اتوار، 6 مئی، 2018

ایک پنجابی، بلوچ کو خدا حافظ کہتا ہے



میرے بلوچ بھائی، اسلام علیکم:

تم نہیں جانتے، مگر بلوچستان سے میرا رشتہ، میری پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔ میری والدہ، محترمہ نسیم اختر بتایا کرتی تھیں کہ انکے بڑے بھائی، میرے مرحوم ماموں، محترم مقبول احمد بٹ صاحب کوئٹہ میں ریلوے کی جانب سے گارڈ بھرتی ہو کر وہاں شاید انیس سو پچاس کی دہائی کے آخر یا انیس سو ساٹھ کی دہائی کے بالکل شروع میں، متعین ہوئے تھے۔ وہ وہاں گئے تو کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنے گھر والوں، یعنی میرے ننھیال کو بھی وہاں گھومنے پھرنے کے لیے بلایا، میری والدہ بھی ہمراہ تھیں۔ میری والدہ کی شادی، گکھڑمنڈی، ضلع گوجرانوالہ سے ملکوال، حالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں 1970 میں ہوئی۔ مجھ سے بڑا اک بھائی پیدا ہوا، اور فوت ہو گیا۔ امی بتاتی ہیں کہ اس کا نام رضوان رکھا تھا اوروہ اک ہفتہ کی عمر میں ہی چل بسا۔ اک بڑے بھائی کا خلا، نجانے کہاں کہاں محسوس نہیں کیا ہو گا میں نے۔

خیر، میں بہت چھوٹا تھا تو امی مجھے رات کو سلاتے وقت نبی پیغمبروں کے قصوں کے ساتھ ساتھ، لوری اور اپنے "کوٹے" کے ٹؤر کے بارے میں بھی بتایا کرتی تھیں۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ وہاں اک بار گئیں یا کتنی بار گئی تھیں، مگر ان کے بتائے ہوئے نام، جو انہوں نے میرے بچپن میں مجھے سنائے، میرے کانوں میں اک لمبا عرصہ گونجتے رہے۔ آبِ گم، کان مہتر زئی، ژوب، زیارت، تافتان، سبی، کوہِ مردار، قندہاری بازار، جناح روڈ، برف کے گالے، "اگ پوجن آلیاں دا  مالہ" اور خشک میوہ جات وغیرہ۔ اپنے اولین سالوں سے لے کر، تقریبا کوئی تیس برس، یا شاید اس سے بھی اک آدھ  برس زیادہ لگ گئے مجھے وہ علاقے دیکھنے میں جو میری والدہ، شاید ساٹھ سال قبل دیکھ کر آئی تھیں، اور "کوٹے" کے بارے میں جب بھی بات کی، بہت محبت، ارمان، چاہت اور اک ٹھنڈی آہ کے ساتھ کی، کہ دوبارہ نہ جانا ہوا۔

میں جب، شاید 2002 تھا یا 2003 تھا، پہلی مرتبہ کوئٹہ گیا تو میں نے امی کو وہاں سے فون کیا تھا، اور ہم نے تھوڑی بہت گپ بھی لگائی۔ انہوں نے تب بھی شہر کے بارے میں پوچھا اور اپنے مدہم پڑتی ہوئی یادوں سے پرانے شہر کانقشہ میرے سامنے پیش کیا، تو میں نے تھوڑے اختلاف کے بعد، ان دل رکھنے کے لیے کہہ دیا کہ یہ بہت سرسبز، عمدہ اور ویسے ہی منظم شہر ہے جیسا آپ نے کسی زمانے میں دیکھا تھا۔ سچ مگر، میرے بلوچ بھائی، یہ ہے کہ شہر تو کچھ زیادہ نہ بھایا تھا، مگر شہر کے لوگ، اک رومان جو بہت بچپن سے ہی دل میں تھا اور پھر چلتے پھرتے محنت کرنے والے، چھوٹی محدود زندگیاں گزارنے والے لوگ اپنا ہی اثر ڈالتے چلے گئے۔

بعد میں بلوچستان اور وہاں بسنے والے لوگوں سے ایسے محبت میں گرفتاری ہوئی کہ جہاں جہاں موقع ملا، جہاں جہاں کہہ سکا، اپنے تئیں ان کی وکالت کی اور ایک ہی شہر میں اپنی زندگی گزار دینے والے پاکستانیوں کی اکثریت کے سامنے یہی کہا کہ جاؤ، گھومو پھرو، ملو جلو، جانو پہچانو، گھلو ملو، اپنے خیال کو علم مت سمجھو، اپنے اندازے کو معلومات نہ کہو اور اپنے تعصب کو اپنی عینک نہ بناؤ۔ اپنے جاننے والوں کو لاندی، شنئے سے جڑی ان کی طاقت کی حیرت انگیز تاثیر کے بلوچی لطائف بھی سنائے، روش زندگی میں پہلی بار کوئٹہ کھایا۔ اب ہر جگہ ملتی ہے، سجی، کھڈا دنبہ کے بارے میں بتایا، پھر، بالخصوص، اپنے پنجابی دوستوں کو یہ بھی بتایا کہ گوشت، مرچوں کے بغیر بھی بن سکتا ہے۔ کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔

اونٹ کی کھالوں کے فن پارے، بلوچی کڑھائی کے نمونے، دیگر مختلف دستکاریوں کی وال ہینگنگز، لکڑی کے مشقتی کام کے استادی نمونے اور بھی بہت کچھ تھا جو خود میرے لیے اک خوبصورت اور جادوئی حیرت لیے ہوئے تھا۔ میں بلوچستان کی محبت میں گرفتار ہو گیا، میرے بلوچ بھائی۔

زندگی کے جھمیلوں میں وہاں سے کئی پشتون دوست بھی بنے تو مسکرایا کرتا تھا کہ، بلوچوں کے بارے میں انکی عینکیں، میرے پنجابی دوستوں سے بھی زیادہ گہرے رنگوں کی تھیں۔ وہ چِڑ جاتے تھے، اور میں جان بوجھ کر انہیں چِڑایا بھی کرتا تھا کہ جب انہیں بلوچ حوالہ جات سے بلاتا تھا۔

2006 میں اکبر بگٹی صاحب کی شہادت، گو کہ صاحب کوئی بہت عظیم رہنما نہ تھے، مگر پرانے زخموں کو اک نئی کریدن دے گئی۔ اپنی استطاعت، اوقات اور بساط کے مطابق اس پر اور بعد میں ہزارہ پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے بھی  ٹِین پیٹا، اور خود کو ہمیشہ گفتگو اور مکالمہ کے لیے تیار رکھا، پیش کیا اور حاضر رہا۔

