
فی الحال ایک ایویں کی مگر دل سے دکھی نظم عمران خان اور منور حسن صاحب کے نام
کہ ڈیزل و سینڈوچ سے امید تو کبھی نہ تھی اور نہ ہی کوئی شوق ہے ایسا۔
عرض کیا ہے۔۔۔
آؤ کہ مذاکرات کریں
جل جائے یہ ملک
مرتے ہیں لوگ، بھلے مریں
آؤ کہ مذاکرات کریں
اجڑ گئے لاکھوں گھرانے
بیٹے ہوئے یتیم، ہوئیں بیٹیاں یسیر
خیر ہے، کہ ہم دم اپنی سیاست کا بھریں
آؤ کہ مذاکرات کریں
چلتی رہے میری سیاست
بِکتا رہے اسکا فہم دیں
ہیں لوگ حیراں، کہ کیا کریں
آؤ کہ مذاکرات کریں
روتی ہیں مائیں، ہیں باپ حیراں
بیٹے پریشان تو بیٹیاں ویراں
سہاگنیں ہوئیں بیوہ، عمر ساری جلیں
چلو جی، آؤ مذاکرات کریں
بم دھماکہ ہے اِدھر
سر بریدہ لاش ہے اُدھر
پولیو والے ہوئے قتل
یہ سب ہے اپنے لیے شغل
مانگ دوجوں کی خوں سے بھریں
آؤ، آؤ کہ مذاکرات کریں
لڑ مرے اس فوج کے بیٹے
لٹا دیں جانیں پولیس والوں نے
گھر جلتے ہیں جنکے، بھلے جلیں
آؤ کہ ہم مذاکرات کریں
بڑھا دو دماغی شور
کردو تقسیم قوم کے اذہان
کچھ جب اور نہ بن پڑے
تو چلو، چلو، دھرنے کو چلیں
آؤ کہ مذاکرات کریں
مرتے ہیں لوگ مریں
جلتے ہیں گھر جلیں
مانگ خوں سے بھریں
دم محض سیاست کا بھریں
آؤ کہ مذاکرات کریں
آؤ کہ مذاکرات کریں