اتوار، 23 فروری، 2014

میرے پاس ٹائم نہیں ( بسلسلہ "کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا" کہانی نمبر2)

یہ مضمون میں اپنے "اصلی اور ٹویٹری جگرز" سید علی حمید، محسن حجازی، واسع عظیم ،  استاد جافر پھیسلابادئیے  اور دیگر یاروں کے نام کرتا ہوں۔

جون 2009:

بٹ صاحب، ان سے ملیں، یہ احمد سلیم ہیں، میرے ایک سینئر صحافی دوست نے اسلام آباد کلب کی ایک فارمل گیدرنگ میں ایک صاحب کا تعارف کروایا۔ کیا حال ہیں، احمد صاحب؟ میں نے پوچھا۔ ٹھیک اور بس آپ سے ملنے کی خواہش تھی کہ ممتاز بھائی نے آپکے بارے میں بہت بتا رکھا تھا،احمد صاحب نے کہا اور ممتاز بھائی نے اس بات پر ایک "خواہمخواہ کا معاشرتی" قہقہہ لگایا اور پھر آس پاس کی باتیں شروع ہو گئیں۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ احمد صاحب ایک بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے کے کنٹری ڈائریکٹر تھے اور انکو اپنے ادارے کی بابت کئی ایک پروسیجرل مسائل کا سامنا تھا۔ اسی محفل میں ممتاز صاحب نےمجھے کہا کہ "ملکوال کے شہزادے، احمد کی مدد کر دو، بےچارہ بہت دور کے ایک ملک سے ادھر آیا ہے، اچھا انسان ہے، کل کو ہمارے تمھارے کام بھی آئے گا۔" ممتاز صاحب میرے لیے قابل احترام شخصیت تھے اور انکی بات مانتے ہوئے میں نے اور احمد صاحب نے اپنے وزیٹنگ کارڈز ایکسچینج کیے اور پھر اگلے تین ہفتوں میں، میں نے انکی بھرپور مدد کی تاکہ انکے ادارے کے کئی پروسیجرل معاملات حل ہو سکیں۔ ہم دونوں اچھے دوست بن گئے اور ہمارا ملنا جلنا شروع ہو گیا۔

پھر میں نےایک اعلیٰ ادارے کے نوکری چھوڑ دی اور فیصلہ کیا کہ اب خود سے کچھ کرنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے خود پر مکمل بھروسہ تھا اور مغربی طرز پر میں بھی کوئی بہت بڑی جوہری تبدیلی لےکر آؤں گا، مگر بہرحال ایک کوشش کرنے کا مزاج تھا اور سوچا کہ اسکو ذرا چیک تو کر لیا جائے۔

خواہمخواہی تبلیغ-1:

ہم جیسے معاشروں میں، ماہانہ آمدنی کے جال میں پھنسے لو مڈل کلاس لوگ ساری عمر اپنی زندگی اور عمر کا خراج ہی دیتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے خواب بنتے ہیں، مگر پھر بجلی، گیس، پانی، فون کے بل ساری کی ساری "مثبت گیس" نکال باہر کرتےہیں۔ پاکستانی لومڈل کلاس، میرے اپنے تجربے کے مطابق، نہایت/نہایت/نہایت کنفیوزڈ رویے کی حامل ہے اور میں چونکہ خود اسی طبقہ سے ہوں، میں بہت سی مثالیں اپنی زندگی، خاندان، یاروں دوستوں اور اپنی طرز کی معاشرت رکھنے والوں کی زندگیوں سے دے سکتاہوں۔ موضوع کی طرف آتے ہیں ابھی، مگرایک مثال یہ دیکھ لیجیے کہ آپ کسی بھی لومڈل کلاس سے اسکا حال پوچھیں تو تین چار گھسے پٹے ہوئے جواب آئیں گے:

1۔ خدا کا شکر ہے جی، گزر رہی ہے۔
2۔ شکر الحمداللہ، اللہ کا بڑا کرم ہے، سب ٹھیک ہے۔
3۔ جو دن گزر جائے اچھا ہے۔ بس اللہ کا کرم ہے۔

مگر چند سیکنڈز کے بعد ہی شاید اسی سانس میں میرے طبقہ کے لوگ مہنگائی، برے حالات، معاشی مجبوریوں، خاندانی تقاضوں وغیرہ کا ذکر کرتے ملیں گے اس بات کو "مکمل سہولت" کے ساتھ بھولتے ہوئے کہ مبلغ سات سیکنڈ پہلے انہوں نے "اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔" کوئی تو بتائے کہ شکر کے ساتھ شکوہ محض منافقت ہے، ارادی یا غیرارادی، ہے صرف منافقت ہی۔ زندگی کے باقی پہلوؤں پر بھی کچھ ایسی ہی کج روی ہے اور شاید چند ہی آپکو اپنی اپنی زندگیوں کا شعوری ادراک (خاور واہلہ سے معذرت کے ساتھ) رکھ کر جیتے ہوئے ملیں گے!