مگر مجھے کہنا ہے میرے بلوچ بھائی، کہ میں بحثیت اک پنجابی-پاکستانی، تقریبا ہمیشہ ہی تمھاری اور دوسری قوموں کی نفرت کا نشانہ بنا۔ مجھے اپنے بارے میں لطائف کا علم ہوا، خیر تھی۔ اپنے بارے میں تعصبات کا علم ہوا، اسکی بھی خیر ہی تھی۔ اپنی قومی شناخت کے گویا کمتر ہونے کا بتایا گیا، اس کی بھی تھوڑی بہت خیر ہی سمجھی۔ پھر میرا شناختی کارڈ، میرا دشمن بن گیا اور سینکڑوں نہیں، ہزاروں پنجابیوں کو وہاں سے کبھی دھکے دے کر، اور کبھی کفن دے کر روانہ بلوچستان-نکالا دینے کا اک سلسلہ شروع ہوا، جو ابھی بھی جاری ہے۔ میں تو آج چھیالیس برس کی عمر میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پشتون ہونا کون سی نسلی فخر کی بات ہے، کہ جیسے کوئی پشتون، اللہ میاں سے سودے بازی کر کے اک پشتون ماں کے رحم سے پیدا ہوتا ہے۔ میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بلوچ، سندھی، پنجابی، مہاجر، کشمیری، گلگتی وغیرہ پیدا ہو جانے میں انسان کا اپنا فخر کیا ہے؟ مجھے تو نسل پرستی کی سمجھ نہ پہلے آتی تھی، نہ اب آتی ہے، نہ آئندہ آئے گی۔

زخم، پہلے بھی بہت لگے ہیں، مگر خاران میں تمھارے دوستوں نے چھ مزدور قتل کر ڈالے جن کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں تمھارے جدامجد، میر چاکر رند کی قبر موجود ہے۔ ان کے قتل پر مجھے بہت پڑھے لکھے پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں اور خود ترحمی کے مارے، فائیو سٹار سوشلسٹ ٹائپ کے پنجابیوں کی تاویلات سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ طاقت کے کھیل میں مجھ جیسے غریب گھروں کے بچے ہی کھیت رہتے ہیں، چھ اور کھیت رہے، اور ابھی اور بھی ہونگے، مگر انسانی قتل پر اک دبی دبی سی خوشی کی کیفیت جو پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے دیکھنے کو ملی، اس نے اس زخم کی کاٹ اور گھاؤ کی گہرائی بہت گہری کر دی۔ تم جانتے ہی نہیں کہ نسل پرستی اس قدر فضول اور بےفائدہ مشق ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا پشتون شہر، کراچی، سندھ میں ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بلوچ شہر، ڈیرہ غازیخان، پنجاب میں ہے۔ کیا سندھی اور پنجابی بھی انہی تاویلات کا شکار ہو جائیں، جن کا سامنا وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رہے میرے بلوچ بھائی، کہ تمھارے لوگوں نے سندھیوں اور سرائیکیوں کو بھی نہیں بخشا، اور اس بےسمت خونریزی پر نہ صرف آوازیں سننے کو نہیں ملتیں، اک دبی دبی سی گویا جوابی انتقام کی خواہش لیے ہوئی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

میرا مضمون طویل ہو گیا، معافی چاہتا ہوں میرے بلوچ بھائی، جلدی سے بات ختم کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں آج تمھیں، اپنے اس ورثہ سے خدا حافظ کہتا ہوں کہ جس کی پہلی پہل یاد، میرے کانوں میں میری ماں کی آواز تھی۔ میں تمھیں آج یہ بتاتا ہوں کہ مجھے تمھارے نسلی، گروہی اور سیاسی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں آج یہ بھی کہتا ہوں کہ میں اب خاموش رہوں گا۔ مجھے جاننے اور پڑھنے والے دو چار ہیں، ان کے سامنے بھی خاموش رہوں گا۔ میں تمھاری طرح، پہلے ہی اپنی زندگی میں مگن، محنتی شخص ہوں، مگر دل سے تمھاری محبت اور یاد کا اک تعلق ہمیشہ لگائے رکھا۔ یہ لے کہ آج مگر، میں خود کو اس تعلق سے آزاد کرتا ہوں۔ دنیا میں میرے لیے اتنے ہی غم اور معاملات ہیں، کہ جتنے تمھارے لیے ہیں، تو میرے بھائی، اب میں اپنی ہی نبیڑوں گا۔ تمھارے ساتھ کیا ہوتا ہے، کیا بنتا ہے، کیا چلتا ہے، تم ہی بہتر جانتے ہو کہ کیا کرنا ہے۔

خدا تمھیں اپنے حفظ، امان، سلامتی اور خوشی میں رکھے، میرے بلوچ بھائی۔ میری ماں مجھے "کوٹے" کے بارے میں بتا گئی۔ میں اپنے بچوں کو "کوٹے" کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔

آج، تمھارا اک پنجابی بھائی، تمھیں خدا حافظ کہتا ہے۔

مخلص،

مبشر اکرم

ہفتہ، 13 جون، 2015

بیٹوں کے دُکھ

یہ میری ذات کا  نوحہ ہے۔ لکھ رہا ہوں ، اس لیے بھی کہ مجھ جیسے بےشمار بیٹوں کا بھی یہی نوحہ ہوگا۔ یہ میری ہی ذات کا نوحہ ہے اور اسے اپنی جیسی معاشی، سماجی اور معاشرتی کلاس سے تعلق رکھنے والے بےشمار بیٹوں کے نام کرتا ہوں۔ دُکھ صرف بیٹیوں کے ہی نہیں، بیٹوں کے بھی ہوتے ہیں۔ بیٹیاں تو شاید اپنے دُکھ آنکھوں سے بہا لیتی ہیں، بیٹوں اپنے دُکھوں میں ساری عمر ہی بہے چلے جاتے ہیں، بےمہار!

مردانہ معاشرے بہت دلچسپ انسانی تخلیقات ہیں۔ تضادات سے بھرپور، صدیوں، بلکہ ہزاروں سال پرانی رسومات میں سماجی مقامات طے کرتے ہوئے، مردوعورت کے صنفی اور معاشرتی کردار الگ الگ کرتے ہوئے، اور سب سے بڑھ کر، میرے نزدیک، مرد کو عورت پر افضل قرار دیتے ہوئے کہ جس میں دلیری، بہادری، غیرت اور شاید ان تینوں کی بنیاد پر کھڑی متشدد ہونے کی ایک مسلسل  معاشرتی توقع، جسکو انہی مردانہ معاشروں میں بسنے والی خواتین کی ایک خوفناک اکثریت ایک معیاری معاشرتی رویہ سمجھ کر قبول کرتی ہے، نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اسکی مسلسل اور نسل در نسل پرچارک بھی ہے۔ بات یقینا اتنی سادہ نہیں کہ جتنی اس پیراگراف میں محسوس ہوتی ہو شاید، مگرمردانہ معاشرےکا چند سطری تعارف اسکی بنیادی اور اوپری ہئیت بیان کرنے کی نیت سے ہی تحریر کیا۔ آپ سب کو اس سے کہیں زیادہ حقیقتیں معلوم ہونگی، یقینا، مگر مضمون کے ساتھ انصاف کرنے کی نیت سے انہی چند حقائق کو پھر سے تازہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ یاددہانی رہے۔

