جمعرات، 2 جنوری، 2014

زندگی میں بند گلی ہوتی ہی نہیں

ایک موضوع پر لکھنا ابھی تک ادھار ہے کہ جو میرا دلی تحفہ ہوگا اپنے بلوچ دوستوں کےلیے۔ لکھ چکا ہوتا کئی دن قبل مگر غمِ روزگار بہاولپور لےگیا اور پھر دال روٹی کے چکر نے "چکرا" کے ہی رکھا۔ بہر کارِ دنیا دراز است اور ہر ذی روح اس "دُرگُھٹنا" کا شکار ہے، آپ ، میں، یہ، وہ، کوئی بھی -- ایکسیپشن نہیں۔

زندگی میں یارو ہم انسان مسائل میں ہی الجھے ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ امیر یا بہت زیادہ غریب لوگوں کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر آپ، مجھ جیسے جو لو/لوئرمڈل کلاس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ اپنے وجود پر موجود چادر کو ہی درست کرتے کرتے اپنی زندگی کے بہت سے اہم لمحات، خیالات اور واقعات اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں محسوس ہی نہیں کرپاتے۔ کبھی کبھی دوستوں سے کہتا ہوں کہ دونوں ہاتھوں میں ہی نہیں، بلکہ دونوں پیروں میں بھی اپنی بقاء کی جنگ کےلیے تلواریں سنبھالے لڑتے لڑتے اس دنیا سے قبر میں جا پڑتے ہیں ہم سے لوگ۔ اور وہاں جاکر بھی نامعلوم ہونا کیا ہے، مگر مجھ سے تو آمنے سامنے اللہ سے درخواست ہی کریں گے کہ حساب کو تیار ہوں، میرے رب، مگر ذرا  "ہتھ ہولا رکھئے" گا! 

ہمارے طبقے کی صورتحال کافی مخدوش ہوتی ہے۔ ذات کے گھن چکر میں الجھے بہت سے معاشرتی، معاشی، خاندانی، "مُحلاتی" اور برادری وغیرہ جیسے مسائل ہم لوگوں کو اندر، اور باہر سے بھی، کھا جاتے ہیں۔ ہمیں اسکا ادراک اور شعور ہی نہیں ہو پاتا۔ زندگی کی بہت سی لطافتیں، خوبصورتیاں اور رعنائیاں ایک پروپوزل لکھنے، ایک کانسیپٹ نوٹ ڈیویلپ کرنے، ایک رپورٹ تحریر کرنے اور کچھ  نہ ہوتو کوئی ایسے مسئلے پر سوچنے یا اسکو سلجھانے پر ہی قربان ہوجاتیں ہیں کہ جن پر ہمارا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا۔ اور اس مسلسل کوشش کی کیفیت میں ہم سے لوگ عموما بہت/بہت/بہت مرتبہ ایسے محسوس کرتے ہیں کہ ہم شاید زندگی میں ایک مکمل بند گلی میں آن پہنچے ہیں، اور اب اس سے کوئی مفر ممکن نہیں۔ ہماری تخلیقکاری، ٹیلنٹ، ارادے، آئیڈیاز وغیرہ ایک تنخواہ، ایک ڈگری، ایک چھوٹی بڑی مجبوری کی مار بن جاتے ہیں۔ نظر ٹھہر نہیں پاتی، دماغ سنبھل نہیں پاتا، ہمت ہو نہیں پاتی، دل مان نہیں پاتا اور ایک کے بعد دوسرے کے بعد تیسرے کے بعد چوتھے اور نامعلوم کتنے ہی سمجھوتے ہماری زندگیوں کی کہانی بن جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری بندگلی کو اپنا مقدر جانتے اور سمجھتے ہوئے ہم میں سے اکثریتی لوگ ایسے ہی مہد سے لحد میں جا اترتے ہیں۔

