جمعہ، 10 جنوری، 2014

سیاست میں دماغی شور کیا نقصان کرتا ہے؟

ٹویٹر پر میرے بڑے پیارے، اور ظاہرا عمر میں چھوٹے دوست ہیں، جنید۔ ان سے چند دن قبل ایک گفتگو میں عمران خان صاحب کی طالبان کی بابت پالیسی پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ  وہ سمجھ نہیں پائے کہ عمران خان کے طالبان کے ساتھ بات چیت کے مطالبہ پر اتنا ردِعمل کیوں ہے (مفہوم) اور جنید، جنہیں میں یاری میں "جے" کہتا ہوں، پہلے بھی کئی مرتبہ طالبان کے خلاف فوجی  آپریشن کے حوالے سے کافی تندو تیز فقرات کہتے رہتے ہیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ لکھوں گا کہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے کسی بھی معاشرے میں اس قسم کے اہم موضوع پر ایک معاشرتی و سیاسی یکجہتی کو فروغ دینا کتنا اور کیوں اہم ہوتا ہے، لہذا آج اپنے تئیں یہ وعدہ پورا کر رہا ہوں۔مگر یاد رہے کہ یہ میرا زاویہء نگاہ و خیال ہے، آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔ بہرحال، اس مضمون کو تحریر میں پورے حسنِ نیت سے ہی کر رہا ہوں۔

یارو، ریاستیں ایک جامد، ساکن یا  یک-جِسمی (مونولِتھِک)   اکائیاں نہیں ہوتیں۔ یہ متحرک اور ہر وقت تغیر پذیر رہنے والی حقیقتوں پر مبنی ہزاروں نہیں، لاکھوں اور کروڑں پراسیسیز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ریاستی کاروبار ایسی ایسی پیچیدگیوں پر مبنی ہوتا ہے کہ مجھ سے ٹویٹری جاہل اسکا ادراک بھی بعض اوقات نہیں کر پاتے۔ اپنی ملازمت کے دنوں میں، میں جب جاپان ایمبیسی کام کرتا تھا تو مجھے میرے سیکشن کے انچارج نے ایک ٹاسک یہ دیا کہ میں پاکستانی وزارتِ خارجہ سے یہ معلوم کروں کہ کیا پاکستانی ریاست نے روس کے برفانی موسم میں ہجرت کرکے پاکستانی آنے والے پرندوں کی سیفٹی کے پروٹوکول پر دستخط کیے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ اور ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر مجھے یہ معلوم کرنے کو کہا گیا کہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں بسنے والے پرندوں اور جانوروں کے ماحولیاتی تغیر کی حفاظت کے لیے کیا پاکستانی ریاست  نے عالمی قوانین کو لاگو کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں یا نہیں؟یہ سن کر پہلے تو میں مسکرایا، شاید آپ بھی مسکرائے ہوں، مگر اس مسکراہٹ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ذرا سوچئیے کہ ریاستی کاروبار کو کیسی کیسی باریک پیچیدگیوں سے نبردآزما رہنا پڑتا ہے، تقریبا ہر وقت۔ اور ریاست سونے یا آرام کرنے والی حقیقت نہیں ہوتی، یہ ہر وقت جاگتی ہے، ہر وقت کام کرتی ہے اور ہر وقت ہے ہزاروں مشکلات سے لڑ رہی ہوتی ہے۔

بات لمبی بھی کرسکتا ہوں یہاں اسی موضوع پر، مگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے لئے اپنے دل کے سادہ اور دماغ کے گرم، مگر مخلص کارکنان کو دو چار بڑھکوں پر جذباتی کرکے آگے لگا لینا کہیں آسان ہوتا ہے اور مجھے کہنے دیجیے کہ قریب قریب 99 فیصدی نوجوان انکے کہے کو سچ مان کر اور ریاست کی پیچیدگیاں جانے بغیر کبھی لاہور جا نکلتے ہیں، کبھی پشاور رنگ روڈ بلاک کر ڈالتے ہیں، کبھی  ایک نئے، روشن، خلافتی، شرعی وغیرہ پاکستان کی تلاش میں اپنے کرنے والے کام نہ صرف کرتے نہیں، بلکہ اپنی زندگی کی مثبیت سے زندگی کی عصبیت کا سفر کر ڈالتے ہیں اور وہاں سے واپسی بہت/بہت مشکل ہوتی ہے۔