مردانہ معاشرے میں بہت سی ناانصافیاں ہوتی ہیں، مردوں کے ساتھ بھی، عورتوں کے ساتھ بھی۔ معاشروں کی تخلیق اور بنیادی ترکیب میں ہی شاید ناانصافی موجود ہوتی ہے کہ بالآخر معاشرے کی نہایت ابتدائی تخلیق بھی سماجی اعتبار سے اس عورت نے شروع کی تھی جو اپنے قبیلے میں ممتاز حیثیت کی حامل تھی، اور اسکی اس حیثیت کو دیکھتے ہوئے قبیلے کے دوسرے لوگ اسکے آس پاس اکٹھے ہوتے چلے گئے۔ اس عمل میں انصاف کے ساتھ کام نہ لیا گیا، بلکہ قبیلے نے اپنے مفاد کو ترجیح دی اور  یہی معاملہ بعد میں قبیلے کی روح میں داخل ہوگیا کہ جب مرد نے اپنی جسمانی طاقت کی بنیاد پر عورت سے معاشرتی تشکیل کا حق ہزاروں، شاید لاکھوں، سال پہلے چھین لیا اور یہ حق کبھی پھر واپس نہ کیا۔

مرد اتراتا پھرتا ہے ایک مردانہ معاشرے میں اپنے لئے موجود نسبتا زیادہ فوائد اور آزادیاں دیکھ کر، مگر بھول گیا ہے کہ اسی مردانہ معاشرے نے اسے عمل اور ردعمل کے ایسے فریم میں جکڑ رکھا ہے کہ جہاں اسے اپنے ساتھ ہونے والے اس تاریخی اور جذباتی نقصان کا ادراک ہی نہیں ہوپاتا جس نے  اسے "انسان" نہیں، بلکہ "مرد" کے عہدہ پر متمکن کر رکھا ہوا ہے۔

زندگی میں کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر والدین اور اقارب کو روتے ہوئے کہ بیٹی کی پیدائش نہیں، اسکی نصیبوں سے ڈر لگتا ہے۔ یہی ڈر بیٹے کی پیدائش پر نہیں لگتا، کہ گویا اسکے نصیب ہیں ہی نہیں، اور اگر ہونگے بھی تو اچھے ہی ہونگے۔ بیٹی کو تو معاشرتی رویے، درست یا غلط، مگر بہرطور ایک "ڈیپینڈینٹ" کے حوالے سے دیکھتے ہیں، مگر بیٹے کو ایک رہنما اور خاندان کو ترقی فراہم کرنے والے ایک انجن کے طور پر۔ یہ مثال تمام افراد پر تو لاگو نہیں، مگر اکثریتی بہرحال ضرور ہے۔ بیٹی کو پیدائش کے ساتھ ہی معاشرے کی فراہم کردہ "صنف نازک" کا تمغہ مل جاتا ہے، بیٹے کو معاشرہ "شیر پُتر، جوان، بادشاہ، دلیر" اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ایک دوسرے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ سوچتا ہی رہتا ہوں کہ جو بیٹے معاشرے کی فراہم کردہ تعریفات و تشریحات کے مطابق خود سے ہی "شیر پُتر، جوان، بادشاہ، دلیر وغیرہ" نہ بننا چاہتے ہوں، وہ کہاں جائیں؟ وہ کہاں جا سکتے ہیں؟ کیا وہ کہیں جا بھی سکتے ہیں ان تشریحات سے جان چھڑا کر؟

 اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا، صاحبو، کہ ٹوٹ کر بکھرے ہوئے بیٹے کو رونے کی بھی اجازت نہیں، اور ٹوٹے ہوئے کو نہ صرف خود ٹوٹا ہی رہنا پڑتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی جوڑنے کا کام سرانجام دینا پڑتا ہے۔ اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ  بیٹا شاید خود کبھی کسی کا کندھا، کسی کا سہارا، کسی کا  ہاتھ تھامنا چاہ رہا ہوتا ہے، مگر اسے خود کندھ، سہارا اور ہاتھ بننا پڑتا ہے۔ اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ بیٹا بحیثیت ایک فرد، ایک انسان، ایک بشر نہیں، ہزاروں لاکھوں سال پرانے سے تشریح کردہ کردار کے حوالے سے ہی دیکھا جاتا ہے، اپنی جذباتی، نفسیاتی اور ذات کے اندر کی گہرائیوں میں چھپی فطری خواہشات کے پیرائے میں بالکل بھی نہیں دیکھا جاتا۔ اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ بیٹے کو ہمیشہ مضبوط ہی دِکھنا ہوتا ہے، کبھی بھی کمزور اور ڈیپینڈینٹ نہیں، حالانکہ وہ بھی ایک انسان ہی ہے، اپنی تمام تر انسانی  ذہنی، جذباتی و نفسیاتی ضروریات کے ساتھ۔ اور یارو، اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ بیٹے کو ساری عمر، جی تقریبا ساری عمر، لڑنا پڑتا ہے، اپنے آپ سے، معاشرے سے، معاشرتی رویوں سے، اور اس عمل میں وہ سینکڑوں، شاید ہزاروں مرتبہ خود کی ہلاکت سے گزرتا ہے، مگر ہر مرتبہ اسے، بمانند فِینِکس، خود ہی اپنی راکھ سے  اٹھ کر پہلے سے بھی زیادہ چمکدار پروں کے ساتھ دوبارہ اُڑنا پڑتا ہے۔ ہر بار، بار بار، بے شمار۔

پھر مجھ جیسے غریب اور سٹرگلنگ گھروں میں آنکھ کھولنے والے بیٹوں، پھر بالخصوص پہلوٹی کے بیٹوں، کی داستان تو اور بھی عجب ہوتی ہے۔ پہلوٹی کے بیٹے اپنے اپنے گھروں سے اپنی ماؤں کو روتے ہوئے چھوڑ کے معاشروں کے سمندر میں چھوٹی مچھلی جیسا سفر شروع کرتے ہیں کہ جن کی طاق میں بڑی مچھلیاں ہر دم ہوتی ہیں۔ ماؤں کو پیچھے روتا چھوڑ کر آنے والے یہ بیٹے  زمانے کی چوٹیں، فریب کاریوں کی کہانیاں، معاشرے کے دھوکے، ناکام کوششوں کے فسانے،ٹُوٹے خوابوں کی کرچیاں، اور اپنی بکھری ہوئی ذات کے غم کو لے کر شاذ ہی اپنی ماؤں کے پاس روتے ہوئے جاتے ہیں۔ شاید کبھی نہیں۔ جو نوماہ اپنے خون سے پالتی ہیں، یہ بیٹے سارے عمر اپنی ذات کا خون کرتے ہوئے، مگر اپنی ماؤں کے پاس ہنستے مسکراتے ہیں جاتے ہیں۔ "شیر پُتر" جو ہوتے ہیں!

