور رہے گا، لہذا اسکو شعوری طور پر جان کر رکھیے۔


آخر میں کہنا یہ ہے کہ فوجی آپریشن ایک قومی یکسوئی سے ہوتے ہیں۔ سیاست و قوم اگر ذہنی طور پر منقسم ہوتو کوئی آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سوات کا معاملہ آپکے سامنے ہے اور وہ جدید فوجی تاریخ میں ایک مشکل ترین اربن وارفئیر بیسڈ آپریشن تھا۔ فوج نے سیاسی و سویلین قیادت کے لیےوہ زمین فراہم کر ڈالی کہ جس میں انہیں آگے بڑھ کر معاملات کی باگ سنبھالنا تھی، مگر یہ کام ابھی تک مناسب طریقہ سے نہیں ہوسکا، مگر مثبت طریقے سے بہرحال آگے بڑھ رہا ہے، بھلے سست روی سے ہی سہی۔

ایف سی کے 23 گلے کٹنے کے باوجود، بحیثیت ایک پاکستانی، میں مذاکرات کےلیے ایک آخری/آخری/آخری موقع کے حق میں ہوں کیونکہ جانتا ہوں کہ منقسم دماغ کےساتھ قوم کا ایک طبقہ، ایک کلاسیکی فوجی آپریشن پر، چیاؤں چیاؤں کرے گی اور پھر فہیم صاحب جیسے اعلیٰ پائے کے مفکر ہونگے، پاکستانی میڈیا کے نوشیرواں ہونگے اور سوشل میڈیا کے چیتے۔ اس لیے فوجی آپریشن، جو کہ میرے خیال میں اب شایدطالبان کی طرف سے جلد کے نتیجے نہ ملنے پرہوگا، ایک یکسوئی کے ساتھ ہی ہوتو بہتر۔ آپ بھی ریاست کا ساتھ دیں، کہ جیسی بھی ہے ایک منظم ادارے کے طور پر موجود ہے۔ مجھ سمیت آپ صبح، دوپہر اور شام حکومت، سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کا ٹھٹھہ اڑا سکتےہیں، ذرا یہی کام ملا فضل اللہ مدظلہُ سرکار، قبلہ و کعبہ سید منور حسن، حضرتِ گرامی شاہد اللہ شاہد وغیرہ کے ساتھ تو کرکے دیکھیں، پھر "سواد نہ آئے تے پیسے واپس!"

اور اگر آپ نے ریاست کا، ریاستی اداروں کا، موجودہ صورتحال پر اپنی سیاست کو درست ثابت کرنے کا، اپنے رہنماؤں کے فرموداتِ عالی کے نعرے مارنے کا ہی کام سرانجام دینا ہے تو یاد رکھیں، یہ خلجان ایک دن آپکے دروازے پر جاہلان کے نمائندے کی حیثیت سے دستک دے گا۔ پھر نہ آپ محفوظ ہونگے، نہ آپکی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، عزت، زندگی اور معاشرہ۔ پوچھنا ہوتو ان سے پوچھیے کہ جنہیں خطوط کے ساتھ گولیاں ملتی ہیں اور جنہوں نے سوات میں جاہلان کی "جاہلانہ شریعت" کا مزہ چکھا ہو۔


میں اس معاملے میں مکمل کلئیر ہوں کہ جیسی بھی ہے، میں پاکستانی ریاست اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے ساتھ ہوں۔ آپ بھی فیصلہ کرلیجیے یا پھر فہیم صاحب کی طرح اپنا سی-اے چھوڑ کر فوجی ایکسپرٹ ہی بننا ہے؟