یہی وہ موقع ہے کہ جہاں مجھے عمران خان صاحب اور قبلہ و کعبہ و بیت المقدس شریف، جنابِ منور حسن صاحب مدظلہ علیہ صاحب کا تذکرہء جمال کرنا ہے۔ اس تذکرہ میں محترمی سمیع الحق صاحب بھی اہم مگر سائیڈ کے خاموش کھلاڑی ہیں مگر چونکہ انکی سماجی، سیاسی اور معاشری نفوزپذیری محدود ہے، لہذا، قرعہءمضمون عمران اور منور صاحبان کے نام ہی رہے گا۔

ریاستیں چھتری کی طرح ہوتی ہیں، اور ہر ریاستی چھتری میں سوراخ ہوتے ہیں جو مختلف بحرانوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اس چھتری کی سکِن کو کھڑا کرنے میں ریاستی اداروں کی سپورٹ ہوتی ہے (ذہن میں چھتری کی اندرونی تاروں کا میکنزم لے کر آئیے) اور یہ ریاستی ادارے ایک بڑی شافٹ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں کہ جسکو ہم معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔ بالکل ایک چھتری کی ہی طرح۔ یہ ریاستی ادارے ویسے ہی حرکت کرتے ہیں کہ جیسے ایک چھتری میں موجود ایک شافٹ کے آس پاس جڑی وہ مضبوط تاریں جو چھتری کی چھت کو کھول کر رکھتی ہیں۔ ان تاروں میں کبھی کبھی جھول بھی آ جاتا ہے کہ جسکو مختلف انتظامی، سیاسی اور معاشرتی اقدامات سے اقوام حل کرتی ہیں۔ سیاسی، آئینی، سیکیوڑٹی، سفارتی اور دیگر معاملات وغیرہ کے حوالے سے یہ اقدامات اقوام کی اجتماعی سیاسی بصیرت کرتی ہے جو کہ پارلیمنٹ میں موجود ہوتی ہے اور اپنے ملک کی طاقت اصلیہ (اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ مل ملا کر اور حکمت سے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ریاستی امور میں شور بالکل، بالکل نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ حکومت صرف چند ایک معاملات میں ہی عوام کے سامنے اقدامات کرنے کی پابند ہے اور تقریبا 80 سے 85، یا شاید 90 فیصدی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جنکو عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ پیرالکھنا ضروری اس لیے تھا کہ ریاستی عملداری کے حوالے سے ایک بنیادی تعارف دے دیا جائے۔

میں نے عمران خان صاحب کو ووٹ دیا۔ میرے تمام دوستوں نے مجھے اس سے منع کیا۔ میں قریبا 600 کلومیٹر کا سفر کرکے اس فرض کا سرانجام دے کر آیا۔ کوئی احسان نہیں کیا، اپنا ایک سیاسی اور جمہوری فرض ادا کیا۔ 1993 سے ووٹ دے رہا ہوں، پہلا ووٹ پی پی، دوسرا پی پی کو، تیسرا پی ایم ایل این کو، چوتھا پی ایم ایل این کو اور پانچواں پی ٹی آئی کو اور اس امید پر عمران خان صاحب کو ووٹ دیا کہ یہ مڈل کلاس پاکستان کی نمائندگی اور حکمت سے رہنمائی کریں گے۔ پاکستانیوں نے ایک سیٹ سے کئی درجن سیٹیں انکے قدموں میں ڈال دیں اور ایک صوبے کی حکومت بھی عطا کر دی، وہ اب کیا پرفارم کرتی ہے، اسکا فیصلہ بھی ہو جائے گا مگر بہت سارے ایسے اقدامات کی ایک فہرست مرتب ہوسکتی ہے کہ جن سے مجھے اتفاق نہیں ہے اور میرے نزدیک وہ اقدامات پاکستان میں ذہنی خلفشار اور سیاسی یک-سمتی کو کمپرومائز کر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی منور حسن صاحب کا وطیرہ ہے، مگر یارو، ان سے گلہ بھی بے کار ہے۔ ماضی اور اپنی ذات کے زعمِ شیخائی میں زاہدانِ خشک سے، بھلے آپ ماضی کھنگال لیں، خیر کم، بہت کم ہی ہوتی ہوئی ملے گی۔ لہذا، زیادہ فوکس عمران خان صاحب کے حوالے سے۔