انہیں صرف خود ہی نہیں چلنا ہوتا، دوستو، بہت سوں کو اپنے ساتھ چلانا ہوتا ہے۔

شروع میں کہا تھا نا کہ یہ میری ذات کا نوحہ ہے، مجھ جیسوں کا نوحہ ہے۔ یہ معاشرہ، آپ، میں، ہم سب مجھ میں، مجھ جیسوں میں "جنگجومرد" دیکھتے ہیں، اپنی ماں کا وہ بچہ نہیں دیکھ پاتے کہ جو آج بھی شاید کسی کی اُنگلی تھامنے کے متمنی ہو۔ جو آج بھی شاید اپنے دُکھ میں کوئی کندھا تلاش کرتاہو۔ جو آج بھی شاید مصروف اور پرشور زندگی میں کہیں تنہا کھڑا ہو۔ جو آج بھی شاید ٹُوٹا  ہوا ہو اور کوئی جوڑنے والا عمل ، اور عامل تلاش کرتا ہو۔ جو آج بھی شاید اپنے سر پر ہاتھ رکھے جانے کے خواہش مند ہو۔ جو آج بھی شاید  اپنی ذات  کے جنگل  میں گمشدہ ہو، مگرچاہتا  ہو کہ وہ تلاش کرلیا جائے۔ جو آج بھی شاید  اپنی اصل میں اپنی ماں کی کوکھ سے نکلا وہ بے بس، لاچار، چھوٹا سا، ننھا منا بیٹا ہو کہ جس کے نصیب کا خوف کسی کو نہ تھا، مگر وہ  اب بڑا ہو کر خود اپنے نصیب سے خوفزدہ ہو۔ جو آج بھی شاید ایک مضبوط اور کامیاب شخص دِکھتا ہو، مگر اپنی کمزوریوں، بے چارگیوں اور اپنے خدشات کی اپنے چاہنے والوں کے سامنے محدود اشتہار بازی کرنا چاہتا ہو۔  جو آج بھی زمانے کے بے شمار تجربات سے سیکھ چکا ہو، مگر فریب کاریوں کے زخم سینے پر لیے پھرتا ہو۔ جو آج بھی شاید سمیٹنے والا نظر آتا ہو، مگر خود بھی سمیٹا جانا چاہتا ہو۔اور  جو آج بھی آپکے، میرے لیے ایک "مرد" ہو، مگر کمزور بھی ہو کہ مرد بھی تو کبھی کبھی، کئی حوالوں سے ڈیپینڈینٹ ہو سکتا ہے، گناہ تو نہیں! 

مگر بیٹوں کے دکھوں کا یہ نوحہ، میرے یارو، نامکمل ہے۔ اس نے نامکمل ہی رہنا ہے، کہ جب تک بیٹے نے مرد  دِکھنے کے معاشرتی طوق کو گلے میں ڈالے پھرتے رہنا ہے۔

اور شاید تا ابد!

اتوار، 19 اپریل، 2015

لمحوں کا وزن، جو ساری عمر اٹھانا پڑتا ہے

سچ تو یہ ہے دوستو کہ  میں نے یہ خیال جعفر حسین، کہ جن کا لعل ابھی گدڑی میں ہی ہے، سے مستعار لیاہے۔ جعفر نے ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دکھ ہمیشہ کےلیے ہوتے ہیں، اور سُکھ محض وقتی۔ جعفر کی اس بات سے فورا ہی اتفاق کیا کہ یہی حقیقت ہے۔  یہ حقیقت میرے خیال کی آجکل تقریبا بجھی ہوئی آنچ پر بہت عرصہ ہلکے ہلکے سسکتا رہا۔ کل شام ایک تقریب میں شرکت کے دوران ہی یہ خیال کچھ سوختہ ہونے لگا تو سوچا کہ کندھوں سے یہ وزن  اتار دیا جائے۔

میری زندگی میں دو لمحات ایسے ہیں کہ جن کا وزن مجھے ساری عمر اٹھانا ہے۔ ان دو لمحات میں، میں نے اپنے دو محسنوں کو مناسب رویہ نہ لوٹا سکا اور اسکا قلق ہے۔ سبق کیا سیکھا، اسکا تذکرہ آخر میں آئے گا۔

سنہء1990، یا شاید ایک آدھ سال اس سے پہلے، میں اپنے قصبہ ملکوال میں تھا اور اپنے معیار کا ایک مناسب کرکٹ کا کھلاڑی تھا۔ ہماری کرکٹ ٹیپ بال سے ہوتی تھی اور سال میں کئی ایک ٹورنامنٹس بھی ہو جایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بھی اب لاؤڈسپیکری تفریح اور معاشرے کے ایک خود پر جعلی طور پر مسلط کردہ مسلسل احساس گناہ میں مفقود ہو چکا۔ نوجوان اب ٹیپ بال کرکٹ کی بجائے اپنے گناہ بخشوانے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں، اور بخشش کے سامان کے ساتھ ساتھ، اپنے تئیں گناہ کا سامان بھی مسلسل کیے جاتے ہیں۔ بہرحال۔۔۔

مناسب کھلاڑی ہونےکی وجہ سے آس پاس کے قصبات کی ٹیمیں مجھے اور چند ایک دیگر کھلاڑیوں کو "ادھار" پر بھی لےجایا کرتی تھیں ان علاقوں میں ٹورنامنٹس  کھیلنے کےلیے۔ ہم لوگ عموما ، میانی، پنڈدادنخان، ہریا اور آہلہ (یہ سب مختلف گاؤں کے نام ہیں) جایا کرتے تھے اور بعض اوقات یہاں سے کھلاڑی ملکوال بھی آ کر کھیلا کرتے تھے۔ تحریری قید میں لایا جانے والا یہ واقعہ پنڈدادنخان سے متعلق ہے۔ ایک ٹیم مجھے اور میرے دو دوستوں کو کرکٹ کھیلنے کےلیے وہاں لے گئی۔ وہاں ہم نے البیرونی کالج کے گراؤنڈ میں دو میچز کھیلے، ایک جیتا، ایک ہارا۔ اس دوران اس ٹیم کے چار لڑکوں سے اچھی سلام دعا ہو گئی۔ بعدازکرکٹ انہوں نے ہمیں خداحافظ کہا، سٹیشن تک چھوڑنے آئے اور ہم پھر ٹکٹ کے بغیر ریل گاڑی میں سوار ہوکر ملکوال پہنچ گئے۔ رابطہ کا کوئی ذریعہ ان دنوں تھا نہیں، لہذا ایک ہی صورت تھی کہ یا میں پنڈدادنخان جاتا، یا وہ ملکوال آتے۔ خیر کوئی ڈیڑھ ماہ کے عرصہ کے بعد وہ ملکوال آئے اور میرے ساتھ گئے ہوئے، میرے رشتہ دار، امجد بٹ کی دکان پر جا پہنچے، کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کرکٹ میچ کھیلنے وہاں گیا تھا۔ انہوں نے امجد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، اور امجد نے انہیں اپنے دیرینہ ملازم، چاچا  گاما، کے ہمراہ میرے گھر روانہ کر دیا جو کوئی ایک منٹ کی واک پر تھا۔ چاچا گاما بہت مزیدار شخص تھے، عمر میں بڑے تھے، مگر انکے ساتھ ہماری ٹیں پٹاس چلتی رہتی تھی، جسکو وہ خود بھی بہت انجوائے کرتے تھے۔ خیر ان چاروں سے، کہ جن کے نام بھی اب مجھے یاد نہیں، ملاقات ہوئی اور چاچا گاما جب جانے لگے تو انہوں نے میرے ہاتھ میں پچاس روپے کا ایک نوٹ تھما دیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا بھی کہا۔ میں سمجھ گیا۔