یہ درست نہیں۔ یہ بالکل درست نہیں۔ یہ بالکل بھی درست نہیں۔

میں ثقافتی اور قران سے سیلیکٹیولی ہدایت کشید کرنے والا خراب مسلمان ہوں۔ تمام فرقوں کو قریب سے دیکھنے کےبعد ان سے شدید آوازاری کا ایک شعوری احساس رکھتا ہوں اور اپنی اس خراب حالتِ ایمانی میں ہی "ٹھنڈ پروگرام" میں رہتا ہوں۔ یہ حوالہ یہاں ضروری اس لیے تھا کہ مجھ سا رندِخراب بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ قرانی فیصلہ کے مطابق کسی بھی انسان پر اس کی بساط و برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ ہوتا محض یہ ہے کہ ہم اپنی جلدی اور اس وقت کی موجودہ پرابلم کے زیرِ اثر اپنے فیصلے کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور اسی قسم کی طبیعت کے زیرِاثر ہم اپنے تئیں اپنے آپکو بند گلی میں کھڑے تصور کرتے ہیں۔جبکہ تھوڑا سا صبر اور تھوڑی سے حکمت بہت سے معاملے اچھے طریقے سے حل بھی کرتے ہیں اور زندگی کو آگے بڑھانے میں ممدومعاون بھی ثابت ہوتے ہیں۔

تین اصول، جوکہ میں خود بھی کبھی کبھی بھول جاتا ہوں، مگر آپکی نذر لازمی کرنے کا سوچا کہ زندگی جینے کا نام ہے، ایک کے بعد دوسرا سمجھوتا کرنے کا نہیں۔ زندگی، میرے یارو، ایک ون-وے ٹکٹ ہے۔ جو پل گیا، سو گیا۔ لہذا بہتر یہی کہ اس کے بہترین میں ہی جیا جائے، نہ کہ ایک مسلسل بدترین میں۔

اصول نمبر1: زندگی کے فیصلے اس بنیاد پر کبھی مت کیجیے کہ آپ ابھی کیا چاہتے ہیں۔ یہ میرے پسندیدہ مصنف، پالوکوایلہو کا اصول ہے۔ ہم حال کی گھڑی کو ہی اپنی مصیبت کی انتہا جانتے ہوئے جلدی کے فیصلے کر بیٹھتے ہیں اور پھر تادیر انکی قیمت ادا کرتے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں۔

اصول نمبر 2: جس معاملہ نے آپکی حال کی گھڑی میں جان کھائی ہوئی ہے، ذرا سوچیں کہ چھ ماہ، ایک سال یا دوسال بعد اسکی آپکے لیے کیا وقعت ہوگی؟ کہنا یہ ہے کہ شاید آپکو یہ معاملہ/مسئلہ یاد بھی نہ ہو۔ مزید بہتر یہ کہ شاید یہ آپکے لیے ایک لطیفہ اور اس سے بھی زیادہ بہتر کہ ایک سبق بن چکا ہو۔ زندگی صرف آپکے حال کی گھڑی میں ہی ختم نہیں ہوتی۔ چلتی ہے، چلتی رہتی ہے اور اسکے چلتے رہنے کی اصلیت کو جانئیے اور اسکے مطابق ہی فیصلہ سازی کیجیے۔

اصول نمبر 3: اگر آپ "لگے رہو مُنا بھائی" ہیں تو یقینِ محکم رکھیے کہ زندگی میں ابھی بہت کچھ اچھا/برا دیکھنے کو ملے گا۔ یہاں پر مقصد یہ نہیں کہ سستی کا مظاہرہ کریں یا معاملہ فہمی کو ترک کریں  ۔  نہیں، بالکل نہیں۔ بھرپور کوشش کریں اور اپنے تئیں معاملہ سازی کی مخلصانہ اور شاندار کوشش کریں مگر پھر بھی کسی بھی وجہ سےدرستگی نہ ہو تو اسے بھی اپنے لیے بند گلی تصور نہ کریں بلکہ اس پوائنٹ سے آگے بڑھ جائیں اوراپنے آپ کو اس واقعہ، کام، ناکامی، انسان، وقت وغیرہ میں کبھی بھی نہ گاڑیں، کبھی بھی نہیں۔ کسی بھی قیمت پر بھی نہیں۔

ان تین اصولوں کو اگر آپ تین ستون جان لیں تو میرے دوستو، ان ستونوں کے اوپر چھت کا نام ہے: زندگی میں بند گلی ہوتی ہی نہیں۔


اور یہ میرا بہت آزمودہ نسخہ بن چکا ہے۔ آپ بھی آزمائیے، فیدا نہ ہووے تے پیسے واپس!