اب ذرا چھتری والی مثال کی طرف واپس آئیے۔ ذرا تصور کریں کہ چھتری کی  شافٹ سے جڑی دس تاروں میں سے چار کام نہیں کرتیں تو اس سے نہ صرف چھتری درست طریقہ سے کھلتی نہیں بلکہ باقی والی چھ تاروں کی پرفارمنس بھی متاثر ہوتی ہے۔ طالبان کے حوالے سے آرمی آپریشن پر موجود معاشرے میں پایا جانے والا خلفشار بھی اسی پس منظر میں دیکھئیے کہ فوج اور حکومت عمران خان صاحب کو اپنے اعتماد میں لیے بغیر کوئی سٹریٹیجک فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس فیصلے کے خلاف خان صاحب کی شافٹ سے جڑی پاکستانی ریاست  سے متصل چھتری کی چار درست کام نہیں کرتیں، تو کیا انکو باہر رکھ کر کیا جانے والا فیصلہ کچھ مثبت پیدا کر پائے گا؟ میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو پائے گا۔

خان صاحب نے، کہنے دیجیے، بڑی سمجھدار چالاکی سے کبھی طالبان کا نام لیکر انکی کسی دھشتگردی کی مذمت نہیں کی، حالانکہ یہی طالبان خود انہیں بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ سنٹورس جانے والے، عمران خان صاحب کی سیکیورٹی ڈیٹیل دیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب نے ہمیشہ واقعہ کی مذمت کی مگر واقعہ کے ذمہ داران، حتی کہ اگر وہ ذمہ داری قبول بھی کرلیں، کی مذمت سے اجتناب کیا۔ اپنی فرقہ ورایت کی نفرت میں جلتا کوئی پاگل شخص ہی دھشت گردی کے عفریت کی حمایت کرے گا مگر کچھ سیاسی سمجھ رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ایک واقعہ کی مذمت کرنا اور واقعہ کے ذمہ داران کی مذمت کرنا دونوں جڑی ہوئی، مگر مختلف سیاسی پوزیشنز ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں اینٹ مار کے آپکا سر پھاڑ دوں، میرے والد صاحب، آپکے والد صاحب سے اینٹ مار کے سر پھاڑنے والے واقعہ کو تو برا کہیں، مگر میرا نام بھی اپنے لبوں سے نہ لیں، مجھے سبق سکھانا تو دور کی بات رہی۔ تھوڑی کوشش کریں آپ تو یہ فرق آپ مکمل طور پر سمجھ جائیں گے۔

اب اس سے ہوتا کیا ہے کہ انکے فالوورز عمل کو بھلے برا کہتے، جانتے اور سمجھتے رہیں، مگر عمل کرنے والے کی طرف بات نہ جانے کی وجہ سے معاشرے اور ریاست کے دوسرے حصے جب ایسے قبیح اعمال کرنے والوں کو بھی برا کہتے ہیں تو ایک معاشرتی اور سیاسی رخنہ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ جو بھلے شروع میں بہت باریک ہو، مگر آہستہ آہستہ معاشرے کے ذہنی خلجان کا باعث بننا شروع ہو جاتا ہے، اور یہی پاکستان میں ہوا ہے جسکو فرنٹ سے عمران خان اور قبلہ منور حسن صاحب نے لیڈ کیا ہے۔ مجھے منورحسن صاحب کا وہ انٹرویو نہیں بھولتا جو  انہوں نے پشاور میں ایک شدید بم دھماکے کے وقت دیا کہ  حکومت اگر امریکہ کی مذمت کرے تو میں بھی اس دھماکے کے مجرموں کی مذمت کرونگا۔ ذرا چشمِ تصور سےیہ دیکھیے کہ انکے یہ فقرات اس دن شہید ہونے والے کسی عام پاکستانی کی بیٹی نے سنے ہوں تو اسے کیسا محسوس ہوا ہو گا؟

ان دونوں حضرات نے  پاکستان میں ہونے والے پے درپے دھشتگردی کے واقعات کی تو مذمت کی، مگر ان واقعات میں ملوث دھشتگردوں کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا۔ اسی "سٹریٹیجک سیاسی تقسیم" نے پاکستانی معاشرے، بالخصوص نوجوانوں، کے ذہنوں میں ایک خلجان کو نہ صرف جنم دیا، بلکہ اسکو مزید پروان بھی چڑھایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مارنے والوں نے کبھی تخصیص نہ کی کہ مرنے والا کیا جماعتِ اسلامی کا رکن ہے، تحریک انصاف کا وزیر یا مجھ سا ایک جاہلِ  مطلق!