امجد کو میرے حالات معلوم تھے، اور اس نے پچاس روپے اس لیے بھجوائے تھے کہ میں ان چاروں کی کوئی خدمت خاطر کرسکوں۔ ملکوال میں ان دنوں "سلیم کے چاول چھولے" بہت مشہور اور "ایلیٹ کلاس" کے ہوتے تھے، آٹھ روپے کی بڑی پلیٹ آتی تھی، تو ہم پانچ لوگ چالیس روپے میں بہترین عیاشی کرنے کےبعد ڈیڑھ روپے فی کپ کے حساب سے پانچ کپ چائے بھی پی سکتے تھے۔ امجد کو معلوم تھا، میں بھی سمجھ گیا، لہذا یہی کیا اور سینتالیس روپے پچاس پیسوں میں میری عزت رہ گئی۔ باقی ڈھائی روپوں سے میں نے سٹریٹ فائٹر ویڈیو گیم کے پانچ ٹوکن کھیل لئے، قصہ تمام۔

امجد نے میرے ساتھ اس وقت کی بہت بڑی نیکی کی کہ ہمارا روایتی معاشرہ، بقول میرے کزن عمران بٹ کے، "ٹؤر (نمود ونمائش) کے جاہلانہ تصور کے ہاتھوں قیمہ بنا ہوا ہے!" وہ پچاس روپے نہ ہوتے تو ان چار اصحاب کو کھلانے کےلیے میرے پاس کچھ نہ تھا، ماسوائے اپنے گھر کے نلکے کا گیڑا ہوا پانی۔ امجد نے بعد میں سنہء2002 میں ایک کاروبار کو شروع کرنے میں میری بہت مدد کی اور میری وجہ سے تقریبا ایک لاکھ روپیہ اگلے آٹھ سال تک میرے پاس پھنسائے رکھا۔ میں اسکو وقت پر پیسے واپس نہ کرسکا کہ میرے اپنے حالات شدید مشکل اور کوشش والے تھے، اور اسی عرصہ کے دوران، اسکا معاشی دباؤ، اور میری معاشی مجبوریاں، ہماری دھائیوں پرانی دوستی پر اپنی گرد چھوڑ گیا۔ تعلق کا دھاگہ ابھی بھی قائم ہے، مگر بہت پتلا ہو چکا۔ ملکوال جانا ہوتا نہیں، جاؤں تو وہاں کی اپنی مصروفیات، مگر امجد سے رابطہ کرنا ضرور ہے، آجکل میں ہی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ میں ان پچاس روپوں کا وزن ساری عمر بخوشی اٹھاؤں گا،  یہ ظرف کا مطالبہ بھی ہے۔

دوسرا معاملہ 2003 کا ہے۔ معین قریشی، میرے ایک جاننے والے کے حوالے سے دوست بنے۔ انکے والد صاحب، سمیع اللہ قریشی، ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور نہایت مناسب لوگ تھے۔ میں نے معین قریشی کے ساتھ "اپنی کوشش اور اسکے سرمایہ" کی بنیاد پر ایک کاروباری شراکت شروع کی۔ معین کا کام اخباری اشتہاروں کا تھا اور اسکے ساتھ، خدا شاہد، کہ پوری نیت کے ساتھ معاملات شروع  کیے اور پھر قائم رکھے۔ ہمارے معاملات تقریبا خوش اسلوبی سے تین سے چار ماہ تک چل رہے تھے کہ کچھ اسکے آفس کے پرانے سٹاف ،کہ جن کے نام غفور اور عتیق سے مجھے یاد پڑتے ہیں، کی کان بھرائی سے اور خود میرے  ایک لالچ کرنے سے، خرابی آ گئی۔

میں اس شدید معاشی دباؤ کو برداشت نہ کرپایا جو صرف ایک سال قبل اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے اور اس میں ناکامی کی وجہ سے میرے اوپر طاری تھا۔ اس شدید معاشی دباؤ میں کہ جس میں مجھے ہر ماہ پانچ بینکوں کو قرضے کی اقساط دینا ہوتی تھی، کہ جب میری تنخواہ کوئی پچیس ہزار اور ماہانہ اخراجات، اقساط سمیت، اکتالیس سے پینتالیس ہزار تھے، اور اس روٹین نے مجھے توڑ ڈالا تھا۔ معاشی دباؤ سے زیادہ بڑا نقصان ناکامی اور بےبسی کے مسلسل احساس کا تھا اور اس عجیب سے مکسچر نے مجھے لالچ کا شکار کیا اور میں نے معین قریشی کے کاروبار سے سیکھ کر خود سے وہی کام کیا (اخباری اشتہارات کا)، اس کام کو کامیاب کیا، مگر صرف چند ماہ بعد  میرے ساتھ میرے انویسٹر نے وہی سلوک کیا، جو میں چند ماہ قبل معین قریشی سے کر آیا تھا۔ خود پر جب بیتی تو معلوم پڑا کہ کیسا محسوس ہوتا ہے۔ چند ایک مرتبہ کوشش کی کہ معین سے سلام دعا کرسکوں، بیچ میں ایک دو ریفرنسز بھی ڈالے، مگر اس سے تعلق بحال نہ ہوسکا، اور آج بھی اس سے کوئی تعلق موجود نہیں ہے، مگر  اپنی لالچ، مجبوری، جلدی میں معاشی ترقی کرنے، حالات بہتر کرنے وغیرہ، اسے جو مرضی ہے نام دے لیں، کی وجہ سے ان لمحات کا وزن اٹھائے پھرتا ہوں اور شاید ساری عمر ہی یہ وزن اچانک سے بذریعہ خیال کندھوں پر آن موجود ہوتا ہے۔ کچھ دیر اسکو ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہوں، اور پھر زندگی اپنی جانب گھسیٹ لیتے ہے، تاآنکہ اگلی مرتبہ تک کےلیے یہ خیال پھر آن وارد ہوتا ہے!۔