لومڈل کلاس، در حقیقت، "ڈنگ ٹپاؤُ" کلاس ہے، اور کچھ نہیں۔ معاشی طور پر بھلے اس سے نکلنا مشکل تر ہو، مگر آپ سب کوشش کریں کہ اس  کے ساتھ جڑی مخصوص ذہنیت کو تین نہیں، تیس طلاقیں دیں، فائدہ ہوگا۔

داستان کی طرف واپس آتے ہیں۔

جون 2012:

زندگی بہت مشکل سے گزر رہی تھی۔ بے تحاشا ایفرٹ کر رہا تھا اور دل ہی جانتا ہے کہ زندگی کے معاملات کیسے مینیج کیئے اور کیسے چلائے۔ لیز کی گاڑی کی قسط لینے کے لیے بینک والوں نے دھمکیاں دیں تو انکو اپنے اندر کے دیہاتی پنجابی کو جگا کر "مطمئن" کیا۔ جیب میں کل پانچ سو روپے، اور گاڑی کا پٹرول ختم، خود ہی جانتا ہوں کہ اگلے دن کے کھانے کے پیسے نہ تھے، مگر اس میں سے بھی گزرا۔ "مخلص یار دوست"  تقریبا  ننانوے اعشاریہ نو فیصد فصلی بٹیرے اور چوری کھانے والے رانجھے ثابت ہوئے، انکی بےرخی بھی برداشت کی، اور نجانے کیا کچھ۔

ایسے ہی حالات میں احمد سلیم صاحب سے ایک ملاقات کےلئے کافی جان ماری مگر وہ وقت نہ دیتے۔ اپنا کاروبار تھا (اور ہے) لہذا، ہمت و کوشش جاری رکھی کہ ایک انٹرنیٹ-بیسڈ پراڈکٹ کےلیے ان سے بات کی جائے۔ ایک دن انکے دفتر سے بلاوا آ ہی گیا اور میں ٹھیک وقت پر ان سے ملنے جا پہنچا۔ انکے ایف-8 کے دفتر کے باہر گیٹ پر کھڑے ہوئے میں نے انکو باہر سے انکے دفتر میں دیکھا، وہ بڑے سکون سے چائے پی رہے تھے اور کسی سے گپ شپ لگا رہے تھے۔ انکو دیکھنے کا زاویہ کچھ ایسا تھا کہ انکی سائیڈ میری طرف تھی اور مجھ پر انکی نظر نہ پڑ سکی۔ باہر موجود گارڈ نے انہیں اطلاع دی کہ "کوئی مبشر صاحب ملنے آئے ہیں،" تو انہوں نے گارڈ سے کہا کہ انہیں کہہ دو "صاحب دفتر میں نہیں۔" اور میں جناب کو دیکھ رہا تھا عین اس وقت۔

میں نے جب نرمی سے اصرار کیا تو گارڈ نے دوبارہ فون کیا، کہ مجبوری میری تھی، اور اس مرتبہ جواب بہت اعلیٰ پائے کا تھا جو مجھے نیلی وردی پہنے گارڈ نے من و عن گوش گزار کر ڈالا:

صاحب آکھدے پئے نیں کہ میرے کول ٹیم کوئی نئیں (صاحب کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ٹائم نہیں)!

توہین کے شدید احساس سے میری آنکھیں بھر آئیں اور گلے میں آنسو، تھوک، بے بسی اور نفرت پھنس گئے جو تھوڑی دیر بعد غصے میں تبدیل ہوئے اور میں نے اپنے فون سے انکا (بھی) نمبر ڈیلیٹ کر ڈالا۔

زندگی چلتی رہی، انکی بھی اور میری بھی۔ وہ اب پاکستان میں نہیں، اور میرا انکے ساتھ اس دن کے بعد ٹاکرا بھی نہ ہوا، مگر زندگی میری اب ویسی نہیں جیسا کہ جون 2012 میں تھی۔ میں نے کچھ محنت کی، کچھ وقت ضائع کیا، کچھ دوستیاں بنیں، کچھ دوستیاں ٹوٹیں، کچھ سبق سیکھے، کچھ سبق سکھائے، غرضکہ زندگی کو اسی کی "سٹرائیڈ" میں لیا اور اب  تقریبا پونے دو سال کے بعد، زندگی پاکستان کے معاشی اور معاشرتی انڈیکیٹرز کے اعتبار سے ایک مضبوط مڈل کلاس کے آس پاس منڈلا رہی ہے اور میں یہاں بھی نہیں رک رہا کہ زندگی کا سفر ہمیشہ آگے کی ہی جانب اور بہتر یہ کہ انسان کی ترقی کے انڈیکیٹرز بھی آگے کی ہی طرف ہوں۔