ریاستیں، میرے دوستو، بہت اہم ہوتی ہیں اور انکو چلانے والے بھی۔ ایک ریاستی اہلکار، سیاسی یا انتظامی سالوں کے تجربہ کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ معاملہ فہمی کر سکے اور بہتر فیصلے کرسکے۔ پاکستان میں یہ ریکارڈ بلاشبہ بہت اچھا نہیں، مگر جیسی بھی ہے، پاکستان بہرحال ایک منظم ریاست ہے اور اس کے نظم میں ہی اسکی بہتری ہو گی۔ یاد رکھیں کہ ریاستی نظم میں معاشرتی و سیاسی نظم اور یکجہتی بھی اشد ضروری ہوتی ہے اور ہر وہ شےء جو اس نظم اور یکجہتی کو کمپرومائز کرے، وہ ریاستی اہداف کا حصول مشکل سےمشکل تر، مشکل تر سے مشکل ترین اور مشکل ترین سے ناممکن بنا ڈالتی ہے۔ اپنی سیاسی بصیرت کے سراب میں الجھے رہنما اپنی سیاست کو بچانے اور بڑھانے کے لیے بہت کچھ کر ڈالتے ہیں، عمران خان صاحب بھی بہت کچھ کر گزرے کہ تحریک کے ساتھیوں پر بہت ساری جگہوں پر مشرف کے ساتھ لوٹے مسلط کر ڈالے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی سیاست کی ہیتِ ترکیبی بھی یہی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایسا ہی کھلواڑ وہ طالبان کے حوالے سے معاشرے اور سیاست میں کر رہے ہیں، اور یہ ریاست، اسکے اداروں اور بالآخر پاکستانی عوام کے لیے بہتر ثابت نہ ہوگا۔

ذاتی طور پر میں فوجی آپریشن کو آخری سے آخری آپشن کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں، مگر کیا یہ آخری سے آخری حد ابھی آن نہیں پہنچی؟ اسکا فیصلہ کرنے والا میں کوئی نہیں ہوتا، مگر شاید یہ معاشرہ، پاکستانی سیاست اور ریاست بھی اس "آخری سے آخری حد" کے آن پہنچنے کا ادراک بہت پہلے کرچکے ہوتے اگر انکی ترکیبات میں "تقسیمی شور" موجود نہ ہوتا، جو کہ ہے اور اس شور کی موجودگی تک، ریاست و حکومت جو بھی کرپائیں گی، نیم دلی سے ہی کرپائیں گی، بدقسمتی سے۔

دوستو، دماغی شور کی موجودگی میں جہاں آپکا ذہن تقسیم ہوا ہو، آپ جوتوں کے تین جوڑوں میں سے ایک جوڑا منتخب نہیں کرپاتے درست طریقے سے، ایک معاشرہ طالبان کے خلاف اس سے ہزار گنا  زیادہ دماغی شور کی موجودگی میں بھلا فیصلہ کیا کر پائے گا؟ جب تک یکسوئی کے ساتھ ایک مضبوط ارادے والا فیصلہ نہیں ہوگا، یہ شور اور یہ نیم دلی جاری رہے گی۔ ہائی سیکیورٹی ڈیٹیل میں عمران خان سینٹورس کی سیر کو جاتے رہیں گے، مگر آپ ، میں، اور چوہدری اسلم مرتے رہیں گے۔

آپ خود سوچئیے، سمجھیے کہ سیاستدان بھی انسان ہوتے ہیں، انکے بھی کارپوریٹ انٹرسٹ ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی لحاظ سے اکملیت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوتے۔ انہیں بھی چند مخصوص طبقات کی ترجمانی کرنا ہوتی ہے، مگر انکی ترجمانی ہر وقت ہی تو درست نہیں ہوسکتی نا جی۔

مگر بہرحال، کچھ سیاستدان اپنا کہا ہوا، کیا ہوا اور غلطیاں تسلیم کرلیتے ہیں، مگر کچھ منور حسن ہوتے ہیں۔

تالمت بالخیر۔