مجھے اپنی تان وہیں پر توڑنا ہے کہ جہاں سے شروع کیا تھا۔ ہم میں سے ہرانسان اپنی زندگی میں ایسے چند لمحات کا وزن اٹھائے پھرتا ہے، اٹھانا پڑتا ہے۔ راز، بلکہ بہتری، اس میں یہی مضمر ہے کہ لمحوں کے اس وزن کی حقیقت سے سیکھ لیا جائے، اپنی ذات کے کچھ ایسے فلسفے بنا لیے جائیں کہ جتنے لمحات کے اوزان ذہن و کندھوں پر موجود ہیں، بھلے رہیں، مگر ان میں کچھ اضافہ نہ ہونے پائے۔ میں نے اپنے انسانی تجربات میں کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں، جو آپ، مجھ اور ہمارے آس پاس کتنوں سے ہی زیادہ خوش اور خوشحال محسوس ہوتے ہیں، انکے قریب جانے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر بیت جانے والے ان دولمحات جیسے درجنوں لمحات اپنے اوپر لئے پھرتے ہیں، اور ساری عمر انہیں اسکا شعور ہی نہیں ہوپاتا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے اپنے کسی افلاطونی لمحہ میں یہ شعور خود سے گھڑ لیا، مگر آپسی تعلقات کی بہت ساری جہتیں میں نے ان دو لمحات کے وزن سے ہی سیکھیں، بنائیں اور ان جہتوں میں سے زندگی کی جو سوچ برآمد ہوئی، وہ میں اب ہر بار کہتا رہتا ہوں:

دھیرج، یارو، دھیرج!۔

لمحات بھلے ذہن میں مسرتیں نہ چھوڑ کر جائیں، کہ مسرتیں ہوں بھی تو اپنے وقت آنے پر بھک سے اڑ جاتی ہیں، مگر لمحات، صاحبو، اپنا وزن نہ ہی چھوڑ کر جائیں تو بہتر ہوتا ہے۔ جتنے لمحاتی وزن آپ پہلے ہی سے اپنے اوپر لئے  پھر رہیں ہیں، ان میں اضافہ نہ کیا کیجیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وزن بڑھتا چلا جائے اور آپ کچلتے چلے جائیں۔ آپ چاہیں تو میری بات مان سکتے ہیں کہ یہ اختیار کلی طور پر آپکا اپنا ہے۔


آج اتوار ہے، چھٹی انجوائے کیجیے۔ 

جمعہ، 13 فروری، 2015

مجھے اسکی کہانی معلوم نہ تھی







زندگی میں، یارو، بہت سے مقام آتے ہیں۔ کچھ پر آپ ٹھہر جاتے ہیں اور کچھ آپ پر ٹھہر جاتے ہیں۔ مقام، آپ پر بیتے، یا آپ مقام پر بیت جائیں، شاید اسی عمل کے دوران انسانوں کی یادیں بنتی ہیں۔ کچھ یادیں، آہستہ آہستہ انسانی ذہن کے پردوں میں دبتی ہوئی، کتنی ہی تہوں میں چھپ جاتی ہیں، اور پھر کسی لمحے، کئی سالوں بعد ایک دم سے اپنا ہاتھ بلند کرتی ہوئی آپ کو گھسیٹ کر اس لمحہ اور مقام میں واپس لے جاتی ہیں کہ جہاں اس یاد نے خود کو تخلیق کیا ہوتا ہے، اور اس معاملے میں آپ مکمل طور بے بس ہوتے ہیں۔ مگر کچھ یادیں، سبق بن جاتی ہیں، ساری عمر، لمحہ بہ لمحہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں، آپکی زندگی، ذہن، معاشرت اور رویہ کو بدل دیتی ہیں، اچھے کےلیے بھی، اور برے کےلیے بھی۔ یہ مضمون، صاحبو، ایک حساس  کردینے، مگر بہتر نتائج دینے والے ذاتی واقعہ پر مبنی ہے۔

سنہء2005 میں، میں ایک بڑے سفارتی ادارے کے شعبہءسیاسیات کی ایک اہم پوزیشن پر تھا۔ اور میرے بہت سے "دوست" تھے۔ جب اس ادارے سے مستعفی ہوا، تب ہی معلوم ہوا کہ وہ میرے نہیں، میری پوزیشن اور کرسی کے دوست تھے۔ انہی میں محترمی عثمان بٹ صاحب بھی شامل تھے کہ جن کے ساتھ "جگری یاری"  ملازمت کے ساتھ ہی کہیں ماضی کے سیلاب میں بہہ گئی۔ خیر، مذکورہ سال میں انہوں نے پےفون کارڈ کی ایک دھواں دار کمپنی قائم کی اور اسکا ایک زبردست دفتر اسلام آباد کے مشہور، اور بہترین پلازہ، رضیہ شریف پلازہ کے ٹاپ فلور پر قائم کیا کہ جہاں سے  اس وقت کا نظارہ بہت ہی عمدہ تھا۔ انکا ادارہ پاکستانی میڈیا پر فون انڈسٹری میں آنے والے نئے رجحانات قائم کررہا تھا اور دفتر کو کچھ بہتر طریقے سے بنا لینے کےبعد انہوں نے مجھے ایک دن اپنے دفتر کافی کے لیے مدعو کیا۔ میں جا پہنچا اور ریسیپشن پر پہنچنے سے قبل کوئی بیس قدم کی اعلیٰ گیلری-واک تھی جو آنے والے کو بلاشبہ متاثر کرتی تھی۔ اس تاثر کےبعد آپ ایک کشادہ ریسپشن پر پہنچتے تھے اور وہاں ایک نہایت ہی خوبصورت خاتون کاؤنٹر پر آپکو خوش آمدید کہتی تھیں۔ میں  جب کوئی تین چار مرتبہ ان سے ملنے جا چکا تو میری کچھ سلام دعا ان خاتون کے ساتھ بھی ہوگئی اورانہوں نے مجھے پہچاننا شروع کر دیا۔

سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی وہ پہلی ملاقات میں کچھ جانی پہچانی لگیں، مگر پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔ تین چار مرتبہ جب میں عثمان بٹ سے ملنے گیا تو کچھ سلام دعا کے بعد میں نے ان سے اس بابت سوال کر ڈالا۔ انہوں نے اپنا نام بتایا، جو میں یہاں اصل تحریر نہیں کرونگا، مگر وہ نوے کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں آنے والے ایف ایم ریڈیو میڈیا کی ایک نہایت مشہور ریڈیو اینکر تھیں اور انہی دنوں "اسلام علیکم پاکستان" کے نام کے ایک ریڈیو سے نکلنے والے جریدہ میں انکی تصاویر مسلسل چھپا کرتی تھیں۔ "آپ سے اب اصل میں مل کر خوشی ہوئی،" میں نے کہا۔ انہوں نے ایک مسکراہٹ دی اور سر کے اشارے سے کہا کہ جائیے، بٹ صاحب آپکے منتظر ہیں۔ میں اپنی کافی، اور گپ شپ کےلیے عثمان بٹ کے پاس چلا گیا۔

اس تعارف سے اگلی ملاقات  بہت عجب تھی، بہت ہی ایسی کہ جس نے میری زندگی کا تمام زاویہ بدل ڈالا۔ آنے والے تمام سالوں، مہینوں، دنوں، گھنٹوں، منٹوں، سیکنڈوں اور لمحات کے لیے۔ اور یہ اب نہیں بدلنے والا، کبھی بھی نہیں۔

میں اس "بیس قدم کی شاندار گیلری-واک" کے بعد، اک دن جیسے ہی اس کشادہ ریسپیشن میں داخل ہوا، تو ان خاتون کی پشت میری جانب تھی، اور آپکو بتاتا ہوں کہ ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحے میں میری نظر انکے کمپیوٹر سکرین پر پڑی۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم کہ مجھے وہ لمحہ بالکل ایسے یاد ہے جیسے یہ تحریر کرتے میں اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین کو دیکھ رہا ہوں۔ انکی سکرین پر دو الفاظ تھے جو انہوں نے اس ایک لمحہ میں "سیلیکٹ-ڈیلیٹ" کر دئیے۔  وہ دو الفاظ تھے:

Life Sucks!