خواہمخواہی تبلیغ-2:

 چھوٹے چھوٹے مگر ہونے والے کام کرنے کی عادت ڈال لی، اپنے آپکو ہر قسم کےسیاسی، مذہبی، سماجی، نسلی اورمعاشرتی تعصبات وغیرہ سے اوپر اٹھا لیا۔ کبھی کبھی ناکام ہوجاتاہوں، مگر شاید اسی فیصد سے زیادہ میرا پرسینلٹی-میک اب ایک غیرمقلد کا ہے۔ اپنی زندگی جیتا ہوں اور اپنے اور دوسروں کےلیے، کہ جن کی دل سے قدر ہے اور جن کے خلوص کا معلوم ہے، کوشش کرتا ہوں کہ کسی بھی طرح، کوئی  ارتقائی بہتری کر سکوں کہ انقلابی تبدیلی نرا ڈھکوسلا ہوتی ہے اور اپنے تمام دوستوں کو ایک وقت میں ایک قدم چلنے کی ہی درخواست کرتا ہوں۔

کہنا صرف یہ ہے کہ ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: محنت۔

مزید ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: مزید محنت۔

شدید ناکامی کا صرف ایک علاج ہے: شدید محنت۔

زندگی میں شارٹ کٹس نہیں ہوتے۔ شدید ترین دباؤ میں اپنے اعصاب قابو میں رکھنے ہوتےہیں۔ دل میں ایک ارادہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنی معاشی وذاتی مجبوریوں کو یہ اجازت دینی ہی نہیں کہ وہ آپکو زندگی گزارنا ڈکٹیٹ کریں۔ زیادہ تر لوگ اپنی زندگیوں میں اپنی زندگی کی مجبوریوں سے ڈکٹیشن لے کر جی رہے ہوتےہیں اور انہیں انکا معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وہ زندگی جی نہیں، محض گزار رہے ہوتے ہیں، بالکل کسی ڈھور ڈنگر کی طرح۔

زندگی گزارنے کےلیے یارو ہمت کرنا پڑتی ہے۔ زیادہ نشیب اور کم فراز دیکھنے کے فلسفے کو سمجھنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں زندگی کے سمندر میں چھلانگ لگانا پڑتی ہے اور پھر اسکی لہروں میں ممتاز بھائی، احمد سلیم اور ان جیسے درجنوں لوگوں سے "میرے کول ٹیم کوئی نئیں" سننا پڑتا ہے۔ یہ سب چلتا ہے، مگر اپنی دلیری اور ہمت کو اپنی،  اپنے پیاروں اور مخلصوں کےلیے ہردم ڈھال بنا کر رکھنا پڑتا ہے۔ اور یقین کریں کہ یہ مشکل کام نہیں، ہاں ایک شعوری ادراک کے ساتھ اپنے آپکو مستقل مزاج بنا کر رکھنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ بہتر کہ آپ یہ چیلنج جیتیں، ہاریں نہیں۔

آخر میں کہیں پڑھا تھا کہ سمندر کے کنارے ایک پاؤں سمندر میں ڈال کر اسکی گہرائی اور خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہو سکتا، اسکے لیے اس میں چھلانگ مارنا پڑتی ہے۔

کھرا سچ (مگر مجھے مبشر لقمان نہ سمجھیں، پلیز):

علی حمید تو میرے ساتھ، بلکہ مجھ سے پہلے ہی چھلانگ مار چکا۔  "موسن ہرزہ سرا" اور "واسع پٹواری" بھی چھلانگ مار چکے، مگر شاید ابھی "میرے کول ٹیم نئیں" کےفیز کے آس پاس ہیں۔

استاد جافر (نحش)، آپ بھی چھال مار دیں، پلیز۔زندگی آپکو مایوس نہ کرے گی، کم از کم جو ابھی ہے، اس سے کم نہ ہوگی۔

 چھال ماریں گا نحشا، تدے ای تے ترنا آوے گا، تینوں کسی حبشی دی قسم ای!

زندگی کے سمندر میں آپ سب کا تہہ دل سے منتظر،


مبشر اکرم