یہ دو الفاظ نہیں، انکی زندگی کا گلہ تھے۔ انکی اس زندگی کا گلہ تھے جو وہ ایک ایسے معاشرے میں گزارنے پر مجبور تھیں جو انکی شکل صورت کی قیمت دینے پر یقین رکھتا تھا، اور ہے، مگر انکی حقیت جاننے کے حق میں نہ تھا۔ یہ وہ شکایت تھی جو وہ ہر وقت شاید اپنے آپ سے کرتی ہونگی اور یہ شکایت انکو اس خلا میں دھکیلتی ہوگی کہ جہاں انکے بہت سے خواب کرچی کرچی ہو کر بکھرے ہونگے اور انکو ان کرچیوں پر زخمی زخمی ہر روز بلاناغہ ننگے پاؤں چلنا پڑتا ہوگا۔ انکی حقیقت انکا شاندار لباس، وہ کشارہ ریسیپشن، بیس قدم کی بہترین گیلری-واک، ایک  کامیاب کاروبار میں ملازمت، انکی خوبصورتی، انکا حسن، انکی گفتگو اور انکی مسکراہٹ نہ تھی۔ انکی حقیقت یہ گلہ تھا جو انکے کمپیوٹر سکرین پر تھا اور یہ گلہ وہ صرف اپنے آپ سے کررہی تھیں، کہ کسی اور سے کر ہی نہ سکتی تھیں۔ کیونکہ مجھ سمیت، اس دفتر میں آنے والے سارے کے سارے، انکی حقیقت سے واقف نہ تھے، اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتے تھے۔

قسم کیا اٹھائیے گا یہاں، مگر واللہ، میں اندر تک ہل گیا اور ٹوٹ گیا۔ عین اس لمحہ میں نے یہ سیکھا کہ کسی کی حقیقت جانے بغیر اس کےبارے میں رائے قائم کرنا پرلے درجے کی زیادتی اور حماقت ہوتی ہے۔ مجھے انکا "سرِ آئینہ" معلوم تھا، انکا "پسِ آئینہ" معلوم نہ تھا۔ اور انکی حقیقت انکا "پسِ آئینہ" تھا، اور "سرِ آئینہ" تو محض مجبوری کا ایک جھوٹ تھا۔ میں اور باقی سارے انکی مجبوری کے جھوٹ کے گاہک تھے اور اسی جھوٹ کو خرید کر خوش ہوتے تھے۔ انکی مجبوری کے جھوٹ سے کہیں پیچھے انکی مجبوری کا ایک سچ بھی تھا جو کوئی بھی جاننے کا شائق اور طلبگار نہ تھا۔ میں بھی نہ تھا، اگر مجھ پر وہ ایک لمحہ نہ بیت گیا ہوتا اور اس ایک لمحے میں میری ایک یاد، میرا سبق نہ بن گئی ہوتی۔

وہ خاتون وہاں سے کچھ عرصہ بعد کہاں چلی گئیں، میں نہیں جانتا۔ کہاں ہونگی، میں نہیں جانتا۔ کیا کررہی ہونگی، میں نہیں جانتا۔ انکی مجبوری کا جھوٹ کیا بدلا، میں نہیں جانتا۔ انکی مجبوری کا سچ کیا بدلا، میں نہیں جانتا۔ مگر میں جو جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ: یارو، کسی کی حقیقت اور کہانی  جانے بغیر اسکے بارے میں رائے قائم نہ کیا کرو۔  اور اگر تم یہ کام کرتے ہوتو، اپنے آپ سے ہی جھوٹ بولتے ہو۔میں بدل گیا۔ تم بھی بدل جاؤ۔ یہی فائدےکا سودا ہے۔ یہی اصل سودا ہے۔

اس خاتون کےلیے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ آپ بھی کیجیے۔ 


جمعہ، 2 جنوری، 2015

کرسمس اور اللہ کی ناراضگی



مبین قریشی (قریشی ہی ہیں وہ، مگر نام اصل نہیں) میرے پرانے دوست ہیں۔ مذہبی خیالات کے مالک ہیں۔ میں عموما مذہبی بحث میں "مبتلا" نہیں ہوتا مگر وہ کیا کہ "پرانی یاری، سب پے بھاری" کے مصداق، ان سے اپنے اپنے تاریخی فہم، دینی مطالعہ اور سیاسی شعور کی بنیاد پر کبھی کبھی گفتگو ہو جاتی ہے۔

سال کے آخری ہفتہ میں ان سے ملاقات ہوئی، اور انہیں میں نے اپنی دوستی میں "ہیپی کرسمس" کہا تو ان سے ایک مزیدار گفتگو کا آغاز ہو گیا، جو ہر مذہبی و سیاسی بحث کی طرح بے نتیجہ ہی رہا۔

کل شام ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ کچھ سوچ میں تھے۔ میں نے چھیڑا تو کہنے لگے کہ یار مجھے معلوم پڑ گیا ہے کہ اللہ کی ذات ہم سے ناراض ہے، انکے اصل الفاظ تھے: "وہ ہم سے ناراض ہے، تم سے ناراض ہے، مجھ سے ناراض ہے، سارے پاکستان اور پاکستانیوں سے ناراض ہے۔" میں نے وجہ پوچھی تو ایک معیاری جواب، جو آپ سب بھی لازمی سن چکے ہونگے: "اسکے دین سے دوری اور مختلف خرافات میں الجھاؤ۔" اسکے ساتھ ہی انہوں نے میری، انہیں "ہیپی کرسمس" کہنے کی بات یاد آگئی اور انہوں نے فورا مثال داغ ڈالی، یہ کہتے ہوئے کہ تم جیسے پڑھے لکھے اور "سمجھدار" لوگ بھی اگر دین کی اصل بھول جائیں اور یہود ونصاریٰ کی بنائی ہوئی رسومات کو دل سے قبول کرلیں تو باقی عوام کا کیا حال ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ اسکے دین سے ہم سب دور ہیں کہ خرافات میں الجھ گئے ہیں جو اسکی  (اللہ) ناراضگی کا باعث بن رہا ہے۔

میں نے سب سے پہلے، انہیں مجھکو "سمجھدار" کہنے کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بات ختم کر دی۔ زیادہ بحث کی نہ طبیعت رہ گئی ہے، نہ میلان اور نہ ہی ذہن۔ ظرف دیکھ کر اور اپنا ظرف رکھ کر ہی سیکھنے اورسکھانے کا عمل جاری رکھتا ہوں، آپ بھی ایسا کیجیے، بہت فوکس رہتا ہے اور بہت سے تحفاتی خلجان اور ہیجان سے آپ محفوظ بھی رہتے ہیں۔

انکے جانے کے بعد ذہن میں ایک سوچ آئی۔

میں اپنے بچپن میں، ملکوال میں اپنے گھر میں سانیو کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی، جس کے دروازے بھی تھے، پر کرسمس کے موقع پر رضائی میں لیٹ کر مسیحیوں کے عباداتی پروگرام دیکھا کرتا تھا اور اپنے والدین سے سوال بھی پوچھا کرتا تھا کہ یہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ بھی کہ مسیحی مذہب، اسلام سے الگ کیوں ہے، کیسا ہے، انکا اللہ کون ہے، پیغمبر وغیرہ کون تھے؟ کبھی سوالات کے جوابات ملتے، کبھی نہیں۔ بچپن میں ایک دو بار والد صاحب کے ہمراہ چرچ جانے کا بھی اتفاق ہوا، کرسمس کے موقع پر اور وہاں موجود تمام "انسانوں" کے ساتھ ہم بھی "انسان" ہی اکھٹے تھے۔ مٹھائیاں کھاتے ہوئے، انکے گیتوں سے لطف اٹھاتے ہوئے اور انکی وہ محبت کی چاشنی محسوس کرتے ہوئے جو وہ شاید اس مسلم اکثریتی معاشرے میں بانٹنا چاہتے تھے، مگر اکثریت کی ایک مخصوص سوچ کی وجہ سے اپنے دلوں اور دماغوں میں چھپا کر رکھتے تھے۔ مسیحی مولوی، فادر اسلم جیکب، کا سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان سے دعا لینا بھی یاد ہے اور انکا اس بات کی تاکید کرنا بھی کہ "ابے دی گل منیا کر تے پڑھائی کیتا کر۔" یہ سب موجود تھا۔ امن بھی موجود تھا۔ 

مختلف خیالات کے لوگ ساتھ ساتھ امن و محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ معاشرے میں برداشت تھی۔ تمام فرقے اپنی اپنی فرقوی تشریحات کے مطابق اپنا حق بندگی ادا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ شیعوں کے دس محرم کے تعزیوں میں سنی اور دیوبندی شریک ہوتے تھے، بریلویوں کی محافل نعت میں دوسرے آتے اور دیوبندیوں کی ختم النبوت وغیرہ کانفرنسز میں بھی بریلوی اور شیعے شامل ہوتے۔ اہل حدیث عموما پرے پرے ہی رہتے مگر انکی آنکھوں اور اذہان میں باقی تمام کے لیے "بدعتی" ہونے کا طعنہ مفقود تھا۔

پھر پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں نے مذہب کے حوالے سے اپنی اپنی شناخت قائم کرنا شروع کر دیں۔ پہلے مسلم، غیر مسلم سے الگ ہوا۔ پھر فرقہ، فرقہ سے الگ ہوا۔ پہلے زبانی نفرت کا رواج چلا، اب گولی اور بم دھماکے فیصلے کرتے ہیں۔ پہلے ایک انسان کے مرنے پر مغرب کے وقت "لال ہنیری" چل جاتی تھی، اب پشاور میں ڈیڑھ سو بچے کو سر میں گولی مار کر قتل اور زبح کرنے پر معاشرے میں توجیہات ملتی ہیں۔

مبین قریشی صاحب، اللہ کی ناراضگی، کہ جس کے اشارے آپ نے بیان کیے، وہ تو میرے بچپن میں بدرجہ اتم موجود تھے، آپکے بقول، خرافات اور دیگر مذاہب کے ساتھ دوستیاں لگانے کے حوالے سے، مگر معاشرے میں میرے رب کی رحمتیں تھیں۔

اب آپ سے، لاکھوں نہیں کروڑوں مجھ سوں کو مسلمان کرنے کے چکروں میں پھرتے ہیں، اور معاشرے پراللہ کی ناراضگی بھی بظاہرا بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ آپکی داڑھی بڑھ رہی ہے، قریشی صاحب، آپکی زوجہ دوپٹے سے شٹل کاک برقعے کا سفر طے کر چکی ہیں، آپ نے اپنے بیٹے کو آٹھویں جماعت سے اٹھا کر دو سال میں حافظ قران بنا دیا، اور بیٹیوں کو  بی اے سے آگے پڑھایا نہیں کہ یونیورسٹیز کو ایجوکیشن ہیں۔ اور آپ واحد نہیں، آپ کروڑوں میں ہیں، تو بھیا، آپ کے دینی فہم کے پیمانے کے حوالے سے تو اللہ کو پاکستان پر رحمت کی بارش برسا دینی چاہیے، اتنی کہ یہاں رحمت کا سیلاب ہوتا، مگر محترمی، رحمت کا سیلاب تو تب تھا، جب آپ کا فہم اسلام کچھ کونے میں تھا، اور مجھ جیسے ہیپی کرسمس کہتے فادر اسلم کی دعائیں لیا کرتے تھے اور انہیں جوابی دعائیں بھی دیا کرتے تھے، کفر، بدعت، شرک اور کسی قسم کے دباؤ کے بغیر۔ اللہ تب ناراض نہ تھا، اللہ اب ناراض ہے۔

مگر جانتا ہوں، آپ کل مجھے کال کریں گے اور کہیں گے کہ "تو بندے دا پُتر بن ای نئیں  سکدا، ہن تینوں نئیں ملنا، تو میرا وی ایمان خراب کر دینا ایں۔" مگر آپکے فہم ایمان کے ساتھ مجھے تو کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا، نہ ہوگا کبھی، مگر مجھ سے کبھی یہ فقرہ نہ سنئے گا کہ میرے ایمان کو ایک مسیحی کو دعا دینے، اسکی دعا لینے، دوسرے انسان کے ساتھ بحیثیت انسان جڑنے، اسکی خوشی اور دکھ میں شامل ہونے سے نہ تو کوئی خطرہ پہلے تھا، نہ اب، نہ ہی کبھی ہوگا۔

آپکو اگر اپنے ایمان کی مضبوطی اور اسکے کمزور ہوجانے کی مسلسل فکر ہے، جو مجھے بالکل بھی نہیں، تو جناب، اللہ تعالیٰ جل جلالہ شانہُ کی رحمت کس پر زیادہ ہوئی؟

تفکر کیجیے گا، یا قران کے فیصلے کے مطابق، تفکر نہ کرکے چوپائیوں سے بدتر ہی رہیے گا؟